Chitral Times

Jun 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد ……… روحانی علوم کی ابتدا……..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

حکومت نے سکو لوں، کا لجوں اور یو نیورسٹیوں میں رو حا نی علوم پڑ ھا نے پر غور شروع کیا ہے مقصد یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو صو فیائے کرام کی تعلیمات سے با خبر کرکے امن،آشتی، برداشت اور صلح جوئی کی تعلیم دلائی جا سکے 20سال بعد جو نو جوان یو نیور سٹیوں سے فارغ ہو کر آئینگی وہ امن اور صلح جوئی کے سفیر بنینگے معاشرہ سدھر جائیگا اور بد امنی ختم ہوجائیگی اس مقصد کے لئے سر کاری اور پرائیویٹ سکولوں، کا لجوں اور یو نیور سٹیوں کے ساتھ دینی مدرسوں کو بھی نیا رو حانی نصاب دیا جائے گا دینی مدارس کے لئے جو نصاب بنے گا وہ یقینا عصری علوم پڑھا نے والے تعلیمی اداروں کے نصاب سے مختلف ہوگا لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ نصاب کیا ہو گا اور روحا نی علوم کی ابتدا کہاں سے ہو گی؟ ایک گروہ کا خیال ہے کہ لطائف سے آغاز ہو گا دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ لطائف بہت ایڈ وانس علوم ہیں لطائف سے ابتدا نہیں ہو سکتی اور یہ بات معتبر ہے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ نصاب لانے سے پہلے دینی،علمی اور تعلیمی ما ہرین سے مشاورت ہو گی محکمہ تعلیم کے افیسروں کی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوگی ہمیں ”اعلیٰ سطحی“پر اعتراض ہے جس میٹنگ کو اعلیٰ سطحی کہا جاتا ہے وہ اعلیٰ درجے کی ”سطحی“ میٹنگ ہو تی ہے ہم جانتے ہیں کہ حکومت نہ مشاورت کریگی نہ میٹنگ بلائے گی بلکہ اپنی طرف سے پروگرام شروع کرے گی اگر نا کام ہوا،دوسرا پروگرام لیکر آئیگی وہ بھی نا کام ہوا تو تیسرا پروگرام لیکر آئے گی جب تک حکومت ہے ایسے تجربے ہوتے رہینگے ہمیں اس کا تجربہ ہے حکومت نے کہا نویں اور دسویں کے امتحانات الگ الگ ہونگے ہم نے کہا ”خہ جی“ چھ ماہ بعد حکومت نے کہا نویں اور دسویں کے امتحا نات پہلے کی طرح ہونگے،صرف دسویں کا امتحان ہو گا جس میں نویں جماعت بھی شامل ہو گی ہم نے پھر کہا ”خہ جی“ اگر چہ سر کار نے ہم سے پو چھا نہیں ہے تا ہم اپنی طرف سے مشورہ دینے میں کیا ہرج ہے؟ اہل علم اس پر غور کرینگے ہوسکتا ہے کوئی اس آواز کو اسمبلی تک لے جائے اور بات حکمرانوں کی سما عتوں سے بھی ٹکرائے اور کیا عجب کہ شنوائی بھی ہو شیخ سعد ی ؒ نے فر مایا ”شاہاں چہ عجیب گر بنوازند گرارا“ تعجب نہیں کہ باد شاہ بھی کبھی فقیر کی بات سن لیں رو حا نی علوم کی بنیاد شریعت ہے اور شریعت کی بنیاد فرائض وسُنن پر رکھی گئی ہے اس لئے ابتدائی 10سالوں میں طلباء و طا لبات کو فرائض اور سنن کی تعلیم دینی چاہئیے اس کے لئے اسلامیات نا می کتاب کا فی نہیں اس کے لئے پرائمیری سکو لوں میں معلّم دینیات یا معلّمہ کی آسامیاں منظور کرنے ہونگے پہلی سے لیکر پانچویں جماعت تک بچوں اور بچیوں کو قرآن ناظرہ، ایمانیات،نماز،روزہ،حج اور زکواۃ کی فر ضیت کے بارے میں تعلیم کے ساتھ مو قع محل کے اعتبار سے عملی نماز اور عملی روزے کی تر بیت بھی دینی ہوگی خیبر پختونخوا کے دو اضلاع چترا ل اور سوات میں پرائمیری کی سطح پر شریعت اور تصوف کی تعلیم کا باضابطہ انتظام تھا معلم دینیات یہ فریضہ انجام دیتا تھا جن لو گوں کی عمر یں 65سال سے اوپر ہیں ان کو اس طریقہ تدریس کا علم ہے جس میں تصوف کی تعلیم شریعت کے ذریعے دی جا تی تھی تعلیم کے ساتھ عملی تر بیت بھی ہوتی تھی تیسری جماعت سے پانچویں جماعت تک پڑھنے والے بچے بچیاں سکول میں ظہر کی نماز با جماعت ادا کرتی تھیں آج بھی پرائمیری سکول میں قرآن ناظرہ تجوید کے ساتھ پڑھا یا جائے نماز کی سورتیں،تکبیرات اور تسبیحات سب تر جمے کے ساتھ یاد کرائے جائیں نماز جنازہ اور عیدین کی نماز کے طریقے سکھائے جائیں چھٹی سے دسویں جماعت تک قرآن کا تر جمہ اور احا دیث کا مجموعہ پڑ ھا یا جائے گیار ھویں اور بار ھویں جماعت میں مسائل سلوک و تصوف کا در س دیا جائے لطائف کی تعلیم دی جائے اور عملی طور دکھایا جائے کہ لطائف پر کسطرح ضربیں لگائی جاتی ہیں بی ایس اور بی ایس سی سے اوپر کشف المحجوب با تذکرۃ الاولیاء اور دیگر کتابوں کو نصاب میں شامل کیا جائے اس طرح رو حانی علوم کا تدریجی سلسلہ مکمل ہو گا ہم نے جان بوجھ کر سر کاری اعلامیے میں استعمال ہونے والے الفاظ ”رو حا نیت“اور ”روحا نیات“ کا استعمال نہیں کیا عربی،فارسی اور اردوکی لغات میں یہ الفاظ نہیں ملتے یہ غلط الفاظ کے زمرے میں بھی نہیں آتے رو حا نی علوم کہنا کافی ہے روحانی علوم کا تعلق صرف کتاب سے نہیں زبانی اور اد اور وظائف سے بھی ان کا تعلق بہت کم ہے ان کا اصل انحصار تر بیت پر ہے سلطان الہند حضرت نظام اولیاء ؒ،خواجہ بختیار کاکی ؒ،حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ،شیخ علی ہجویری ؒ، بابا فرید الدین گنج شکرؒ اور دیگر اولیاء کرام کے حلقہ درس کیسے تھے؟ وہ ایسے تھے کہ ان حقلوں میں غیر مسلم بھی شریک ہوتے تھے اور کئی سال بعد ایمان کی دولت سے مشرف ہوتے تھے یہ پرامن بقائے با ہمی کے عملی نمونے ہوا کرتے تھے آج ہماری درس گاہوں میں اس طرح کے عملی نمو نوں کی ضرورت ہے علامہ اقبال نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس اسماعیل کو ادابِ فرزندی
تعلیمی اداروں میں تصوف اور روحا نی علوم کی تعلیم دینے کا منصوبہ بہت اچھا ہے اس منصوبے شریعت اور طریقت کے راستے معرفت کی منزل تک لے جا نا ہوگا


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
31290