Chitral Times

Jun 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خیبر پختونخوا کے آئندہ مالی سال 25 2024-کے بجٹ کے لیے محصولات کا تخمینہ 20 فیصد نمایاں اضافہ کے ساتھ 1754 ارب روپے جبکہ آئندہ مالی سال کے کل بجٹ کے اخراجات کاتخمینہ 22 فیصد اضافہ کے ساتھ 1654ارب روپے ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔مشیرخزانہ

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا کے آئندہ مالی سال 25 2024-کے بجٹ کے لیے محصولات کا تخمینہ 20 فیصد نمایاں اضافہ کے ساتھ 1754 ارب روپے جبکہ آئندہ مالی سال کے کل بجٹ کے اخراجات کاتخمینہ 22 فیصد اضافہ کے ساتھ 1654ارب روپے ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔مشیرخزانہ

 پشاور(چترال ٹائمزرپورٹ) “خیبر پختونخوا کے آئندہ مالی سال 25 2024-کے بجٹ کے لیے محصولات کا تخمینہ 20 فیصد نمایاں اضافہ کے ساتھ 1754 ارب روپے ہے جبکہ آئندہ مالی سال 2024-25 کے کل بجٹ کے اخراجات کاتخمینہ 22 فیصد اضافہ کے ساتھ 1654ارب روپے ہے۔ محتاط مالیاتی انتظام اور معاشی اصلاحات کی بدولت اضافی 100 ارب روپے سرپلس ہوں گے جبکہ سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے” ان خیالات کا اظہاروزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم نے صوبائی وزیر قانون و خزانہ آفتاب عالم اورمشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے ہمراہ پشاور میں پر ہجوم پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سیکرٹری محکمہ خزانہ عامر سلطان ترین سمیت دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔
بجٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں احساس روزگار پروگرام، احساس نوجوان پروگرام اور احساس ہنر پروگرام کے لیے 12 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہیں پروگرام کے تحت 1لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملے گا جبکہ احساس اپنا گھر پروگرام کے لیے3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت 5 ہزار گھر تعمیر کیے جائیں گے۔اس کے علاوہ سی آر بی سی لفٹ کنال پراجیکٹ کے ذریعے 3 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کی جائے گی جس سے صوبے میں فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا اس منصوبے کے لیے 10 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔اسی طرح ٹانک زام ڈیم،چود ھوان زام ڈیم اور درابن ڈیم کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن سے پینے کے پانی کی فراہمی اور زرعی شعبہ کی ترقی کے علاوہ فوڈ سیکورٹی اوروزگار کے مسائل حل ہوں گے جبکہ گندم خریداری کے لیے 26.90 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی کے لیے تین ارب کی سبسڈی اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 6.50 ارب سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے  جبکہ ہنگامی حالت میں امدادی کاروائیوں کے لیے 2.50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں نجی شراکت داری کے ذریعے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا جس میں دیر موٹروے اور ڈی ائی خان موٹروے کے قابل ذکر منصوبے شامل ہیں۔جبکہ بنوں لنک روڈ پر انڈس ہائی وے ہکلہ یارک ڈی آئی خان موٹروے سے ملانے کے لیے سڑک تعمیر کی جائے گی اور470 میگا واٹ کا لوئر سپیٹ،گاہ ہائڈرو پراجیکٹ بھی تعمیر کیا جائے گا،
مشیر خزانہ نے مزید کہا ہے کہ ترقی کے لئے تعلیم  کی اہمیت مسلمہ ہے اور اس شعبہ میں بشمول اعلیٰ اور ابتدائی وثانوی تعلیم کے لیے کل 362.68 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہیں۔اعلیٰ تعلیم کے لیے 35.82 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہیں۔اعلی تعلیم کے شعبے میں 30 ڈگری کالجز کرائے کی عمارتوں میں قائم کرنے کا منصوبہ ہے جبکہ سینٹر آف ایکسیلنس فار سائنس ٹیکنالوجی انجینئرنگ آرٹس اینڈ میتھیمٹکس) (STEAM  کے منصوبے بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح ابتدائی وثانوی تعلیم کے لیے 326.86 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے ا خراجات کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبہ میں نئے سکولوں کی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے درکار وقت کو بچانے کے لیے پہلے سے تعمیر شدہ کرائے کی عمارتوں میں 350 سے زائد سکول شروع کیے جا رہے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے پیش نظرصحت کے شعبہ کے لیے 232.08 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلہ میں 13 فیصد زیادہ ہیں۔مزید برآں خیبر پختونخوا میں ایئر ایمبولنس سروس کا آغاز کیا جا رہا ہے جبکہ جنوبی اضلاع کے لیے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سیٹیلائٹ مرکز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
اسی طرح نجی شعبہ کی شراکت سے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کا قیام بھی صحت کے ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ادویات کی خریداری کے لیے 10.97 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ صحت کارڈ پلس کا کل بجٹ 28 ارب روپے بندوبستی اضلاح اورضم شدہ اضلاع کے لیے 9ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔امن  وامان کا ذکر کرتے ہوئے۔مزمل اسلم نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی بہتری کے لیے کل 140.62 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہیں۔ داخلہ امور کے شعبہ میں  PEHL-911 کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے۔اسی طرح سما جی بہبود کے لیے 8.1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ ہیں۔ ضم اضلاع کے لیے پناہ گاہوں کے بجٹ کو 30 کروڑ روپے سے بڑھا کر 60 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے اورصنعت و حرفت کے شعبہ کے لیے 7.53 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سیاحت کے شعبے کے لیے 9.66 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلہ میں 25 فیصد زیادہ ہیں اس کے علاوہ سیاحت کے شعبے میں ہیریٹیج فیلڈ سکول اور ٹورزم ہیلپ لائن 1422 کے منصوبے بجٹ کا حصہ ہیں،
انہوں نے زرعی شعبے میں اقدامات کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ زراعت کے شعبہ کے لیے بجٹ میں 28.93 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 54 فیصد زیادہ ہیں۔جبکہ  ترقیاتی بجٹ میں زرعی شعبے کی پیداوار بڑھانے غذا ئی تحفظ کو یقینی بنانے اور زعفران کی کاشت کو فروغ دینے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبوں کے لیے  31.54 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلہ میں 71 فیصد زیادہ ہیں اور بجلی کے پیداوار کو بڑھانے کے لیے خیبر پختونخوا ڈسٹری بیوشن کمپنی قائم کرنے کے ساتھ مانسہرہ میں بٹہ کنڈی، ناران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی شروع کیے جا رہے ہیں جس سے 235 میگا واٹ کی بجلی پیدا کی جائے گی۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ گرین خیبر پختونخوا پالیسی کے تحت ہزاروں مساجد،بنیادی مراکز صحت،سکولوں، ٹیوب ویلز،یونیورسٹیوں، کالجوں اور سٹریٹ لائٹ کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ لائیو سٹاک کے شعبہ کے لیے  14.69 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلہ میں 14 فیصد زیادہ ہیں اور لائیو سٹاک کے شعبہ کی پیداوار بڑھانے کے لیے مصنوعی افزائش نسل کا منصوبہ بھی شامل ہے جس سے دودھ اور گوشت کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ کمیونٹی کی سطح پر چارہ ذخیرہ کرنے کے مراکز کا منصوبہ بھی قابل ذکر ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنگلات کے شعبہ کے لیے 14.05 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے اخراجات کے مقابلہ میں 38 فیصد زیادہ ہیں جبکہ جنگلات کے شعبے میں گرین کے پی پالیسی کے تحت بلین ٹری پلس کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے اسی طرح نیشنل پارک کی حد بندی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے منصوبے بھی بجٹ میں شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
89351