Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خیبر پختونخوا کی مثالی پولیس…… محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


خیبر پختونخوا پولیس کو ملک بھر میں مثالی فورس کہا جاتا ہے۔ اس مثالی پولیس سے کبھی کبھار فاش غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں جو فورس کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں شاید ایسی کوتاہیاں دانستہ طور پر کی جارہی ہوں کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ صوبے کی پولیس میں اصلاحات کے لئے سابق آئی جی ناصر درانی نے قابل قدر کام کیا تھا۔ موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی بھی صوبے کی پولیس کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے دن رات کوشاں ہیں، اگرچہ تھانہ کلچرابھی تک تبدیل نہیں ہوا۔ شریف لوگ اب بھی پولیس سے کنی کتراتے اور تھانے کے سامنے سے گذرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔آج بھی ملزموں کو مجرم ثابت کرنے کے لئے پولیس وحشیانہ جسمانی تشدد پر ہی انحصار کرتی ہے۔تشدد سے بچنے کے لئے ملزمان حوالات میں تو اقرار جرم کرتے ہیں لیکن عدالت جاکر صحت جرم سے صاف مکر جاتے ہیں جس کی وجہ سے جج پولیس والوں کوجھاڑ پلاتے ہیں اور مقدمات کی نوعیت بھی یکسر تبدیل ہوجاتی ہے۔کسی واقعے کے حوالے سے پولیس کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے وہ بڑی دلچسپ اور کبھی کبھار مضحکہ خیز ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ پولیس کو اپنے ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ کسی بھی وقت منشیات سمگل کی جاسکتی ہیں اس اطلاع پر آئی جی نے ڈی آئی جی کو ہدایات دیں، ڈی آئی جی نے سی سی پی او کو احکامات جاری کئے، سی سی پی او نے ایس پی آپریشن کے نام حکم نامہ جاری کیا، ایس پی نے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او پر مشتمل ٹیم تشکیل دی اور چھاپہ مار کر گاڑی سے منشیات برآمد کرلیں اور سمگلر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ پولیس کی تفتیشی ٹیم نے سائنسی بنیاد پر انوسٹی گیشن کرکے مجرموں کا سراغ لگالیا۔ پچاس سال پہلے بھی پولیس کا یہی طریقہ کار تھا۔ آج بھی یہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔شاید پولیس اپنی روایات کو تبدیل کرنا گناہ سمجھتی ہے۔ہماری پولیس فورس کو بھی بدلتے وقت اور حالات سے ہم آہنگ بنانے کے لئے ارباب اختیار و اقتدار کو عمارت، گاڑیوں اور وردیوں میں تبدیلی کے بجائے سوچ میں تبدیلی پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ملک کی حفاظت پر مامور دیگر فورسز کے مقابلے میں پولیس کا شہریوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔پولیس کی بنیادی اور اولین ذمہ داری عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے جب پولیس نے اپنی یہ بنیادی ذمہ داری بھلا دی تو عوام اور پولیس کے درمیان وسیع خلیج حائل ہوگئی جسے آسانی سے پاٹا نہیں جاسکتا۔سماجی برائیوں پر قابو پانے اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے لئے پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کی بحالی اور اشتراک عمل ناگزیر ہے۔ پولیس فورس کی قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ پائیدار امن کے قیام کے لئے عوام کو تعاون ضروری ہے مگر نچلی سطح پر اس سوچ کو اب تک پروان نہیں چڑھایاگیا۔پولیس کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر، اغواکاروں، چوروں، جیب کتروں، رہزنوں، منشیات فروشوں، سمگلروں اور بدمعاشوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اور ان طبقات کی طرف سے ہر مہینے پولیس کا باقاعدگی سے بھتہ دیا جاتا ہے۔اس تاثر کو ختم کئے بغیر پولیس فورس میں اصلاحات اور اسے مثالی فورس بنانے کی باتیں دیوانے کا خواب ہیں۔ایک چھوٹی سی مثال آئی جی پی کی اطلاع کے لئے پیش کررہا ہوں، خیبر پختونخوا کے نئے ضلع اپرچترال کے گاؤں ریشن گول میں راستے کے معمولی تنازعے پر چند لڑکوں نے ایک طالب علم کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنادیا، شوروغل سن کر آس پاس کے گھروں سے کچھ لوگ وہاں پہنچے، انہوں نے تشدد کا نشانہ بننے والے طالب علم کو چھڑانے کی کوشش کی۔ گاؤں اور برادری کا معاملہ ہے بات یہیں ختم ہونی چاہئے۔تشدد کرنے والوں کو اپنے تعلقات پر گھمنڈ تھا۔ تھانے جاکر تشدد کا نشانہ بننے والوں کے خلاف درخواست دیدی، پولیس نے تفتیش کئے بغیر متاثرین کے خلاف سنگین دفعات لگاکر ایف آئی آر درج کرلی اور چھ افراد کو گرفتار کرلیا۔جن میں تین کم سن بچے اور ایک پچھتر سال کا بزرگ بھی شامل ہے۔مقامی عدالت نے تمام گرفتار افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ناکردہ گناہ پر چھ افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے اور غنڈہ گردی کرنے والے پولیس کی اشیرباد سے کھلے عام پھیر رہے ہیں۔یہ ایسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے پوری پولیس فورس کی بدنامی ہورہی ہے اور فورس پر سے عوام کو اعتماد اٹھ رہا ہے آئی جی پی کو اپنی فورس کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کا نکال باہر کرنا ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
39405