Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خوشحال حکمران بدحال عوام – تحریر عبد الباقی چترالی

Posted on
شیئر کریں:

ہندوکش کے دامن سے چرواہے کی صدا – خوشحال حکمران بدحال عوام – تحریر عبد الباقی چترالی

اس وقت ملک میں صرف حکمران طبقہ خوشحال ہیں کیونکہ ان کو زندگی کی تمام سہولتیں اور آسائش میسر ہیں۔ مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت ارکان پارلیمنٹ،مشیروں ،وزیروں کو بھاری تنخواہوں کے علاؤہ شاہانہ مراعات سے نواز رہے ہیں ۔اس لئے وہ مالی طور پر بے فکر ہو کر خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔باقی سارے عوام پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔
اس وقت ملک کے کسی حصے میں چلا جائے وہ بڑے شہر ہو یا دور افتادہ گاؤں لوگ پریشان حال نظر آئیں گے ۔کوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں، کوئی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہیں۔
اس وقت ملک کا اکثریتی طبقہ پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔موجودہ اتحادی حکومت آنے کے بعد عوام کے مشکلات اور پریشانیوں میں مذید اضافہ ہوا ہے۔عوام کی پریشانی کی بڑی وجہ ملک کے بگڑے ہوئے معاشی حالات ہیں۔
ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔جسے تمام طبقے کے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ عوام کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ملک پاکستان معاشی طور پر دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اور دنیا میں بھکاری ملک کے نام سے جانا جاتا ہے۔حکمرانوں کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے قدرتی وسائل سے مالامال اور ایٹمی قوت رکھنے والا ملک دنیا کے سامنے بھیگ مانگنے پر مجبور ہو رہا ہے۔
ملک کو معاشی تباہی سے دوچار کرنے کے زمہ دار موجودہ اور سابقہ حکمران ہیں۔ان حکمرانوں کے ناقص معاشی پالیسیوں اور شاہانہ حکومتی اخراجات کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔اس مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت وزیروں،مشیرون  اور ارکان پارلیمنٹ کے بھاری تنخواہوں اور مراعات میں کمی لانے کے بجائے اشیاء ضروریہ پر مزید ٹیکسوں میں اضافہ کر کے مہنگائی کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال رہے ہیں۔ہمارے حکمران ملک میں موجود بے شمار قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کر کے معشیت کو ترقی دینے اور ملک کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بجائے ہر نئے آنے والے حکمران بیرون ملک سے امداد اور مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر سودی قرضے لے کر گزشتہ پچھتر سالوں سے معشیت کو ترقی دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔گزشتہ پچھتر سالوں میں ان سودی قرضوں کی وجہ سے ملک قرضوں میں جکڑ چکا ہے۔اور عوام مہنگائی کی وجہ سے بدحال ہو گئے ہیں۔ہمارے خطے کے دیگر ممالک اپنے قدرتی وسائل سے استفادہ کر کے معاشی طور پر مستحکم ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔اور اپنے عوام کو بھی بہتر سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔اور ان ممالک میں جمہوری نظام بھی مستحکم ہیں۔جبکہ ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔سن انیس سو اٹھاسی (1988) سے لیکر اب تک جتنے بھی وزیراعظم آئیں ہیں،ان میں کوئی بھی آئینی مقررہ مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ان پر مالی بدعنوانی،اقربا پروری اور اختیارات سے ناجائز فائیدہ اٹھانے کے الزامات لگا کر اقتدار سے قبل از وقت رخصت کر دے گئے۔
اس وقت ڈالر کی اونچی آڑان،روپے کی قدر میں کمی،شرخ سودی میں بےتحاشہ اضافہ اور زرعی شعبے کی تباہی کی وجہ سے ملک کے معاشی حالات بری طرح سے دوچار ہوئے ہیں۔اس مشکل حالات میں حکمران اور اپوزیشں ملک کے بگڑے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کی فکر کرنے کے بجائے اقتدار کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
کسی کو اقتدار سے محرومی کا غم ہے،کسی کو اقتدار بچانے کی فکر لاحق ہے۔ملک اس وقت سیاسی تماشا گاہ بنا ہوا ہے۔ہمارے ملک اور قوم کی بد قسمتی ہے کہ اس وقت ملک میں مخلص اور دیانت دار لیڈر موجود نہیں ہے۔ جو ملک کو قرضوں سے اور عوام کو مہنگائی کے طوفان سے نجات دلا سکے ۔عوام ملک میں موجود بڑے سیاسی جماعتوں کو کئی بار آزما چکے ہیں ۔ان تمام جماعتوں کی کارکردگی ناقص ہے۔یہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے پاسبان اور عوامی مفادات کے دشمن ہیں ۔عوام کی حیثیت مویشیوں کی ریوڑ جیسی ہے ۔مویشیوں کے ریوڑ کو جس طرف ہانکا جائے اس طرف چل پڑتے ہیں ۔ایک بھیڑ ایک طرف چل پڑے تو سارے ریوڑ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔
عوام غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں ۔لیکن اپنے ساتھ ہونے والے ظلم،زیادتی،ناانصافی اور اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لئے وہ کسی صورت گھروں سے باہر آنے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں ۔سیاسی جماعتوں کے جلسہ جلسوں میں شرکت کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ۔اپنے محنت مزدوری اور ضروری کام چھوڑ کر موسم کی پراہ کئیے بغیر جلسے جلوسوں میں شریک ہوکر ،گلہ پھاڑ کر زندہ باد اور مردہ باد لگانے کو باعث ثواب سمجھتے ہیں ۔لیکن عوام اپنے حقوق کے لئے گھروں سے باہر آنا درکنار چارپائی سے اٹھنے کو تیار نہیں ۔عوام اپنے ساتھ ہونے والے زیادتیوں ،محرومیوں اور تنگ دستیوں کو تقریر کا نوشتہ قرار دے کر اپنے قسمت کو کوستے رہتے ہیں ۔
اس وقت ملک میں موجود تمام سیاسی جماعتیں ،صنعت کار،سرمایہ دار،کارخانہ دار بڑے زمیندار اور فوج کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ملک اور قوم کی بہتری کے لئے اپنے تمام تر اختلافات پس پشت ڈال کر ملکی اور قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے متحد ہو کر ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لئے اپنے بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک اور قوم کو معاشی بحران سے نجات دلانا چائیے ۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
69446