Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خاکساخاکی سے- کرنل مراد خان نیر کے بارے میں نٸے پڑھنے والوں کیلیے- تحریر: برگیڈیربشیرآراٸیں

شیئر کریں:

خاکساخاکی سے کرنل مراد خان نیر کے بارے میں نٸے پڑھنے والوں کیلیے

مادی_ملک (ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم)

1975 میں آرمی ہاکی چیمپین شپ کے مقابلے شروع ہوئے تو ڈویژنل ہیڈ کوراٹر کھاریاں کی ہاکی ٹیم کے کیپٹن عابد کاظمی ٹیم کے ساتھ سیالکوٹ پہنچا ۔ میزبان یونٹ 21 فرنٹیر فورس رجمنٹ تھی ۔ کمانڈنگ آفیسر سے ملنے گیا تو باہر تختی پر لکھا تھا لیفٹیننٹ کرنل مراد خان نیر ۔ نہ جانے کیا سوچ کر کیپٹن عابد لمحہ بھر کو رکا مگر آفس میں داخل ہوگیا ۔ چاک و چوبند گتھے جسم اور چمکتی آنکھوں والے کمانڈنگ آفیسر نے اٹھ کر محبت سے ہاتھ ملایا ۔ بس رسمی بات چیت کے ساتھ یہ مختصر سی ملاقات ختم ہوگئی مگر کیپٹن عابد کاظمی کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر گئی ۔ وہ 21 FFR کے کمانڈنگ آفیسر کے خدوخال کی کڑیاں اپنے والد محترم جناب غلام حیدر کاظمی سے سنی کہانیوں سے ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔

پھالیہ کے قریب مکھناوالی گاوں کے غلام حیدر کاظمی اور مراد عرف مادی ملک کی دوستی اور جوڑی بہت مشہور تھی ۔ ہر وقت ساتھ رہنا لوگوں سے لڑنا جھگڑنا ایک دوسرے کے گھر کھانا پینا سب ساتھ ہوتا تھا ۔ تازہ تازہ میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا ۔ بےفکری کی زندگی تھی کہ نہ جانے گھر میں کیا ایسی بات ہوئی جس نے مادی ملک کی ساری خوشیاں چھین لیں ۔ ماں سے خوب لڑائی ہوئی ۔ گھر چھوڑ کر جانے اور پھر کبھی واپس نہ آنے کی دھمکیاں دی گئیں مگر ماں نہ مانی ۔ ماں نے سوچا بچے ایسا کرتے ہیں وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا مگر مادی ملک چپ چاپ گھر چھوڑ کر کبھی واپس نہ آنے کے لئے گم ہو گیا ۔ آج مادی ملک کو گم ہوئے 25 سال ہو چکے تھے اور مکھنانوالی گاوں کے کسی فرد کو معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں گیا ۔ اسے زمین نگل گئی ہا آسماں کھا گیا ۔

جب سے کیپٹن عابد کاظمی نے فوج میں کمیشن لیا تھا اسکے والد اکثر مطالبہ کرتے کہ میرے دوست مادی ملک کو ڈھونڈھو ۔ لوگ کہتے ہیں وہ فوج میں ہے ۔ جناب حیدر کاظمی ان دنوں ریٹائر ہو کر اپنے بیٹے کیپٹن عابد کاظمی کے ساتھ کھاریاں کینٹ میں مکان نمبر B/221 شامی کالونی میں رہائش پذیر تھے ۔ دوسرے دن گھر پہنچ کر کیپٹن عابد نے اپنے والد محترم کو پورے حلیے اور نقشوں کی تصویر کشی کرکے رائے لی کہ ہو نہ ہو یہ کرنل مادی ملک ہی ہے جو اب کرنل مراد خان نیر کے نام سے 21 فرنٹیر فورس رجمنٹ کمانڈ کر رہا تھا ۔

باپ بیٹے میں طے پایا کہ کیوں نہ براہ راست سوال کیا جائے کہ آپ کون ہیں ۔ کہاں سے ہیں ۔ دوسرے دن جب کیپٹن عابد کاظمی سیالکوٹ گیا تو سی او سے دوبارہ ملنے کی خواہش کی ۔ اجازت ملی تو آفس میں جاتے ہی سیلیوٹ کرنے کے بعد کہنے لگا سر میں مکھنانوالی گاوں کے غلام حیدر کاظمی کا بیٹا ہوں ۔ انکے ایک دوست مراد عرف مادی ملک ہوا کرتے تھے ۔ گھر چھوڑ کر نہ جانے کہاں گم ہو گئے ۔ میرے والد انکو پچھلے 25 سال سے ڈھونڈھ رہے ہیں اور کہتے ہیں شاید وہ فوج میں ہے ۔ سر وہ جو حلیہ بتاتے ہیں مجھے لگتا ہے وہ آپ تو نہیں ۔

نو ۔ وہ میں نہیں ہوں نہ مجھے مکھنانوالی گاوں کا کچھ پتہ ہے ۔ آپ جاو اپنی ٹیم کی فکر کرو ۔ کیپٹن عابد چپ چاپ آفس سے نکل آیا ۔

کافی دیر کے بعد صوبیدار میجر یونٹ کے آفیسرز ٹی روم میں آیا اور کیپٹن عابد کاظمی سے کہا کہ آپ کو سی او صاحب یاد کررہے ہیں ۔ کیپٹن عابد کاظمی جب سی او کے آفس میں داخل ہوا تو کرنل مراد خان نیر اپنی سیٹ چھوڑ کر دروازے کی طرف لپکے اور کیپٹن عابد کو گلے لگا لیا ۔ کیپٹن عابد کے کانوں میں ایک بھرائی ہوئی آواز بار بار سنائی دے رہی تھی “اوٸے تُو میرے یار حیدر کا بیٹا ہے ؟

کیپٹن عابد بیٹا مجھے معاف کردو ۔ میں نے تم سے جھوٹ بولا ۔ میں حیدر کے بیٹے سے کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں ۔ میں ہی مادی ملک ہوں ۔ میں ہی تمہارے باپ حیدر کاظمی کا یار ہوں ۔ میں ہی وہ بدقسمت انسان ہوں جس نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ کبھی لوٹ کے مکھنانوالی نہیں جائونگا ۔ بس بیٹا میں جا ہی نہیں سکتا ۔ میں مر بھی گیا تو میری لاش بھی نہیں جائیگی ۔ مجھے مکھنانوالی کے در و دیوار چرند پرند طعنے مارتے ہیں ۔ میں ان طعنوں کا سامنا نہیں کر سکتا ۔

کرنل مراد اپنے جذبات اور آواز کو قابو میں رکھنے کے لئے بہت ضبط کر رہے تھے مگر ناکام لگ رہے تھے ۔ کہنے لگے عابد ہم وردی پہن کر خود کو اتنا مضبوط سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے پہاڑ بن گئے ہوں ۔ رونا بھول جاتے ہیں یا رونے سے گریز کرتے ہیں ۔ ماں باپ بیوی بچوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں کہ پتہ نہیں کب اور کہاں ملک و قوم کی خاطر قربان ہو جائیں ۔ کیا پتہ کونسی گولی پر ہمارا نام لکھا ہو اور ہلالی پرچم میں لپیٹ دیا جائے مگر آج تم نے حیدر کا نام لے کر مجھے بہت کمزور کر دیا ۔ مجھے رلا دیا ۔ کیپٹن عابد ادب سے سر جھکائے کھڑا رہا کہ اسے بھی ایسے لگ رہا تھا جیسے غلام حیدر کاظمی ہی اپنے بیٹے کے سامنے اپنے دُکھڑے سنا رہا ہو ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کمانڈنگ آفیسر کی آنکھوں میں آئے درد کے آنسو دیکھے ۔

کمرے میں بہت دیر تک خاموشی رہی ۔ کرنل مراد خان نیر ہارے ہوٸے ۔تھکے ہوٸے مسافر کی طرح دوبارہ اپنی کرسی پر جا بیٹھے ۔ کیپٹن عابد کو آنسوٶں بھری آنکھوں سے دیکھ کر ہنستے ہوٸے پوچھا ۔ بتاٶ کیا پیوگے ۔ نِمبو پانی یا چائے ۔ تھوڑی دیر میں چائے آگئی ۔ کرنل مراد پھر اسکے قریب آ کر صوفے پر بیٹھ گئے ۔ سگریٹ ایسے پی رہے تھے جیسے دھویں سے اپنے پھیپھڑوں کو بھر رہے ہوں ۔ کہنے لگے میری تم سے اور حیدر صاحب سے التجا ہے کہ میں جیسا ہوں جس پردے میں ہوں مجھے ایسا ہی رہنے دینا ۔ میرے بارے میں فوج میں کوئی کچھ نہیں جانتا ۔ میں حیدر سے ملنا چاہتا ہوں فوراََ مگر اس شرط کے ساتھ کہ آپ دونوں میرے بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہو گے ۔ مجھے میری زندگی اسی طرح جینے دو گے ۔

کیپٹن عابد نے آج رات پھر کھاریاں جانے کی اجازت مانگی اور شام ڈھلے وہ کھاریاں کینٹ پہنچ گیا ۔ شامی کالونی کے بنگلے نمبر 221 B کے لان میں ڈنر کے بعد کرنل مراد خان نیر کے بارے میں غلام حیدر کاظمی اپنے بیٹے سے باتیں کرتے کئی دفعہ آنکھیں صاف کرتے رہے اور فیصلہ کیا کہ اپنے یار مادی ملک سے ملنے وہ صبح ہی سیالکوٹ چلینگے ۔

کرنل مراد خان نیر سیالکوٹ کینٹ میں برگیڈ ہیڈکوارٹر کی آفیسرز میس میں رہائش پذیر تھے ۔ میس پہنچ کر حیدر کاظمی اپنے دوست مادی ملک کا انتظار اینٹی روم میں کررہے تھے کیونکہ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ سی او آفس نہیں جانا ۔ نہ جانے دو بچھڑے دوست 25 سال بعد ملیں تو کیا جذبات ہوں ۔ کرنل مراد خان نیر کی جیپ میس میں آکر رکی تو کیپٹن عابد کاظمی اپنے والد کو اینٹی روم میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل گئے ۔ عابد کاظمی کو حیرت اس وقت ہوئی جب کرنل مراد جیپ سے اتر کر اینٹی روم میں جانے کی بجائے اپنے رہائشی کمرے کی طرف چلے گئے ۔

صوبیدار میجر اینٹی روم سے حیدر کاظمی صاحب کو لیکر اپنے کمانڈنگ آفیسر اور انکے بچپن کے دوست مادی ملک کے کمرے کی طرف لے گئے ۔ دو گھنٹے سے کیپٹن عابد کاظمی میس کے لان میں بے چینی سے ادھر گھومتا رہا ۔ کمرے کا دروازہ کھلا تو پہلے حیدر کاظمی باہر نکلے ۔ کیپٹن عابد نے اپنے والد کے چہرے پر آج کی رونق پہلے کبھی نہ دیکھی تھی یا اس نے اپنے والد کے چہرے کو شاید اتنا غور سے پہلے کبھی دیکھا ہی نہ ہو ۔ کرنل مراد نے عابد کے سیلیوٹ کا جواب دیا تو انکی چمکتی آنکھوں میں شکریہ کا عنصر بہت واضح تھا ۔ دونوں دوستوں میں یہ تہہ پا چکا تھا کہ انکی اس ملاقات کا ذکر مکھنانوالی گاٶں تک کبھی نہ پہنچے گا ۔

اب تو ہر 5-10 دن بعد ملاقاتیں ہوتیں ۔ کرنل مراد بس فون کرتے کہ شاہ جی آجائیں اور حیدر کاظمی سیالکوٹ پہنچ جاتے ۔ حیدر کاظمی اپنے وعدے پر قائم تھا کہ کسی سے ذکر نہیں کرے گا ۔ ایک آدھ دفعہ مکھنانوالی میں مادی ملک کی ماں سے بھی ملاقات ہوئی مگر دوست سے کیے وعدے پکے تھے ۔ نہ ٹوٹے ۔ کیپٹن عابد کاظمی کی شادی محلہ پاور ہاٶس سیالکوٹ کے ایک معزز خاندان میں طے پائی ۔ بارات کی تاریخ 16 اکتوبر 1976 رکھی گئی ۔ بارات مکھنانوالی گاٶں سے ہی بننی تھی جس میں دسیوں باراتی اسی گاٶں کے ہونے تھے ۔ نہ جانے پھر بھی کیوں کیپٹن عابد کاظمی اور انکے والد جناب حیدر کاظمی شادی کا دعوت نامہ لیکر کرنل مراد خان نیر کے آفس پہنچ گئے کہ انہیں بارات میں شامل ہونے کی درخواست کر سکیں ۔

شام کی چائے کا بندوبست 10 برگیڈ آفیسرز میس کے لان میں کرنل مراد کے کمرے کے بالکل سامنے کیا گیا ۔ کرنل مراد باہر لان میں بہت افسردہ اور فکرمند بیٹھے تھے کہ مکھنانوالی سے آنے والی بارات کا سامنا کیسے کریں گے اور شادی میں شرکت سے انکار کیسے کرینگے ۔ ایک طرف دوستی اور دوسری طرف پچھلے ٢۵ سال سے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے فرار تھا ۔ وِلز فِلٹر سگریٹ انکا پسندیدہ برانڈ تھا اور وہ سگریٹ کا کش اتنا زور لگا کر لے رہے تھے کہ جیسے سانس بند ہو رہا ہو ۔

دیکھ حیدر یار مجھے مُشکل میں نہ ڈال ۔ مجھے اپنے خود ساختہ قلعے میں قید ہی رہنے دے ۔ میرے اصل کو چھپا ہی رہنے دے ۔ میں مکھنانوالی سے بھاگا ہوا ہوں ۔ مجھے بھاگا ہی رہنے دے ۔ کیپٹن عابد کاظمی چُپ چاپ دونوں دوستوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ طے پایا کہ مادی ملک کو کرنل مراد سے الگ ہی رکھا جائیگا اور کسی بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ کرنل مراد نے وعدہ کیا کہ وہ برات میں ہوگا کسی نہ کسی طریقے سے ۔

21 فرنٹیر فورس رجمنٹ کے فوجی بینڈ کی ہر جگہ دھُوم تھی ۔ چھاٶنی میں کوئی بھی فوجی تقریب اس بینڈ کی دھُنوں کے بغیر نامکمل سی رہتی تھی ۔ 16 اکتوبر 1976 بروز ہفتہ صبح 11 بجے مکھنانوالی کے دولہا کیپٹن عابد کاظمی کی برات کے انتظار میں پاور ہاٶس محلہ سیالکوٹ میں فوجی بینڈ کی دھُنیں بجنے لگیں مگر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ بینڈ دُلہن کی طرف سے ہے یا دُولہا کی طرف سے اور اس طرح مادی ملک اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا ۔

برات پہنچی تو ایک بس سے مادی ملک کا چھوٹا بھائی محمد خان ملک بھی اترا ۔ بینڈ کی دھُنوں میں لوگ برات کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ ہر طرف خوشیوں سے سرشار براتیے جھوم رہے تھے ۔ ادھر جب دولہا کے باپ حیدر کاظمی کی آنکھیں بےچینی سے اپنے یار مادی ملک کو ڈھونڈھ رہی تھیں تو کرنل مراد خان نیر سیالکوٹ سے میلوں دور شامی کالونی کھاریاں کینٹ کے مکان نمبر 221/B کے سامنے اپنی جیپ سے دولہا دلہن کے لئے تحائف اتروا رہا تھا ۔

کھاریاں کی لاگ ایریا آفیسرز میس میں لنچ پر اُنکے سواتی دوست میجر قادر عرف لالا قادر نے کرنل مراد خان سے بہت پوچھا کہ تم اتنے افسردہ کیوں ہو اور اچانک کھاریاں کیسے آنا ہوا مگر مادی ملک میس کے اندر بھی اپنا دھوپ کا سیاہ چشمہ پہنے مسلسل سگریٹ پینے میں مشغول تھا ۔ کاش میجر قادر کو پتہ ہوتا کہ مادی ملک کالا چشمہ پہنے 25 سالوں کی یادوں کو نم آنکھوں میں چھپائے کس کرب سے گزر رہا تھا ۔

فوجی کی زندگی آپ کو باہر سے جیسی بھی نظر آئے مگر اسکے بیوی بچوں اور والدین کا ہر دن غیریقینی سے گزرتا ہے ۔ کسی ایمرجنسی یا پوسٹنگ ہونے کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے ۔ بیوی گھر کو سیٹ کرتی ہے ۔ کمروں کے پردوں کے سائز کاٹ چھانٹ کر پورے کرتی ہے ۔ لان کے پودے ہرے ہونے لگتے ہیں ۔ ماں باپ کے کمرے کے کموڈ اور وضو کرنے کے نل لگتے ہیں اور افسر آفس سے فون کرتا ہے کہ بیگم سامان باندھ لو ۔ واپس گاٶں چلنا ہے کیونکہ اسکی پوسٹنگ ہارڈ ایریا یا نان فیملی اسٹیشن پر ہونے کا پروانہ آتا ہے اور 30 دن میں گھر خالی کرنا ہوتا ہے ۔ کوئی گلے شکوے نہیں ہوتے ۔ کسی کے خلاف بات نہیں ہوتی اور آپ اپنے سال دو سال کی ساری یادیں وہیں کسی کونے میں پڑے پرانے ڈسٹ پن میں ڈال کر اپنی راہ لیتے ہیں ۔

کیپٹن عابد کاظمی کی پوسٹنگ بھی اچانک اے کے برگیڈ میں آزاد کشمیر ہوگئی ۔ حیدر کاظمی اپنے یار مادی ملک سے مل کر آئے تو اپنی بیوی اور بہو کے ساتھ مکھنانوالی واپس چلے گئے ۔ حیدر کاظمی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ انکی آخری ملاقات ثابت ہوگی ۔ کیپٹن عابد کاظمی میجر بنے تو تین سال کیلئے سعودیہ چلے گئے ۔ واپسی پر 1985 میں اسٹاف کالیج کوئٹہ گئے تو والدین ساتھ تھے اور اس طرح مکھنانوالی کے دو دوستوں کا ناطہ پھر ٹوٹ گیا ۔ میجر عابد کے اسٹاف کورس کے بعد لاہور میں برگیڈ میجر ۔ جی ایچ کیو میں ایم ایس اور ایم او برانچ ۔ پھر ترکش اسٹاف کورس کے لئے استنبول جانے کی پوسٹنگس نے حیدر کاظمی اور کرنل مراد خان نیر کو دوبارہ کبھی ملنے نہ دیا اور حیدر کاظمی کی صحت ایسی نہ رہی کہ وہ اکیلے اپنے یار کو ملنے نکل پڑتے ۔ اب تو انکو خبر بھی نہ تھی کہ مادی ملک دوبارہ کس دنیا میں گم ہو گیا تھا ۔

فروری 1994 میں حیدر کاظمی صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ 1995 میں لیفٹننٹ کرنل عابد کاظمی وار کورس کے ساتھیوں سمیت سی 130 طیارے سے چترال پہنچے تو ائیر پورٹ سے سیدھے آفیسر میس چترال اسکاوٹس میں لنچ پر جانا تھا ۔ اینٹی روم میں داخل ہوئے تو سامنے کرنل مراد خان نیر کی تصویر پر نظر ٹھہر گئی جس کے نیچے اسٹیل پلیٹ پر کمانڈنٹ 1978- 1989 لکھا تھا ۔ پلٹ کر میس حوالدار کی طرف لپکے اور پوچھا کہ کرنل مراد خان نیر یہاں سے کہاں چلے گٸے ہیں ۔ میس حوالدار پہلے تو کھڑا کرنل عابد کاظمی کو حیرت سے دیکھتا رہا اور پھر آہستہ سے بولا سر بابائے چترال کرنل مراد خان نیر دروش میں کمانڈنٹ ہاوس کے باہر سپلائی مسجد کے صحن میں دفن ہیں ۔ سر نہ جانے انہوں نے 3 اگست 1989 کو خود کو کیوں گولی مار لی تھی ۔ پتہ نہیں اس شخص نے کیوں خودکشی کر لی تھی ۔

کرنل عابد کاظمی تو جیسے سکتے میں آگٸے۔ پلٹ کر پھر تصویر پر جا رکے ۔ دل ہی دل میں انکی بخشش کی دعاٸیں مانگیں اور کرنل مراد سے اپنے والد محترم کی محبتوں کو یاد کرکے اپنی بھیگتی آنکھیں صاف کرتے رہے ۔ چونکہ سی 130 طیارے نے 4 گھنٹوں بعد واپس جانا تھا اس لٸے دروش جاکر قبر پر فاتح پڑھنے کی خواہش دل میں ہی دم توڑ گٸی ۔

میس حوالدار نے بتایا کہ صوبیدار میجر سلطان الدین کرنل مراد خان نیر کی زندگی کے آخری ہفتہ میں انکے ساتھ ساتھ رہے تھے ۔ گو کہ اب وہ ریٹاٸر ہو چکے ہیں مگر کوٸی بات پوچھنی ہو تو آج وہ چترال شہر میں موجود ہیں ۔ لنچ کے بعد سب آفیسرز ڈپٹی کمشنر چترال کی بریفنگ میں بیٹھ گٸے تو کرنل عابد کاظمی چترال اسکاوٹس کے ریٹاٸرڈ صوبیدار میجر سلطان الدین کے ساتھ میس کے پیچھے گھنے درختوں کے ساٸے میں بیٹھے چپ چاپ اسکی باتیں سن رہے تھے ۔

عجیب شخص تھا کرنل مراد کہ آج بھی چترال میں کسی سے اس کا ذکر کریں تو اسکی آنکھیں بھر آتیں ہیں ۔ ایس ایم سلطان الدین نے بھی غمگین لہجے میں کہنا شروع کیا کہ شندور میلہ جولاٸی 1989 کی آخری تاریخوں میں پلان تھا اور وزیراعظم بینظیر کی آمد کا دن ابھی طے ہونا باقی تھا ۔

26 جولاٸی کو کرنل مراد خان نیر شندور پہنچے تو تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں ۔ خیمے لگ چکے تھے ۔ دور دور تک چترال اور گلگت سے آنے والے لوگوں کے علاوہ غیر ملکی مہمانوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ سلطان الدین اس وقت صوبیدار تھا اور کمیونیکیشن اور سگنل سینٹر کا انچارج ۔ شام کو بالاحصار سے ایک سگنل آیا کہ چترال اسکاوٹس کی میس اور شندور ہٹ سے جنرل ضیاالحق کی تمام تصاویر ہٹا دی جاٸیں اور 29 جولاٸی کو وزیراعظم بینظیر بھٹو کے استقبال کی تیاریاں کی جاٸیں ۔ یہ سگنل میسیج کرنل مراد پر بم کی طرح گرا کیونکہ انکی جنرل ضیاءالحق سے ذاتی دوستی تھی اور وہ ان سے والہانہ محبت کا اظہار سرعام کرتے تھے لیکن آج اچھے سولجر کی طرح حکم کی تعمیل کر رہے تھے ۔ تمام تصاویر اتار کر صوبیدار سلطان الدین کے گھر چونج گاٶں بھجوا دی گٸیں تاکہ محفوظ رہیں ۔28 جولاٸی کو بالاحصار سے دوسرا سگنل موصول ہوا جس میں GHG راولپنڈی کے حوالے سے اطلاع دی گٸی کہ کرنل مراد خان نیر کو 3 اگست 1989 سے ریٹاٸر کیا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ غیر متوقع ہورہا تھا مگر کرنل مراد خان نیر پر اس کا کوٸی اثر نظر نہیں آ رہا تھا ۔ سگنل میسیج دیتے ہوٸے جب صوبیدار سلطان الدین نے افسردہ لہجے میں کچھ پوچھا تو کہنے لگے بھٸی میں کہیں ریٹاٸرمنٹ نہیں جارہا ۔ یہیں رہونگا تم لوگوں کے ساتھ ۔

29 جولاٸی 1989 کو صبح 10 بجے میجر جنرل غازی الدین رانا آٸی جی ایف سی کا ہیلی کاپٹر پہنچا تو تب بھی کرنل مراد نے ان سے اپنی اچانک ریٹارمنٹ کے متعلق بات نہ کی ۔ پھر کیا تھاوزیراعظم کے آتے ہی گہما گہمی ہوگٸی ۔ تقریب حسب معمول پچھلے سالوں کی طرح اختتام کو پہنچی مگر اس دفعہ کرنل مراد سب سے الگ تھلگ رہے ۔ چترال ک ٹیم نے میچ جیتا مگر کوٸی ولولہ نظر نہ آیا ۔ جوانوں اور کھلاڑیوں نے کوٸی ڈانس نہ کیا ۔ ایسا لگتا تھا سب کچھ گہنا گیا ہے ۔ مہمانوں کے ہیلی کاپٹر اڑے تو کرنل مراد بھی اپنی جیپ لیکر دروش کے لیے نکل گٸے ۔ ایسا لگتا تھا وہ جلد سے جلد دروش پہنچنا چاہتے ہیں مگر راستے میں پونج ۔ لسپور اور مستوج کے لوگوں سے ملتے رہے اور دوسرے دن دروش پہنچے ۔ صوبیدار سلطان الدین سے بھی کہا کہ کیمپ لپیٹواو اور فوراََ دروش پہنچو ۔ سلطان الدین پوری رات سفر کرکے دروش پہنچ گیا ۔

31 جولاٸی کو بالا حصار سے صبح صبح سگنل آیا کہ 3 اگست کو ایف سی ہیڈکوارٹرز آفیسرز میس پشاور میں کرنل مراد خان نیر کا الوداعی عشاٸیہ ہے اس لٸے وہ پشاور تشریف لے آٸیں ۔ کرنل مراد سگنل پڑھ کر ہنسنے لگے اور کہا کہ میں کھانا کھاونگا تو الوداع کرینگے ناں ۔ پورا دن آفس میں فاٸیلیں نمٹاتے رہے ۔ لوگوں کی پروموشنز پر دستخط کیے ۔ اکاونٹس دیکھے اور یہ کہہ کر گھر چلے گٸے کہ کل تمام کام مکمل کروالٸے جاٸیں ۔

صوبیدار میجر سلطان الدین کو ایک ایک لمحہ یاد تھا ۔ 1 اگست کو دوپہر کو ریٹاٸر ہونے والے جے سی اوز کا دروش ہاسپیٹل کے لان میں کھانا کیا اور رات کو چترال ونگ میں عشاٸیہ پر ان سب کو خدا حافظ کہہ کر رات کو ہی دروش واپس آگٸے ۔ 2 اگست کو اوسیک میں اسکول کے بچوں کا کرکٹ میچ کروایا ۔ سب بچوں کو دروش قلعے میں لنچ کروا کر دوبارہ شام تک انکے ساتھ گراونڈ میں کرکٹ کا میچ دیکھتے رہے ۔ کسی میں ہمت ہی نہ تھی کہ کہتا کہ سر کل آپ نے پشاور پہنچنا ہے اور ابھی تک نہیں فیصلہ نہیں ہوا کہ آپ نے جیپ سے جانا ہے یا پی آٸی اے کی فلاٸیٹ سے ۔

گراونڈ سے واپسی پر آفس میں بقایا پیپرز اور فاٸیلوں پر دستخط کرتے رہے اور رات کو دس بجے کھانا کھانے کے بعد تمام میس اسٹاف سے مل کر گھر چلے گٸے ۔ کوٸی نہیں جانتا تھا کہ 3 اگست کی صبح چترال اسکاوٹس میں کیسی قیامت ٹوٹےگی ۔

کمانڈنٹ میس سے گھر پہنچے تو حسب معمول انکا جرمن شیفرڈ ڈاگ پیٹر بھاگتا ہوا انکے پاس آیا ۔ وہ کافی دیر تک اسے پیار سے بہلاتے رہے اور انکا بیٹ مین شاہ جی پاس کھڑا صبح کا پروگرام لینے کیلٸے انتظار کرتا رہا ۔ جب کرنل مراد بغیر کچھ کہے کمرے میں جانے لگے تو بیٹ مین بول ہی پڑا کہ سر صبح پشاور کس طرح جانا ہے ۔ کرنل مراد نے مڑ کر اس کے کندھے پر تھپکی دی اور آہستہ سے کہا کہ صبح دیکھیں گے اور اپنے کمرے میں چلے گٸے ۔

3 اگست 1989 کا دن چترالی لوگ عام طور پر اور چترال اسکاوٹس کے آفیسرز اور جوان خاص طور پر آج تک نہیں بھولے ۔ صبح کمانڈنٹ ہاوس میں مکمل خاموشی تھی ۔ بیڈ روم کے باہر پیٹر اور بیٹ مین حسب معمول کرنل صاحب کی آواز کا انتظار کر رہے تھے ۔ مگر آج آواز نہ آنی تھی نہ آٸی ۔ 8 بج گٸے تو بیٹ مین کو تشویش ہوٸی اور پیٹر نے بے چینی سے بھونکنا شروع کردیا ۔ غیر معمولی طور پر آج دروازہ اندر سے بند تھا ۔ بیٹ مین نے ڈرتے ڈرتے دروازہ پر دستک دی ۔ بار بار دستک پر بھی کوٸی جواب نہ آیا تو اسے کچھ گھبراہٹ ہوٸی کیونکہ پچھلے 11 سال 11 مہینے اور 10 دن میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کمانڈنٹ کے بیڈ روم سے 7 بجے انکی آواز نہ آٸے اور پیٹر اور بیٹ مین اکٹھے اندر داخل نہ ہوں ۔

کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے ایکسینج میں فون کرکے بتایا کہ کمانڈنٹ نے پشاور جانا ہے مگر انکا دروازہ آج اندر سے بند ہے اور دستک پر بھی وہ نہیں کھول رہے ۔ صوبیدار سلطان الدین بھاگتے ہوٸے کوارٹر گارڈ پہنچے تو وہاں پہلے سے میجر فاروق اور میجر افضل کھڑے تھے ۔ فوراََ ہی دو جیپ آکر رکیں تو سلطان الدین سمجھ گیا کہ ٹیلیفون آپریٹر یہی بات سیکنڈ ان کمانڈ کو بھی بتا چکا تھا ۔ سب لوگ کمانڈنٹ ہاٶس پہنچے ۔ بیٹ مین سخت پریشان تھا کہ خدانخواستہ کہیں بیمار ہوکر بیہوش نہ ہوں ۔

فیصلہ ہوا کہ دروازہ توڑا جاۓ ۔ صوبیدار نظام الدین اور بیٹ مین نے دروازے کو کلہاڑے کی چوٹ سے کھول دیا ۔

کمرے میں بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل پر لیمپ روشن تھا اور کرنل مراد خان موٹی خاکی چادر لٸے سورہے تھے ۔ یہ 10 سیکنڈ کا وقت جیسے گھنٹوں پر محیط تھا ۔ سب کسی انجانے خوف میں مبتلا تھے ۔ مزید لاٸیٹس جلا کر میجر افضل نے چادر ہٹاٸی تو آنکھوں دیکھ کر بھی یقین نہیں آ رہا تھا ۔

بیڈ کے ساتھ جاۓ نماز بچھی ہوٸی تھی جیسے ابھی ابھی کوٸی اس سے اٹھا ہو ۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تازہ شیو شدہ چہرہ لٸے سیدھے چِت لیٹے کرنل مراد خان نیر کے داٸیں ہاتھ میں پکڑا رشین آٹومیٹک پسٹل انکی داٸیں کنپٹی پر تھا جس سے چلنے والی گولی باٸیں کنپٹی سے باہر نکل گٸی تھی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے ۔ اگر کوٸی انکے ہاتھ میں پکڑے پسٹل کو ڈھک دیتا تو ایسا لگتا کہ جیسے وہ گہری نہند سورہے ہیں اور ابھی آواز دینے پر اٹھ بیٹھیں گے مگر سر کے نیچے بستر پر پھیلے خون نے سب لوگوں کو پتھر کے بت بنا دیا تھا اب صرف دو آوازیں سناٸی دے رہی تھیں ۔ بیٹ مین شاہ جی کی چیخیں اور پیٹر کا کمرے میں بھاگنا اور بے چینی سے بھونکنا ۔

وادٸ چترال میں یہ خبر جنگل کی آگ سے زیادہ رفتار سے پھیلی ۔ چترال اسکاوٹس کے جوان دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ دروش بازار میں لوگ دوکانیں بند کرکے اپنے اپنے گھروں کے باہر جا بیٹھے ۔ ایس پی ۔ ڈی سی چترال سے ڈی ایچ او ڈاکٹر سردارالملک کے ساتھ پہنچے ۔ ایک گھنٹے میں ہی بالا حصار سے ہیلی کاپٹر آٸی جی ایف سی میجر جنرل غازی الدین رانا کو لیکر دروش کی طرف اڑ چکا تھا ۔ اب سلطان الدین بات کرتے کرتے ہچکیاں لے رہا تھا ۔ کہنے لگا سر پتہ نہیں وادٸ چترال کی سب ماوں بہنوں اور بچوں نے اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا یا نہیں مگر اس دن نہ کسی گھر میں کھانا پکا نہ کسی نے کھایا تھا ۔ ہر شخص کو لگتا تھا میرا باپ گیا کہ میرا بھاٸی گیا یا میں لاوارث تھا اور میرا سرپرست گیا ۔ ایک شخص کی موت نے چترال کے ہر گلی کوچے اور گھر پر سوگ کی بھاری چادر ڈال رکھی تھی جو ذکر کریں تو آج بھی محسوس ہوتی ہے ۔

sultanud din

ایس ایم سلطان الدین نے آنکھیں صاف کرتے ہوٸے بتایا کہ بعد میں سنا کہ انکے بریف کیس پر ایک چٹ پڑی ملی تھی جس پر بریف کیس کو کھولنے کا نمبر تھا اور لکھا تھا کہ میری وصیت بریف کیس کے اندر ہے ۔ آفیسرز نے مل کر بریف کیس کھولا تو وصیت نظر آٸی ۔

آٸی جی ایف سی کے نام لکھا تھا کہ
١۔ میں اپنی مرضی سے خود کشی کر رہا ہوں اس لٸے اس بارے کسی سے کوٸی پوچھ گچھ نہ کی جاٸے ۔
٢۔ مجھے دروش کی سپلاٸی برانچ کی مسجد کے احاطے میں (جو میں پہلے سے مختص کر چکا ہوں) دفن کرنے کی اجازت دی جاٸے ۔
٣۔ میری ماں اور بھاٸیوں کو دفن کرنے کے بعد اطلاع دی جاٸے تاکہ میری لاش چترال سے باہر نہ لے جا سکیں ۔
٤۔ میری کتابیں چترال اسکاٶٹس کی لاٸبریری کو ۔ میرے بنک میں پڑے ڈیڑھ لاکھ کا لکھا چیک کیش کروا کر میری تدفین کے خرچے کے بعد دس ہزار میرے بیٹ مین اور بقایا میری ماں کو دے دیا جاٸے ۔
٥۔ میرا کتا پیٹر بھی میرے بیٹ مین کو دیا جاٸے ۔
اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب جناب نواز شریف کو لکھا کہ میرے بھاٸی کو اگر قانونی کارواٸی کے بعد بے قصور پایا جاٸے تو اسکی پولیس سروس پر بحال کردیا جاٸے ۔

اور آخر میں لکھا کہ میری 36 سالہ آرمی سروس کے دوران کوٸی جاٸیداد نہیں بنی کیونکہ جو پلاٹ مجھے آرمی نے الاٹ کٸے تھے میں انکی قسطیں بھی نہیں دے سکا اس لٸے وہ بھی پاکستان آرمی کی ملکیت ہیں ۔

کرنل عابد کاظمی نے بہت ہی دکھی لہجے میں کہا کہ سلطان الدین صاحب آپکے وقت کا شکریہ ۔ میرے والدِ محترم کی باتیں مجھے آج سمجھ آرہی ہیں ۔ وہ مجھ سے اکثر کہتے تھے کہ مادی ملک کرنل مراد خان نیر آرمی کی وردی ضرور پہنتا ہے مگر اس کے اندر آفیسر سے زیادہ کسی درویش کی روح ہے ۔ مگر میں سوچ رہا ہوں درویش تھا تو خودکشی کیوں کی؟
(جاری ہے)

col murad late gen zia chitral shandur

 

بشکریہ: #برگیڈیربشیرآراٸیں


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
60616