Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خانساماں اور بیگمات میں فرق – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خانساماں اور بیگمات میں فرق – محمد شریف شکیب

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ بدذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ خواتین کوآتاہے لیکن یہ فارمولہ تمام تعلیم یافتہ گھریلو خواتین پر لاگو نہیں ہوتا۔بہت سے پیشہ ورخانسامائیں بھی اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ہم نے ایک دن اپنے ایک دوست سے یہ شکایت کہ دنیا نے ترقی بہت کی ہے مگر ہماری بہت سی اقدار اس ترقی کی رفتار میں دب گئی ہیں اب وہ خانساماں بھی تقریبا ناپید ہو چکے ہیں جوسترقسم کے پلاو پکا سکتے تھے مگر ہمارے دوست کا موقف الٹ تھا کہنے لگا کہ خانساماں ناپید نہیں ہوئے۔وہ سترقسم کے پلاو کھانے والاطبقہ غائب ہو گیا جو ہر وقت ستر قسم کے پلاو بنانے کے ماہر خانساماں کی تلاش میں رہتا تھا۔اور وہ مسور کی دال بھی ڈنرجیکٹ پہن کرکھاتا تھا۔ اب اس وضع دار طبقے کے افراد باورچی رکھنے کے بجائے نکاح ثانی کرلیتے ہیں۔ کیونکہ باورچی نہ صرف تنخواہ لیتا ہے بلکہ روٹی کپڑا اوررہنے کی جگہ بھی مانگتا ہے۔ جبکہ شادی کرنے پر نہ صرف نئی دلہن مل جاتی ہے بلکہ کھانے اورپکانے کے برتن بھی ساتھ لاتی ہے۔

 

سیانےکہتے ہیں کہ خود کام کرنابہت آسان ہے مگردوسروں سے کام لینا نہایت دشوارکان ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے خود مرنے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن دوسروں کو مرنے پر آمادہ کرنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔خانساماں سے عہد وفا استوارکرنے اوراسے ہمیشہ کے لیے اپناوفادار بنانے کا فن کسی کسی کو آتا ہے ہر بندہ اس فن سے واقف نہیں ہوتا۔ناخلف قسم کے خانساماوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ کچھ دن پہلے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں میرے گھر وارد ہوا۔ اورآتے ہی ہمارا نام اورپیشہ پوچھا۔ پھرسابق خانساماوں کے پتے دریافت کیے۔ نیزیہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہرمدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آوازسے ہمارے اعصاب اوراخلاق پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگرآپ گرمائی چھٹیوں میں پہاڑپرجائیں گے توپہلےعارضی مالک کا بندوبست کرناپڑے گا۔

 

جو بروقت تنخواہ کی ادائیگی کے ساتھ دیگر ضروریات بھی پوری کرنے کی گار ٹی دے گا۔کافی ردوکد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کررہے ہیں جوہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اورکام کے اوقات کا سوال آیا توہم نے کہا کہ اصولا ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھرکے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے، ”صاحب! ان کی بات چھوڑئیے۔ وہ گھرکی مالکن ہیں۔ میں تونوکرہوں!“ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کردی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑونہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میزنہیں لگاوں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاوں گا۔ ہم نے پوچھا کہ پھر تم کیا کروگے۔تو انہوں نے جھٹ سے کہا کہ”یہ توآپ بتائین گے ۔کام آپ کولیناہے میں ملازم اور توتابع دارہوں۔جب سب باتیں حسب ضرورت طے ہو گئیں توہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا سلف لانے کے لیے فی الحال کوئی علیحدہ نوکرنہیں ہے۔ اس لیے کچھ دن تمیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کرلو۔

 

کہنے لگا کہ تنخواہ کی فکرنہ کریں ۔پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔ میں نے اصرار کیا کہ پھربھی کتنی اضافی تنخواہ چاہئے کہنےلگے، ”پچھترروپے ماہوارہوگی۔لیکن اگرسودا بھی مجھ کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہوگی۔ان سے بات نہ بن پائی تودوسرا خانساماں آیا مگربے حد دماغ دارمعلوم ہوتا تھا۔ ہم نے اس کا پانی اتارنے کی غرض سے پوچھا، مغلائی اورانگریزی کھانے پکانے آتے ہیں۔کہنے لگا کہ ہرقسم کا کھانا پکا سکتا ہوں۔آپ بتائے کہ آپ کا کس علاقے سے تعلق تھا۔ہم نے صحیح صحیح بتادیا۔ جھوم کرکہنے لگےمیں بھی ایک سال ادھرکاٹ چکاہوں۔ وہاں کے باجرے کی کھچڑی کی تودوردورتک دھوم ہے۔مزیدجرح کی ہم میں تاب نہ تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنے آپ کوہمارے ہاں ملازم رکھ لیا۔ دوسرے دن پڈنگ بناتے ہوئے انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ میں نے بارہ سال انگریزوں کی جوتیاں سیدھی کی ہیں، اس لیے بیٹھ کرچولہا نہیں جھونکوں گا۔ مجبورا کھڑے ہوکرپکانے کا چولہا بنوایا۔

کچھ عرصے بعد وہ خانساماں بھی اپنے گھر والوں کو پیارا ہوگیا۔اس کے بعدجوخانساماں آیا اس نے کہا کہ میں چپاتیاں برادے کی انگیٹحی پر بیٹھ کرپکاوں گا۔ چنانچہ لوہے کی انگیٹھی بنوائی۔ تیسرے کے لیے چکنی مٹی کا چولھا بنوانا پڑا۔ چوتھے کے مطالبے پرمٹی کے تیل سے جلنے والاچولھاخریدا۔ اورپانچواں خانساماں اتنے سارے چولھے دیکھ کرہی بھاگ گیا۔ سنا ہے کہ دوزخ میں گنہگارعورتوں کوان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے۔ اسی طرح ریڈیووالوں کوفرشتے آتشیں گرز مارمار کر بار بار ان ہی کے نشرکیے ہوئے پروگراموں کے ریکارڈ سنائیں گے۔اچھا کھانا کس کو اچھا نہیں لگتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن سردار جی چھڈی پہن کر بیر کی درخت پر چڑھ گئے اور بیر کھانے لگے۔ ایک دوست کا وہاں سے گذر ہوا۔پوچھنے لگا کہ سردار جی کیا شوق فرما رہے ہو۔

 

سردار جی نے فخریہ انداز میں کہا کہ یارہم نے دنیامیں دو ہی شوق پالےہیں۔ اچھا پہننا اور اچھا کھانا۔ایک صاحب ہماری طرح خوش خوراک تھے۔کسی محفل میں کہنے لگا۔ہم کھانے کے شوقین ضرور ہیں، خوشامد کے بھوکے نہیں اگرچہ اس سے انکارنہیں کہ اپنی تعریف سن کرہمیں بھی اپنا بنیان تنگ معلوم ہونے لگتاہے۔ ہم نے کبھی یہ توقع نہیں کی کہ باورچی کھانا پکانے کے بجائے ہمارے گن گاتارہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے مرحوم اورسابق آقاوں کی تعریفوں کےپل باندھتا رہے۔ جب کہ اس توصیف کااصل مقصد ہمیں جلانا اور ان خوبیوں کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے جوہم میں نہیں ہیں۔ اکثراوقات بے تحاشا جی چاہتاہے کہ کاش ہم بھی مرحوم ہوتے تاکہ ہمارا ذکربھی اتنے ہی پیار سے ہوتا۔ بعض نہایت قابل خانساماوں کومحض اس دوراندیشی کی بنا پرعلیٰحدہ کرنا پڑا کہ آئندہ وہ کسی اورکا نمک کھا کرہمارے حق میں پروپیگنڈہ کرتے رہیں۔

 

جوشخص بھی آتاہے یہی دعوی کرتاہے کہ اس کے سابق آقا نے اسے سیاہ وسفید کا مالک بنارکھا تھا ایک خانساماں نے ہمیں مطلع کیا کہ اس کاپچھلا ”صاب“ اس قدرشریف آدمی تھا کہ ٹھیک سے گالی تک نہیں دے سکتاتھا۔باہر سےبلائے گئے خانساماوں کے چونچلے آپ نے ملاحظہ کئے۔ یہ بات سو فیصد ثابت ہوگئی ہے کہ کھانا پکانے کے لئے بندہ خانساماں رکھنے کے بجائے شادی کرے تواس کے بیشمار فوائد سے استفادہ کرسکتا ہے۔ اسےبغیر تنخواہ کے کھانا پکانے والی کے ساتھ کپڑےدھونے، استری کرنے، جوتے پالش اور بدن مالش کرنے والی مفت کی ملازمہ مل جائے گی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
74062