Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

حق گوئی پہ اعتراض ہے تجھے۔۔۔۔۔۔۔تحریر؛فیض العزیز فیض

شیئر کریں:

 کسی نے آئینہ دیکھا دیا تو حضرت نے اپنا چہرہ دیکھا تو بڑا بھیانک لگا. دیکھا کہ ان میں فریب مکر جھوٹ خوشامد غیبت چاپلوسی تہمت بے حیائی اس کے علاوہ چہرے پر کالے کالے دماغ نما قدرت کے پھٹکار نظر آئے تو جناب والا کو بڑا غصہ آیا. ظاہری بات ہے جو کردار اور صورت لیکر شیشے کے سامنے کھڑے ہوجاو وہی دکھے گا نا. جو بات روز روشن کی طرح صاف اور واضح ہو تو دلیل نہیں مانگی جاتی. فیڈر پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ میڈیا ہاوسز کیسے اپریٹ کئے جاتے ہیں. سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’بے ہودگی‘ اور ’قابلِ اعتراض‘ ہونے کا پیمانہ کون طے کرے گا؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو واضح رہے کہ حیا ہمارے دین کا شعار اور پہچان ہے، جب کہ بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی اسلام سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی کی حدیں بہت پہلے متعین کی جاچکیں اور ان حدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اگر یہ حق عوامی نمایندوں اور اسمبلیوں کو حاصل نہیں ہے تو یہ حق میڈیا کو بھی حاصل نہیں۔

میڈیا بھی وہ جو انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر نیم عریاں ڈانس دکھاتا ہے، بے ہودہ گانے، قابلِ اعتراض اشتہارات اور فیشن شوز کے نام پر فحاشی و عریانی کو عام کر رہا ہے۔ ہم اپنے اور اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ قابلِ اعتراض کنسرٹس اور عام مخلوط گانے بجانے کے پروگراموں میں شرکت کریں، یا فیشن شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی کا حصہ بنیں، مگر دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے کاموں میں مشغول دکھا کر اسے خوب سراہتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ اُن کی بہن ، بیٹا یا بیٹی فیشن شوز کے ریمپ پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نیم عریاں لباس زیب تن کیے کیٹ واک کریں؟ کتنے لوگ اپنی بہن اور بیٹی کو ساتھ لے جاکر مخلوط کنسرٹس سنتے ہیں؟ جو کچھ ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے کیسے اچھا ہوسکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں کے پاس تو اب ماسواے خاندانی نظام اور بچی کھچی شرم و حیا کے علاوہ باقی کچھ بچا ہی نہیں۔ اگر یہ بھی ہم سے چھن گیا تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ مغرب سے مرعوب ایک محدود طبقہ ہمیں ہمارے اس فخر سے محروم کرنا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے، جس کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔اللہ تعالیٰ ان حالات کے زریعے سے ہمیں متنبہ کررہے ہیں کہ سدھر جاو ورنہ وہ کوڑے بھی برسین گے جو کھبی قوم لوط وعادوثمود پر برسے تھے. پس کسے مولانا طارق جمیل صاحب سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں. لیکن جو باتیں ہر ذی شعور کے نزدیک غلط ہیں تو پھر برملا گندگی کو گندگی اور غلاظت کو غلاظت کہنے میں  قباحت کیا ہے. اپنی غلطیاں کوتاہیاں تسلیم کرنے کے بجائے آسمان کی طرف اکڑ سے دیکھنے کی ضرورت کیا ہے.

موجودہ حالات کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ آسمان کے ارادے انسانوں کے لئے ٹھیک نہیں ہیں. بازاروں تفریح گاہوں کی باتیں چھوڑیئے حرمین شریفین میں اس ماہ مبارک میں جو منظر ہے اسے دیکھ کر نہیں لگتا کہ آسمانی فیصلوں کے تیور بدلے ہوئے ہیں. جیسے بچوں کو پرچے کے لئے بٹھایا جاتا ہے اسی منظر میں مساجد کے اندر عبادات کرنے پہ مجبور ہوگئے ہیں. وقت اتنا پرفتن ہوگیا ہے کہ سچ گوئ بھی جرم بن چکا ہے. ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولا جاتا ہے لیکن حق گوئی پر اتنا واویلا. معافیاں منگوائی جاتی ہیں. تمھاری ہمت کہ تم نے دن کو دن اور رات کو رات کہا. اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے پھر بھی بڑے زعم سے فتح کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں. لیکن مولانا نے فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے اس آیت کریمہ کی تائید کی کہ؛  ‏اور رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پرعاجزی کیساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بحث کرنے لگتے ہیں تو وہ سلام کہہ کر گزرجاتے ہیںoسورہ الفرقان :63‏بہت مشہور کہاوت ہے “کیچڑ میں پتھر پھینکو گے تو چھینٹیں اپنے اوپر آئینگی”مولانا طارق جمیل صاحب کا جھوٹے میڈیا کو جھوٹا کہنا کیچڑ میں پتھر پھینکنے کے مترادف تھا. لیکن مختصراً میں صرف یہی مثال پیش کرنا چاہونگا کہ ‏گلیلو کو عدالت نے حکم دیا کہ وہ آئیندہ یہ نہیں کہے گا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، گلیلو نے جان بچانے کے لیے عدالت کی بات تو مان لی لیکن باہر آ کر کہنے لگے کہ میرے مان لینے سے کونسا زمین سورج کے گِرد گھومنا بند کر دے گی۔ایسا ہی کچھ میڈیا اور مولانا طارق جمیل کے درمیان ہوا ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
34818