Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جی ٹوینٹی کا ’شاہانہ‘ انعقاد اور ایک ’رِشی‘ کی سادگی- پسِ آئینہ: سہیل انجم

Posted on
شیئر کریں:

جی ٹوینٹی کا ’شاہانہ‘ انعقاد اور ایک ’رِشی‘ کی سادگی- پسِ آئینہ: سہیل انجم

دنیا کی بیس طاقتور معیشتوں کے گروپ جی ٹوینٹی کا سالانہ سربراہی اجلاس نئی دہلی میں ختم ہو گیا۔ ایک عرصے سے جو شور و غوغا سنائی دے رہا تھا اس کی آواز بھی مدھم ہو گئی۔ ہندوستان ایک سال سے جی ٹوینٹی کا صدر تھا۔ اس دوران ملک کے مختلف شہروں میں اس کے حوالے سے سیکڑوں کانفرنسیں ہوئیں۔ اب اس گروپ کا صدر برازیل ہو گیا ہے۔ اب ایک سال تک وہاں تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس ’شاہانہ‘ سربراہی کانفرنس کی کچھ مثبت باتیں رہیں تو کچھ منفی رہیں۔ منفی باتوں کو عالمی ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا اور اپوزیشن کے لیے چھوڑتے ہیں۔ آئیے اس کی مثبت باتوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ کانفرنس ہندوستان کے لیے ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ جس کامیاب انداز میں اس کا انعقاد ہوا اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کا قد بلند ہوا ہے۔ حالانکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کے توسط سے اپنا قد بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ عام انتخابات میں اس کا فائدہ مل سکے۔ یہ بات اپنی جگہ پر، لیکن اگر ہم موجودہ عالمی صورت حال پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ دنیا میں اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ خاص طور پر یوکرین کے خلاف روس کی جنگ نے بہت کچھ تہہ و بالا کر دیا ہے۔ سپلائی چَین متاثر ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

 

اس معاملے پر دنیا تقریباً دو خیموں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف روس اور چین ہیں تو دوسری طرف امریکہ اور مغربی ممالک ہیں۔ ہندوستان نے میانہ روی اختیار کی ہے۔ اس نے اپنے دیرینہ دوست روس کی کبھی مذمت نہیں کی۔ جو اعلامیہ منظور ہوا اس میں بھی روس کی مذمت سے گریز کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بالی میں ہونے والے اجلاس میں یوکرین کے مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔ اندیشہ تھا کہ ہندوستان کی کانفرنس میں بھی اتفاق رائے نہیں ہو پائے گا۔ لیکن یہاں کی ٹیم کی شب و روز کی محنت شاقہ نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ یوکرین سمیت ایک سو سے زائد امور پر اتفاق رائے قائم ہوا۔ لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ گروپ بیس کے شیرپا امیتابھ کانت سمیت چار سینئر سفارت کاروں نے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ تمام ایشوز پر دو سو گھنٹے کے نان اسٹاپ مذاکرات اور تین سو دو طرفہ میٹنگوں کے ذریعے اسے کر دکھایا۔ بار بار مسودوں میں ترمیم کی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ پندرہ مسودے تقسیم کیے گئے تب جا کر کہیں اعلامیہ کی لفظیات پر سب متفق ہوئے۔ یوکرین کا معاملہ سب سے پیچیدہ تھا۔ اگر چہ یوکرین نے اعلامیے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم روس اور چین سمیت متعدد ممالک نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ البتہ یہاں کے اپوزیشن رہنماؤں نے کانفرنس کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہانے پر سخت تنقید کی ہے۔ ٹی ایم سی کے رکن پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے کے مطابق کانفرنس کے لیے 990 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا لیکن حکومت نے اس سے تین سو فیصد زیادہ یعنی 4100 کروڑ روپے خرچ کر دیے۔ حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان جیسے غریب ملک میں جہاں 80 کروڑ افراد حکومت کی جانب سے دیے جانے والے ماہانہ پانچ کلو اناج پر گزارہ کر رہے ہوں مہمانوں کو سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھلانا شوبھا نہیں دیتا۔ وہ اسے شان و شوکت کی بیجا نمائش قرار دیتے ہیں۔

آئیے اب ذرا پہلو بدل کر جدید دور کے ایک رشی کی بات کرتے ہیں۔ قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ برطانیہ کے جواں سال وزیر اعظم 43 سالہ رشی سونک کی جانب ہے۔ حالانکہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے ان کی دوسروں کے مانند آؤ بھگت نہیں کی گئی لیکن اس کے باوجود انھوں نے لاکھوں دلوں کو فتح کر لیا۔ ان کی اور ان کی اہلیہ اکشتا مورتی کی سادگی اور انکسار نے لاتعداد لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اگر ہندوستان میں لینڈ کرنے سے لے کر ٹیک آف کرنے تک کے سفر تک پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ان کے اندر جو سنسکار ہیں وہ مانگے کے نہیں ان کے اپنے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ کسی ایسی میٹنگ میں جس میں دنیا کے بڑے بڑے سربراہان مملکت موجود ہوں اتنے بڑے ملک کا کوئی وزیر اعظم ننگے پاؤں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کسی سے بات کر سکتا ہے۔ لیکن نہیں، رشی سونک جب ایک میٹنگ کے دوران بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے پاس پہنچے تو وہ ننگے پاؤں تھے۔ انھوں نے نہ تو کھڑے ہو کر گفتگو کی اور نہ ہی شیخ حسینہ کو کھڑے ہونے دیا۔ حسینہ ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں اور وہ ان کے برابر میں کرسی کے ہتھے پر ایک ہاتھ رکھے گھٹنوں کے بل ایسے بیٹھ گئے جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کے سامنے بیٹھ جائے۔ غور کیجیے تو دونوں کی عمروں میں وہی فرق ہے جو ماں اور بیٹے کی عمروں میں ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس وقت ان دونوں کے دلوں میں اسی رشتے کی یاد آئی ہو۔ ان کے اس انداز نے ایسا جادو کیا کہ اب تک ان کی تعریف ہو رہی ہے۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر بجا طور پر لکھا ہے کہ بڑے لوگوں کے پاس انا نہیں ہوتی، غرور اور تکبر نہیں ہوتا۔ وہ چمک دمک اور اپنی تشہیر کرنے سے دور رہتے ہیں۔ وہ کسی کو خود سے کمتر نہیں سمجھتے۔ بقول شخصے جس انداز میں وہ حسینہ واجد کے پاس بیٹھے کیا وہ رشیوں کی مُدرا نہیں تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اسم با مسمی ہیں اور عہد حاضر کے رشی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

انھوں نے دہلی آنے سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی پرورش ہندو مذہب کے مطابق ہوئی ہے۔ انھیں اپنے ہندو ہونے پر فخر ہے۔ وہ دہلی جائیں گے تو مندر میں بھی جائیں گے۔ وہ کانفرنس کی دوسری صبح دہلی کے اکشر دھام مندر گئے۔ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ وہاں بھی ان کی اور ان کی اہلیہ کی سادگی دل کو موہ لینے والی تھی۔ سفید شرٹ اور سیاہ پینٹ میں بغیر ٹائی اور کوٹ کے ان کی تصویر خوب وائرل ہوئی۔ اس موقع پر ان کی اہلیہ نے بھی انتہائی سادہ لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ جب دونوں ایک چھتری تھامے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے مندر سے باہر آئے تو بہت سے پرانے لوگوں کو راج کپور اور نرگس کی جوڑی کی یاد آگئی۔ جب دوسرے روز کانفرنس سے قبل مندوبین گاندھی جی کو گلہائے عقیدت پیش کرنے کے لیے راج گھاٹ گئے تو وہاں کئی مہمان کپڑے کے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ لیکن رشی سونک وہا ں بھی ننگے پاؤں تھے۔ اس سے قبل جب پالم ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد دونوں طیارے سے باہر آرہے تھے تو اکشتا مورتی کا ان کی ٹائی کو درست کرنا بھی لوگوں کو اچھا لگا۔

 

اسی طرح جب وہ واپس جانے کے لیے طیارے میں سوار ہوئے تو دونوں نے ہاتھ جوڑ کر میزبانوں کو الوداع کہا۔ وہ واقعی ہندو مذہب کے پکے سچے پیروکار ہیں۔ دوسرے مذاہب کے مانند ہندو مذہب بھی دوسروں سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا۔ وہ بھی پیار محبت کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ بھی مذہب کے نام پر معاندانہ جذبات کا قائل نہیں۔ اگر رشی سونک کے اندر وہ جذبات ہوتے جس کا پرچار ہندوستان کے ہندوتو وادی کرتے ہیں تو وہ ایک مسلمان وزیر اعظم کا یوں احترام نہیں کرتے۔ بلکہ ان کے قریب ہی نہیں جاتے۔ ان کا یہ کہنا کہ انھیں ہندو ہونے پر فخر ہے، ان کا مندر میں جا کر پوجا کرنا اور ہاتھ جوڑ کر الوداع کہنا دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو بالکل برا نہیں لگا۔ ہر شخص کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے کا حق ہے لیکن کسی کو مذہب کی بنیاد پر دوسروں سے نفرت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کاش یہاں کے ہندوتووادی ان سے کوئی سبق سیکھتے۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ وہ بنگلور کی آئی ٹی کمپنی انفوسس کے مالک نرائن مورتی کے داماد ہیں۔ ان کے اجداد ہندوستان سے افریقہ اور پھر برطانیہ گئے تھے۔ وہ انتہائی امیر شخص ہیں۔ وہ برطانیہ کے اب تک کے سب سے مالدار وزیر اعظم ہیں۔ دونوں میاں بیوی کی دولت اربوں ڈالر میں ہے۔ ان کے متعدد لگزری مکانات اور گاڑیاں ہیں۔ وہ پرتعیش ذاتی زندگی گزارتے ہیں لیکن عوامی زندگی میں انتہائی سادہ ہیں۔ ان کی انہی خوبیوں نے انھیں بڑا انسان بنایا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
79110