Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جنونیت کا کوئی مذہب نہیں ۔ ولی اللہ چترالی

شیئر کریں:

جنون ایک کیفیت ہے اس کا کسی بھی مذہب یا اس کی تعلیمات سے کوئی لینا دینا یہ کیفیت آر ایس ایس کے غنڈوں میں پائی جاسکتی ہے اور کسی شدت پسند مسلمان کے دماغ میں بھی کنڈلی مار سکتی ہے۔ خناسیت کے علاوہ اسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم جنونی صرف غیر مسلموں کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ایسا نہیں ہے ان کے ہاتھوں سے گلیمرکی چکاچوند دنیا چھوڑ کر مبلغ اسلام بننے والے جنید جمشید شہید بھی محفوظ نہیں رہے سر عام یہ لوگ اس شریف انسان کو پکڑ کرائیرپورٹ پر اپنی نفرت کا نشانہ بنانے سے نہیں شرمائے۔

شاہی مسجد چترال کے سبزہ زار میں جل کر راکھ ہوئی اس گاڑی کی تصویر آپ نے دیکھ ہی لی ہوگی یہ کسی غیر مسلم کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے پیشوا اور انبیاء کے وارث کہلانے والے ایک عالم دین کی تھی جن کی ساری زندگی ہی مسجد اور مدرسے کی ماحول میں گزری سینکڑوں علماء کے استاذ ہیں ان کی یہ گاڑی بھی صرف اس وجہ سے نذر آتش کر دی گئی تھی کہ ایک مبینہ گستاخ کو انہوں نے ہجومی شدت کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچاتے ہوئے حوالہ قانون کرکے ایک مہذب انسان اور ذمے دار مسلمان مذہبی رہنما ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ شدت جنون میں پاگل ہوئے ہجوم مومنین کا کھوکھلے جذبات کی آگ میں تپا ہوا خیال تھا کہ اسے ہمارے حوالہ کیوں نہیں کیا یا خود اسے کیوں نہیں مارا بلکہ یہاں معاملہ گاڑی جلانے سے بھی بہت آگے کا تھا لوگ اس راتانہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے تاکہ گستاخ کو بچانے کے جرم میں اس ذمے دار عالم دین کا ہی کام تمام کردیا جائے۔ وہ تو بھلا ہوکچھ دوستوں اور اعزہ و اقارب کا جنہوں نے بروقت معاملے کی سنگینی کا ادراک کرکے بڑی تباہی کے غار میں معاملات کو پہنچنے سیدور رکھا۔ یہ واقعہ چند سال قبل شاھی مسجد چترال میں پیش آیا تھا۔ جہاں مبینہ طور پر ایک ایبنارمل شخص نے جمعے کے مجمع میںاٹھ کر کچھ اول فول بک دیا تھا۔ ہجوم اسے مارنے اٹھا تو شاہی خطیب حضرت مولانا خلیق الزمان کاکا خیل مدظلہ نے جرات اورذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان ہتھیلی پہ رکھ کر ہجوم کے ہاتھوں اس شخص کا قیمہ بننے سے بچایا تھا۔

چونکہ میں اس موقع پر اگلے دن حضرت خطیب صاحب کے پاس پہنچ چکا تھا اور مذہبی جنونیت کس طرح زہر قاتل ہے اس کا بلکل قریب سے مشاہدہ کرچکا ہوں اس لئے ان چیزوں کی نفسیات کو کچھ کچھ جانتا ہوں۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر کے علماء اورسب سے بڑی مذہبی جماعت کے قائد حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اور دفاع ناموس رسالت کے سب سے بڑے پلیٹفارم عالمی مجلس تحفظ ختم کے اکابرین سب نے حضرت خطیب صاحب کو سرِاہا بلکہ ایک ٹی وی شو کے دوران تو مولانا فضلالرحمن صاحب نے اسے دینی طبقوں کی برداشت اور قانون کی علمداری پر یقین کا ایک نمونہ قرار دیا ساتھ مشال خان واقعے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو اپنے یونیورسٹیوں کا کردار اور ہمارے ایک مولوی کا کارنامہ۔۔

ان سب کے باوجود خود ساختہ عشاق کا ایک ہجوم تھا جو مبینہ ملعون سے بھی پہلے خطیب صاحب کی گردن ناپنے کے لئے بیتابتھا۔

ایسے جلے بھنے اور عمل سے عاری عشاق میں نظریاتی مخالفین، ذاتی رنجشیں پالنے والے کینہ پرور اور ایسے افراد کی کثیر تعداد تھی جنکو خطیب صاحب کی شکل پسند نہ تھی۔

لہذا وہ لوگ جو ایسے مواقع پر فورا بلوں سے باہر نکل آتے اور آسمان سر پہ اٹھاتے ہیں کہ علماء کدھر ہیں مذہبی جماعتیں وضاحتیں کیوں نہیں جاری کرتیں، ان سے گزارش ہے کہ چترال کے واقعے میں تو مذہبی جماعتیں بھی ساتھ تھیں معاملہ بھی ایک عالم دین کاتھا لیکن پھر بھی مبینہ گستاخ کو ہجوم کے ظلم سے بچانے پر مولوی صاحب کی گاڑی جلا دی گئی خود کی جان محفوظ کرنے کے لالی پڑ گئے تھے۔

یہ کیفیت ہے جنون کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جنونیت کا کوئی مذہب نہیں۔ خدا ایسے جاہلوں اور جنونیوں سے اسلام کو محفوظ رکھے۔اور ریاست کو بھی توفیق دے کہ اپنے مفادات بلکہ مہم جوئیوں کیلئے مذہب کے نام پر مذہبی جنون کو وقتی کھیل کے طور پر استعمال کرنے کے جرم سے توبہ کرے ورنہ ہم جس جنونیت کے آتش فشاں پر کھڑے ہیں اس کا لاوا پھٹ گیا تو ریاست حکومت مذہباور سماج کچھ نہیں بچے گا۔ چلتے پھرتے انسانوں کی شکل میں ہر طرف خونی درندے آدم بو آدم کرتے پھریں گے۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55702