Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جنوبی ایشیا میں چترال کی اہمیت – تحریر: رحمت عزیز خان

شیئر کریں:

جنوبی ایشیا میں چترال کی اہمیت – تحریر: رحمت عزیز خان

#چترال ٹایمز

چترال جنوبی ایشیا کا سر کہلاتا ہے چین اور روس والے چترال کو جنوبی ایشیا کا دروازہ کہتے تھے جبکہ چترال والے چترال کے اخری سرے درہ بروغل کو چین اور روس کا دروازہ کہتے تھے جو واخان پٹی میں کھلتاہے۔

 

یہ جنوبی ایشیا کے انتہائی شمال میں ہندو راج اور ہندو کش پہاڑی سلسلوں کے درمیاں واقع ایک خوبصورت اور لمبی وادی ہے جو ارندو سے بروغل تک جنوبً معرب سے شمال مشرق کیطرف پھیلا ہوا ہے۔اس کے شمال میں چین، واخان اور تاجکستان واقع ہیں مغرب کی طرف افعانستان کے بدخشان کے علاقے ہیں جنوب کی طرف وادی کنڑ اور دیر جبکہ مشرق کی طرف سوات اورگلگت بلتستان واقع ہیں۔ایک نظر دنیا کے نقشے پر ڈالنے سے جنوبی ایشیا میں چترال کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ہندو کش پہاڑی سلسلہ سے مشہور درے شاہ سلیم،شاہ جنالی،بروغل نورستان ،بشگال اور کئ دوسرے چھوٹے درے افغانستان میں کھلتے ہیں۔دوسری طرف ہندو راج پہاڑی سلسلہ سے درہ لاواری ٹاپ( اب لاواری ٹنیل) دیر کو جبکہ شندور اورچمر کھن پاس گلگت کو چترال کے ساتھ ملاتے ہیں۔ کئی چھوٹے درے سوات کی طرف نکلتے ہیں۔

chitraltimes chitral town rain weather

چترال اپنے محل وقوع کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا ایک اہم علاقہ ہے۔یہ وسطی ایشیا جنوبی ایشیا ۱اور چین کے سنگھم میں پایا جاتا ہے۔چترال کی حیثیت جنوبی ایشیا میں ایسی ہے جیسا کہ انسانی جسم میں سر کا تعلق جسم کے دوسرے اعضاء سے ہے۔درہ بروغل جنوبی ایشیا کا وہ دروازہ ہے جو دو سپر پاور چین روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے قریب تر ہو جاتا ہے۔درہ بروغل ایک طرف چین اور دوسری طرف افعانستان کی ایک باریک پٹی واخان میں کھلتی ہے جس کی چوڑائی تقریباً پندرہ کلومیٹر ہے پاکستان کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔بروعل کا علاقہ چین اور روس میں جنوبی ایشیا کا دروازہ جبکہ بر صعیر میں بروعل روس اور چینا کا دروازہ کہلاتا تھا۔اگر واخان پٹی کو جنوبی ایشیا،چین، وسطی ایشیا کے ممالک اور روس کا تجارتی مرکز بنا دیا جائے تو واخان پٹی عالمی منڈی بن جائے گی۔

 

چترال برصغیر کی تقسیم سے پہلے شاہی ریاست تھی جو افعانستان کے چقانسرائے سے گلگت بلتستان تک پھیلا ہوا تھا۔یہ علاقہ اپنی مخصوص روایات،ثقافت قوانین اور رسم و رواج میں انفرادیت کے با وجود بیغیر چون وچرا کے سب ریاستوں سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ مہترِ چترال ہس ہائنس سر ناصر الملک نے اپنے پیشرو کے لئے یہ لکھ کر چھوڑا کہ عنقریب پاکستان بننے والا ہے۔اگر میرے دور میں پاکستان بنا تو میں بے غیر ہچکچاہٹ کے اس کے ساتھ الحاق کرونگا اگر میرے پیشرو کے زمانے میں بنا تو وہ بے غیر چون و چرا پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔مہتر کے منہ سے نکلا ہوا ہر جملہ رعایا اور پیشرو کے لئے قانون کا درجہ رکھتا تھا سر ناصر الملک پاکستان بنتے وقت خود تو بقیدِ حیات نہیں رہا آپ کا یہ فرمان چترال کو پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا۔۔آپ پاکستان کے بانیوں میں شامل تھے۔آپ کئی بار قائداعظم سے بھی ملاقات کر چکا تھا۔پاکستان کے جھنڈے کا چاند تارا بھی آپ کی عنایت ہے۔ چاند تارا کا نشان بہت پہلے ہی سے مہترِ چترال کے محل کے صدر دروازے پر نصب تھا۔اپ قائد اعظم سے مل کر یہ نشان اپ کو پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ لگانے کے لئے پیش کیا تھا

chitraltimes chitral river shahi fort flood situation1

انگریز انیسویں صدی کے آخر میں چترال کے شاہی خاندان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔اس وقت چترال میں مہتر آمان الملک حکمران تھا۔اس زمانے میں زارِ روس جنوبی ایشیا پر حملہ کرنے کا سوچ رہا تھا تو انگریزوں نے زارِ روس کےجنوبی ایشیا پر ممکنہ حملہ روکنے کے لئے شاہی ریاست کو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔اس لئے برطانیہ چترال کی شاہی ریاست کو جنگی ساز و سامان دینے کے ساتھ ساتھ چترال کے لئے روڈ، پل اور چھاونیاں بنائے فوراً ٹیلی فون اور ٹیلی گراف چترال پہنچا دیا۔تاکہ چترال سے برصغیر پر روسی حملوں کو روک کر جنوبی ایشیا کا دفاع کیا جاسکے۔

 

برصغیر کا وائسرائے لارڈ کرزن بروغل درے سے چترال کے دورے پر آئے تو جنوبی ایشیا میں چترال کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے برطانیہ کی پارلمینٹ کو یہ پیعام بیجھا کہ اگر چترال ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تو پورا برصغیر بھی چلا جائے گا۔اس لئے بیرونی حملوں سے جنوبی ایشیا کو بچانے کے لئے شاہی ریاست چترال کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔

koye khoy mountain peak upper chitral broghil

دوسری طرف چترال برف پوش اونچے پہاڑوں، گلیشر،جھیل، گرم چشموں،،دریا، ندی نالوں ابشاروں، خوبصورت وادیوں، لہلہاتے کھیتوں، جھومتے ہوئے میواہ دار باغات سبزہ زاروں ،پھولوں جاڑی بوٹیوں جنگلی حیات شکار گاہ کھیل کے میدان ٹورسٹ سائٹ اور قیمتی معدنیات پر مشتمل ایک دلکش وادی ہے جہاں کے لوگ ملنسار، مہمان نواز پر خلوص امن پسند،بہادر، خوش مزاج اور خوبصورت ہیں ان کی اپنی تاریخ، ثقافت، روایات اور رسم و رواج دوسرے عالمِ اقوام سے منفرد ہیں۔

 

چترال میں دو الگ تہذیب کلاش اور کھوو اباد ہیں کلاش اس علاقے کے پرانے باشندے ہیں اور کافی عرصے تک چترال پر رئیس سے پہلے حکمران رہ چکے ہیں جو اپنی مخصوص روایات، ثقافت رسم و رواج تہواروں، مذہبی رسومات اور انداز زندگی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں جو چترال کی وادی بومبوریت بیریر اور رومبور میں اباد ہیں۔پوری دنیا سے ٹورسٹ اس پرانی تہذیب کو دیکھنے کے لئے چترال اتے ہیں۔ کلاش کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اگر اس تہذیب کو تحفظ دینے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ تیزی سے معدومیت کی طرف جائے گی۔

chitraltimes shandur festival 2023 first day 4

کھوو تہذیب اپنی نوعیت کی دنیا میں بہترین تہذیب ہے۔جس کی لباس تہذیب و تمدن، رسم و رواج، تہوار، بود و باش اور اندازِ زندگی کھوو تہذیب کو دنیا کی دوسری تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہے۔کھوو قبیلےاپنی بہادری مہمان نوازی زندہ دلی یارباشی اور امن پسندی میں پورے پاکستان میں مشہور ہیں۔چترال کے باشندے شکار اور کھیلوں کے شوقین ہیں۔مارخور چترال کا قومی جانور اور پولو قومی کھیل ہے۔

 

زمانہ قدیم میں چترال ایک مشہور تجارتی راستہ رہ چکا ہے۔چین اور وسطی ایشیا سے تجارتی قافلے درہ بروغل سے چترال میں داخل ہوتے تھے اور پھر کنڑ وادی سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچ جاتے تھے۔پشاور اس زمانے میں ایک تجارتی منڈی تھی چین جنوبی اور وسطی ایشیا سے تجارتی سامان یہاں اتے تھےاور یہاں سے دوسرے ملکوں کو جاتے تھے۔اس تجارتی راستے پر جگہ جگہ سرائے اور ہوٹل موجود تھے۔جہاں تجارتی قافلے ٹھرتے تھے۔یہ سلسلہ رئیس دورِحکومت تک جاری رہا۔اس کے بعد چترال کی حکومت کٹور خاندان کے قبضے میں آئی تو یہ تجارتی راستہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ بند ہو گیا۔اس راستے کو بند ہونے کی وجہ چترال کو بیرونی حملوں سے بچانا تھا۔

broghil festival pics chitral upper 2 scaled

اٹھارہ سو پچھانوی میں انگریزوں نے اس علاقے پر غلبہ حاصل کیا تو اس علاقے کے سرحدات کا تعین کر دیا۔اور ساتھ ہی برصغیر کو روسی متواقع حملوں سے بچاؤ کے لئے شاہی خاندان کو مضبوط کر دیا تاکہ زارِ روس کے جنوبی ایشیا کی طرف پیش قدمی کو روکا جا سکے۔

 

جب پاکستان بنا تو شاہی ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔چونکہ چترال پاکستان کا دور افتادہ آخری سرا ہونے کی وجہ سے حکومتی عدم توجہ کا شکار رہا اور پسماندہ رہ گیا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت پاکستان چترال کے محلِ وقوع کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر اس کی تعمیر و ترقی پر توجہ دے اور چترال کو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے برابر لانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔جنوبی ایشیا کے سر کو ننگا نہ چھوڑے بلکہ اسکے سر پر تاج پہنائے۔اور نہ ہی اس دروازے سے عافل ہو۔جو اب تک یہ اہم علاقہ کئی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔

 

chitral town with fort scaled


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
78075