Chitral Times

Jun 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جنت کے دلفریب دلکش اور حسین نظارے – از:قلم نورین خان پشاور

Posted on
شیئر کریں:

جنت کے دلفریب دلکش اور حسین نظارے – از:قلم نورین خان پشاور

 

زندگی کیا ہے؟ کوئی بلندوبالا عمارتیں بنا رہا ہے۔تو کوئی حکومتی عہدوں کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔کوئی اسی روپے کے پیچھے قتل اور ڈاکے ڈال رہا ہے۔دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے۔بیس سال،تیس سال،پچاس سال یا زیادہ سے زیادہ ساٹھ سال اس فانی اور چند دنوں کی زندگی کے لئے ہم لوگ اپنی آخرت داو پر لگا دیتے ہیں۔یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ہمارے پاس قران ہے جس میں صاف لکھا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی عیش والی زندگی رب العزت کے پاس ہے ایک ایسی جگہ جہاں کوئی موت نہیں۔ہمیشہ کی زندگی اور ہم سب مسلمان وہاں عیش سے رہے گے مزے سے رہے گے۔اور اس کے دلکش مناظر کی کیا ہی بات ہوگی۔
جنت کتنی حسین و جمیل ہے، اس کی نعمتیں، کس قدر بے پایاں اور بے مثل ہیں،
وسعت میں ایک بڑی سلطنت ہے، ارشاد باری ہے،
إِذَا رَأَيْتَ ثُمَّ رَأَيْتَ نَعَيْماً وَمُلْكاً كبيراً. (پ۲۷، سوره دهر)

اگر تو اس جگہ کو دیکھے گا، تو تجھ کو بڑی نعمت اور سلطنت دکھائی دے۔ اس جنت کے بارے آپ نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا۔۔ ترجمہ۔۔ سنو! کیا کوئی جنت کی تیاری کرنے والا ہے؟ کیونکہ جنت فنا ہونے والی نہیں، رب کعبہ کی قسم، یہ ایسا نور ہے جو چمک رہا ہے، اور ایسا پھول ہے جو جھوم رہا ہے، اور ایسا محل ہے جو بلند و بالا ہے، اور ایسی نہر ہے جو جاری رہنے والی ہے، اور ایسا پھل ہے جو پکا ہوا ہے، اور ایسی بیوی ہے جو بہت حسین و جمیل ہے، لباس ہیں جو بہت ہیں، اور سلامتی کے گھر میں ہمیشہ کیلئے رہنے کی جگہ ہے، میوے ہیں، سبزہ زار ہیں، خوشی ہے، نعمت ہے، بیش قیمت عالیشان مقامات ہیں، صحابہ کرام نے کہا ہاں: یا رسول اللہ ہم
اسکے لئے تیار ہیں، فرمایا: انشاء اللہ کہہ لو، تو صحابہ کرام نے انشاء اللہ کہا۔ (ابن ماجہ ۴۳۳۲۔ در
منشور (۳۶/۱) اتحاف الساده (۵۴۸/۱۰)

جنت کہاں واقع ہے؟
عند سدرة المنتهى عندها جنت الماوئ بيجنت سدرۃ المنتھیٰ کے پاس آرام سے رہنے کی جگہ ہے، سدرۃ المنتہی، ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے نیچے ہے، مسلم کی روایت میں ہے کہ چھٹے آسمان پر اس کی جڑ ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ چھٹے آسمان پر اس کی جڑ ہے، اور شاخیں ساتویں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں (قرطبی) یہ عام فرشتوں کی رسائی کی آخری حد ہے، اسلئے اس کو منتبھی کہا گیا۔

جنت ساتویں آسمان کے اوپر، عرش رحمن کے نیچے ہے، گویا ساتواں آسمان
جنت کی زمین اور عرش رحمن اس کی چھت ہے۔ جنت کتنی عظیم الشان اور کتنی بڑی سلطنت ہے، اسکے بارے میں فرمایا گیا، اور عَرْضُهَا السَّموات والارض أعِدَّتْ للمُتقین، اس جنت کی وسعت ایسی ہے جیسے سب آسمان وزمین، تیار کی گئی ہے خدا سے ڈرنے والوں کیلئے۔ جنت کا راستہ جس راستہ پر چل کر انسان جنت تک پہونچے گا وہ ” صراط مستقیم ہے صراط مستقیم کیا ہے؟ ارشاد باری ہے انَّ الله هُو رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوه هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیم (۲۵، (غرف، آیت ۶۴ بیشک اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے، تو تم اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔ اسی صراط مستقیم پر چلنے اور اس پر قائم رہنے کی ہر مسلمان نماز میں دعائیں کرتا ہے، الهدنا الصراط المستقیم، یعنی دین اسلام پر ہمیں قائم رکھ اور اسی کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا گیا وَانَّ هذا صراطِى مُسْتَقِيماً فاتبعوہ (سورہ انعام پ۷، آیت ۱۵۳) اور بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلو، اسی کے بارے میں حکم ہوا ہے، قل هذه سَبِيْلى اَدْعُو إِلَى اللَّهُ عَلَى بَصِيرَة أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی (سوره یوسف، پ۱۳، آیت ۱۰۵) اے نبی! کہہ دیجئے کہ یہ دین اسلام میرا راستہ، میرا مسلک، میری سنت ہے، میں اللہ کی طرف پورے اعتماد و یقین اور بصیرت کے ساتھ بلا رہا ہوں، اور وہ بھی جو میرے پیروکار ہیں، کیونکہ اسی راستہ پر چل کر ملک کبیر اور اسکے دروازے تک رسائی
ممکن ہو سکے گی۔ اس بڑے ملک کی نعمتیں اور بہاریں، محلات اور نہریں، بازار اور اسکی رونقیں باغات اور اسکی شاخیں، غلمان اور حوریں، دروازے اور دیواریں، اور اس میں پائی جانے والی تمام چیزیں، کیسی ہوں گی، نہ تو کسی نے دیکھا کہ بتائے، نہ کسی نے سنا کہ سنائے، نہ کسی کے دل میں اسکا خیال گذرا کہ اس کا اظہار کرے۔
البتہ جو خالق کائنات نے خود بتایا اور محبوب کبریا نے اس کے بارے میں جو سنایا وہ بلا شبہ برحق ہے، اور اس پر ہمارا مکمل ایمان بھی ہے، کہ جنت بالکل ویسی ہی بے مثل ہے، جس طرح اس کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔

دین اسلام اور جنت
حضرت جابر قفر ماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمایا: (سنن ترندى فى الامثال، ج ۲۸/۶ تفسیر طبری ۷۳/۱۱ (در منشور ۳۰۴/۳) ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا جبرئیل میرے سرہانے ہیں اور میکائیل میرے پاؤں کے پاس ان دونوں میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا تم ان کی یعنی محمد کی مثال بیان کرو تو اس نے (آپ صلى الله عليه وسلم سے مخاطب ہوکر) کہا۔ اپنے کانوں کی پوری توجہ سے سنو، اور اپنے دل کی توجہ سے غور کرو، آپ کی مثال اور آپ کی امت کی مثال اس بادشاہ جیسی ہے، جس نے ایک محل بنوایا، اس میں اس نے ایک کمرہ بنوایا، پھر دستر خوان بچھایا، پھر ایک قاصد کو روانہ کیا کہ وہ لوگوں کو کھانے کی دعوت دے، پس ان میں کچھ لوگوں نے قبول کیا، اور کچھ نے انکار کیا، پس بادشاہ تو اللہ ہے، اور محل اسلام ہے، اور گھر جنت ہے، اور اے محمد! آپ رسول (قاصد) ہیں، پس جس نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا، وہ اسلام میں داخل ہوا، اور جو اسلام میں داخل ہوا، وہ جنت میں داخل ہوا،
اور جو جنت میں میں داخل ہوا، اس نے اس سے کھایا، جو کچھ اس میں موجود ہے۔

جنت کے دروازے کی چابی
حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا مفاتيح الجنة شهادة أن لا إله الا الله! جنت کی کنجی لا الہ الا الہ کی شہادت دینا ہے۔ حضرت وہب بن منبہ نے سعید بن رُمان سے پوچھا، کیا لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں ہے، انہوں نے فرمایا، کیوں نہیں، لیکن ہر چابی کے دندانے ہوتے ہیں، کلمہ کے دندانے (عقائد اور اعمال صالحہ ہیں) جو شخص جنت کے دروازے پر چابی (کلمہ) کے دندانے (اعمال صالحہ) کے ساتھ آیا تو اسکے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا،
اور جو شخص چابی کو دندانوں کے ساتھ نہ لایا، اسکے لئے دروازہ نہیں کھلے گا۔ ۲ حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں، مفتاح الصلواة الوضوء وَمَفْتاح الجنۃ الصلواۃ سے نماز کی کنجی وضوء ہے اور جنت کی چابی نماز ہے۔ان کے علاوہ جہاد کرنا، مساکین اور فقراء سے محبت کرنا بھی جنت کی کنجی ہے (اتحاف السادۃ المتقین
(۲۸۳/۹)

حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا، مـن مـات يؤمن بالله واليَوْمِ الآخِر قيل له ادْخُلِ الجَنَّةَ مِنْ اى ابواب الجنَّة مسند احمد (۲۴۲٫۵) (کنز العمال ۱۸۲۵) البدایہ والنہایة (۱۰۱/۵) سے صفته الجبنة ابونعیم (۳۹/۲) حلیہ (۲۶/۴) کشف الخفاء (۲۱۵/۲) ۳ (مسند احمد (۳۴۰/۳) البدور السافره للسیوطی (۱۷۵۴) سے مجمع الزوائد
۴۹۳۲/۱)۔ مسند احمد (۶/۱)
الثمانية شئت.! جو شخص اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر یقین رکھتا تھا، اُس سے کہا جائیگا کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے، جنت میں داخل ہو جائے۔

حضرت ابو ہریرہ صلى الله عليه وسلم اور حضرت ابو سعید خدری صلى الله عليه وسلم سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلَّى الصَّلوات الخمسَ وَيَصوم رَمَضَان ويُخرِجُ الزكاة ويجْتَنِبُ الكبائر السبع ا لَّا فُتِحَتْ لَهُ ابواب الجنَّة الثمانیہ یوم القيمة کے جو آدمی پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے، رمضان کے روزے رکھتا ہے، زکوۃ نکالتا ہے، سات بڑے گناہوں سے بچتا ہے۔ تو اسکے لئے قیامت کے دن جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئے جائیں گے، سات بڑے گناہ یہ ہیں: شرک باللہ، ناحق کسی کا قتل، پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت، جہاد کے وقت میدان سے فرار ہوجانا، سود کھانا، یتیم کا مال کھا جانا، دار الکفر سے ہجرت کے بعد عورت کی طرف (دار الکفر میں لوٹ جانا۔
بحوالہ۔وقت کے سائے میں ڈاکٹر عبدالرحمن ساجد الظمی۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
86878