Chitral Times

Jun 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جس کھیت سے دھقان کو…… کچھ چترالی کے بارے میں….. پروفیسررحمت کریم بیگ

Posted on
شیئر کریں:

آج کل اس بات پر ہمارے لوگ یعنی چترال کے باشندے بہت تبصرہ کرتے ہیں کہ فلان ملک نے یہ ترقی کی ہے اور فلان ملک نے یہ ترقی کی ہے بس صرف ہم ہیں کہ پسماندہ رہ گئے ہیں اور اپنی پسماندگی کو دوسروں پر ڈالنے میں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرتے اور بے دھڑک دوسروں کو اپنی پسماندگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور غلط کمائی کا الزام بھی لگاتے ہیں جو بلا تحقیق ہوتی ہے اور یہ بری عادت ہے جبکہ تھوڑی دیر کے لئے یہ نہیں سوچتے کہ ہم خود کتنے اپنے بارے میں یعنی اپنی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کتنا کام کرتے ہیں روزانہ ہم کتنے گھنٹے کام میں لگاتے ہیں کماتے کتنے ہیں اور بچاتے کتنے ہیں؟ ہمارے ساتھ کام کرنے والا دوسرے قومیت کا بندہ کتنے گھنٹے کام کرتا ہے اور خرچ کتنا کرتا ہے اور بچاتا کتنا ہے؟ ہم کبھی اپنے پورے مہینے کا خرچہ لکھ کر ہر ماہ کے آخر میں حساب کتاب موازنہ نہیں کرتے۔ میں نے خود بھی کھبی ایسا میزانیہ نہیں بنایا اور نہ کبھی اوروں کو بناتے یا اس سے متعلق کوئی بات کر تے سنا حالانکہ یہ ایک بنیادی چیز ہے اور زندہ رہنے کے لئے ہمیں تھوڑا سا سوچنا بھی چاہئے کہ بچت ایک اھم کام ہے اور وقت کا تقاضا بھی ہے اس بے تحاشا مہنگائی کے دور میں تنخواہ دار طبقے کے لئے بچت مشکل ضرور ہے مگر چترالی ہونے کے ناطے سے ہم میں یہ خوبی موجود نہیں۔

ہمارے مقابلے میں دوسری قومیت کے لوگ چاہے کاروباری ہوں یا ملازمت پیشہ وہ ایک خاص انداز میں بچت کی عادت رکھتے ہیں ہمارے ساتھ ملازمت کرنے والے ہمارے سا تھی اپنی تنخواہ میں سے تھوڑی سی رقم اپنے جیب میں رکھتے تھے اور باقی ساری رقم تنخواہ وصول کرتے ہی اپنے گھروں کو بھیج دیتے تھے اور ان کو ہم نے کھبی فضول خرچی کرتے نہیں دیکھا، بلکہ وہ ہمارے ساتھ میس میں اکھٹا کھانا کھانے کے بعد شاید ہی باہر کھبی چائے پیتے تھے جب کہ ہم بازار جاکر واپس انے پر بھی ٹٰیکسی بک کرتے ہیں اور کھبی کھبی دن میں دو تین بار بھی ایسا ہوتا تھا نتیجتاََ ہماری تنخواہ ہر ماہ کی بیس تاریخ سے شاذ ہی آگے بڑھتی تھی، ہمارے اندر یہ ٖفضول خرچی کیوں ہے؟ کیا آپ مجھے اس کی کوئی وجہ بتا سکیں گے میں خود کسی نتیجے پر نہیں پہنچا ہوں، ہم غیر ضروری خریداری کرتے ہیں اور ایسی ایسی چیزیں بھی خریدتے ہیں جس کا سال میں کبھی صرف ایک بار استعمال ہوتا ہے۔

میں آپ کو چترال سے بروغل جاکر واپس انے کے بارے میں ایک قصہ سناؤں کہ نوے کے عشرے میں مجھے بروغل جانے کی ایک زاتی شوق نے اکسایا اور ایک میرا پٹھان دوست بھی اس سفر میں میرے ساتھ جانے پر آمادہ ہوا حالانکہ یہ یک مشکل سفر ہے اور اس کو دوسرے دوستوں نے کافی سمجھایا بھی مگر وہ کسی طرح نہیں مانا۔ مستوج سے آگے چونکہ ہوٹل نہیں تھے اس لئے میں نے چیدہ چیدہ دیہات میں معتبرات کی ایک لیسٹ بنالی تھی کہ ان کے گھر پر جاکر بن بلائے مہمان بنیں گے اور کھانے کے ساتھ ر ات گزارنے کی جگہ اور بستر بھی مل جائیگی،اس طرح ہم نے شوڑ کوچ تک جیپ میں سفر کیا وہاں سے آگے جیپ کی سڑک نہیں تھی شوڑ کوچ میں جہاں ہم گئے ہمارا میزبان بڑا شاندار آدمی تھا خوب آؤبھگت کی، کھلایا، پلایا اور اس کے پاس بستروں کا ایک گودام تھا اور میر ا ساتھی یہ سب کچھ خاموشی سے مشاہدہ کرتا جاتا تھا۔ دوبارگر میں شاہ جی ابھی حیات تھا اسنے خوب کھلایا اور آگے کی رہنمائی کی۔ شام کو ہم لشٹ پہنچ گئے یعقوب استاد نے ہماری بڑی خدمت کی وہاں سے اشکارواز گئے اور چترال سکاوئٹس والوں نے ہماری بڑی خدمت کی ہر جگہ وافر تعداد میں صاف ستھرے بستر لگے تھے، ہر جگہ مہمان خانہ الگ تھا اور میزبان خوشی سے کھلاتا پلاتا تھا یہ سب کچھ دیکھ کر میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ کیا یہ سب لوگ آپ کے رشتہ د ار ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔وہ تو نہیں، کیا یہ سب آپ کو جانتے ہیں، دوست ہیں؟؟ میں نے کہا کہ وہ بھی نہیں بس یہ ہماری چترالی ثقافت ہے ہم اجنبی کو مہمان بناتے ہیں اس کو کھانا اور رات کے لئے گرم بستر بھی دیتے ہیں ہر ایک گھر میں چند جوڑے صاف بستر ضرور رکھنے کا رواج ہے تو میرے پٹھان دوست نے کہا کہ آپ لوگ بہت مالدار ہیں۔ہمارے پٹھان گاؤں میں صرف ایک حجرہ ہوتا ہے سب کے مہمانوں کو وہاں لایا جاتا ہے کسی بھی بڑے آدمی کے گھر میں زائد بستر نہیں ہوتا بس جو حجرے میں ہوگا مہمان اس پر گذارہ کریگا۔اس نے ہمیں ایک فضو ل خرچ مگر مہمان نواز قوم قرار دیا جس کی اس خطے میں کوئی مثال نہیں ملتی اور میں نے کہا کہ ہمارے دادے پر دادے بھی اسی طرح ٖفضو ل خرچ تھے اور بچت والی بات چترالی میں ابھی پیدا نہیں ہوئی شاید موجودہ مہنگائی چترالی کو بچت پر مجبور کرے یا اس کا دیوالیہ نکال دے۔ میں آپ سے جواب چاہتا ہوں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
24735