Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ: ایک ظالمانہ رویہ  – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on
شیئر کریں:

جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ: ایک ظالمانہ رویہ  – خاطرات :امیرجان حقانی

عیدالاضحیٰ کا موقع مسلمانوں کے لیے ایک مقدس اور عظیم موقع ہوتا ہے، پوری دنیا میں مسلمان اللہ کی رضا کے لیے لاکھوں جانور قربان کرتے ہیں۔ یہ فریضہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی یاد میں ادا کیا جاتا ہے، جس میں ان کی اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ شامل ہے۔ ہر سال کروڈوں مسلمان اس عمل سے گزرتے ہیں ، جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اس مقدس فریضے کو بھی منافع خوری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔
قربانی کے جانوروں کی قیمتیں عیدالاضحیٰ کے قریب آتے ہی آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ جو جانور عام دنوں میں ساٹھ ہزار روپے کا ہوتا ہے، قربانی کے دنوں میں اس کی قیمت لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ دینی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ لوگوں کی استطاعت سے باہر قیمتیں وصول کرنا نہ صرف ظلم ہے بلکہ قربانی کی روح کو بھی مجروح کرتا ہے۔ گزشتہ تین دن سے مناسب قیمت پر جانور کی تلاش میں ہوں مگر قیمتیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ عام انسان جس کے پاس ایک دو جانور ہیں وہ بھی دگنا وصولنے کے چکر میں ہیں ۔
مغربی ممالک میں کرسمس اور ایسٹر جیسے تہواروں پر حکومتیں اور تاجر اشیاء کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں تاکہ عوام اپنی خوشیاں بھرپور طریقے سے منا سکیں۔ کرسمس کے موقع پر مارکیٹ میں مختلف اشیاء پر خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں، اور لوگ اپنی مذہبی تقریبات کو اطمینان کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تہواروں کا اصل مقصد لوگوں کو خوشی اور سکون فراہم کرنا ہوتا ہے، نہ کہ ان کی مشکلات میں اضافہ کرنا۔ کاش مسلمان مغرب سے اتنا بھی سیکھ لیتے۔
کچھ عملی تجاویز ذہن میں آرہی ہیں۔ دل کرتا ہے آپ سے شئیر کروں۔ آپ بھی اپنے طور پراس چیز کو باریک بینی سے دیکھ لیں۔ہمیں اپنے رویے اور تجارتی طرز عمل میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قربانی کا اصل مقصد حاصل ہو سکے.
1.اخلاقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا:
ہمیں اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا ہے، نہ کہ مالی فائدہ۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر جانوروں کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ نہ کریں اور اپنی نیت کو خالص رکھیں۔ تاجر تو چھوڑیں عام مسلمان بھی، جس کے پاس دو چار جانور ہوں دگنا قیمت وصولنے کے چکر میں ہوتا ہے۔
2.حکومتی اقدامات:
حکومت کو چاہئے کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اس سلسلے میں موثر حکومتی پالیسیز اور نگرانی کا نظام ضروری ہے۔ حکومتی ماہرین کوئی فارمولا وضع کرسکتے ہیں۔
3.عوامی شعور بیدار کریں:
ہمیں مجموعی طور پر عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ غیر ضروری طور پر مہنگے جانور خریدنے سے گریز کریں اور اعتدال پسندی کو اپنائیں۔ ہمیں اپنی مالی استطاعت کے مطابق قربانی کرنی چاہیے اور دکھاوے سے بچنا چاہیے۔
4.تجارتی تنظیموں کا کردار:
 تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ اپنے ممبران کو اخلاقی تعلیمات سے آگاہ کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ قربانی کے جانوروں کی قیمتیں مناسب حد میں رکھیں۔ تجارتی تنظیموں کو بھی اس موقع پر خصوصی رعایتوں کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ قربانی کر سکیں۔
5.سوشل میڈیا مہم:
سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے شعور بیدار کیا جائے تاکہ لوگ اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کریں اور مہنگے جانور خریدنے کی دوڑ میں شامل نہ ہوں۔ اس کے علاوہ، علماء اور دینی رہنما بھی لوگوں کو اس حوالے سے رہنمائی فراہم کریں۔ اور یہ مہم بھی چلنا چاہیے کہ جو لوگ یا جن علاقوں میں جانور مہنگے کیے جاتے ہیں یا مصنوعی مہنگائی کی جاتی ہے ان کا بائیکاٹ کرکے دوسری جگہوں سے جانور خریدے جائیں۔
قربانی ایک عظیم دینی فریضہ ہے جو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع پر اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کریں اور اس عمل کو آسان بنائیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی دنیاوی فائدے کے بجائے اللہ کی رضا کو ترجیح دیں۔
آئیے، اس عیدالاضحیٰ پر ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم قربانی کے اس عظیم فریضے کو اعتدال کے ساتھ ادا کریں گے اور اپنے بھائیوں کی خوشیوں میں اضافہ کریں گے۔ اگر جانور مہنگے کیے جائیں تو بہت سارے مخلص اور سفید پوش مسلمان قربانی سے رہ جائیں گے۔
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں دین کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔اور اگر ہم جانور کے تاجر ہیں تو ناجائز منافع خوری سے بچنے اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
90068