Chitral Times

Jun 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جانشین ِ ملک خالد خان۔۔۔۔نثاراحمد

شیئر کریں:

    آج ٹاؤن ہال چترال میں آل پرائمری ٹیچر ایسوسی ایشن (اپٹا)چترال کی طرف سے ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی اپٹا کے صوبائی صدر عزیز اللہ خان، جبکہ صدر ِ مجلس اپٹا چترال کے صدر ضیاء الرحمن تھے دیگر مہمانوں میں شاہ بابا چئیرمین صوبائی سپریم کونسل اپٹا، صوبائی فائنانس سیکرٹری اپٹا ، احمد الدین اے ایس ڈی او اسٹبلشمنٹ چترال ، محمد اشرف اے ایس ڈی او پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ چترال شامل تھے۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض اپٹا چترال کے جنرل سیکرٹری زاہد عالم نے سرانجام دیے۔      جنرل سیکرٹری زاہد عالم کے ابتدائی کلمات اور صدر ضیاء الرحمن کے سپاس نامہ کے بعد اپٹا کے صوبائی چیئرمین سپریم کونسل  شاہ بابا نے خطاب کیا۔

            شاہ بابا نے اپنے خطاب میں اساتذہ کرام کو اپنی پیشہ ورانہ زمہ داری احسن طریقے سے نبھانے اور اپنی روٹی روزی حلال کرنے پرزور دیا۔ انہوں نے کہا کہ تدریس چونکہ پیشہ ء پیغمبری ہے اس لئے ہم سب کو اپنے اندر پیغمبرانہ صفات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ 

          سابق صدر اپٹا لوئر چترال اور موجودہ ASDEO محمد اشرف نے اپنے مختصر خطاب میں اساتذہ کرام کو اپٹا کا دست و بازو بننے، اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفتر سے متعلق اساتذہ برادری کے مسائل کو حل کرنے میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔      بعد ازاں اپنے کلیدی خطاب میں مہمان ِخصوصی عزیز اللہ خان (صوبائی صدر اپٹا) نے کہا کہ ایک دور وہ تھا جب پرائمری ٹیچرز کے مطالبات اساتذہ تنظمیوں کے مطالبات میں جگہ تک نہیں پاتے تھے ایک زمانہ اب یہ ہے کہ پرائمری اساتذہ کے بغیر ال ایمپلائز ایسوسی ایشنز بھی احتجاج کا فیصلہ نہیں کرپاتے۔ تب احتجاجات میں ہراول کردار پرائمری اساتذہ کا ہوتا تھا لیکن مراعات دوسروں کی جھولیوں میں گرتے تھے اب ایسا نہیں ہے۔ اپٹا کی شکل میں پرائمری ٹیچرز کو ایک بہترین ترجمان زبان مل چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے پرائمری ٹیچر سات اسکیل پر بھرتی ہو کر سات پہ ہی ریٹائرڈ ہوتا تھا یا زیادہ سے زیادہ بمشکل نو اور بارہ تک پہنچ کر پنشن جاتا تھا اب اپٹا کی برکت ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچتے پہنچتے سولہ اسکیل تک بآسانی چلا جاتا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو زیور ِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں سینیئر اساتذہ کا کردار بھی اہم ہے اور نوجوان اساتذہ کا بھی۔ ایک کے پاس ایکسٹرا اسکل تجربے کی صورت میں ہے تو دوسرے کے پاس ہائی کوالیفیکشن کی صورت میں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے حقوق کی بات کرنا سیاست نہیں ہے۔ ہم کسی سے خوفزدہ ہوئے بغیر ڈنکے کی چوٹ پر اپنے حقوق کی بات کرتے رہیں گے۔ کیونکہ یہ ہمارا آئنی حق ہے۔ اس آئنی حق کو ہم استعمال کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اساتذہ پر زور دیا کہ پرائمری اسٹیج میں طالب علموں کی علمی بنیاد مضبوط کرنے، اور اُن کی مناسب تربیت کے لئے تن من دھن کی بازی لگائیں۔ کیونکہ ایک بچے کی علمی پختگی پرائمری ایجوکیشن پر انحصار کرتی ہے۔ آخر میں انہوں نے مژدہ سنایا کہ آئندہ کے لئے پرائمری ٹیچر بارا کی بجائے چودہ پہ بھرتی ہو گا۔ اس کے لئے اسی فیصد کام ہو چکا ہے۔ اس طرح یہ پروگرام مصباح استاد کی دعا سے اختتام پذیر ہوا۔

            یہ حقیقت ہے کہ اساتذہ تنظیموں میں آل پرائمری ٹیچر ایسوسی ایشن کا ایک نمایاں مقام ہے۔ نان گزیٹڈ اساتذہ کے پروموشن اسٹرکچر کو اساتذہ کے فیور میں بنانے کے لئے ملک خالد خان مرحوم کی قیادت میں جتنی جدوجہد اپٹا نے کی، کسی اور تنظیم نے نہیں کی۔ یہ اپٹا کی انتھک جدوجہد کا ہی ثمرہ ہے کہ آج بارہ سکیل میں بھرتی ہونے والا ایک پرائمری سکول ٹیچر اور ایک قاری ٹیچر سولہ میں جا کر ریٹائرڈ ہوتا ہے۔ اسی طرح طرح ایس ایس ٹی کیڈر میں جانے کے لئے کوٹہ نہ صرف سی ٹی کیڈر کے لئے مقرر ہوا ہے بلکہ پی ای ٹی ، ڈی ایم ،اے ٹی، ٹی ٹی اور قاری ٹیچر کے لئے بھی ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس جدوجہد میں اپٹا قائدین کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ انہیں دھرنا دینا پڑا تھا، پولیس کی لاٹھیاں اپنی پُشتوں پر سہنی پڑی تھیں، جلوسوں میں ڈنڈے کھانے پڑے تھے۔ کئی دنوں تک تپتی دھوپ میں کھڑے ہو کر احتجاج ریکارڈ کرنا پڑا تھا، تب جا کر اتنی بڑی کامیابی جھولی میں آ گری تھی۔ محسن ِ اساتذہ ملک خالد خان مرحوم کے بعد اب صوبے میں عزیز اللہ خان کی صورت میں انتہائی نڈر اور فعال رہنما موجود ہے جو کسی بھی فورم میں اپٹا کی بہترین نمائندگی کا حق ادا کر رہا ہے۔اسی طرح زاہد عالم اور ضیاء الرحمن کی صورت میں چترال میں بھی اپٹا کی ویژنری اور فعال قیادت موجود ہے۔ اگر پرائمری ٹیچرز اپنے اختلافات کو پس پُشت ڈال کر تنظیم کو مزید مضبوط کرنے کی طرف توجہ دیں گے تو بعید نہیں کہ لوئر چترال میں بھی محمد اشرف کے زمانے کی اپٹا دوبارہ زندہ ہو جائے۔ 

       پروگرام کے اختتام کے بعد گھر آتے ہوئے بائک پر خیالات کے ہجوم نے مجھے جکڑے رکھا۔ سوچتا رہا کہ آج کل بالخصوص پرائمری لیول کے اساتذہ کو کئی طرح کے جینوین مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ درس گاہ کا ہے۔ پرائمری لیول پر پانچ یا چھ کلاسس کے لئے کُل دو عدد درس گاہیں مہیا ہوتی ہیں جن سے ہر ایک میں تین جماعتوں کو بٹھانا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اُن میں سے ایک درس گاہ کے تہائی حصے کو دفتری امور کی انجام دہی کے لئے بھی بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک کتاب کے لئے مختص چودہ منٹوں میں سے آٹھ منٹس بچوں کو خاموش کرانے میں لگتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ پرائمری لیول پر درس گاہوں کی تعداد بھی برھائی جائے اور اساتذہ کی تعداد بھی۔ایک اور مسئلہ پرائمری اساتذہ کی تنخواہوں کا ناکافی ہونا بھی ہے۔ درس و تدریس اور اخلاق و تربیت میں سب سے کلیدی کردار پرائمری اساتذہ کا ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پرائمری اساتذہ کی تنخواہ بھی باقی اساتذہ جتنی ہو، اور پرائمری کے بچوں کو سہولیات بھی زیادہ دی جائیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ پرائمری لیول پر بچے سہولیات سے بھی محروم ہوتے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی خاطر خواہ نہیں ہوتیں۔ استاد کو فکر ِ معاش سے آزاد کیے بغیر تعلیمی انقلاب کیسے لایا جا سکتا ہے؟ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پرائمری اساتذہ کو معیار کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکول میں زبردستی کھینچ لانا اور پڑھائی میں انگیچ رکھنا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ جو بچہ امتحان پاس نہیں کر پاتا اسے بھی پروموٹ کرنا ہوتا ہے۔ اب جب فیل ہونے کا تصور ہی مفقود ہو جائے تو گھر میں بچے کے والدین بچے کی پڑھائی کو لے کر کیوں پریشان ہوں گے۔ والدین اور معاشرہ دونوں بچے کے پڑھائی و نتائج سے بے پروا ہو کر الگ بیٹھے ہوں تو اکیلا استاد کچھ بھی نہیں کر سکتا۔بہر حال مسائل کا مقابلہ وسائل کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔وسائل پیدا کیے بغیر مسائل سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پالیسی سازوں کی سمجھدانی میں اضافہ فرمائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
38758