Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جامع القرآن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

سم اللہ الرحمن الرحیم

جامع القرآن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ

(47ق ھ۔35ھ576/۔656ء)

(18ذوالحجہ یوم شہادت کے حوالے سے خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

 

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کاتعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا۔آپ سابقون الاولون میں سے تھے یعنی مکی دورکے بالکل ابتدائی ایام میں حضرت ابوبکرکی مساعی جمیلہ سے دست نبویﷺپر مشرف باسلام ہوئے۔اسلام قبول کرنے کے جرم میں اہل مکہ نے جوروجفااورقیدوبنداورابتلاوآزمائش کی جو بھٹی گرم کی تھی اس میں سے حضرت عثمان بھی کندن بن کرنکلے۔جلیل القدرصحابی رسول ﷺ اورمسلمانوں کے تیسرے خلیفہ راشدتھے،آپ کاشمارعشرہ مبشرہ میں ہوتاہے یعنی وہ دس خوش نصیب مسلمان صحابہ کرام جنہیں شافع محشرﷺنے اسی دنیامیں جنت میں جانے کی خوشخبری دے دی تھی۔آپ کو”ذوالنورین“بھی کہاجاتاہے کیونکہ آپ کے ساتھ محسن نسوانیتﷺکی دوصاحبزادیوں کانکاح ہوا۔اسی طرح آپ ”غنی“لقب سے ملقب ہوئے کیونکہ آپ بہت مالدارتھے اور دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت اسلام اورمسلمانوں پر لٹاتے تھے۔کاتب تقدیرنے آپ کی قسمت میں دوہجرتوں کااجروثواب لکھ دیاتھا،آپ پہلی مرتبہ حبشہ کی طرف تشریف لے گئے اوردوسری مرتبہ دارالاسلام مدینہ منورہ کی طرف ہجرت  فرمائی۔اہل مدینہ کے لیے پانی کاانتظام آپ کا شاندارکارنامہ ہے جومورخین نے جلی حروف سے لکھاہے جب آپ نے ایک یہودی سے جومہنگے داموں پانی فروخت کرتاتھا،اس کاکنواں خریدکرمسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔متعددغزوات میں شرکت کی اوراپنامال بھی بے دریغ فی سبیل اللہ خرچ کیااور بعض مواقع پر آپﷺکی غیرحاضری میں شہرمدینہ میں نیابت نبوی کے فرائض بھی سرانجام دیے۔صلح حدیبیہ کے موقع پر سفارت کے لیے آپﷺ کاانتخاب مبارک آپ کی ہی ذات بابرکات تھی۔قتل عثمان کی افواہ پر بدلہ کے لیے جوبیعت رضوان ہوئی اس میں آپﷺ نے اپناایک ہاتھ دست عثمان قراردے کر اپنے دوسرے ہاتھ پران کی طرف سے بیعت فرمائی۔شرم و حیاآپ کاخاص شخصی وصف تھا جس کے بارے میں ختمی مرتبتﷺنے فرمایاکہ فرشتے بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے حیاکرتے ہیں۔اسی طرح حضرات ابوبکروعمررضی اللہ تعالی عنھماکے دورمیں بھی وزیرومشیرکی حیثیت سے نظام خلافت پر پہرادیتے رہے،یہاں تک کہ جب حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ دم واپسیں اپنے جانشین کانام رقم کرنے لگے تونقاہت کے باعث غش کھاگئے،حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جودستاویزاستخلاف کی کتابت کررہے تھے انہوں نے اپنی دانست سے ہی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کانام نقش کر دیا،ہوش آیاتو استفسارپرتحریرپڑھ کرسنائی گئی توخلیفۃ الرسول نے مزاج شناسی پرپہلے اللہ اکبرکہااورپھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بہت سی دعائیں دیں۔حالانکہ لالچ اقتدارمیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اپنانام بھی لکھ سکتے تھے۔

امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے مرض الموت میں اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لیے چھ اصحاب رسول کی ایک مجلس کاتقررکیا۔حضرات علی بن ابی طالب،عثمان بن عفان،سعدبن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ اور زبیررضی اللہ تعالی عنھم،اس مجلس کے اراکین تھے۔وصیت کے مطابق تین دنوں میں اس مجلس نے اپناکام ختم کرناتھا۔جب دودن تک گفتگوکاکوئی نتیجہ نہ نکل پایاتوحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے تجویزپیش کی اراکین مجلس کی تعدادکم کردی جائے۔چنانچہ حضرت زبیررضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں دستبردارہوکرکمرے سے باہر چلے گئے،حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں دستبردارہوئے اوردروازہ کھول کر باہر کوسدھارگئے اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپناحق استحقاق حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کوسونپ دیا۔بقیہ تین افرادمیں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی حق اقتدارسے علیحدگی کااعلان کردیا،اب حضرت علی اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنھمارہ گئے،ان دونوں بزرگوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کواپناثالث بنالیا اوران کے فیصلے پر اپنی رضامندی کااظہارکردیا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے مشاورت اورغوروحوض کے بعدمسلمانوں کومسجدبنوی شریف میں جمع کیااوراورایک مختصراورجامع خطبہ ارشادفرمایا،اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کومنبررسولﷺپر براجمان فرمایااوران کی بیعت خلافت کی،ان کے بعدحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت کی اورپھرعامۃ المسلمین نے اپنی گردن میں امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان کی اطاعت معروف کاقلاوہ ڈال لیا۔اس وقت خلافت اسلامیہ کم و بیش نصف دنیاکی وسعت پر ارتقاء پزیرتھی،سرزمین ایشیا،افریقہ اور یورپ کے ساحلی علاقے اس ریاست کی قلمرومیں شامل ہوچکے تھے۔اتنی بڑی ریاست کے لیے حکمران کاپرامن تعین آج اکیسویں صدی کی دہلیزپرسیکولرازم کی شاخصانہ سرمایادارانہ نظام جمہوریت کے منہ پر زوردارطمانچہ ہے۔آج چھوٹے چھوٹے ممالک میں جمہوری تماشے کے دوران انتقال اقتدارکے لیے ہونے والے انتخابی فسادات میں کتنے ہی افرادلقمہ اجل بن جاتے ہیں،فرانس اورروس کے انقلابات اوردوعالمی جنگوں سمیت عالمی کشمکش کے حامل ایک مختصرسیکولرطبقے کی ہوس اقتدانے کروڑہا گھرانے پھونک ڈالے اور انسانیت آج ناک تک سودمیں پھنسی عریانی اورفحاشی میں سکون قلب ڈھونڈنے کے لیے تباہی کے دہانے پرہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کادورخلافت کم و بیش بارہ سالوں پرمحیط ہے۔مورخین اسے دوبرابرحصوں میں تقسیم کرتے ہیں،نصف اول بہت امن و امان،ترقی اورخوشحالی کادورتھا جب کہ نصف آخرشورشوں،بغاوتوں اور فسادات کادوررہا۔نصف اول کی بظاہرایک ہی وجہ نظرآتی ہے کہ اس دورمیں امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی جملہ باقیات موجودرہیں اورمرکزکارعب ودبدبہ قائم رہا۔نصف آخرکے چھ سالوں میں بگاڑکی بہت ساری وجوہات ہیں؛ ان میں سے اہم وجہ دورنبوت سے دوری اور صحابہ کبارکا کاروباردنیاسے دستکش ہو کر بارگاہ ایزدی میں حاضری ہے۔حضرات ابوبکرصدیق و عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنھمااس لحاظ سے خوش قسمت تھے انہیں خاتم النبیین ﷺکے تیاکردہ افراد میسرآگئے تھے،انہوں نے ان افرادکی فطری صلاحیتوں اور زہدوتقوی سے بھرپورفائدہ اٹھایااور ایک مثالی ریاست کی مثال دنیاکے سامنے پیش کی۔امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کازمانہ آتے آتے یہ نفوس قدسیہ زمین کے سینے سے زمین کے پیٹ میں سدھارگئے تھے اواپنے پیچھے ایک بہت بڑاخلاچھوڑ گئے جوشایدتاقیامت بھرانہ جاسکے گا۔ریاست میں عام بے چینی کی ایک اوروجہ عجمی مسلمانوں کی دائرہ اسلام میں آمدتھی۔عجمیوں نے اگرچہ اسلام قبول کرلیاتھا لیکن وہ صحبت نبویﷺ سے اور لسان القرآن مجیدسے نابلدرہے،اس لیے نہ صرف یہ کہ للھہیت اوراخلاص کے اعلی درجات ان میں عنقارہے بلکہ ان کامقتدرطبقہ آتش ہزیمت میں جھلستارہااور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتارہاجس کے نتیجے میں ریاست اسلامیہ کمزورہوتی رہی۔اس سارے معاملے میں امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پیرانہ تقاضائے بشریت کوبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔انہیں سترسال کی عمرمیں اقتدارسونپاگیااوربیاسی برس کی عمرتک وہ اپنی منصبی ذمہ داریاں پوری جفاکشی اور ان تھک ہمت اورطاقت سے اداکرتے رہے لیکن ان کی ذاتی نرم مزاجی اور عمررسیدگی کے اثرات کا قوائے ریاست پراثراندازہونافطری تھا۔

حضرت عثمان کے ابتدائی زمانے میں وہ علاقے فتح ہوئے جہاں دورفاروقی میں عسکری کشمکش جاری تھی،طرابلس،الجزائر اورمراکش ان میں شامل ہیں۔اندلس پر آپ کے زمانے میں چڑھائی کی گئی لیکن اس مہم کوبوجوہ نامکمل رہنے دیاگیا۔قبرص جس کوآج کل سائپرس کہتے ہیں اس علاقے کوآپ کے زمانے میں فتح کیاگیا۔امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے مایہ ناز فوجی کماندارعبداللہ بن عامر نے ہرات،کابل اورسجستان کوفتح کیا اوراس کے بعدمرکزکی اجازت سے طبرستان پربھی چڑھائی کی اوربہت سے علاقوں کو اسلامی قلمرومیں داخل کیا۔آپ کے زمانے میں بڑھتی ہوئی فتوحات کے باعث پہلااسلامی بحری بیڑہ بھی اسلامی ریاست کے دفاع کاحصہ بنااوررومیوں سے ایک بہت بڑی بحری جنگ میں اس بحری بیڑے نے اپنافیصلہ کن کرداراداکرکے سپاہ اسلامیہ کو فتح سے ہمکنارکیا۔امت مسلمہ کوقرآن مجیدکی ایک قرات پرجمع کردیناآپ ایساشاندارکارنامہ ہے جسے سنہرے حروف سے لکھاجاتاہے۔ دورحکومت کے آخری ایام میں ریاست انتشارکاشکارہوگئی،بلوائی دارالخلافت تک آن پہنچے۔حضرت عثمان سے بارہاکہاگیاکہ اپنی حفاظت کاانتظام کریں اور ان بلوائیوں کی سرکوبی کاحکم دیں۔آپ کے ہزاروں آزادکردہ غلاموں سمیت مسلمانوں کاایک انبوہ کثیرآپ کے ایک اشارے کامنتظرتھالیکن آپ نے حرمت شہرمدینہ کوپامال کرنے کی اجازت نہیں دی۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حسنین کریمین  رضی اللہ تعالی عنھماکو امیرالمومنین کے گھرکے باہر حفاظت کے لیے مامورکیااسی لیے بلوائی گھرکے راستے کی بجائے پچھلی طرف سے کودکرداخل ہوئے اورتلاوت میں مصروف امیرالمومنین کو اپنی تلواروں کے نشانے پرلے لیا،اناللہ واناالیہ راجعون۔آج سیکولرذہنیت کے حکمران اپنااقتداربچانے کے لیے عوام کے خون کی ندیاں بہادیتے ہیں جب کہ ایک خلیفہ راشداورنبیﷺکے سچے وارث نے عوام کی جان ومال اورعزت و آبروبچانے کے لیے جام شہادت نوش فرمالیا۔

[email protected]


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
63609