Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تیسری آنکھ ……….. ظلمت کے نگہباں…………. حمید الرحمن سُرُورؔ

Posted on
شیئر کریں:

……………………………………………………………………………………………………..ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں!
گزشتہ دہائی میں ہونے والی ٹیکنالوجیکل ایجادات نے انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ایک بار پھر بحثیت قوم ان تمام چیزوں سے ہماری معمولات زندگی میں تبدیلی تو آگئی ہے لیکن ہمارا سوچ اب بھی 1700ء کی دہایوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہم تمام معاشرتی بُرائیاں براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اندھے بن کر پھر رہے ہیں۔ گھر کا سربراہ مقرر کرنے سے لے کر سیاسی رہنما چُننے تک کا ہمارا معیار اور طریقہ اب بھی ایمانداری پر مبنی نہیں ہوتاہے ۔ پوری دُنیا میں انسانی اقدار کے تحفظ ، اُن کے فروغ ، بنی نوع انسان کی ترقی اور معاشرتی ہم آہنگی، معاشی آسودگی کے لئے کوششیں بروئے کار لائی جارہی ہیں۔ الیکٹرانگ اور سوشل میڈیا پوری دُنیا میں معاشرتی ناانصافیوں کو کم کرنے کا زریعہ بنتا جا رہا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ سب بھی مزید انتشار، عدم برداشت اور تصادم میں اضافہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ نہ جانے ہم مجموعی طور پر کس ٹریک پر کس طرف کو جارہے ہیں کچھ پتہ نہیں ہے، کونسی بُنیادی غلطی ایسی کر رہے ہیں جو ہمیں روز بروز تباہی کے دہانے کی طرف لے کر جارہی ہے۔ کوئی دانشور، کوئی تجزیہ کار، کوئی عالم، کوئی محقق، کوئی مذہبی رہنما اس بُنیادی نکتے پر تھوڑی دیر غور تک کرنے کو تیار نہیں۔ کچھ حضرات اس معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی زوال کی وجہ کچھ بیروتی قوتوں یا آہنی ہاتھوں کو قرار دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
اس ڈگر میں رہزن ڈھونڈنے نکلو تو رہنماؤں سے ملاقات ہو جاتی ہے اور رہنما تلاش کریں تو رہزنوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ جھوٹ ، دھوکہ، حرام خوری کی ہر شاخ پر پھول ہی پھول کھلے ہوتے ہیں جبکہ سچ کا ہرپودا اُگنے سے پہلے مُرجھایا ہوا ملتا ہے۔ گزشتہ دنوں نواز شریف اور اُس کی بیٹی جسے ملک کی اعلی عدلیہ چور، کرپٹ اور نا اہل قرار دے چُکی ہے اُس کے استقبال کے لئے گھروں سے نکلے لوگ کس منہ سے اپنے بچوں کو چہرہ دیکھاتے ہونگے یہ میرے سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر نواز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی اور زرداری بھی ملکی سیاست سب سے بہتر جانتے ہیں تو ملک کو اس تباہی کے دہانے پر کس نے پہنچایا، گزشتہ تین دہایوں سے تو یہی سیاسی پارٹی ملک پر حکمرانی کرتے آرہے ہیں ۔ نہ جانے کونسا راکٹ سائنس ہے یہ اتنی سی بات بھی اس ملک میں بسنے والے فارغ العقل لوگوں کے سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ بچپن سے لے کر آج تک جو کچھ کتابوں میں پڑھا سب جھوٹ ، فریب اور سراب لگتا ہے۔ معاشرے کا حقیقی چہرہ ہم سب سے جان بوجھ کر چھپانے کے پیچھے کیا پوشیدہ فوائد تھے آج تک پتہ نہیں لگ سکا۔ وہ تمام ایمانداری، عزت نفس، معاشرتی آداب کے اسباق جن ،پریوں کی کہانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ حقیقی زندگی میں ان تمام اقدار سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ جس معاشرے میں گھر میں ماں باپ بھی اپنے اُس بچے پر زیادہ مہربان ہوں جو سب سے زیادہ کما کر لا رہا ہو، جہاں گھروں میں اچھے الفا ظ سے لے کر اچھا کھانا تک اُس لاڈلے کے لئے ہوں جو باقی بچوں سے زیادہ کما کر دے رہا ہو بھلے وہ حرام کما کر لا ئے یا حلال تو وہاں اُصول معاشرت ، اخلاقی اور سماجی اقدار کی کیا حیثیت ہو گی صاف عیاں ہے۔ اُس معاشرے میں پھر لوگ چوروں ، لُٹیروں اور بد عنواں بد کردار لوگوں کے اردگرد ہی جمع ہونگے۔ اُس معاشرے میں پھر طاقت اور اختیار کے سامنے سجدہ کرنے پر فخر محسوس کرنا عام ہو گا ۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ہمارے اخلاقی اقدار کا چہرہ مسخ کرنے میں کسی بیرونی قوت کا ہاتھ نہیں، ہمیں جھوٹ کی کشتی میں کسی یہودی سازش کے تحت بیٹھایا نہیں گیا ہے۔ آج ہم معاشی زوال سے لے کر اخلاقی زوال تک جس بربادی سے دوچار ہیں اس کی وجہ ہمارے اپنے کرتوت، ہمارے اپنے جرائم، ہماری اپنی روش ہے اور اب تو ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے فیصلے ہمارے ہی پنچایت دیتی ہیں۔ سازش امریکہ کرے یا بھارت بم دھماکہ کرنے والے ہمارے ہی شہری ہیں۔ کراچی کے 8 ہزار ٹارگٹ کلرز بھی پاکستانی ہی تھے۔ زینب جیسی بچیوں کا ریپ کرنے والے ہمارے ہی سوسائٹی میں پلے بڑھے ہیں۔ جس ملک میں صرف 1100 لوگوں کے پاس باقی 22کروڑ لوگوں سے زیادہ دولت ہو، جہاں عام آدمی کے پاس بیمار بچے کے لیے چند سو روپے میں دوائی لینے کو پیسے نہ ہوں اور زرداری، نواز شریف جیسے لوگوں کے اربوں روپے تجوریوں میں بے سود پڑے ہوں۔ جہاں سیاست داں ذاتی جرائم اور بد عنوانیوں کی سزا کاٹ کر جیل سے نکلتے ہوئے Victory کا نشان بنا کر نکلیں اور باہر ہزاروں ذہنی غلام اُس کے استقبال کے لئے کھڑے ہوں، جہاں 27377روپے بیسیک تنخواہ لینے والا MNA چند سالوں میں لاکھوں مالیت کی تو صرف کھڑی پہن کر، لاکھوں کروڑوں کی گاڑی میں سوار ہو کر اگلے الیکشن میں عوام کے پاس جائے اور بجائے عوام اُس کا مُنہ کالا کرکے گلیوں میں گھُمانے کے اُس کے ہاتھ پر بیت کرنے کو قابل فخر کارنامہ تصور کرتے ہوں اُس ملک کے لوگوں کے ایمان، سوچ، ضمیر کی پستی ناپنے کے لئے بھی شائد ابھی تک کوئی پیمانہ نہیں بنا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہمیں اس غربت، جہالت، ظلمت، نا انصافی، قانون شکنی ، جھوٹ پر مبنی، فریب زدہ اور زوال شدہ معاشرے میں سانس لینے کی عادت ہوگئی ہے بلکہ ہمیں اس معاشرتی انتشار سے محبت سی ہو گئی ہے۔ ہم خود اس ظلمت کے در کے نگہبان ہیں جس ظلمت کا ہم رونا روتے رہتے ہیں۔ ہم نے خود چند جاہلوں کو اُٹھا کر ایوانوں میں پہنچایا ہے اور اُن کوفرعون بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے ان بدترین حقائق سے دُور ایک بہترین دُنیا اپنی خیالوں میں بسایا ہوا ہے، فرصت ملنے پر ہمارے سیاسی رہنما، مذہبی ٹھیکیدار، معاشرتی وڈیرے، سردار، چوہدری صاحب وغیرہ ہمیں اُس خیالی دُنیا کی سیر کراکرواپس بد ترین حقائق کی دُنیا میں چھوڑ جاتے ہیں جہاں ہمارے معاشرتی اقدار کا چہرہ بُری طرح مسخ شدہ ہے۔ جہان علمی اداروں میں جہالت بٹ رہی ہے، سیاسی رہنما سہانے خواب کے دو نمبر منجن فروخت کرتے ہیں۔ جہاں ہم باتیں انصاف کی کرتے ہیں لیکن چوکیداری ظلمت کے دروازے پر کرتے ہیں۔جہاں ہم گفتار کے منصف اورکردار کے مجرم ہیں ۔کل میں نے اپنے دادا جی سے فون پر بات کی تو چونکہ الیکشن قریب ہیں تو میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ کو تمام سیاسی سربراہوں میں بہتر انسان ، قدرے ایماندار یا سچا کون لگتا ہے تو اُنہوں نے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کا نام لیا لیکن جونہی آپ کس کو ووُٹ دینے لگے ہو کہا تو ایک اور سیاسی پارٹی کا نام لیا۔ ہم سب کا رویہ بھی ایسا ہی ہے۔ نواز شریف جس پر 300 ارب کے کرپشن کا الزام ہے اور جو دو سال تک جواب نہیں دے سکا کہ پیسہ کہاں سے آیا ایون فیلڈ اپارٹمنٹ خریدنے کے لئے ، وطن واپسی کے وقت میڈیا کے سامنے مُنہ چھپانے کے بجائے وکٹری کا نشان بنا رہا ہے گویا کشمیر کو آزاد کروا کر یا پاکستان کے سارے قرضے ادا کرکے آرہا تھا۔ اور غربت جہالت کے مارے کچھ لوگ بھی ہنوز اُس سے ہمدری کا اظہار کرکے کہہ رہے ہیں کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ جناب ہم اور آپ اگر موٹر سائکل پر کہیں جارہے ہوں اور پولیس کا سپاہی بھی اگر روک کر پوچھے کہ بتاؤ موٹر سائکل کس کے نام پر ہے تو جھٹ سے کاغذات نکال کر دیکھانی پڑتی ہے، کاغذات اگر گھر پر بھی بھول کر آئے ہیں تو اگلے ایک گھنٹے میں حوالات میں ہوتے ہیں۔ اُس نے تو دو سال بعد بھی اربوں مالیت کے گھر کے کاغذات نہیں دیکھائے تو پھر ناانصافی کیسا ؟َ ہم سب جاتنے ہیں کہ ہر سیاسی شخص حرص اور ناجائز دولت کمانے کے لالچ میں سیاست میں آتا ہے اور نواز شریف سمیت ہر سیاست داں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق عوام کا پیسہ کھایا ہے۔لیکن پھر بھی ہم ان ظالموں کے درباری اور خوشامدی بنے پھرتے ہیں کیوں کہ ہمارے اندر بھی کہیں نہ کہیں چھوٹا نواز شریف، چھوٹا زرداری، چھوٹے سائز کا چور، ڈاکو اور لُٹیرا گھر کر بیٹھا ہے۔ صرف اپنے علاقے محلوں میں ہی دیکھ لیں ایک بچہ ایمانداری سے محنت کرکے پڑھ لکھ کر سالوں نوکری کرکے لاکھوں کی تنخواہ لینے کے باوجود پوری زندگی نوکری کرنے کے بعد کسی اچھے علاقے میں ایک گھربھی مشکل سے خرید پاتاہے۔ ایک اور شخص دو نمبر انٹر کا سرٹیفکیٹ بنوا کر باقی جعلسازی، لُوٹ کھسوٹ اور قانون شکنی میں ماسٹر کرکے ایم ۔این۔اے یا ایم ۔پی۔اے بنتا ہے اور کچھ سالوں میں ہی کروڑوں اربوں کا مالک بن جاتا ہے، چترال میں ہی دیکھ لیں ، تمام ارکان اسمبلی کے حالات پہلے کیا تھے اور صرف ایک بار رکنِ اسمبلی بننے کے بعد کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے سابق ایک ایم پی اے ایک چھوٹے سے گاؤ ں میں پرچوں کی دُکان چلا رہا تھا، آج کروڑوں کی جائیداد کا مالک بن بیٹھا ہے۔ سوچنے کی بات ہے پارلیمنٹ میں کونسے ہر ممبر کی کرسی کے نیچے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے یا پارلیمنٹ کے آنگن میں کونسا ایسا درخت ہے جس میں ڈالر اُگتے ہیں جو ہر پارلیمنٹیرین چند سالوں میں ہی اربوں میں کھیلنے لگتا ہے۔ شوشل میڈیا پر اچھے بھلے لوگ اب بھی نواز شریف اور زرداری جیسے لُٹیروں کی چابلوسی میں گریباں پکڑنے پر آجاتے ہیں۔ اس دور میں بھی کھانا پینا افورڈ نہ کرنے والے انہی فرعونوں کی غلامی پر ایسے رضامند ہیں جیسے وہ پیدا ہی اُن کی اور اُن کے اولاد کی غلامی کے لئے ہوئے ہیں۔ ہم پہلے سے تہیہ کرکے بیٹھے ہیں کہ لیڈر ہماری نسل میں پیدا نہیں ہونا، یہی نواز شریف اور زرداری جیسے لوگوں کے خاندانوں میں ہی اوتار پیدا ہوتے ہیں جو ہم پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں۔ بلاول زرداری آج کے اس جدید دور میں بھی وراثت میں ملے روٹی ۔ کپڑا۔مکان کا نعرہ لیے حکمران بننے کا یقین رکھتے ہیں۔ اتنی سی بات بھی ہماری کھوپڑی میں کیوں آسانی سے نہیں گھستی کہ بلاول زرداری کے نانا نے یہ نعرہ لگایا تھا جب دو وقت کی روٹی ہی انسان کی اولین ضرورت تھی۔ اگر بلاول صاحب کے نانا ، امّی اور والد اقتدار کا مزہ کئی بار لینے کے باوجود بھی غریبوں کو روٹی ۔کپڑا اور مکان نہ دے سکے تو بلاول زرداری کو آج بھی روٹی کا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑ کر غریبوں کو اپنے پیچھے بھگانے سے پہلے شرم کیوں نہیں آرہی۔ آج انسانی ضرورتوں کی Hierarchy وہ نہیں جوموصوف کے نانا کے زمانے میں تھا۔ آج سیکورٹی سب سے پہلی ضرورت شمارہوتی ہے، آج نوجوانوں کے لیے انٹرنیٹ Facility سب سے اہم ہے۔ آج خواندگی کسی کام کا نہیں Quality Education کا فقدان ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جناب سیاسی ٹھگوں کو خواب ہی بیچنے ہیں تو کم از کم خواب تو واقعی سہانے ہوں ۔ ایک اور جھوٹ ہم اپنے آپ سے یہ بولتے ہیں کہ فلاں پارٹی نے قوم کی خدمت کی ہے تو ہم اس لیے اس کے ساتھ کھڑے ہیں، فلاں شخص عوام کی بہترین خدمت کرے گا کیوں کہ وہ سیاست میں آیا ہی خدمت کے لئے ہے۔ اور سیاسی ٹھگ بھی ہم سے یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم سیاست میں آئے ہی عوام کی خدمت کے لیے ہیں۔ ڈاکٹر عبدوالقدیر خان جس کا پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار رہا ہے اُس کی خدمت کی پھر ہم قدر اُس طرح کیوں نہیں کر رہے ؟ اُنہوں نے د و دفعہ الیکشن لڑنے کے بعد دلبرداشتہ ہو کر سیاست سے توبہ کر لی۔ کیا تیس چالیس ہزار ووُٹ پر اُس کا حق نہیں ؟ اگر بات قومی خدمت کی ہے تو ؟۔ اگر سارے سیاست داں عوامی خدمت کے لیے اتنے ہی مرے جارہے ہیں تو سیاست کے علاوہ کوئی کسی عوامی خدمت کے میدان میں کوئی نظر کیوں نہیں آرہا ؟ عبدالستار ایدھی نے اکیلے 60 سال عوام کی بے لوث میں گزارے ، اُس کے دُنیا سے رخصت ہونے پر ہمارے پاس گنتی کے 5 یا 10 ایدھی کیوں نہیں ہیں ؟ ایک سیاست داں نے اگر اقتدار میں آئے بغیر اس ملک میں کینسر ہسپتال بنایا ہے تو باقی حکومت کے سیاو و سفید کا مالک ہر کر بھی عوام کے لئے ایسے ادارے کیوں نہیں بناتے ؟ ہم بس اپنی انا کا مسلہ تصور کرکے قومیت پرستی، علاقہ پرستی یا مسلک کی بُنیاد پر اندھے بہرے ہو کر کسی بھی سیاسی ٹھگ کو آگے لا کر خود اُس کا آلاء کار بن جاتے ہیں اور بدلے میں ہمیں مزید جہالت، جھوٹے وعدے، غربت، مہنگائی اوربے روزگاری جیسے قیمتی انعامات ہی ہمیشہ ملتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ ہے جس کو دیکھنے کے لئے بھی ہم تیار نہیں ہیں۔ ہم بس اپنے آپ سے، اپنے ارد گرد ہر انسان سے جھوٹ بولنے کے عادی ہو چُکے ہیں۔ اب تو جھوٹ ہمارے DNA کا حصہ بن چُکی ہے۔
خاندانی سیاسی شعبدہ بازوں کا نام لینے پر بھی لوگ پلٹ کر وار کرنے پر آجاتے ہیں یا پھر ایک دم سے ایک لیبل لگا دیتے ہیں کہ لکھنے والا فلاں پارٹی کا کارکن یا ہمدرد ہے اور جوابا شوشل میڈیا پر تندو تیز الفاظ کے تیر برسانے پر آجاتے ہیں۔ اگر ، لیکن، مگر، سب ہٹا کر زیرو میٹر ہو کر ایک سیکنڈ سوچنے سے ہی احساس ہوجائے گا کہ بد قسمتی سے یہ تمام باتیں سچی ہیں۔ یہ سب تلخ حقائق ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر بد بختی یہ کہ اب تو حقائق جاننے کے باوجود بھی ہم میں سے بہت سوں کی سوچ تبدیل نہیں ہوپاتی۔ہم میں سے اکثر اسی ظلمت کے در کے نگہباں ہیں۔ اسی فرعونیت کے شیئر ہولڈر ہیں۔ میں ہمارے سماجی معاشرتی اور روز مرہ کے اخلاقی اقدار کی بات کر رہا ہوں ۔ یہ وہ مسائل ہیں جن سے ہم صدیوں سے دوچار ہیں۔ ان کا تعلق ہمارے مجموعی زوال اور جہالت و غربت سے ہے۔ ہمارے تمام باقی مسائل کی جڑ بھی یہی بُنیادی اسباب ہیں۔ ان مسائل کو تسلیم کرنا ، ان کی وجوہات جاننے کی کوشش کرنا اور ان مسائل کے حل کی طرف جانے سے شائد ہم دُنیا میں پھر سے زندہ قوموں میں شُمار ہوں۔ نہیں تو زوال سے اگلے سٹاپ کو خاتمہ ہی کہتے ہیں۔ آپ وُوٹ جس پارٹی کو بھی دیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ آپ انگھوٹا اپنے ضمیر کی مان رکھ کر لگائیں، باقی تمام نفع نقصان، مفاد، رشتہ داری، قومیت،علاقہ صرف اُس ایک لمحے کے لیے بھول جائیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترینTagged
11966