Chitral Times

Jun 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تندرستی ہزار نعمت ہے…………… بر ملا اظہار: فدا علی شاہ غذریؔ

شیئر کریں:

20 دسمبر 2018 کی رات جب وادی سوات کی وجا ہتوں کو خدا حافظ کہہ کر اسلام آباد کی جا نب رخت سفر با ندھا تو دل اُداس اُداس دھڑک رہا تھا۔ کئی سو چ و تمنا دل کے چاروں گو شوں سے سر اٹھا رہے تھے، کچھ لطیف خیالات سے فر حت محسوس ہورہی تھی جبکہ ان ہی گوشوں سے ما ضی سے منسلک یا دوں کی ڈھیر سے دھواں بھی اُٹھ رہا تھا۔ مینگو رہ کے جدید بازار سے گزر ہوا تو دل مزید اُداسی کی لپیٹ میں رہا کیو نکہ یہ وہی مینگورہ تھا جو مینگاوری کے نام سے سن بلو غت میں اپنے والد محترم سے سن رکھا تھا۔ میرے والد محترم اور گاوں کے بزرگ عما ئدین برا ستہ ہندرپ نالہ وادی کلام سے ہو تے ہو ئے مینگورہ آ یا کر تے تھے وہاں سے سودا سلف لے کر واپس اُسی راستے کئی دنوں کی مسا فت طے کر کے پھنڈر پہنچ جا تے تھے۔ اور میں اُسی منگاوری میں تھا جہاں میرے تا یا جان اور ولد صا حب پہلی بار ٹرک سے واقف ہو ئے تھے جو اُن کو ملتستان سے مینگورہ تک چھت پہ بیٹھا کر لے آیا تھا۔ اُن کی زبا نی جس شہر کا نام سنا تھا ٹھیک ڈھا ئی عشروں کے بعد اُسی شہر میں اُن کا رودادِ سفر مجھے اُداس کر رہا تھا۔
ہماری گاڑی تیزی سے چکدرہ کی جانب دوڑ رہی تھی لیکن میرے تخیل کی پرواز مینگورہ، کلام، ملتستان سے ہو تی ہو ئی ہندرپ نا لے کے دشوار گزار دروں اور راستوں پر جا ری تھی اور میں اپنے گاوں کے اُن بزرگوں کے نقش پا ڈھو نڈ نے میں مصروف تھا جن کو ضرو ریات زندگی اور جغرا فیا ئی پسما ندگی نے اتنی مشکل مسافت طے کر نے پر مجبور کر چکی تھیں۔ آصف صا حب کی آواز سے مجھے جاری سفر کا احساس ہوا تو میں اُن کو اپنے بزرگوں کے اُس سفر کا روداد سنانے لگا اور خوا ہش کا اظہار کیا کہ گر میوں کے دوران میں بھی اسی راستے سے ہو تے ہو ئے وادی ِپھنڈر پہنچ جا وں تا کہ مجھے احساس ہو سکے کہ اتنی طو یل مسافت کے بعد اپنے خاندان کی ضرو ریات زندگی پو ری کر نے کا ہنر کتنا مشکل تھا جو صرف اُ ن بزرگوں کو آتاتھا۔ دوران سفر ہی اپنے ارادے کو سو شل میڈیا کے ذریعے دوستوں کو آگاہ کیا تو کئی احباب نے بھی سفر میں ساتھ ہو نے کی حا می بھر لی، لیکن اللہ تعا لیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا میرا رادہ ادھو رہ رہا اور اگلے دن مجھے بستر سے اُ ٹھنے کی سکت نہیں ہو ئی لاکھ کو شش کے با و جود بھی میرے جسم کا نچلا حصہ ہل نہ سکا۔میرے وجود کیساتھ عر صہ دراز سے منسلک کمر کے مہروں کی شکایت شدت اختیار کر چکی تھی اور مجھے بستر مرگ کے مسا فر بنا نے کی نوید سنا رہی تھی۔ میری آنکھوں میں زندگی فلم کی طرح پیش ہو نے لگی اور میں بے اختیار آسمان کی طرف دیکھ کر اپنی بے بسی کا اظہار کر تے ہو ئے کہنے لگا
ای بے اسپوک چو لینی بے شا ئے آرمانن گا نی
بو غاوا ڈوم چھو ریتائے لوڑاوا بوم پو ریتا ئے
.
یوں ہر آ ئے روز میرے اور درد کے درمیان دو ستی بڑ ھتی ہو گئی، میں اپنی صحت کھو چکا تھا اور بھا ری بھر کم جسم کا بو جھ دوستوں، رشتوں اور عزیزوں کے کندھوں پر آن پڑا تھاجو انہوں نے نہا یت خندہ پیشا نی سے اُ ٹھا تے رہے۔ چار مہینے مجھے بستر نے اپنا لیا اور اسی دوران میرے احباب، رشتے اور خاندان نے میرے حو صلے بڑھا تے رہے اور ددر کو شکست دینے کا گُر سکھا تے رہے۔ میں رب ِ کر یم کا شکر گزار ہوں جس نے میرے خشک رگوں میں دوران خون بحال کر کے مجھے دو بارہ صحت جیسی اہم دولت اور نعمت سے سر فرازکیا۔ میں اپنے اُن تمام دوستوں اور رشتوں کا فر داً فرداً مشکور ہوں جنہوں نے میری خبر گیری کر تے رہے۔ مجھے اپنے بے پناہ محبت رکھنے والے والدین، بھا ئیوں، بہنوں اور خاندان کے ہر فرد پر فخر ہے جو مجھے زندگی کے اس کھٹن مو ڑ پر سہارا بن کر سنبھا لتے رہے، میرے خا ندان کے صبرو استقلال نے بلا آخر آغا خان ہسپتال کرا چی میں درد کو شکست دے کر ایک مر تبہ پھر میرے جسم کو طا قت مہیا کی اور مجھے اپنے پاوں پر دو بارہ کھڑا کر دیئے۔
میں اس درد کا بھی احسان مند ہوں جو مجھے بستر پر روز ایک ہی سبق یا د کرواتا رہا کہ تندرسی ہزار نعمت ہے، یہ درد ہی تھا کہ جس نے مجھے شا عر قر بان علی سالک سے متفق نہ ہو نے کا درس بھی دیا کیونکہ اُن کے نزدیک تندرستی تنگ دستی کے بغیر نعمت ہے جیسے کہ خود لکھتے ہیں؛
تنگ دستی اگر نہ ہو سا لک
تندرسی ہزار نعمت ہے
.
جبکہ میں تندرستی کو دُنیا کی سب سے بڑی دولت و نعمت سمجھنے لگا ہوں اور دنیا کہ اس بڑی حقیقت تک رسا ئی مجھے زندگی کی ۵۳ بہا ریں گزار نے کے بعد بھی نصیب نہیں ہو ئی تھی چند مہینے دردکی رفا قت نے یہ راز اشکا ر کر دی کہ تندرستی ہی اصل نعمت ہے۔ مجھے بفضل اللہ تعا لیٰ تندرستی دو بارہ مل چکی ہے میں اپنے اُن تمام دو ستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ اس طویل بیماری اور طبعی آرام کے دوران کچھ وعدے ایفا نہیں ہو سکے،ملا قات نصیب نہیں رہی اور دانستہ اور غیر دانستہ طور پر دو ریاں بھی پیدا ہو ئیں۔ میرے احباب دل بڑا رکھے اور مجھے اپنی غلطیاں
سد ھا رنے کا مو قع عنا یت فر ما ئے تا کہ ایک نئی زندگی کا آغاز نئے جذبوں اور ولولوں سے شروع کی جا سکے۔
یار زندہ صحبت با قی!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30392