Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تان عُمرو ژُوردُو…….(عمررسیدہ)…….میرسیما آمان

Posted on
شیئر کریں:

مضمون کا عنوان جن الفاظ پر مُشتمل ہے،اِن الفاظ کو کھوار میں لکھنے کا مقصد محض اتنا ہے کہ میں اِن نایاب الفاظ کا اُردو میں ترجمعہ نہیں کرسکی،یا شائد میں کرنا ہی نہیں چاہتی ہوں،بحرحال یہ الفاظ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں سُنتے ہی رہتے ہیں،نہیں معلوم عوام پر ان الفاظ کا کیا اثر ہوتا ہوگا،لیکن پچھلے کافی عرصے سے میں اِن الفاظ سے جتنا فرسٹریٹ ہوئی ہوں شاید ہی کوئی ہوا ہو۔میں ان الفاظ کو کوئی روایتی جملہ نہیں سمجھ سکتی بلکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ محض الفاظ نہیں بلکہ یہ گالی ہیں ۔بوڑھے افراد کو بکثرت پڑنے والی گالی۔ اس گالی کی شدت کو وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جن کے لئے یہ بولا جاتا ہے یا جن کے لئے بولا جاتا ہے اُن سے منسلک افراد۔بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ انسان کی پیدائش اور موت سب اﷲتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔اگر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے تو پھر کیوں وہ اپنوں کی موت پر دُکھی اور دوسروں کی حیات (طویل عمری ) پر حیران رہتا ہے ؟کیا دوسری بیماریوں کی طرح معاشرے میں اس پر بھی آگاہی پروگرام چلایا جائے کہ ہاں واقعی موت اور ذندگی اﷲکے فیصلے ہیں،،

ہمارے درمیان بہت سے لوگ ہیں جن کی اولاد شیر خواری کی عمر میں ہی انتقال کرجاتے ہیں،آئے روز نوجوانوں کی اموات ہو جاتی ہیں جو اہلِ خانہ سمیت پورے علاقے کے لئے صدمے کا باعث بنتی ہیں۔مگر اسکا کہیں سے بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ہم ان واقعات کو ذریعہ بنا کر بوڑھے افراد کے لئے اِنکی زندگیوں کو باعثِ شرمندگی بنائیں۔ہمارے درمیان بہت سے ایسے لوگ ہیں بالخصوص خواتین جنھوں نے بزرگ افراد کو ذچ کرنے کا شائد ٹھیکہ ہی اُٹھا رکھا ہے۔ یہ خواتین اکثر کسی نوجوان موت کو کسی بوڑھے کی ذندگی سے تشبیہ دیتے ہیں اور انتہائی ناذیبا اور نا قابل برداشت جملے بولتے ہوئے انھیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ جن بزرگ افراد کو ہم طویل عمری کا طعنہ ما رتے ہیں ، وہ افراد اپنی اولاد کے لئے کتنا معنی رکھتے ہیں،عام طور پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی بزرگ بیمار کی عیادت کو جاتے ہیں تو انکی واپسی اس جملے سے ہی ہوتی ہے کہ ’’ اسکو تا کب کا گزر جانا چاہئیے یہ اب تک ذندہ ہے‘‘ اسلام میں عیادت کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے یہ اﷲکی خوشنودی کا ذریعہ ہے اور اسکا مقصد مریض کی دلجوئی اور مریض کے اہلِ خانہ کو تسلی دینا ہے،،

اب یہ کیسی عیادت ہے جو مریض یا اسکے اہلِ خانہ کو خوش کرنے کے بجائے مریض کو مزید بیمار بنائے اہلِ خانہ کو مزید افسردہ کردے،،اور اﷲ کے نزدیک ’ایسی عیادت ‘ کا کیا درجہ ہوتا ہوگا؟؟ پھر یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کبھی کسی بزرگ کا انتقال ہوتو یہی افسوس ناک جملے دہرائے جاتے ہیں کہ ’اسکو تو کب کا گزر جانا چاہیے تھا ‘‘ وغیرہ وغیرہ اور یہ منظر تو معمول کا حصہ ہی بن گیا ہے کہ کسی بوڑ ھے شخص کے سامنے بیٹھ کر ’ نوجوان اموات ‘‘کی گنتی کر کر کے اِنکی طویل عمری کو انکے لئے باعثِ شرمندگی بنایا جاتا ہے،

مجھے نہیں معلوم کہ ایسے لمحے کسی بھی بزرگ شخص کی دلی کیفیت کیا ہوتی ہوگی لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ بوڑھا دل تو ویسے ہی خزاں کے پتے کیطرح بے حد کمزور ہوتا ہے،ہر آہٹ پر خوفزدہ ہونے والا انتہائی کمزور ،ایسے دل پر اس لمحے کیا گزرتی ہوگی جب اُسے با ر بار بتایا جاتا ہے احساس دلایا جاتا ہے کہ اُسکے بعد آنیولے تو جاچکے وہ کیوں نہیں اس دنیا سے اُٹھایا جاتا ،ایسے جیسے دوسروں کی اموات کی ذمہ دار بس وہی بوڑھا شخص ہو،،میں ایک بار پھر کہونگی کہ جتنا میں اس منظر سے ایسے محفلوں سے فر سٹریٹ ہوئی ہو ں شائد ہی کوئی ہوا ہو،،مُجھے ایسے نایاب جملے بولنے والوں پر بڑی حیرت ہے۔اس قسم کی جملہ بازیاں درحقیقت انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر دھبہ ہیں،کیا اِن لوگوں کا علم اور سمجھ بوجھ اسقدر ذیادہ ہوگیا ہے کہ یہ مشورہ دیتے پھرتے ہیں کہ اس فلاں بندے کو کب کا گزر جانا چاہییے وغیرہ کیا اﷲکو ہم جیسوں کے مشورے چاہییے؟؟
حد تو یہ کہ ایسی باتیں کرنے والیاں ذیادہ تر تعلیم یافتہ خواتین ہوتی ہیں ،سکولوں میں اساتذہ،گھروں میں مدرسے چلانے والی۔خود قُرآن ترجمان انکی اولادیں قُرآن حفیظ ہوتی ہیں۔پنجگانہ نماذیں ادا کرنے والی اور خود بقول انکے انکا اُٹھنا بیٹھنا قُرآن و سنت کے مُطابق ہے۔اور اس سے بھی ذیادہ مُضحکہ خیز بات یہ کہ ایسے جملے مارنے والوں میں اکثریت کی اپنی عُمر ۵۰ سے ۷۰ کی دہائی میں ہوتی ہیں۔اور خود سے محض چند سال بڑے افراد کو یہ لوگ (تان عمرو ژور دو) کہہ کر مُعاشرے پر بوجھ گردانتے ہیں۔اس سے خواتین کی فطرت کا یہ مزاحیہ پہلو بھی ثابت ہوتا ہے کہ ساری عمر وہ خود کو ’کم سِن ‘‘ ہی سمجھتی رہتی ہیں۔

بحرحال افسوسناک پہلو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہم مسلمان بس واقعی نام کے ہی مسلمان ہیں ساری زندگی نماذ ،ترجمے ،حفظ اور علومِ قُرآن کے نام پر بس ’’عربی ‘‘ ہی پڑھتے آرہے ہیں مجال ہے جو کبھی اس عربی کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہو،ہم خود کو مسلمان ہونے کا دھوکہ دے رہے ہیں ورنہ یہ پنجگانہ نمازیں ادا کرنے والی۔ (بالخصوص )حافظِ قُرآن و ترجمان اور دوسری تمام خواتین جہالت کے ایسے مظاہرے کرتے نہ پھرتیں،،میں ایسی خواتین و حضرات سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی شخص جو آپکی نظر میں محض ایک بیکار ’’بوڑھا ‘‘ ہوتا ہے۔وہ اپنی اولاد کے لئے ایک باپ یا ایک ماں کی حثیت رکھتی ہے۔وہ اولاد جو سجدوں میں جاکر بھی اپنی سانسیں اپنی والدین کو دینے کی ربّ سے التجائیں کرتی ہیں۔یقین کریں آپکے منہ سے نکلنے والے یہ جملے اُن اولادوں کے دلوں پر خنجر کی طرح اُترتا ہے۔پھر یہی خواتین گلے کرتیں پھرتی ہیں کہ فلاں کی بیٹی ہماری محفل میں نہیں بیٹھتی یا ہم سے ملنا پسند نہیں کرتیں غیرہ وغیرہ۔۔
خدارا پہلے اپنی محفلوں کو اس قابل تو بنائیں کہ کوئی انسان کا بچہ اسمیں بیٹھنے لائق بھی ہو،اپنی محفل کو قابلِ شرکت تو بنائیں،ایسی جاہلانہ محفلوں سے تنہائی بہتر ہے جو معاشرے میں اخلاق بگاڑنے کی تربیت دیتی ہوں۔ جو بزرگوں کا احترام سکھانے کے بجائے انکو بوجھ ثابت کرتی ہوں بحر حال یہ ہماری جہالت کی انتہا ہی ہے،مجھے یہ کہنے میں کوئی جِجھک نہیں کہ درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے معاشرے میں بُرھاپے کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے ،اسلامی ملک میں اولڈ ہومز انھی افراد کی پیداوار ہیں،جنکی عمارات چیخ چیخ کر بزرگوں سے پوچھتی ہیں کہ آپ اب تک ذندہ کیوں ہیں۔۔میں اس مضمون کے ذریعے ایسے تمام خواتین و حضرات سے یہ سوال کرنا چاہتی ہو جو دوسروں کو کئی بار ایسی گالی دینے کا مرتکب ہوچکے ہیں،
میرا ان سے سوال ہے کہ جب آپ بوڑھے ہونگے ،جب آپکا بُرھاپا آپکے گھر کے در و دیوار کے لئے اس معاشرے کے لئے جب بوجھ بن جائے گا،تب آپ اپنا یہ’’ بوڑھا چہرہ ‘‘ اس دُنیا کے کس کونے میں جاکر چھپائیں گے ؟؟؟؟
ہاں وہ تمام لوگ جو روذمرہ کے بول چال میں اپنی ان نایاب جملوں سے معاشرے کے سب سے خوبصورت طبقے کی قدر و قیمت کے تعلیمات دینے کے بجائے اپنے اقوالِ ذریں سے انکے بُرھاپے کو انکے لئے طعنہ اور شرمندگی بناتے ہیں وہ آج ہی اپنے گریبانوں میں جھانک لیں کہ خود آپکے دروازوں میں بڑھاپا دستک دینے ہی والا ہے۔
شاعر نے شائد ایسے ہی افراد کے لیے کہا ہے کہ
’’ میں اُنچے شاطروں سے پوچھتا ہوں،،کہ ٹوٹا دل بھی جوڑا ہے کسی نے؟؟؟ ‘‘‘
آخر میں صرف اتنا کہوں گی کہ یہ مضموں محض چترال کی عوام کے لئے نہیں اور جن لوگوں کو اس مضموں سے اتفاق نہ ہو اُنھیں اختلاف کا پورا حق ہے مگر نا چیز نے اس موضوع پر قلم اپنی ذاتی مُشاہدات سے اور انتہائی دلگرفتہ ہوکر اُٹھایا ہے۔میں نے ذاتی طور پر ایسے بوڑھے دل دیکھے ہیں جو اس گالی کا شکار ہوکر اپنی طویل عمری پر شرمندہ ہیں اور اُنگلیوں پر اپنے دن گنتے ہیں۔اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوتی ہوں کہ بار بار ان بوڑھے دلوں کو غمزدہ کرنیوالوں کا نجانے اپنا کیا انجام ہوگا۔۔۔۔ اور معاشرتی
رویوں کو دیکھ کر بیغیش کی دُعا بھی سمجھ آجاتی ہے۔
کہ دُنیائی ہل بام اے دوست لیکن وا دی۔۔ہش دُرونگار نو کہ ہردی چھین بیکو بش۔۔۔۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہTagged
19217