دھڑکنوں کی زبان ۔احتجاج۔محمد جاوید حیات
دھڑکنوں کی زبان ۔احتجاج۔محمد جاوید حیات
احتجاج کی تاریخ پرانی ہے لیکن نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔،حضرت عقیل رضی اللہ تعالی شیر خدا کے پاس آکر فرماتے ہیں ۔۔مجھے بیت مال سے کچھ دےدیں گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ۔۔۔شیر خدا بیت المال کی چابیاں نوکر کی طرف پھینکتے ہیں جاٶ بیت المال کا دروازہ عقیل رضی اللہ تعالی کے لیے کھول دو ۔۔حضرت عقیل رضی اللہ تعالی غصے سے کہتے ہیں کہ کیا تم مجھ سے چوری کرانا چاہتے ہو شیر خدا فرماتے ہیں کہ کیا یہ چوری نہیں کہ میں لوگوں کی اجازت کے بغیر آپ کو بیت المال سے کچھ دے دوں یاد رہے یہ امیر المومنین ہیں اور یہ ان کا بھاٸی۔۔۔یہ دونوں احتجاج تھے ۔۔یہ اپنی نوعیت کے پاکیزہ احتجاج تھے ۔۔دونوں کو اپنی پاک دامنی کی فکر تھی ۔۔
مسجد نبوی میں امیر مومنین کو خطبہ دینے سے پہلے احتجاج کے زریعے روکا جاتا ہے یہ ناانصافی کے لیے احتجاج تھا جب سائل کو مطمین کیا جاتاہے تو وہ سو سوجان سے نثارہوتا ہے ۔۔۔ہر ظلم کے خلاف احتجاج ہوتا ہے احتجاج مجبور عوام کا وہ رد عمل ہے جو ظلم، نا انصافی اور حق تلفی کے خلاف ہوتا ہے ۔دنیا میں بڑے بڑے احتجاج انارکی کی یادگار ہیں ۔قریب زمانے میں زار روس کے خلاف احتجاج، موزیتگ احتجاج، فرانسیسیوں کا احتجاج، بلیک امریکن کا احتجاج، مسلمانان بر صغیر کا احتجاج شی گویرا منڈیلا وغیرہ کا میدان عمل میں اترنا ۔۔ایرانیوں کی جدو جہد یہ سب احتجاجات انقلاب کی شکل اختیار کر گئے پھر عوام کے سمندر کے آگے ظلم کے بند ٹوٹ گئے ۔۔احتجاج کسی ملک اور ریاست کے لیے نیک شگون نہیں۔۔۔ بے چینی۔۔۔ اور ناکامی کی علامت ہے ۔اگر کسی ریاست میں انصاف کا بول بالا ہو عوام خوشحال اور مطمین ہوں حقوق پامال نہ ہوں تو احتجاج نہیں ہوتا ۔۔بےچینی آہستہ آہستہ پھیلتی ہے اور پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد ہوجاتی ہے اس کو دبایا نہیں جاسکتا ۔۔
ملک خداداد احتجاجوں کی زد میں ہوتاہے آۓ دن مختلف طبقہاۓ زندگی سڑکوں پر ہوتے ہیں ان کے مطالبات جاٸز ہوتے ہیں لیکن شنواٸی نہیں ہوتی ۔اب یہ احتجاجات دھرنے کی شکل اختیار کر جانے لگے ہیں ہمارے پاس طویل سیاسی دھرنوں کا رکارڈ موجود ہے اور دھرنے کے نعرے بھی الارم سے کم نہیں ۔۔۔جینا نہیں مرنا ہوگا دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا ۔۔۔۔
اب معاشرے کا حساس طبقہ اہل قلم اور شعرا کے لہجوں میں بھی تلخیاں أگٸی ہیں ۔معاشرہ دو واضح حصوں میں بٹ گیا ہے ۔۔ایک اشرافیہ اور أفیسر شاہی ہے دوسرا غریب عوام ہے اس کا جینا حرام ہے اور اشرافیہ اور أفیسر شاہی کی عیاشیوں کی حد نہیں ۔۔قرض پر پلنے والے اس ملک میں ان کی عیاشیاں دیکھو تو مایوسی نہیں تو اور کیا پھیلے گی ۔احتجاج اور دھرنا ہوگا اور کیا ہوگا ۔کسی بھی محکمے کو دیکھو اس کے ملازمیںن مطمین نہیں تنخواہ دار کی تنخواہیں کاٹی جاتی ہیں پنشنر کا پنشن ختم کیاجارہا ہے اور المیہ یہ کہ أفیسر شاہی وغیرہ کی تنخواہیں پنشن مراعات بڑھاٸی جارہی ہیں ان کی عیاشیوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اگر غریب طبقے کی بات آجاۓ تو خزانے پر بوجھ ہونے اخراجات کم کرنے قربانی دینے حکومت سے تعاون کرنے کی بات آتی ہے ۔۔
اگر ایک جج اپنی پنشن دس لاکھ کی رقم بنگلہ پروٹوکول سرکاری پانی بجلی گاڑی تیل وغیرہ کم کرے تو أسمان ٹوٹے گا یہ قومی خزانے پر کوٸی بوجھ نہیں اگر ایک معمولی نوکر کو معمولی جیب خرچ پنشن کے نام پہ دی جاۓ تو خزانے پہ بوجھ ہوگا ۔”خزانہ خالی ” یہ ایک ٹرم ہے لیکن خزانے والے سے دریافت کون کرے کہ کیوں خالی ہے ؟ خالی ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ ۔۔یہ شاید غیر متعلقہ سوالات ہیں جن کا جواب دہ ان کا جواب دینا تک اپنی توہین سمجھتا ہے ۔۔تب احتجاج ہوگا اور کیا ہوگا ۔فریاد ہوگی ۔۔دھاٸی ہوگی البتہ کوٸی یہ نہ سوچے کہ ان أہوں کا کوٸی اثر نہیں ہوتا ۔۔۔أہ کو اثر ہونے میں عمریں ضرور لگتی ہیں لیکن بے اثر کبھی نہیں ہوتیں ۔۔۔احتجاج بے چینی کی علامت ہے ہمارے حکمرانوں کو اس بے چینی کا ادراک کرنا چاہیے ایسا نہ ہوکہ چنگاری جولا بن جاۓ اور اونچے اونچے ایوانوں کوراکھ کردے ۔۔