Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تاریخ کے اس موڑ پر عوام کے ساتھ حکمرانوں کو بھی قربانی کا بکرا بننا پڑے گا۔  تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ۔ اراکینِ پارلیمان کی صرف تنخواہوں کا کل حجم35,54,70,00,000 روپے

شیئر کریں:

تاریخ کے اس موڑ پر عوام کے ساتھ حکمرانوں کو بھی قربانی کا بکرا بننا پڑے گا۔  تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

اراکینِ پارلیمان کی صرف تنخواہوں کا کل حجم35,54,70,00,000 روپے

قارئین کرام: پاکستان ڈیموکریٹک الائنس میں شامل 13 سیاسی جماعتوں کی اتحادی پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ریاست کی بچانے کے لیے اپنی تمام سیاست کو داؤ پر لگاتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرضے کی حصول کے لیے سخت ترین شرائط مان کر سوئی گیس کے نر خوں میں 124فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ جس کا اطلاق جنوری سے جون 2023 تک ہو گی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 40 ارب روپے گرانٹ اور G-20 ممالک سے DSSIاقدام کے تحت قرض کی ری شیڈولنگ کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں مذید اضافہ کا اعلان کر کے پاکستان جسے زرعی ملک میں مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا طوفان کھڑا کر دیا۔ جس کے باعث عوام میں شدید تشویش کے لہر پائی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے ملک میں جاری قیامت خیز منہگائی اور معاشی دیوالیے کے تمام الزامات پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کے سر تھوپ کر اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دیا ہے۔

جبکہ کے عمران خان نے اپنی چار سالہ دور حکومت کی بے بسی کا رونا روتے ہوئے پہلے امریکہ پھر جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ ملک کے تمام سیاسی پنڈتوں کے سیاسی، اقتصادی غفلت اور نااہلی کا خمیازہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوا م کے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے اور سیٹس کو کے پیچھے چھپنے والے حکمران اور اشرافیہ کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ آئی ایم ایف کے شرائط کے تحت ہی منی بجٹ کے بعد مہنگائی کا طوفان پاکستان کی بے روز گار اور بے بس عوام کی قوت خرید بری طرح متاثر کرے گا۔

قارئین کرام؛ عمران خان نے ایسا کیا جُرم کیا کہ امریکہ کو اُسے فوراً اسکے عہدے سے ہٹانا پڑا اور اگر امریکہ ایسا نہ کرتا تو اسے کس قسم کے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے تھے۔ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے دو تصورات کا احاطہ کرتے ہیں۔*1) پیٹرو ڈالر کیا ہے؟ یہ 1974 میں شاہ فیصل اور صدر نکسن کے درمیان ایک معاہدہ ہے.س معاہدے کے تحت سعودی عرب ذمہ داری یہ تھی کہ اوپیک کے تمام ممالک کو تیل امریکی ڈالر میں فروخت کرنے پر راضی کرے اور کوئی دوسری کرنسی یا سونا قبول نہ کرے۔ فروخت سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی امریکی بینکوں یا فیڈرل ریزرو میں جمع کی جائے گی جس سے USD کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کو تیل خریدنے کے لیے پہلے USD خریدنا پڑتا ہے اور یہ انتظام USD کو مضبوط رکھتا ہے۔بدلے میں سعودی کرنسی ایک ڈالر = 3.75 ریال مقرر کی گئی تھی، سعودی معیشت کی حالت جیسی بھی ہو امریکی ڈالر اور ریال کی شرح یہی رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج 48 سال بعد ہی ایک ڈالر, تین اعشاریہ پچھتر ریال کے برابر ہے۔ دوسرا امریکہ نے گارنٹی دی کہ آل سعود اقتدار میں رہے گا، حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔امریکہ کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا تھی کہ اوپیک ممالک میں سے کوئی بھی اس معاہدے سے کسی صورت بھی باہر نہ نکلے۔ عراق اور لیبیا نے بغاوت کی اور ہم سب جانتے ہیں ان کی حالت کیا ہوئی۔*2) 1953 میں ہندوستان اور سوویت یونین (روس) کے درمیان ہندوستانی روپیہ-روبل تجارت کا معاہدہ ہوا*۔جس کے تحت روس سے ہندوستانی خریداری کے لیے وہ ہندوستانی روپے میں ادائیگی کریں گے۔

 

اس سے ہندوستانی روپے کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا اور کرنسی مضبوط رہے گی – دوئم ہندوستان سے روسی خریداری کے لیے روسی روبل میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے روبل کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی مضبوط رہتی ہے۔ ایک ہندوستانی بینک روس میں ایک شاخ کھولے گا اور روس کا ایک بینک تجارت کی سہولت کے لیے ہندوستان میں ایک شاخ کھولے گا – یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ معاہدہ 1953 میں ہوا تھا جو 1974 میں پیٹرو ڈالر کے معاہدے سے پہلے ہوا تھا۔عمران خان پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2019 میں پاکستانی روپے اور چینی یوآن میں لین دین کا چین سے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں سیمی کنڈکٹر، ٹرانسفارمرز، نشریاتی آلات اور الیکٹرونکس آلات شامل تھے۔ اگرچہ امریکہ اس سے خوش نہیں تھا، لیکن وہ چپ رہا کیونکہ اس میں تیل کا لین دین شامل نہیں تھا۔عمران خان نے 2022 میں تیل کے لیے پاکستانی روپے اور روسی روبل کا معاہدہ کرنے کے بالکل قریب تھا۔ یاد رکھیں پیٹرو ڈالر کا معاہدہ 1974 کا ہے۔ اور امریکہ پاکستان کے اس معاہدے کو کبھی قبول نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اگر دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کرتے ہیں تو USD کمزور ہو جائے گا اور امریکی معیشت میں گراوٹ آجائے گی اور وہ مزید سپر پاور نہیں رہے گا۔

national assembly pak

اگر عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو اگلے الیکشن ہارنے کی قیمت پر بھی پاکستان امریکی غلامی سے نکل آتا اسی لئے امریکہ کو اسے فوری طور پر ہٹانا پڑا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا.عمران خان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ابھی تک صدام حسین اور معمر قذافی کے پاس نہیں پہنچا جس کی حتی المقدور کوششیں جاری ہیں *.اگر عمران خان دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوتا ہے اور اپنی دوسری مدت میں وہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو روپے کی یہ مسلسل قدر میں کمی رک جائے گی*. پاکستان IMF کو ادائیگی کرنا شروع کر دے گا اور تبادلوں کی شرح بحال ہو جائے گی اور پاکستان دو سے تین سال میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکے گا۔ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر حب الوطنی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے سوچیں.یہی یہ سب کچھ موجودہ حکومت کر لے تو ملک خوشحال ھو سکتا ھے۔

قارئین کرام: ملک دیوالیہ کرنے والوں کی اندازِ حکمرانی پر طاہرانہ نظر ڈالیں تو عوام کی معلوم ہو گا پاکستان کا حکمران طبقہ کسی طرح اپنے مفادات کے لیے مصروف عمل ہے جس نے اپنے عوام کو سیاست اور خوشحالی کے خواب دکھا کر 75 برسوں سے مخمصے میں ڈالا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اراکینِ پارلیمان کی صرف تنخواہوں کا کل حجم35,54,70,00,000*

*بلوچستان اسمبلی اراکین کی تعداد = 65
ایک رکن کی تنخواہ = 125,000،125,000 × 65 × 12 = 97,500,000**خیبر پختون خواہ اسمبلی اراکین کی تعداد = 145
ایک رکن کی تنخواہ = 150,000
150,000 × 145 × 12 =
*2,61,000,000

*سندھ اسمبلی*
اراکین کی تعداد = 168
ایک رکن کی تنخواہ = 175,000
175,000 × 168 × 12 =
*35,28,00,000*

*پنجاب اسمبلی*
اراکین کی تعداد =371
ایک رکن کی تنخواہ = 250,000
250,000 × 371 × 12 =
*1,11,30,00,000*

*قومی اسمبلی*
اراکین کی تعداد = 342
ایک رکن کی تنخواہ = 300,000
300,000 × 342 × 12 =
*1,23,12,00,000*

*سینٹ*
اراکین کی تعداد = 104
ایک رکن کی تنخواہ = 400,000
400,000 × 104 × 12 =
*4,99,200,000*
*کل تنخواہ*
*35,54,70,00,000*

ہاؤس رینٹ، گاڑی، گھر کے بل، ٹکٹ، بیرون ملک دورے اور رہائش اس میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزراء، وزیر اعلی، گورنرز، وزیر اعظم، صدر کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کر سالانہ خرچ 85 ارب کے قریب پہنچ جاتا ہے۔اور اکثر یہ لوگ خود ٹیکس نہیں دیتے۔ بینک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا ’کوئی بھی نہ ہلے، سب چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں، رقم

لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔‘سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اسے کہتے ہیں مائنڈ چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے کاتصور) ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو ایم بی اے پاس نوجوان ڈکیت نے پرائمری پاس بوڑھے ڈکیٹ سے کہا ’چلو رقم گنتے ہیں۔ بوڑھے ڈکیت نے کہا تم پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے، رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائیہیں۔ اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری جانب جب ڈاکو بینک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔ سپروائز نے جواب دیا۔’رک جائیں سر! پہلے بینک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکوؤں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے۔‘ اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا، اور مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرنا۔

منیجر ہنس کر بولا ’ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے۔ اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا، کیونکہ ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بینک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار۔ ڈاکوؤں نے بار بار رقم گنی لیکن وہ پچاس ملین ڈالرز سے زیادہ نہ نکلی۔ بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا ’ہم نے اسلحہ اٹھایا۔اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے، جبکہ بینک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ہمیں چور نہیں پڑھے لکھے ہونا چاہیے تھا۔اسی لئے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے..ویسے پاکستان کو لوٹا پڑھے لکھے حکمران اشرافیہ نے ہی ہے۔ اب فیصلہ پاکستان کے باشعور عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عام انتخابات میں اپنے مسقتبل کی بھاگ ڈور کس سیاسی جماعت کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔ شائد پاکستان کی تاریخ کے اس موڑ پر میں عوام کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کو بھی قربانی کا بکرا بننا پڑے گا۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71630