Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھٹو کے ہاتھ اور زندگی کی لکیر………تحریر: شمس الحق نوازش غذری

شیئر کریں:

بھٹو کی پھانسی کے بعد اس اندونہاک واقعے کو اُن کی لخت جگر بے نظیر بھٹو نے یوں بیان کی ہیں۔
They killed my father in the early morning hours of April 4, 1979, inside Rawlpindi Central Jail. Imprisoned with my mother a few miles away in a deserted police training camp at Sihala, I felt the moment of my father’s death. I suddenly sat bolt-upright in bed at 2:00 am “No!” the scream burst through the knots in my throat. “No!” I couldn’t breath, didn’t want to breath. Papa! Papa! I felt cold, so cold, in spite of the heat, and couldn’t stop shaking.
ڈیتھ سیل میں قید تنہائی کا شکار موت کے منتظر بھٹو کے اپنے احساسات اور جذبات کچھ یوں تھے۔
کاش میں ترکی یا جرمنی میں پیدا ہوتا ، یہ دو ایسی قومیں ہیں جو میری قدر کرتیں اور مجھے پوری عزت دیتیں، لیکن پاکستانی قوم بہت نا شکر قوم ہے میں نے اس قوم کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ۔ اس قوم کی شہرت اور طاقت جس کے لئے میں ہمیشہ کوشاں رہا اس کی سزا مجھے جیل میں بند کر کے دی جارہی ہے اور میری قوم کو کچھ پرواہ نہیں۔۔۔یہ اس ہستی کی باتیں ہیں جسے تاریخ فخر ایشیاء اور قائد عوام کے نام سے جانتی ہے۔یہ باتیں ” بھٹو کے آخری 323دن”نامی کتاب میں درج ہیں ۔ کتاب بھٹو کے آخری 323دنوں کی انتہائی کربناک اور دردناک داستان پر مشتمل ہے۔اور اس کتاب کا مصنف ایس ایس جی کے کرنل رفیع الدین۔۔۔بھٹو کے آخری 323دنوں میں سنٹرل جیل راوالپنڈی میں بھٹو کو پھانسی دینے تک ان کا سیکورٹی آفیسر رہا ہے۔۔۔

بھٹو کے ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھٹو آخری وقت میں اپنی پارٹی سے مایوس ہو گئے تھے۔کرنل رفیع کے بقول ایک دن بھٹو نے انتہائی مایوسی کے عالم میں پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔”کہاں ہیں وہ لوگ۔۔۔۔جو کہا کرتے تھے ہم اپنی گردنیں کٹوادینگے لیکن اب کوئی انگلی کٹوانے کے لئے تیار نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔اس وقت ہر آدمی پارٹی کی بے حسی پر حیران تھا صرف ماں اور بیٹی بے حد بے قرار اور فکر مند تھیں۔باقی تمام اشخاص خصوصاََ پارٹی کے بڑے چھوٹے ستون خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔۔۔۔ایک رات انہوں نے کہا شاید میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔”یقیناً۔۔۔۔۔حقیقت خود کو منواتی ہے تاریخی شواہد بتاتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے لئے قربانیاں بھٹو خاندان نے ہی دیا ہے۔آج جو لوگ بھٹو کا نام لے کر اور بھٹو کی شہادت کا واسطہ دے کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں اور اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ اگر تھوڑی دیر کیلئے پیچھے مڑکر تاریخ پر سرسری نظر دوڈائیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ آخری لمحات میں بھٹو پارٹی سے خوش نہیں تھے۔ہاں۔۔۔۔۔! غریب اور متوسط طبقے کے کارکن ان دنوں میں بھی جیلوں میں بند تھے اور آج بھی قربانی کے بکرے بننے کیلئے چھری تلے غریب کارکن ہی آجاتے ہیں۔۔۔۔اصل فائدے اٹھانے والے اس وقت اپنے آپ کو چھپارہے تھے اور اور آج بھٹو کا نام لے کر فائدے ہتھیار ہے ہیں۔بھٹو انتہائی ذہین اور زیرک انسان تھے۔ان کی تمام پیشنگوئیاں وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہوتی رہی ہیں۔وہ جرنیلوں کی نفسیات سے بھی اچھی طرح واقف تھے اور “امریکہ دوست”کی ڈسپوزل کلچر سے بھی بخوبی اشنا تھے۔ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ”کئی جرنیل ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔جب حالات خراب ہوں وہ فوراََ ملک و قوم کے نام پر فوج کے بل بوتے پر مارشل لاء لگا کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔دراصل ہر ایسے موقع پر باہر کی طاقتوں خاص کر ہمارے دوست امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔”

وہ لوگ جو آج بھی جرنیل ضیاء کو اسلام کا امیر المومنین سمجھتے ہیں اور بھٹو کو کمیونسٹ تصور کرتے ہیں ان کی خدمت میں دست بدستہ عرض ہے بھٹو ذاتی طور پر جو کچھ بھی ہوں لیکن قادیانوں کو غیر مسلم قرار دینا بھٹو کی شفاعت کے لئے کافی ہے۔۔۔۔اس کا اظہار ایک موقع پر انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے۔۔۔۔۔’’قادیانی آج یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بددعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھری میں پڑا ہوں اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو۔۔۔وہ حضرت محمدﷺ کو آخری پیغمبر ہی نہیں مانتے ہیں اور اگر وہ مجھے ہی اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔میں تو بڑا گناہگار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میری گناہوں کی تلافی کرجائے اور اللہ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔۔۔۔‘‘

وہ لوگ جو آج بھی تاریخ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے یہی سمجھتے ہیں کہ جرنیل ضیاء جیسا اسلام کا شیدائی اس ملک میں پیدا ہی نہیں ہوا وہ یقیناًاس تلخ حقیقت سے واقف نہیں ہونگے کہ ہمارے نام نہاد اسلام کا ہیرو تو اقتدار کے لئے اسلام کا نعرہ لگا کر سدالوح مسلمانوں کو بیوقوف بنارہے تھے۔جرنیل ضیاء کو اسلام کا ہیرو تسلیم کرنے والوں کی مجموعی رائے تھی کہ بھٹو جیسے کمیونسٹ شخص کو شہادت کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔۔۔یہ حقیقت خود کو کیسے منواتی ہے اس حوالے سے’’ بھٹو کے آخری323دن‘‘کے مصنف یوں رقمطراز ہیں’’ایک دن میں نے کہا۔۔۔جناب۔آپ کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی کافی دراز ہے۔جواب میں انہوں نے کہا کرنیل ….بھٹوز ہمیشہ جوانی میں ہی مرتے رہے ہیں، میں نے کہا کہ آپ کا ہاتھ تو اس کے خلاف کہہ رہا ہے لیکن بھٹو کی پھانسی کے بعد مجھے پامسٹری کی علم پر بہت شک و شبہ ہوا، یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھ پر نظر ڈالنا چھوڑ دیا۔بہت عرصہ بعد ایک دن ایم اے ملک کا یہ بیان پڑھ کر دل میں کچھ ڈھارس بندھی کہ کچھ سرکردہ دست شناسوں نے کہا ہے کہ شہید کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر ہمیشہ موجود رہتی ہے ان کے ہاتھ کی لائف لائن کبھی نہیں ٹوٹتی، کیونکہ وہ مرتا نہیں ہے۔۔۔‘‘
بھٹو کتنے بے باک اور نڈر لیڈر تھے اور کس قدر جرات و ہمت کے ساتھ جیل کے بند سلاخوں کے پیچھے آخری دم تک فوجی آمرکاڈھٹ کر مقابلہ کرتے رہے لیکن تھے تو زنداں میں۔۔۔۔۔بے شک شیر تو شیر ہوتا ہے چاہے پنجرے کے اندر ہو یا پنجرے کے باہر۔۔۔بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنانے کے لئے جب جیل سپرنٹنڈنٹ ان کی سیل میں داخل ہوا تو وہ بزہان حال کہہ رہے تھے۔

پھر صلیبیں ہوئی ہیں ایستا دہ
پھر سے مقتل سجائے جائیں گے
جبر کے قصر ڈھائے جائیں گے
نقش باطل مٹائے جائیں گے

اس وقت کی دل سوز اور غم ناک صورت حال کو کرنیل رفیع یوں بیاں کرتے ہیں’’جب جیل سپرنٹنڈنٹ بھٹو کو پھانسی کا حکم نامہ سنا رہا تھا تو بھٹو صاحب گدے پر اسی طرح بغیر کسی گھبراہٹ یا پریشانی کے لیٹے رہے بلکہ ان کے جسم اور چہرے پر نرم و نازم ڈھیلاپن اور مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔بھٹو صاحب نے جس خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی پھانسی کی خبر سنی اس پر میں نہ صرف حیران ہوا بلکہ میرے اندر میری ضمیر مجھ سے بغاوت کررہا تھا کہ اس لیڈر کو ہم پھانسی لگا رہے ہیں جو اپنی موت کی خبر اس خندہ روئی اور بے نیازی سے سن رہا ہے۔مجھے اندر سے آواز سنائی دے رہی تھی کہ اس شخص کی موت ہماری قوم اور ہمارے ملک کے لئے سب سے بڑا المیہ ثابت ہوگی۔۔۔‘‘کرنیل رفیع کے مطابق بھٹو صاحب کی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا جائے گا۔۔۔کیونکہ چور کی ڈاڈھی میں تنکا کے مصداق خوف تو ہمیشہ مجرم کو ہی دامن گیر رہتا ہے معصوم کو نہیں۔۔۔لیکن کیا پتہ تھا

بہاروں نے دیئے ہیں وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو
وہی ظالم گھرانے حکمران ہیں
وہی تاریک صدیوں کے نشاں ہیں

بھٹو صاحب کو کبھی پھانسی کے پھندے تک جانے کا خیال تک نہ آیا وہ اس مقدمے کو ہمیشہ ایک سیاسی اسٹینڈ ہی سمجھتے رہے۔تین اپریل کو ان کی بیگم اور بیٹی کو تو معلوم ہوگیا تھا کہ حکومت ان کو پھانسی لگانے کا تہیہ کرچکی ہے لیکن بھٹو صاحب کو ابھی تک دیکھاوا ہی معلوم ہورہا تھا انہوں نے مجھ سے اکیلے میں پوچھا۔کیا یہ ڈرامہ ہورہا ہے۔میں نے صاف بتادیا تو اُسے کسی شک کی گنجائش باقی نہ رہی۔
جی ہاں۔! عین اس وقت بھٹو نے سوچا ہوگا۔شب ظلمات میں فوجی آمر کے کارندے کسی بھی وقت شب خون مارنے کے لئے کال کوٹری میں داخل ہونگے۔لہٰذا حیاتِ زنداں کی ان مختصر لمحوں میں وصیت کیوں نہ لکھا جائے۔لکھتے ہیں ضیاء کے سفیر اور محافظ اسیر۔۔۔’’بھٹو شام آٹھ بجکر پندرہ منٹ سے نو بجکر چالیس منٹ تک اپنی وصیت لکھتے رہے۔اُس کے بعد تقریباََ دس منٹ وہ ٹیبل پر شیشہ، کنگی، بالوں کا برش، تیل کی بوتل اور جائے نماز سے تولیہ بچھا کر اس کے اوپر رکھتے اور ہٹاتے رہے۔پھر نو بجکر پچپن منٹ میں اپنے دانت برش کے ساتھ صاف کئے اور منہ ہاتھ دھویا، بالوں کو کنگی سے سنوارا۔ انہوں نے سنتری سے پوچھا کتنا وقت رہ گیا ہے۔سنتری نے جواب دیا جناب کافی وقت ہے۔۔کہنے لگے کتنا؟۔۔۔ایک گھنٹہ۔۔۔دو گھنٹے۔۔مگر سنتری خاموش رہا۔پھر خود ہی کہا ایک دو گھنٹے سوسکتا ہوں۔۔۔سنتری نے جواباَ۔ کہا۔۔۔جی۔۔جناب۔پھر کہا کہیں جگا تو نہیں دوگے بقول شاعر

میں بھی خائف نہیں تحتِ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈرتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو میں نہیں مانتا
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا

بلاخر4/3اپریل1979 ؁ء کی درمیانی شب کو ٹھیک دو بجے بھٹو کو ان کی سیل سے شب دیجور میں باہر نکالا گیا اور ٹھیک دو بجکر چار منٹ پر جلاد تارہ مسیح نے لیور دبایا، بھٹو صاحب کا سر ان کی گردن پر بائیں جانب جھک گیا۔بھٹو صاحب کی لاش کا یہ نہ بھلا سکنے والا منظر بزباں حال کہہ رہا تھا

لٹی ہر گام پہ امید آپنی
محرم بن گئی ہر عید آپنی
ہوئے ہیں جھونپڑے نذرِ طوفان
مگر قائم ہیں اب تک قصرو ایوان
زمانے کو جلال اپنا دکھا دے
جلادے تخت و تاج ان کا جلا دے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
20656