Chitral Times

Jun 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھارت کی انٹرنیٹ بندشوں میں عالمی برتری – قادر خان یوسف زئی 

شیئر کریں:

بھارت کی انٹرنیٹ بندشوں میں عالمی برتری – قادر خان یوسف زئی

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے حالیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کی بدترین مثالیں قائم ہوئی ہیں۔ مودی سرکار کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کو انٹرنیٹ کی بندش کے ساتھ اہم چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے کافی اقتصادی اخراجات اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ Top10VPN کے ذریعہ کی گئی تحقیق مختلف ٹریکرز اور ٹولز جیسے نیٹ بلاکس اور SFLC.IN انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن ٹریکر سے انٹرنیٹ کی بندش کے واقعات کو ماخذ کرتی ہے۔ مسلسل چھٹے سال انٹرنیٹ کی بندش میں بھارت کا ریکارڈ اظہار رائے کی آزادی حوالے سے مودی سرکار کے جوابدہی کے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے حق پر مودی حکومت کی بلاجواز پابندیاں کی تعداد اور مدت دونوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔صرف 2023 میں جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کو 17 بار بند کیا گیا جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ پانچ دن یا اس سے زیادہ تک چلنے والے شٹ ڈاؤن کا تناسب تیزی سے بڑھ کر 2022 میں 15% سے 2023 میں 41% ہو ا۔ یہ حکومت کے بدترین گورننس کی نشاندہی کرتا ہے جو جبری کنٹرول کے ذریعہ کے طور پر طویل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا سہارا لے رہی ہے۔

 

واضح رہے کہ ان بندش کا اثر جموں و کشمیر سے باہر بھی ہے۔ جنوری اور اکتوبر 2023 کے درمیان، بی جے پی حکومت نے 7,502 یو آر ایل کو بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے۔2023 میں، ریاست منی پور، بھارت میں نسلی کشیدگی کے باعث حکومت کی طرف سے سب سے زیادہ شٹ ڈاؤن ہوئے۔ صرف 2023 بھارتی انٹرنیٹ کی بندشوں نے تقریباً 59 ملین افراد کو مجموعی طور پر تقریباً 8,000 گھنٹوں تک متاثر کیا،جس کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کے اقدامات بھارت کے وزیر اعظم کے نام نہاد جمہوری رویئے اور دکھاوے کی ساکھ کو آشکارہ کرچکے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش نہ صرف معلومات اور مواصلات تک رسائی کو محدود کرتی ہے بلکہ اس کے اہم معاشی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، انٹرنیٹ بند ہونے سے 2012 اور 2017 کے درمیان ہندوستانی معیشت کو $2.8 بلین سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا۔بھارتی حکومت کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ انٹرنیٹ کی بندش نظم و ضبط برقرار رکھنے کا ایک موثر یا جائز ذریعہ نہیں ہے۔ وہ عوامی اعتماد کو ختم کرتے ہیں، اقتصادی ترقی کو روکتے ہیں۔ اس کے بجائے، حکومت کو اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے اور سماجی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعمیری حل تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھادنیا کی سب سے بڑی(نام نہاد) جمہوریت کے طور پر، بھارت ذمہ داری اٹھاتا کہ وہ دوسروں کے لیے ایک مثبت مثال قائم کرے۔ شفافیت، جوابدہی، اور انسانی حقوق کے احترام کو اپنائے، لیکن ہندو ازم کی سیاست نے جمہوری اصولوں کو تاراج کیا اور اس بات کو ناممکن بنا دیا کہ اس کے شہری ڈیجیٹل دور میں پوری طرح سے حصہ لے سکیں۔

 

ضرورت اس امر کی ہے بھارتی حکومت انٹرنیٹ کی بندش پر اپنا انحصار ختم کرے اور خود کو ایک آزاد اور کھلے معاشرے کے اصولوں پر دوبارہ پابند کرے۔حالیہ برسوں میں بھارت انسانی حقوق کی خلاف وزریوں پر بدترین ملک ثابت ہوا۔ شٹ ڈاؤن کے آزادی اظہار، معاشی سرگرمیوں اور ضروری خدمات تک رسائی کے لیے منفی نتائج اثرا نداز ہوئے۔

مسلسل چھٹے سال، بھارت انٹرنیٹ بند کرنے کی عالمی فہرست میں سرفہرست ہے، یہ ایک سنگین ریکارڈ ہے جو دنیا کی سب سے بڑی (نام نہاد)جمہوریت پر تاریک سایہ ڈالتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، 2023 میں عالمی سطح پر 283 انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز نافذ کیے گئے، ان رکاوٹوں کی ایک حیران کن تعداد کے ساتھ بھارت سرفہرست ہے۔ یہ پیٹرن، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ کے تحت، ملک میں جمہوری اصولوں کے زوال اور آزادی اظہار کو دبانے کے بارے میں سنگین خدشات پیدا کرتا ہے۔مودی حکومت اکثر ان بندشوں کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتی ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں سماجی بدامنی یا سیاسی اختلاف کا سامنا ہے۔ تاہم، ایسے تیزی سے سخت اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو شہریوں کے حقوق کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش نہ صرف آزادی اظہار میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی سرگرمیوں میں بھی خلل ڈالتی ہے، جو ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی پر تیزی سے انحصار کر رہی ہیں۔

ان شٹ ڈاؤن کے معاشی اثرات نمایاں ہیں۔ جس سے وہ کاروبار متاثر ہوئے جو ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر منحصر ہیں۔انٹرنیٹ کی بندش ایک ایسا آلہ ہے جو ان جمہوری آزادیوں کو کم کرتا ہے جس پر بھارت فخر کرتاتھا۔ تاہم مودی حکومت کی طرف سے اس طرح کی بندشوں کا بار بار استعمال آمریت کی طرف ایک خطرناک اقدام کا اشارہ ہے۔ معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کرکے، حکومت اختلاف رائے کو مؤثر طریقے سے دباتی ہے اور عوامی تاثرات کو توڑتی ہے، جس سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔بھارت میں انٹرنیٹ کی بندش کا مسئلہ ایک وسیع تر عالمی رجحان کو بھی اجاگر کرتا ہے جہاں حکومتیں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈیجیٹل بلیک آؤٹ کو تیزی سے استعمال کرتی ہیں۔ تاہم، ایک جمہوری ملک کے طور پر مودی حکومت کی پوزیشن تضاد کو بڑھاتی ہے۔ شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ انٹرنیٹ کی بندش آخری حربے کا ایک اقدام ہے اور سخت عدالتی جانچ پڑتال کے تابع ہے۔مزید یہ کہ شٹ ڈاؤن آرڈر کرنے کے عمل میں زیادہ شفافیت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو واضح جواز فراہم کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایسے اقدامات متناسب اور ضروری ہوں۔ یہ شفافیت عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے اور جمہوری اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

بھارت میں انٹرنیٹ کی بندش کا مسلسل پھیلاؤ اس وقت کی ایک پریشان کن علامت ہے۔ اگرچہ حکومت کی دلیلیں ناقابل قبول ہیں اور ان کا قانونی و اخلاقی جواز بھی نہیں بنتا، مزید برآں، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے اس کے وسیع اثرات گہرے ہیں۔ بھارت کو ایسے راستے کا انتخاب کرنا چاہیے جو آزادی اور رابطے کے اصولوں کو برقرار رکھتا ہو، بجائے اس کے کہ وہ کنٹرول اور دباؤ کا سہارا لے۔مودی سرکار نے جس طرح انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں کیں وہ عالمی برداری کی خاموشی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
89185