Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بڑھتے ہوئے اخراجات، تنخواہوں میں اضافہ اورپنشن واجبات سے یونیورسٹیوں کے لیے مالی مشکلات پیدا ہوئے،گورنر حاجی غلام علی

Posted on
شیئر کریں:

بڑھتے ہوئے اخراجات، تنخواہوں میں اضافہ اورپنشن واجبات سے یونیورسٹیوں کے لیے مالی مشکلات پیدا ہوئے،گورنر حاجی غلام علی
چندیونیورسٹیوں کے علاوہ باقی یونیورسٹیوں نے ریسرچ کیلئے کُل اخراجات کا صرف 1 فیصد مختص کیا جو یونیورسٹیوں کی وجود،ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی نفی ہے،گورنر
آنے والے وقت میں صوبے کی اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کومشکلات سے نکالنے کیلئے مشترکہ کوششیں اور ذمہ داریاں اداکرنی ہوں گی، حاجی غلام علی
گورنر سیکرٹریٹ کی جانب سے تیار کی جانیوالی صوبے کی یونیورسٹیوں کی مالی تجزیاتی رپورٹ برائے سال 2021 تا 2024 سے متعلق گورنرکی پریس کانفرنس

 

پشاور ( چترال ٹایمز رپورٹ ) گورنر خیبرپختونخواحاجی غلام علی نے گورنر سیکرٹریٹ کی جانب سے تیار کی جانیوالی صوبے کی یونیورسٹیوں کی مالی تجزیاتی رپورٹ برائے سال 2021 تا 2024 سے متعلق گورنر ہاوس میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ یونیورسٹیوں کی سالانہ محصولات کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے اخراجات، تنخواہوں میں اضافہ اورپنشن واجبات سے یونیورسٹیوں کے لیے مالی مشکلات پیدا ہوئے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ریونیو سالہا سال کم ہوتا جارہا ہے اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے کیونکہ تمام یونیورسٹیوں کا3 سال پہلے جو اوپننگ بیلنس یعنی ان یونیورسٹیوں کے اکاونٹ میں تقریباً4 ارب روپے تھا جو 2021 میں کم ہوکر3.8 ارب روپے تک آگئے اور رواں مالی سال کے آخر تک54 کروڑ روپے آنے کی خبر ہے اور جون 2024ء میں اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوجائیں گے۔ چندیونیورسٹیوں کے علاوہ باقی یونیورسٹیوں نے ریسرچ کیلئے کُل اخراجات کا صرف 1 فیصد مختص کیا جو یونیورسٹیوں کی وجود،ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی نفی ہے۔تقریباً تمام یونیورسٹیاں تحقیق کے شعبے کو کمرشلائزڈ کرنے پرتوجہ دینے میں ناکام نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے بجٹ میں تحقیق کی مدمیں کوئی آمدن دیکھنے کونہیں ملتی ہے۔

نگران صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر محمدقاسم جان کے ہمراہ بدھ کے روز گورنر ہاوس میں پریس کانفرنس کے دوران گورنر کا کہنا تھاکہ چانسلر آفس نے متعدد اجلاسوں کے بعدایک رپورٹ تیار کی ہے جوکہ صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کی مالی و انتظامی امور کو بہتری کے حوالے سے ہے۔ مشاہدہ سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ چندیونیورسٹیوں کے علاوہ بہت یونیورسٹیاں معاشی طورپر مستحکم نہیں جس کی وجہ سے یہ یونیورسٹیاں مالی مسائل و مشکلات سے دو چار ہیں۔اس حوالے سے وائس چانسلرز صاحبان کیساتھ کئی مشاورتی اجلاس منعقد کئے گئے تاکہ ان یونیورسٹیوں کی خودمختاری اور استحکام میں بہتری کیلئے ملکر اقدامات اٹھائے جائیں بلکہ جدید دور کی ٹیکنالوجی س بھی طلبہ کو مستفید کرایا جا سکے۔انہو ں نے کہاکہ صوبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد 34 تک پہنچ چکی ہے،دور جدید کے تقاضوں کے مطابق یونیورسٹیوں میں تعلیمی معیار اور ماحول پر توجہ دینے کی بجائے صرف یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھائی گئی۔صوبہ کے یونیورسٹیوں میں 21 یونیورسٹیاں مخلوط یعنی طلباء وطالبات پرمشتمل ہیں جبکہ 3 صرف خواتین کیلئے ہیں، 4 انجینئرنگ کی ہیں، ایگریکلچر کی 3 یونیورسٹیاں، میڈیکل اور منیجمنٹ سائنسز کی 1، 1 یونیورسٹی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ صوبے کی 7 ایسی یونیورسٹیوں نے اس سال اپنے بجٹ کا آغاز ہی خسارے سے کیا ہے۔ جس میں UET پشاور جو کہ صوبہ کی سب سے بڑی اور قدیمی درسگاہ ہے اس کاخسارہ 977 ملین روپے، پھر گومل یونیورسٹی ہے جس کا خسارہ 434 ملین روپے،

 

اس کے بعد ایگری کلچر یونیورسٹی پشاورہے جس کا خسارہ 187 ملین روپے اور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کا17 ملین روپے خسارہ کا بجٹ ہے اور خسارے کی بڑی وجہ پنشن واجبات ہیں۔ مالی مسائل کے وجوہات کا ذکرکرتے ہوئے گورنرنے کہاکہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے طے کردہ کرائٹیریا کے خلاف بھرتیوں کی وجہ سے بھی بہت یونیورسٹیوں کو مالی بحران میں دھکیلا اورماضی کی طرح اس سال بھی کنٹریکٹ پرتعیناتی کامنصوبہ یونیورسٹیوں میں زیرغورہے جس سے 3.2 ارب روپے کا اضافی بوجھ یونیورسٹیوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ رواں مالی سال کے آخر تک صوبہ کی 34 یونیورسٹیوں میں سے 20 یونیورسٹیاں خسارے کا شکارہوجائیں گی۔انہوں نے کہاکہ صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کو وفاقی اورصوبائی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر فنڈز دیے جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت ہر سال تقریباً 10 ارب روپے دیتی ہے۔ صوبائی حکومت نے 2021 میں 1.2 ارب روپے دیے۔ 2022 میں 4 ارب روپے دیے اور اس سال صوبائی حکومت کی جانب سے 3.2 ارب روپے دینے کا وعدہ کیاجبکہ ابھی تک صوبائی حکومت نے کچھ بھی نہیں دیا۔ انہوں نے کہاکہ چند یونیورسٹیاں اربوں روپے کے وسائل رکھنے کے باوجود اُن سے خاطرخواہ آمدن لینے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔بدقسمتی سے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی پیچیدگیاں ہیں۔جس کے درست کرنے کیلئے چار پانچ اہم اجلاس منعقد ہوئے اور ایک رپورٹ مرتب کی گئی جو کہ صوبائی حکومت کے زیرغور ہے۔

گورنرنے کہاکہ صوبے کی 34 اہم یونیورسٹیوں کی چانسلر کی حیثیت سے موجودہ اور آنے والے وقتوں مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی اورصوبائی حکومت کے ساتھ ہائرایجوکیشن کمیشن اسلام آباد اور ہائرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے نوٹس میں یہ مشکلات مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے لانا ضروری سمجھتاہوں تاکہ آنے والے وقت میں یہ اعلیٰ تعلیمی درسگاہیں /یونیورسٹیوں کو سنگین صورتحال کا سامنا نہ ہو اور ہم سب مشترکہ طور پر کوشش کرے کہ ان تعلیمی درسگاہوں کومشکلات سے نکالیں۔انہوں نے وی سی صاحبان کو بھی ہدایت کی کہ آنے والے سال میں اپنی تعلیمی کارکردگی نہ صرف بہتر کرکے دکھانی ہوگی بلکہ کچھ یونیورسٹیاں ملک کے دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلے میں قومی رینکنگ میں بھی شامل ہونی چاہئیے۔گورنرنے میڈیا پر بھی زوردیا کہ وہ بھی صوبے کی تعلیمی اداروں کو موجودہ مالی مسائل ومشکلات سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ایک سوال کے جواب میں گورنرنے کہاکہ ان کی کوشش ہے کہ یونیورسٹیاں طلباء وطالبات سے کم سے کم فیس لیں اور اس حوالے سے میری احکامات پر خیبرمیڈیکل یونیورسٹی سمیت صوبے کی تمام یونیورسٹیوں میں معذور بچوں کی فیس معاف کی گئی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
79131