Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ خوشی کے جگنو ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ خوشی کے جگنو ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میرے سامنے بے بس لاچار پریشان غریب باپ اپنی بارہ سالہ معصوم بیٹی کے ساتھ بیٹھا تھا اس کے منہ سے نکلا ہوا فقرہ مجھے سر سے پاں تک منجمد کر گیا تھا میں اس کی بات سن کر ساکت سا ہو گیا تھا بیچارہ پتہ نہیں شرمندگی کے کتنے دریاں سے ذلت کے کتنے ریگستانوں سے ننگے پاں چل کر آیا تھا جس کی روح اور جسم دکھ کر ب سے چھلنی تھا میں نے گھر سے بہت سارا فروٹ مٹھائی اور ٹھنڈے شربت کا جگ منگوا کر سامنے رکھا دونوں کو پیش کیا اِ س طرح میں دونوں کے باطنی کرب کو کم کر نے کی کو شش کر رہا تھا مزدور باپ غربت اور بڑھاپے کی امر بیل میں جکڑا نظر آیا مجھے پندرہ سال پہلے کا دن یاد آگیا جب یہ پہلی بار اپنی بیگم کے ساتھ میرے پاس آیا تھا میں اپنے گاں میں والد ہ ماجدہ سے ملنے گیا ہوا تھا لوگوں کو جیسے ہی میری آمد کا پتہ چلا بہت سارے ضرورت مند مجھے روحانی پیر معالج سمجھ کر آگئے تھے میں گناہ گار طالب علم اپنی اوقات سے بخوبی باخبر کہ اللہ کی ذات کس طرح میری عزت افزائی کر تی ہے ورنہ میں تو خود خالی کشکول ہوں باری باری لوگ مل رہے تھے یہ مزدور بیچارہ خوف اور ادب میں لپٹا ہو ااِس انتظار میں تھا کہ جب سب لوگ مل لیں گے تو میں بھی مل لوں گا کمزور جسم کے ساتھ اپنی کمزور بیوی کے ساتھ تھا دونوں کی حالت زار سے پتہ چل رہا تھا کہ دونوں بہت غریب اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں

 

نسل در نسل معاشرے کے اعلی طبقے کی خدمت کر تے کرتے اِن کے مزاجوں میں تابعداری اِس قدر آجاتی ہے کہ ہر وقت ان کے چہرے پر التجائیہ تاثرات ہر کسی کو سلام کرنا جھک کر ملنا جی جناب جی سر کار غربت لاچاری بے بسی ہڈیوں تک سرایت کر گئی تھی ایسے کریکٹر آپ کو آج بھی اپنے دیہات میں ملتے ہیں جو صدیوں سے زمینداروں کے گھروں اور ڈیروں پر جانوروں کی طرح خدمت کر تے نظر آتے ہیں زمیندار اِن کے جسموں کے ساتھ اِن کی عزتوں کے بھی مالک ہوتے ہیں زمینداروں وڈیروں کے جوان بیٹے اپنی جوانیوں کا آغاز اِن بیچاروں کو مشق ستم بنا کر کر تے ہیں اِن مظلوموں کو احتجاج یا انکار کی اجازت یا جرات نہیں ہوتی بلکہ انہوں نے ہر ظلم اور بد معاشی کو ذہنی طور پر قبول کر لیا ہو تا ہے اِس پس منظر کے ساتھ دونوں کمی کمین میاں بیوی کمرے کے کونے میں زمین پر بیٹھے تھے میں نے متعدد بار کہا آپ چارپائی یا کرسی پر آجائیں لیکن یہ ہر بار ماتھے پر ہاتھ رکھ کر انکار کر دیتے جناب ہم زمین پر ہی ٹھیک ہیں اِن کی یہ حالت اور تابعداری دیکھ کر میرا جذبہ ہمدردی پو ری طرح بیدار ہو گیا میں نے باقی لوگوں کو چھوڑ کر دونوں کو اپنی طرف بلا یا کہ آپ دونوں بھی میرے لیے بہت قابل احترام ہیں

 

میرے بلانے پر دونوں میرے سامنے آکر چارپائی پر بیٹھ گئے تو میں نے پاس پڑا ہوا مٹھائی کا ڈبہ اٹھایا اور دونوں کو شفقت سے لبریز لہجے میں پیش کیا بلکہ زور دے کر کہا کہ دونوں پہلے مٹھائی کھائیں پھر میں آپ کی بات سنوں گا میرے لہجے کی سختی سے دونوں ڈر کر سہمے ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے مٹھائی اٹھا کر کھانا شروع کر دی صدیوں سے نسل در نسل حسرت غربت غلامی میں لپٹے دو انسانوں کو مٹھائی کھاتا دیکھ کرمجھے خاص کیف انگیز سر شاری کا احساس ہو رہا تھا جب دونوں نے خوب مٹھائی کھائی تو میں نے پیار سے دیکھا اور بولا اب بتا تم دونوں خیر سے آئے ہو تو مزدور بولا جناب میں فلاں وڈیرے کا کمی ہوں اس کی بھینسوں کا خیال کر تا ہوں کبھی کبھار وڈیرے کی اجازت سے مزدوری بھی کرلیتا ہوں کیونکہ میں جس گھر میں رہتا ہوں وہ صدیوں سے وڈیرے کی جگہ ہے اِس لیے ہمارا خاندان صدیوں سے وڈیروں کی خدمت پر لگا ہوا ہے پانچ سال میری شادی کو ہو گئے ہیں ابھی تک کوئی بچہ نہیں ہوا غریب آدمی ہوں ڈاکٹر کے پاس تو جا نہیں سکتا نہ ہی کرائے کے پیسے تھے کہ لاہور میں آپ سے ملنے آجاتا ہمارے گاں میں ایک بندہ آپ کے پاس آیا اس کا علاج آپ نے کیا اس کو اولاد ہوئی تو اس نے مجھے بھی کہا کہ میں آپ کے پاس آں کسی دوسرے پیر کے پاس جانے کے لیے پیسے تحفے نہیں ہیں جب اس نے بتایا کہ آپ پیسے نہیں لیتے تو آپ کے پاس آگیا

 

مجھے دونوں کی غربت کا سن کر بہت دکھ ہوا میں نے روحانی علاج شروع کر دیا اللہ تعالی نے برکت ڈال دی جب میں اگلی بار گاں گیا تو دونوں پھر مسکراتے چہروں کے ساتھ شکر کی گٹھڑیاں بنے بیٹھے تھے دونوں کے چہروں کی مسکان بتا رہی تھی کہ اللہ تعالی نے گود ہری کر دی ہے اب یہ دونوں بہت خوش تھے اب یہ دونوں میرے گاں کے گھر والوں سے اکثر پوچھتے رہتے کہ میں کب گاں آں گا میں جب بھی جاتا دونوں سلام کے لیے حاضر ہو جاتے وقت پورا ہونے پر اللہ تعالی نے خوبصورت صحت مند بیٹا عطا کیا تو دونوں بہت خوش میرے پاس آئے میں دونوں کو پہلے سختی سے روک چکا تھا کہ بچہ ہونے پر آپ نے کوئی تحفہ مٹھائی لے کر میرے پاس نہیں آنا ورنہ میں ناراض ہو جاں گا دونوں میری ناراضگی کے خوف سے خالی ہاتھ آئے تھے لیکن ساتھ میں ایک پوٹلی بھی پکڑ رکھی تھی میرے پوچھنے پر ڈرتے ڈرتے بولے بیٹے کی دادی نے ہمیں زبردستی یہ شکر دی ہے کہ خالی ہاتھ نہیں جاتے اِس لیے سرکار اِس شکر کو قبول کرلیں میں نے شکریہ کے ساتھ شکر قبول کر لی اور سختی سے کہا دوبارہ ایسی کوئی بات نہیں کرنی اگلے چند سالوں میں اللہ نے تین بیٹے دوبیٹیاں مکمل کر دیں اب میں جب بھی جاتا یہ اپنے بچوں کو دم کرانے کے لیے میرے پاس آتا دونوں کی آنکھوں میں تشکر کے دیپ روشن ہوتے مجھے بھی دونوں کو بچوں کے ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ماہ و سال کا قافلہ گردش میں رہا پندرہ سال گزر گئے

 

اِن پندرہ سالوں میں یہ ایک بار بھی لاہور مجھ سے ملنے نہیں آیا آج پہلی بار اپنی بیٹی کے ساتھ آیا تو مجھے حیرت ہوئی میں نے لا کر کمرے میں بٹھایا اور پوچھا خیر ہے میں نے گاں آنا تھا تو وہاں مل لیتے تو بیچارہ شرمندہ لہجے میں بولا جناب بیٹی کی دادی نے ہم کو بہت پریشان کیا ہے اس کے حکم پر میں مجبورا آپ کو یہاں تنگ کر نے آگیا ہوں پھر مزدور باپ نے وہ فقرہ بو لا سرکار میری بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے اب یہ آپ کے گھر کے کام کرے گی یہ پیروں کی خدمت کرے گی آپ اِس کو ملازمہ بنا کر رکھ لیں یہ آج سے آپ کی کنیز ہے یہ سن کر میں منجمد سا ہو گیا پھر باپ بتا نے لگا ہمارے خاندان میں صدیوں سے یہ ریت چلی آرہی ہے کہ جس پیر کی دعا سے اولاد ہو جب بیٹی کام کرنے کے قابل ہو تو بیٹی پیروں کے گھر چھوڑ دی جاتی ہے پھر وہ شاد ی تک پیروں کی خدمت کرتی ہے اگر ہم ایسے نہ کریں تو پیروں کی بد دعا لگ جاتی ہے گھر میں پریشانیاں بیماریاں آتی ہیں اب یہ اِس قابل ہو گئی دادی نے ہماری جان کھائی ہوئی ہے کہ یہ اب کام کرنے کے قابل ہے اِس کو پیروں کے گھر چھوڑ آ لہذا آج میں اِس کو آپ کی خدمت کے لیے چھوڑنے آیا ہوں جب باپ بول چکا تو میں نے بولا ٹھیک ہے آج سے یہ میری بیٹی مرید بیٹی ہے یہ آپ لوگوں کے ساتھ رہے گی اِس کو پڑھا جب یہ تعلیم حاصل کر لے تو اِس کی شادی کر دینا یہ میرا حکم ہے جا کر دادی کو بھی بتا دو جب میں گاں آں گا تو دادی کو خود بھی بتا دوں گا جب بیٹی کو پتہ چلا کہ وہ واپس اپنے گھر جائے گی تو اداسی کی جگہ خوشی کے جگنو اس کے چہرے پر ٹمٹمانے لگے ساتھ ہی میں اللہ تعالی کا شکر اداکرنے لگا کہ مجھے وہ فطرت نہیں دی کہ مریدوں کے مال اور عزتوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر لوٹ مار کر سکوں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
84542