Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اے.کے.ای .ایس سکول لون کی استانی کے خلاف بلاتحقیق کاروائی پر نادم ہوں…شیرعلی شاہ

Posted on
شیئر کریں:

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) لون کے رہائشی شیر علی شاہ نے اپنی بچی جوینہ علی کے ہمراہ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ اُن کی بیٹی جوینہ علی اے کے ای ایس سکول لون میں دوسری جماعت کی طالبہ ہے۔ 13ستمبر کے روز حسب معمول وہ اپنے سکول گئی۔ لیکن بعد آزان فیس بُک پر وائرل ہونے والی پوسٹ اور تصویر سے پتہ چلا۔ کہ میری بیٹی جوینہ کو ٹیچر نے مارا ہے۔ جس کی وجہ سے اُس کی آنکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ بات میرے لئے ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ میں مزید کسی تحقیق کے اے کے ای ایس آفس سے رابطہ کرکے ٹیچر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ لیکن بعد آزان تحقیق کرنے پر مجھے معلوم ہوا۔ کہ بچی کو ٹیچر نے نہیں مارا تھا۔ بلکہ یہ صبح کے ٹائم پر میری بچی جوینہ علی اور ایک دوسری بچی کے درمیان آپس میں جھگڑے کا نتیجہ تھا۔ اور بچی کے چہرے کے بائیں طرف معمولی چوٹ آئی تھی۔جبکہ آنکھ بالکل محفوظ ہے. اس واقعے کو ٹیچر کے مخالفین نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں میں نے طیش میں آکر ٹیچر کے خلاف فوری کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا۔ کہ تحقیق کے بعد معلوم ہو نے پر مجھے اپنی غلطی کا پورا احساس ہے۔اورمیں ٹیچر مسرت عالم کے خلاف بلا تحقیق اپنے کئے پر نادم ہوں ۔ انہوں نے کہا۔ کہ ٹیچر نے میری بچی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔ اس لئے میں نے ٹیچر کے خلاف اے کے ای ایس آفس میں دی گئی اپنی درخواست بھی واپس لے لی ہے، متعلقہ ادارے کے انکوائری ٹیم کو بھی اصل حقیقت سے اگاہ کیا اور اسٹمپ پیپرپربھی لکھ کردیدیا ہے کہ میں‌ سنی سنائی باتوں‌پر تیش میں‌آگیا اوربلاتحقیق مذکور ٹیچر کے خلاف کاروائی کی درخواست دی. میں بذریعہ پریس کانفرنس اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔ اور اپنے کئے پر پشیمان ہوں، کہ مجھے اصل حقیقت جاننے سے پہلے الزام کی بنیاد پر یہ قدم نہیں اُٹھانا چاہیے تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر بعض افراد کی طرف سے بلا تحقیق اس قسم کے واقعات کو وائرل کرنے کی بھی پُر زور مذمت کی۔ اور مطالبہ کیا۔ کہ اس قسم کے لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ تاکہ مزید کسی پر بے جا الزام لگانے کی نوبت نہ آئے۔ پریس کانفرنس کے موقع پر علاقے کے معتبر شخصیت زار محمد بھی موجود تھے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
26440