Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایک نظر پاگل خانے پر………میرسیما آمان

شیئر کریں:

بچپن میں جس طبقے سے سب سے ذیادہ خوف آتا تھا وہ پاگلوں کا طبقہ تھا لیکن جب شعور نے آنکھ کھولی تو پتہ چلا کہ یہ تو دنیا کا سب سے ذیادہ قابل رحم طبقہ ہے۔۔

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست جو کافی عرصے سے ایک مینٹل ہیلتھ سنٹر میں خدمات انجام دے رہے ہیں،ان سے ہم نے چند ماہ پہلے انکےمریضوں کے بارے میں چند معلومات لینی چاہی تو جو چند زیر علاج کیسزز کا اُنھوں نے حال سنایا ان میں سے کچھ کا احوال کچھ اسطرح تھا،،

پہلا کیس اسلام اباد کے ایک ایلیٹ خاندان کی ایسی بچی کا ہے جو صرف جسمانی معذوری کا شکار تھی۔انتہائی روشن خیال والدین نے اس بچی کو معاشرے سےکسی گناہ کی طرح چھپائے رکھا،کہیں سال جسمانی معذوری کا بوجھ اُٹھا ئے گھر کے ایک کونےمیں پڑی یہ بچی بالآخر ذہنی معذوری کا بھی شکار ہوگئی،اور آج اس ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

دوسری کیس ایسی خاتوں کا ہے جو اولاد نرینہ سے محروم تھی ۔ بیٹیاں پیدا کرنے کا جرم سن سن کر ڈپریشن کا شکار ہو گئی، پانچویں بیٹی کی پیدائش پر شوہر نے واپس میکے ہی بھیج دی۔۔ گھر والوں نے مزید ڈپیشن کا شکار کیا اور ایک اچھی بھلی عورت کو ذہنی امراض کے وارڈ تک پہنچا دیا گیا ۔

تیسری کیس ایک ۵۵ سالہ ایسی خاتوں کا ہے جو شادی کے ۴،یا ۵ سال بعد ۲۵ برس کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھی،،اور اسلامی ریاست کے اندر ایک بیوہ عورت صرف اسلیے ذہنی مریض بن گئی کیونکہ بیوہ ہونے کے بعد وہ اپنے رکھ رکھاو میں تبدیلی نہیں لا سکی یعنی صاف ستھرا رہنا خاندان کی تقریبات میں شرکت ہنسی مذاق جیسے گناہوں سے خود کو دور نہ کر سکی۔۔آج اس ۵۵ سالہ ذہنی مریض بیوہ کا یہ کہنا ہے کہ پڑوسی ملک میں ”’ بیوہ کو شوہر کی میت کیساتھ ذندہ جلادینا کہیں بہتر ہے بجائے اسکے کہ ساری عمر زندہ درگور رکھا جائے۔۔”

یہ الفاذ اسلام کا راگ الاپنے والوں کے لیے ایک سبق ہیں،، بحر حال چوتھی کیس ایک ایسی خاتون کا ہے جس نے ۱۸ سال کی عمر میں محبت کا گناہ کیا۔گھر سے بھاگ کر شادی کی چند سال بعد شادی ناکام ہوگئی۔۔ کسی غلط جگہ کی زینت بننے سے بہتر اُسے واپس ماں باپ کے گھر آنا پڑا اور ”’ یہی ” اسکی سنگین غلطی ثابت ہوئی،،والدین نے گلے سے لگا لیا۔۔لیکن بہن بھائی اور خاندان والے معاف نہ کر سکے۔۔ماضی کی غلطی روز روز کا طعنہ بن گیا اور طعنہ حد سے بڑھ جا ئے تو بالآخر زہر بن ہی جاتا ہے۔۔۔کہیں سال طعنوں کی ذلت اُٹھانے کے بعد یہ خاتوں آج مینٹل ہاسپٹل میں زیر علاج ہے۔۔

میں نے اس دوست سے مردوں کے وارڈ کے متعلق پوچھا کہ اُس طرف کیا حالات ہیں؟ کہنے لگے اُس طرف کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں۔۔یعنی بیروزگاری ، بے اولادی ،غربت محبت شادی یا کسی بھی مقصد میں ناکامی بیوی یا محبوبہ کی بیوفائی اور ان تمام نا کامیوں کی وجہہ سے معاشرے میں ہونے والی شرمندگی طعنے ، طنز تمسخرانہ رویے۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کے مطابق ملک میں صرف چند فیصد پاگل ایسے ہوتے ہیں جو پیدائشی نقص کا شکار ہیں باقی سب معاشرتی رویوں سے جنگ لڑتے لڑتے ”’ پاگل ” ہو جاتے ہیں۔۔۔ یعنی کسی شاعر نے ٹھیک فرمایا تھا۔ ”” ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گُریز تھا،،، ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت لادوا نہ تھے !! ””’

اس وارڈ میں بے شک ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو منفی ذہنیت کے حامل تھے ایسے بھی افراد ہیں جو ماضی میں کسی بھی تعلق میں بے تحاشہ حسد کا شکار تھے ۔ ایسے مریض بھی ہیں جو جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار تھے انمیں ایک بڑی تعداد جنسی ہراسگی کا شکار خواتین اور بچوں کی بھی ہے۔۔ لیکن ذیادہ تعداد خاندان اور معاشرے کے امتیازی رویوں کے بھینٹ چڑھنے والوں کی ہی ہے،میں نے اس دوست سے پوچھا کہ ان تمام پاگلوں میں مماثلت بات کی ہے تو ڈاکٹر نے ایک مختصر جواب دیا کہ ان میں ایک ہی چیز کی مماثلت ہے ”’ حساسیت ”” اس کے بعد ہم نے گفتگو یہی پہ ختم کردی۔

مجھے خیال آیا کہ واقعی دنیا میں کوئی بھی ” بے حس ادمی ” کبھی بھی پاگل نہیں ہوگا۔۔۔پاگل صرف وہ ہوتا ہے جو دنیا کی درندگی محسوس کرتا ہے۔ اس مکالمے کے بعد چند سوال بڑے عرصے تک میرے ناقص ذہن میں گردش کرتے ر ہے جو میں آپکے سامنے رکھتی ہوں۔۔پہلا سوال کیا کوئی بھی شخص اپنے لیے خود ”ایک پاگل کی شخصیت ” کا انتخاب کرنا پسند کرسکتا ہے؟؟ کیا کوئی والدین اس رتبے پر فائض ہونے سے پہلے کبھی حلف اُٹھائیں گے کہ وہ اولاد کے ساتھ امتیازی رویہ نہیں رکھیں گے۔۔

کیا دنیا کا کوئی بزرگ کوئی معلم کوئی والدین اس بات پہ حلف اُٹھائے گا کہ وہ اولاد میں ،جماعت میں چھوٹے بہن بھائیوں میں سب سے ذیادہ توجہ پیار اور شفقت اُس بچے کو دیں گے جو سب سے ذیادہ بد صورت ،کمزور اور نالائق ہو۔۔ کیا کوئی شخص کبھی یہ تسلیم کرے گا کہ یہ ادھورے اور بے توازن کردار ہمارے ہی رویوں کے شا خصانہ ہیں،،اور بالخصوص کبھی کوئی والدین اس بات پر سوچیں گے کہ اُنکی دس اولاد میں سے صرف ”’ ایک ” کی شخصیت خاندان یا علاقے میں یا خود انکے لیے قابل تعریف کیوں بن جاتی ہے؟؟؟؟؟؟

ساری بکواس ایک طرف صرف آخری سوال کا جواب میں چترال کے ہر ایک والدین سے پوچھنا چاہونگی۔۔ ۔ہمارے لیے کسی بھی شخص کو یہ مشورہ دینا بڑا اسان ہوتا ہے کہ دوسروں کی پرواہ نہ کرو جو کہتے ہیں کہنے دو،،، مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ”’ طعنہ ”’ جب حد سے بڑھ جائے تو وہ ادمی کے لیے ایسا نوالہ بن جاتا ہے جسے نہ اُگلا جا سکتا ہے نہ نگلا جا سکتا ہے۔۔۔ تب ادمی کے پاس صرف دو ہی راستے بچ جاتے ہیں کہ یا تو فر سٹریشن کا شکار ہو کر مر جائے یا پاگل ہو جائے ۔۔۔

پتہ نہیں کیوں ہمارے معاشرے کا مائنڈ سیٹ اپ ہی ایسا بن گیا ہے کہ کوئی اگر کسی بھی قسم کی ناکامی سے دو چار ہوجاتا ہے تو یا اُسے خود کشی کرلینی چاہیے یا پاگل ہو جانا چاہیے۔۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم اپنی بھر پور کوششوں سے اُسے اس مقام تک لے ہی اتے ہیں میرا ذاتی تجربہ ہے کہ انسان بذات خود اپنی ناکامی سے اتنا دلبر داشتہ نہیں ہوجاتا جتنا کہ لوگوں کے تمسخرانہ رویے ،آنکھیں اور چہروں سے چھلکتے ہوئے طنز اسے ناکامی کا احساس دلاکر فر سٹریٹ کرا دیتے ہیں اسلیے اپنی ذاتی مشاہدات تجربات اور ان کیسزز کو سننے کے بعد میرا انتہائی چھوٹا دماغ صرف اس نتیجے پر پہنچ سکا کہ ”” جب تک پاگل کو پتھر مارنے والے معاشرے کی اصلاح نہیں ہوگی۔۔ پاگل خانے آباد رہیں گے””’


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
24612