Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایثارووفا کاپیکر ڈائریکٹر سپورٹس اسلامیہ کالج یونیورسٹی عرفان اللہ مروت ..تحریر: احمد حسن

شیئر کریں:

انسانی زندگی ایک مدو جزر کی مانند ہے اور اس عارضی زندگی کا اختتام موت ہے۔ جو کہ یہ ایک اٹل حقیقت اوربحیثیت مسلمان ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے۔ مگر بسا اوقات کسی عزیز،رشتہ دار اور دیرینہ ساتھی کی ناگہانی موت ہمارا قلب وذہن قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ایسی ہی ایک افسوس ناک خبر 7 جون 2020 کی صبح سابق انٹرنیشنل اتھلیٹ اور ڈائریکٹر سپورٹس پشاور یونیورسٹی بحر کرم کے ذریعے ملی کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق ناموراتھلیٹ اور ڈائریکٹر سپورٹس اسلامیہ یونیورسٹی پشاورجناب عرفان اللہ مروت انتقال کرگئے ہیں۔اس ناگہانی موت کی اچانک اطلاع پا کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی اور میں کافی دیر تک اس سوچ میں ڈوبا رہا کہ کیا عرفان اللہ مروت جیسی خوش مزاج، تندرست و تواناا ور باغ و بہار شخصیت کو موت کیسے اپنے پنجوں میں جکڑ سکتی ہے۔ مجھے اتھلیٹکس کا شوق سکول کے زمانہ سے تھا لیکن میں نے اس کا باقاعدہ آغاز 1981 میں کیا جب میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھااور مرحوم جو اس وقت اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھے 800 میٹر کی ریس ان کا پسندیدہ ایونٹ تھا۔ یوں ان سے میرا تعلق اتھلیٹکس کے میدان سے شروع ہوا جو کہ بعد میں گہری دوستی میں تبدیل ہوگیا یہ تعلق کم و بیش تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔


میرے دوستوں کا حلقہ کافی محدود ہے اور میں نے 1987 میں جب میں ایم اے پولیٹیکل سائنس سال آخر کا طالب علم تھا تو میں نے اتھلیٹکس کو خیر باد کہہ دیا لیکن اُن تمام ہم عصر ساتھیوں اور سابقہ اتھلیٹس بشمول عرفان اللہ مروت کے ساتھ رابطہ اور تعلق نہ صرف بدستور قائم رہا بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ لیکن بلاخر 07 جون کو ہمارا یہ ساتھی ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگیا۔اتھلیٹکس کے رموز اور تربیت میں نامور انٹر نیشنل اتھلییٹ اور کوچ اقبال شنواری اور ظفر اقبال کا بڑا ہاتھ تھا۔ ہمارے دیگر ساتھیوں میں انٹر نیشنل اتھلیٹ حبیب الرحمان آفریدی، بحر کرم، عبداللہ، عاقب ملک، خان بہادر، عابد جان، سہیل داؤدزئی، مرحو م عظمت علی، ارمان وزیر اور مرحوم سعادت اللہ مروت جو کہ عرفان اللہ مروت کے بڑے بھائی ہیں شامل ہیں۔
بلا شبہ عرفان اللہ مروت ایک محنتی، خود دار، پر خلوص، ہنس مکھ، ملنسار اور ایثار و وفا کا پیکر تھا۔ ان صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں اس کے والدین کی تربیت کا گہرا عمل دخل تھا۔ انکے والد اسٹیٹ لائف انشورنس میں ملازم تھے اور انتہائی خوددار، ایماندار، روشن خیال، حلیم طبع اور اُصولوں کی پاسداری کرنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کا عکس مرحوم کے بچوں کی شخصیت میں نمایاں طور پر نظر آتا تھا۔ کھیل آپکو نظم وضبط، برداشت اور ہا ر جیت کو کھلے دل سے قبول کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہ خصوصیات جو کہ ایک طرف آپکی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے تو دوسری جانب شبانہ روز محنت اور تربیت آپ کو ایک مضبوط جسم کا مالک بنا دیتی ہیں۔ جس کے ذریعے آپ ہر قسم کا چیلنج قبول کرنے کے لئے ہمہ وقت تیا ر ہوتے ہیں اور آخری سانس تک مقابلہ کرتے ہیں۔ عرفان اللہ مروت کی شخصیت میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھی۔ چونکہ وہ انتہائی ہنس مکھ، خوش مزاج اور یاروں کے یار تھے جس کی وجہ سے وہ اتھلیٹکس کا میدان ہو یا نجی محفلوں کی جان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے قہقہوں کی صدائیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں اور مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ ایسا زندہ دل شخص ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوگیا ہے یہاں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی زندگی کے اور پہلو کو اُجاگر کروں مرحوم جب بھی کوئی مزاحیہ واقعہ یا لطیفہ سناتے تو بیشتر اس سے کہ حاضرین محفل اس سے محظوظ ہو تے اور قہقہ لگاتے اس سے بیشتر وہ خود ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ مزید برآں یہ بات کافی وزن رکھتی ہے کہ اگر آپ کسی کی شخصیت کو صحیح طور پر پرکھنا چاہتے ہیں تو آپ اس کے ساتھ سفر کرکے اس کااندازہ کرسکتے ہیں۔میں نے اور دیگر ساتھیوں نے عرفان اللہ مروت کے ساتھ ملک کے طول و عرض کا سفر کیا اور اسے ہمیشہ ایک مخلص، نرم دل اور انسان دوست شخص پایا۔


ظفر اقبال اور حبیب الرحمان آفریدی اکثر بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لئے بیرون ملک سفر کرتے تھے اور وہاں سے مشہور بین الاقوامی برانڈ، ایڈیڈاس، نائکی، پوما کا سامان استعمال کرتے اور واپسی پرہمارے لئے بھی چند اشیاء بطور تحفہ لاتے تھے۔ چونکہ طالب علمی کے زمانے میں ہماری جیب ان مہنگے برانڈز خریدنے کی اجازت نہیں دیتی تھی تو پھر میں عرفان اللہ مروت اور ہمارے دیگر ساتھی اکثر کوچی بازار اور دیگر جگہوں پرلنڈا بازار کا رخ کرتے اور اپنی من پسند اشیاء نہ صرف خریدتے تھے بلکہ ان کو پہننے کے بعد فخریہ انداز میں لنڈے کی یہ چیزیں ایک دوسرے کو بتاتے تھے۔


میرے نزدیک یہ خاندان کافی بد قسمت ثابت ہوا ہے میرے ہم عصر اور عرفان اللہ مروت مرحوم کے بڑے بھائی سعادت اللہ مرحوم جو صوبہ خیبر پختونخوا کے نامور اتھلیٹ تھے کا انتقال بھی عین جوانی میں ہوا تھا۔ سعادت اللہ مروت بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے ہماری ٹیم جب بھی صوبے سے باہر مقابلوں میں شرکت کے لئے دورے پر جاتی تو کھانے پینے اور دیگر انتظامات سعادت مروت کے ذ مہ ہوتے تھے۔ ہم سب مصروف دن گزارنے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو وہ کاپی کھول کر حساب کتاب میں مصروف ہوتا۔ سعادت تھوڑا تھوتھلا بھی تھا اور اس زمانے میں مسر ت نذیر کا گایا ہوا نغمہ کُٹ کُٹ باجرا میں کھوٹھے انے پانیا ں بے حد مشہور تھا۔ سعادت کُٹ کُٹ صحیح طور پر ادانہیں کرسکتا تھا۔ اور ہم نے یہ چھیڑ بنا لی اور پھر اُسے مجبور کرتے تھے کہ ہمیں یہ گیت سناوں اور ہم سب ساتھی اس سے کافی لطف اندوز ہوتے تھے۔
عرفان اللہ مروت نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اسلامیہ کالج پشاور جو اس کی مادر علمی بھی تھی میں بطور سپورٹس انچارج شروع کیا اور پھر انتھک محنت، لگن، دیانتداری، جانفشانی سے اپنا مقام بنایا اور ڈائریکٹر سپورٹس کے عہدے تک ترقی کی۔ مرحوم کی زیر نگرانی اسلامیہ کالج / یونیورسٹی نے مختلف کھیلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی جس کا سہرا مرحوم کے سر ہے۔ اس کے کئی شاگردوں نے نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ قومی مقابلوں میں بھی صوبہ کا نام روشن کیا۔ اسلامیہ کالج میں سپورٹس کے کوٹے پرطلباء کو داخلہ دیا جاتا ایک مرتبہ میں نے اپنے سگے بھتیجے کی فرسٹ ائیر میں سپورٹس سیٹ پر داخلہ کی سفارش کی تو انھوں نے صاف انکار کردیا اور مجھے کہا کہ تمام داخلے صرف میرٹ پر اور حقدار طلباء کے ہونگے۔ وہ ایک کھرا انسان تھا جس کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ گو کہ وہ آج ہم میں موجود نہیں لیکن اس کی یادیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے دلوں میں محفوظ رہیں گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک مرحوم کو غریق رحمت کریں اور آخرت کا سفر آسان کرے اورجنت الفردوس میں جگہ عطاء کرے۔ آخر میں میری اسلامیہ یونیورسٹی کے حکام سے استدعا ہے کہ جس شخص نے اپنی تمام زندگی ادارے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے وقف کی تو اب ان کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ مرحوم کے خاندان کی کفالت کا خاطر خواہ بندوبست کریں تاکہ مالی پریشانی کسی بھی صورت میں اُس کے خاندان کے لئے باعزت زندگی گزارنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
36530