Chitral Times

Jul 5, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اٖفغانستان کا پاکستان مخالف پس منظر – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

اٖفغانستان کا پاکستان مخالف پس منظر – محمد شریف شکیب

افغانستان کی طرف سے پاکستان مخالف عناصر کو پناہ دینے کے الزامات کافی عرصے سے لگائے جارہے ہیں کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان نے ان سے پہلا مطالبہ یہی کیا تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ افغان حکومت نے بھی بار ہا یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دے گی۔ لیکن ایک ہی روز طورخم، وادی کالاش اور جنجریت کوہ چترال میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کی پوسٹوں پر بہ یک وقت حملیکئے گئے جن میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہم نیچوالیس سال تک تیس چالیس لاکھ افغانیوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔وہ یہاں سے کھاتے، پیتے، پڑھتے اور کاروبار کرتے رہے۔

 

جب بھی وہ واپس طورخم سرحد عبور کرکے اپنے ملک جاتیہیں۔ وہ پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔تاریخ کیمشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا مغربی پڑوسی مسلمان ملک روز اول سے ہمارے خلاف رہا ہے۔ستمبر 1947ء کو افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔1947ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔1948ء میں افغانستان نے ”قبائل ”کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔1948ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔1949ء میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔1949ء میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جس کو پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔

 

50ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نکاتی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔26 نومبر 1953 کو افغانستان کے سفیر“غلام یحیی خان طرزی”نے ماسکو سوویت یونین کا دورہ کیا جس میں اس نے سوویت یونین سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔28 مارچ 1955 کوافغانستان کے صدر“داؤد خان”نے پاکستان کے خلاف انتہائی زہریلی تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور قندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہرے کئے پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔

مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولہ باری کر دی۔ جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔اور ان کی توپوں کو خاموش کردیا۔28 ستمبر 1960 کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کر دیا۔1960ء میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اورحملہ کیا۔جسے پسپا کردیاگیا۔1965ء میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہمند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔لوگ حیران تھے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر سکتا ہے۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا ہے۔

 

اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم“پشتون زلمی”نے خیبرپختونخوا کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کر دیا۔افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالآخر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔1979میں سوویت یونین نیافغانستان میں فوجی مداخلت کی تو لاکھوںافغانی مہاجر بن کرپاکستان آگئے اور ابھی واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ 2001میں اسامہ بن لادن کے ایشو پرامریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مزید لاکھوں افغانی مہاجر بن کرہمارے مہمان بنے۔افغانستان کی لینڈ لاک آبادی کی زندگی کاانحصار پاکستان پر ہے۔گندم، چاول، ڈیری اور پولیٹری مصنوعات، ادویات،گھی، آئل، چائے، چینی اور دیگر تمام اشیائے ضروریہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور سمگلنگ کے ذریعے افغانستان جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہماریہاں قلت پیدا ہوتی ہے اور دام بڑھتے ہیں۔مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نہ اپنا مشرقی ہمسایہ تبدیل کرسکتے ہیں نہ ہی مغربی پڑوسی بدل سکتیہیں۔اس لئے ان کے ساتھ بنا کر رکھنیمیں ہی عافیت ہے۔ تاکہ ہم بھی سکون سے رہ سکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
79002