Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انٹری ٹسٹ اور ذہنی دباؤ۔۔۔۔اُم کلثم

شیئر کریں:

میڈیکل کالجز میں داخلوں کی تیاری کا عمل بچوں میں بھرپور انداز سے جاری ھے۔ ایٹا ٹسٹ میں گنے چنے کچھ ہی دن باقی ہیں۔ لیکن یہ کچھ دن آپکے بچے کی ذہنیت پہ اپنا کس قدر برا چھاپ چھوڑنے والی ہے آپکو اندازہ لگانا مشکل ھے۔ گزشتہ برس انٹری ٹسٹ میں تاخیر کیوجہ سی کئی بچے ڈپریشن اور باقی نفسیاتی مسائل کا شکار ھوچکے تھے۔ بچوں کا اپنے آپ پر سے قابو کھونے کیوجہ سے والدین کا ان پر میڈیکل فیلڈ میں جانے کا دباؤ ھے۔

ھمارے معاشرے کا المیہ یہ ھے کہ ھمارا مستقبل صرف انجینئرنگ اور میڈیکل تک ہی محدود ھے، اور یہی وجہ ھے کہ آپکے اندر کا چھپا ھوا ایک تخلیقی پہلو آپکے سامنے ظاہر ھونے سے قاصر ھے۔آرٹس اور دینیات کے فیلڈز میں بھی لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ھے اور نام، عزت اور دعائیں بھی سمیٹی ھے۔ اردو ادب، جس پر انگریزی ہمیشہ فوقیت لے چکی ھے،دنیا میں بہت سے نامور شاعر، ادیب اور مصنفوں کا جنم ھوچکا ھے۔ کوئی بھی پیشہ برا نہیں ھوتا ۔آپکی دلچسپی اور لگن ہی آپکی کامیابی کی ضمانت ھوتی ھے۔ میڈیکل اور انجیئرنگ کے علاوہ بزنس، ماحولیات، فلکیات، وغیرہ وغیرہ لاکھوں ہزاروں کی تعداد میں انتخاب کے حساب سے شامل ھیں۔ بس ضرورت صرف اپنے آپ کو جاننے اور والدین کے ساتھ کی ھے۔

کوشش کریں کہ انکی تعلیمی کرئیر میں انکے فیصلوں کو سراہیں۔ کیرئیر کاؤنسلنگ سے متعلق آگاہی کا نہ ھونا ھمارے ذہنی صحت کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ھے۔ والدین یا باشعور گھر کا، معاشرے کا فرد ھونے کی حیثیت سے آپکا ھمارا فرض بنتا ھے کہ اپنی نوجوان نسل کو کامیاب بنانے کیلیئے ھم انکا ہر لحاظ سے ساتھ دیں۔


سٹوڈنٹس میں انٹری ٹسٹ سے چند دن پہلے ہی نفسیاتی مسائل جسمانی علامات کی صورت ظاہر ھونا شروع ھوجاتے ھیں جن میں پریشانی اور بے چینی سے دل کا گھبرانا، پیٹ میں مڑوڑ پڑنا، پسینہ چھوٹنا، چکر آنا، کمزوری محسوس کرنا، سر کا درد اور سینے کا بھاری پن، ساتھ ہی ساتھ اپنی ناکامی کے خدشوں کو خواب کی صورت دیکھنا اور خود سے مایوس ھونا۔ یہی چھوٹی چھوٹی پریشانیاں اگر بروقت اعتماد اور ہمت سے نہ سلجھائے گئے تو آپکے بچے کا ڈپریشن میں مبتلا ھونے کے قوئ امکانات ھیں۔ اپنے بچوں کو انکی صلاحیتوں سے آگاہ کریں، آنے والے وقتوں میں اچھا کرنے کی امید بھی دیں کیونکہ ایٹا ٹسٹ سے قبل اور بعد دونوں صورتوں میں اگر آپکا بچہ کامیاب نہیں ھوتا تو وقتی طور پر وہ روزمرہ کے کاموں اور سرگرمیوں سے بدزن ھوجاتے ھیں اور اگر اس صورتحال سے باآسانی نہ نکل پائے تو یہی چھاپ کئی دہائیوں تک انکی بے چینی کا سبب بنے گی۔


امید لگانا تو انسانی فطرت کا تقاضہ ھے۔ بھلے کی امید انسان کے حوصلے کو ٹوٹنے بھی نہیں دیتی۔ اپنے بچوں سے امید ضرور رکھیں پر اسی امید کو بار بار جتا کر ان کو ذہنی دباو سے دوچار نہ کریں۔ خصوصًا باہر والوں اور رشتہ داروں کی اٹوٹ امیدیں آپکی امید کو مزید پختہ کرتی ہیں۔ کوشش کریں کے بے جا افواہوں اور چٹ پٹی خبروں سے اپنے بچوں کو دور رکھیں۔ انکی پڑھائی کیلے وقت مقرر کریں، سوشل میڈیا کے استعمال کا خیال رکھیں اور ٹائم پر کھانہ مہیا کریں اور نیند کا خاص خیال رکھیں۔ پڑھائی سے بے زاری کی صورت میں انہیں گھر کے کاموں یا کھیل کی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں اور انکا مورال بلند کریں۔ اپنے ھونے کا احساس دلائیں انکو تنہا نہ چھوڑیں۔ جسمانی علامات کا شدت اختیار کرنے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ آپکے بچوں کا مستقبل آپکے ہاتھ میں ہے، بنانا اور بگاڑنا آپکا کام ہے۔کرئیر سے متعلق اور مواقعوں سے آگاہ کریں اور مثبت طریقوں سے حالات سے لڑنا سکھائیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
39801