Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انسانیت کے تقاضے  –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

انسانیت کے تقاضے  –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

 

دنیا میں انسانی نسل کے کے پھیلنے کے آغاز سے ہی ایک دوسرے پر بالادستی کا مظاہرہ کرنے طاقت کے ذریعے ایک دوسرے سے چھیننے اور اپنے لئے سب کچھ سمیٹنے کا عمل بھی شروع ہوا۔ اپنے اپ کو ہر اچھی اور نمایان چیز کا حقدار سمجھنے اور دوسروں کو خود سے کمتر گردانتے ہوئے ہر چیز پر قبضہ جمانے کی فطرت نے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی اپنے لخت جگر کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرنے کے انجام سے دوچار کیا۔ انسانی  بالادستی اوردوسروں  سے چھیننے کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف رنگ اختیار کئے ۔ تیز ناخنوں سے کسی کو کھرچنے اور طاقت کےزور سے ایک دوسرے کا حق چھین کر ناجائز ذرائع سے جائیداد اور دولت کے مالک بننے کو عزت کے لئے معیار بنائے گئے ۔اسی طرح کم مائیگی رنگ،نسل ،زبان اور وطن آدم کی اولاد کو پرکھنے کے لئے ترازو کا رنگ دئے گئے۔اور اسی بنیاد پر زندگی کے لئے معیار متعین کئے گئے اس تناظر میں آدم کی بعض اولاد خود کو اس کائنات خداوندی کا حقیقی وارث اور حقدار گردانتے ہوئے اس  کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ اور بعض لاوارث اولاد کی طرح ہر چیز سے  محروم ہوکر گندگی کے ڈھیر میں خوراک کے دانے چننے پر مجبوری سے دوچار ہوئے۔ کسی پر بالادستی حاصل کرکے سینہ تان کر خوشی محسوس کرنے کی فطرت پیدا ہوانے پر کوئی فرعون،نمرود،ہامان و حجاج بن کر دوسروں کو کچلتے ور کوئی قارون کی صورت میں خزانہ جمع کرکے سانب کی طرح اس پر قابض ہونے لگے۔ کوئی شداد کی صورت میں جنت بنانے کے لئے سرگرم عمل ہوئے ۔الغرض انسان اپنے ہم جنس کے لئے خونخوار درندے کا روپ دھار نے اور خدابننے کے دعویدار بن بیٹھے۔

 

درحقیقت انسانی نظام اور مزاج میں یہ جرم واستبداد اور ظلم وزیادتی صرف خالق کائنات کی طرف سے زندگی کےلئے وضع کردہ قواعد وضوابط اور اسلوب سے روگردانی کے سبب پنپنے لگے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسای درندگی  انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ دین حق کی روشنی کے زریعے مادہ پرستی کے مرض کی وجہ سے بینائی سے محروم انسان کو صحیح راستے پر گامزن کئے ۔ اور اس راستے کے ہم سفروں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دے کر دنیا کے ہر معاملے میں برابری کی بنیا د پر اور زندگی گزارنے کے لئے اسلوب سیکھائے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا جذبہ دیا۔ یوں دین اسلام نے ابتدائی ایام میں بھائی چارے اور برابری کا نقشہ پیش کیا جس پر انسانی تاریخ کا قیامت تک فخر کرنا بجاہوگا۔ بد قسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کو بحیثیت مذہب اختیار کرنے والے بھی اس کے بنیادی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کے لئے بھیڑئے کا روپ ااختیار کرنے لگتے ایک طرف ناجائز ذرائع سے دولت کے انبار لگانے کا شوق جنون کی حد تک سروں پر سوار ہونے لگا۔ اور عالیشان عمارتوں کے اندر دنیا کی عیاشیوں سے لطف اندوز ہونے کی آرزوئیں پروان چڑھنے لگیں۔ تو دوسری طرف مذہب کی بنیاد پر بھائی کے رشتے میں منسلک انسان ایک نوالے کو ترسنے لگا۔ اور جس کی داد رسی کا احساس معدوم  ہوا اوراس تناظر میں موجودہ دنیا کو انسانوں کے مسکن کے نام سے موسوم کرنا حماقت کے مترادف معلوم ہوتا ہے ۔ اسمان پر چڑھ کر چاند ستارون پر کمند ڈالنے کا کیا فائدہ جبکہ ہم جنسوں کے دل ایک دوسرے کے لئے رحم ومحبت کے جذبات سے خالی ہوچکے ہوں اور غمخواری ومحبت کا چراغ گل ہوجسے حقیقی معنوں میں انسانیت کی عظمت سےٹھیرا جاسکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
77710