Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انتخابات کے بائی کاٹ کا آپشن …………..محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

چترال کے منتخب نمائندوں، سول سوسائٹی ، تاجر رہنماوں اوردانشوروں نے مردم شماری کے نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے اور چترال کی ایک صوبائی نشست ختم کرنے کی صورت میں آئندہ انتخابات کا بائی کاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کے مقامی رہنماوں کے علاوہ رکن قومی اسمبلی شہزادہ افتخار الدین، ایم پی اے سلیم خان، ایم پی اے سردار حسین، ایم پی اے فوزیہ بی بی، ضلع ناظم چترال حاجی معفرت شاہ، ایوان صنعت و تجارت کے صدر سرتاج احمد، ضلع کونسل کے ارکان، ادبی تنظیموں کے کارکنوں، میڈیا کے نمائندوں اور وکلاء نے بھی شرکت کی۔ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ بوگس مردم شماری کی بنیاد پر چترال کی ایک صوبائی نشست ختم کرنا اور قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ضلع دیر کے علاقوں کو چترال میں شامل کرنا زیادتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے مردم شماری کے نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کے لئے وکلاء کا پینل بھی تشکیل دیدیا۔اور اس مسئلے پر قومی اور صوبائی اسمبلی میں قراردادیں پیش کرنے کا بھی اعلان کیا۔خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے اپرچترال کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ختم کرنے اور قومی اسمبلی کے حلقے میں ضلع دیر کا کچھ حصہ ملانے کے حوالے سے انہی سطور میں عوامی خدشات کا اظہار پہلے بھی ہوچکا ہے۔ مردم شماری کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے جو حلقہ بندیاں تجویز کی گئی ہیں ان میں چترال، کوہستان، چمن، لورائی لائی، دیر، شانگلہ ، بونیر کو بھی پشاور، راولپنڈی، فیصل آباد، لاہور، ملتان، سکھر، حیدر آباد اور کراچی کے ترازو میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ شہری اور دیہی علاقوں کے لئے الگ الگ پیمانہ ہونا چاہئے۔ چترال کا رقبہ ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر ہے جو پشاور، نوشہرہ، مردان اور چارسدہ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہے۔حالانکہ فی کلومیٹر آبادی کا موازنہ کیا جائے تو چترال اور پشاور میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حلقہ بندیوں اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں آبادی کے ساتھ رقبے، جغرافیائی اہمیت، پسماندگی اور تہذیب و تمدن کی تاریخ بھی مدنظر رکھنی ہوتی ہے۔ ان حقائق کو محکمہ شماریات اور الیکشن کمیشن نے یکسر نظر انداز کردیا۔پاکستان میں آبادی کی سالانہ شرح افزائش دو اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔اپر دیر کی آبادی 1998کی مردم شماری کے مطابق پانچ لاکھ چودہ ہزار تھی 2017میں نو لاکھ چھیالیس ہزار ہوگئی۔ لوئر دیر کی آبادی سات لاکھ سے چودہ لاکھ ہوگئی۔ بونیر کی آبادی پانچ لاکھ سے نو لاکھ ہوگئی۔ سوات کی بارہ لاکھ سے 23لاکھ تک پہنچ گئی۔ ضلع چترال کی آبادی تین لاکھ اٹھارہ ہزار سے انیس سالوں میں صرف چار لاکھ ستالیس ہزار کیوں ہوگئی۔ جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق چترال کی آبادی ساڑھے سات لاکھ سے زائد ہے۔ جو تین لاکھ چترالی اعلیٰ تعلیم، علاج معالجے اور محنت مزدوری کے لئے ضلع سے باہر اندرون ملک شہروں یا بیرون ملک گئے ہیں۔ انہیں چترالیوں کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے ضلع سے باہر رہنے والے چترالیوں کی شہریت بھی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔صوبائی حکومت نے ارندو سے لے کر شیخ سلیم کی پاک افغان سرحد اور برنس تک کے علاقے پر مشتمل علاقے کو لوئر چترال جبکہ جگومی سے لے کر تریچ میر، ریچ، بروغل اور شندور تک پھیلے ہوئے علاقے کو ضلع اپر چترال کا درجہ دیا ہے۔ کیونکہ ایک ایم پی اے ، ایم این اے، ضلع ناظم، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے لئے اتنے وسیع و عریض علاقے کا انتظامی کنٹرول عملا ممکن ہی نہیں۔ ایک صوبائی نشست کم کرنے اور قومی نشست میں دیر کو بھی شامل کرنے کی وجہ سے چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کے ثمرات بھی زائل ہوجائیں گے۔اس لئے خیبر پختونخوا حکومت کو بھی موجودہ حلقہ بندیاں برقرار رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو زمینی حقائق، انتظامی مشکلات اور علاقے کی پسماندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ اگر چترا ل کے دو اضلاع نے انتخابات کا بائی کاٹ کیا۔ تو قومی اور عالمی سطح پر بھی انتخابات کے شفاف ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے پر انگلیاں اٹھیں گے جس سے ملک کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
5919