Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انتخابات التوا کیس؛ 4 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تشکیل

Posted on
شیئر کریں:

انتخابات التوا کیس؛ 4 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تشکیل

اسلام آباد(چترال ٹایمز رپورٹ)پنجاب اور کے پی میں انتخابات التوا کرنے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کا چار رکں ی بینچ ٹوٹنے کے بعد اب تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔سماعت شروع ہونے سے قبل چیف جسٹس نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل اس سے پہلے ا?پ کچھ کہیں جسٹس جمال خان مندو خیل کچھ کہنا چاہتے ہیں، جسٹس جمال خان مندو خیل بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے جبکہ کل جسٹس جمال خان مندو خیل بینچ میں شامل ہونے پر رضامند تھے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ میں کل کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہ سکا۔قبل ازیں، سپریم کورٹ کے تشکیل دیے گئے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے جبکہ سپریم کورٹ نے باقاعدہ کیس کی کاز لسٹ بھی جاری کی تھی۔بینچ کی تشکیل کے بعد جسٹس جمال خان مندو خیل کا اختلافی نوٹ بھی سامنے ا?یا تھا جس میں کہا گیا کہ عدالتی حکمنامہ کورٹ میں نہیں لکھوایا گیا اور مجھ سے حکمنامے پر مشاورت بھی نہیں کی گئی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کو عدالت میں زیر توجہ لانے کی ضرورت ہے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ میں کل بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مجھ سے فیصلہ لکھواتے ہوئے مشاورت نہیں کی گئی اور شاید مجھ سے مشورے کی ضرورت نہ تھی یا اس قابل نہ سمجھا گیا، اللہ ہمارے ملک کے لیے خیر کرے اور جو بھی بینچ بنے ایسا فیصلہ ہو جو سب کو قبول ہو۔

 

انہوں نے کہا کہ ہم سب آئین کے پابند ہیں اور 15 کے 15 ججز آئین کے پابند پیں۔ چیف جسٹس نے جسٹس جمال خان مندو خیل کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ تھوڑی دیر میں نئے بینچ کی تشکیل کریں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کی بات مکمل ہوئے بغیر ہی ججز اٹھ کر چلے گئے۔کمرہ عدالت میں تین کرسیاں لگا دی گئی ہیں۔ عدالتی عملہ، وکلاء ، سیاسی رہنما اور صحافی کمرہ عدالت میں موجود ہیں جہاں ججز کی آمد کا انتظار کیا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کے باہر میڈیا ٹاک کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا کہ اگر بینچ ایسے ہی ٹوٹتے اور بنتے رہیں تو ادراے کی ساکس کا کیا ہوگا، چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ فل کورٹ بینچ بناتے۔ پوری قوم اس معاملے پر رنجیدہ ہے۔عطا تارڑ نے کہا کہ آج بینچ پر وکلاء کے تحفظات تھے اور بینچ کی تشکیل کے بعد اعتراض اٹھایا گیا، سماعت سے پہلے سرکلرز کے ذریعے ججز کے آرڈر کی نفی غلط ہے، اگر ایسے فیصلے ہوئے ادارے کی ساکھ کیا رہ جائے گی اور قوم اس ون مین شو کو قبول نہیں کرے گی۔معاون خصوصی نے کہا کہ تمام کرائیسز کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہونا چاہیے، مندوخیل نے دکھی دل سے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کی حفاظت کرے، سرکلر کا رواج پہلی دفعہ دیکھا ہے، قوم پہلے ہی مسائل میں مبتلا ہے مل کر بیٹھیں اور مسائل حل کریں۔

 

انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل اب لازم ہو گئی ہے، اگر فل کورٹ نا بنایا گیا تو اس معاملے میں مزید طول ملے گا اور ہم چاہتے ہیں سپریم کورٹ کی بقا بحال رہے، ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے لیکن دو تارڑ آئین کی پاسداری کے لیے کھڑے رہیں گے، اج معاملات سجاد علی شاہ ٹو کی طرف جا رہے ہیں۔دوسری جانب، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات پر سرکلر بھی جاری کر دیا ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔رجسڑار سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا سرکلر جاری کر دیا ہے۔سرکلر کے مطابق جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا گیا اور اس انداز میں بینچ کے سوموٹو لینے کو پانچ رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔سوموٹو صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لے سکتے ہیں اس لیے فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کو مسترد کیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

 

اہم آئینی امور فل کورٹ سے ہی حل کرنے چاہئیں، جسٹس جمال

اسلام آباد(سی ایم لنکس)جسٹس جمال مندوخیل نے پنجاب کے پی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس میں اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ روز جسٹس امین الدین خان نے کیس سننے سے معذرت کی، اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا تھا لیکن چیف جسٹس اور باقی ججز اٹھ گئے، بنچ اٹھنے کے بعد اپنے چیمبر میں انتظار کرتا رہا، مگر چیف جسٹس کی جانب سے مزید کارروائی کی کوئی معلومات نہیں ملی، گھر پہنچا تو چیف جسٹس کی جانب سے دستخط کے لیے حکمنامہ موصول ہوا۔جسٹس نے جمال نے کہا کہ یہ حکمنامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا بلکہ بغیر مشاورت کے میری غیر موجودگی میں لکھوایا گیا، بنچ کے تین ممبران نے ناجانے کن وجوہات کی بنا پر مجھے مشاورت میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چاہتا تھا کہ یکم مارچ کے حکمنامے کے تناسب پر بنا تنازعہ پہلے حل کیا جائے، یکم مارچ کا اکثریتی عدالتی حکم ابھی تک جاری نہیں کیا گیا، اور اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے وکلاء نے بھی معاملہ اٹھایا لیکن بنچ کے ارکان نے جواب نہیں دیا، ان حالات میں بنچ کا حصہ رہنا مناسب نہیں سمجھتا، اور بنچ کا حصہ رہ کر اپنے ساتھی ججز کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے مزید لکھا کہ کوئی شک نہیں کہ موجودہ کیس میں اہم آئینی امور زیر بحث ہیں، اہم آئینی امور فل کورٹ کی صورت میں مشترکہ دانش سے ہی حل کرنے چاہئیں، فل کورٹ جب بھی بنا اس کے لیے دستیاب ہوں، بصورت دیگر دعا ہے کہ ساتھی ججز جو فیصلہ دیں وہ آئین کی بالادستی قائم کرے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ کیس یکم مارچ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے، اول دن سے کہتا رہا کہ کورٹ یکم مارچ کے آرڈر آف دی کورٹ کا تنازعہ حل کرے، اب تک یکم مارچ کے فیصلے کا آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
73092