Chitral Times

Jul 5, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

امریکہ بھارت معاہدے،جنوبی ایشیاء میں نئے بلاک کی ضرورت۔۔۔پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

سرد جنگ کے ا ختتام نے جنوبی ایشیاء کے چھوٹے ممالک کوامریکہ کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔امریکہ بھارت معائدوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے جغرافیائی، ثقافتی،نظریاتی، معاشی اور دفاعی تنوع کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور جنوبی ایشیائی ممالک کے متفرق مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے امریکہ بھارتی اجارہ داری میں ایک نیا بلاک بنانے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ امریکہ بھارت گھٹ جوڑ کا واحد مقصد ایشیاء میں چین کے اثرورسوخ کو روکنا ہے جو کسی صورت بھی کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ بھارت حالیہ معائدے نے خطے میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ امریکہ کی بھارت نوازی نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو نقصان پہنچائے گی بلکہ امریکہ اور بھارت دونوں کے مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو گی۔

سقوط ڈھاکہ کے پیچھے بھارت کے بنیادی  مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ پاکستان کو دولخت کر کے وہ جنوبی ایشیاء میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا مگر اس کا یہ خواب ڈراونا خواب بن کر رہ گیا۔ بنگلہ دیش سے وابستہ توقعات پوری نہ ہونے پر اس کے خلاف ہی جارحیت شروع کر دی جس کے نتیجے میں بھارتی خرچے پر چین کو جنوبی ایشیا ء میں قدم جمانے کا نادر موقعہ میسر آیا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اپنے خودغرضانہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ہمسایوں کو جغرافیائی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے کمزور کرنے کی جدوجہد میں برسرپیکار ہے۔ جنوبی ایشیاء کی تاریخ اور ثقافت اس بات کی شاہد ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے نفسیاتی لحاظ سے برابری کی سطح پرچلنے کے خواہاں رہے ہیں جو کہ سفاک ہندد ریاست کے لیے ناقابل قبول ہے۔ چھوٹے ممالک کو ڈرا نے دھمکانے کی ہندو ذہنیت اور دیگر عوامل نے جنوبی ایشیائی ممالک کو چین کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔

بھارت اپنے معاشی،جغرافیائی اور سیاسی جال کے زریعے اپنے ہمسایہ ممالک کی مدد سے ترقی کے بجائے پس ماندگی اور تنہائی کی طرف جا رہا ہے۔  بھارت اپنے غاصبانہ عزائم کے باعث دونوں گروپوں، بی بی آئی این(بھوٹان، بنگلہ دیش، انڈیا اور نیپال) اور دوسرا گروپ (BIMSTEC) دونوں میں جگہ بنانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ روائیتی علاقائی بلاک سارک جو کہ چھوٹے ممالک نے اپنے مفادات کے لیے بنایا، بھارت نے اس میں بھی روڑے اٹکائے۔ پاکستان کے سارک ممبر ہونے کیباوجود بھی یہ بلاک غیر فعال ہے جبکہ دوسری جانب اگر ہم چین کا موازنہ جنوبی ایشیاء کی دیگر ریاستوں سے کریں تو، چین چھوٹے بڑے تمام ممالک کو ملا کر اپنے ماتحت تنظیموں کو کامیابی سے فعال رکھے ہوئے ہے اس سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک  چینی کی زیر نگرانی بننے والے بلاک میں بخوشی شامل ہو نگے۔

بھارت اس صورتحال کو امریکی چھتری تلے بیٹھ کر بدلنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے اور امریکی اشیر باد پر چین کے ساتھ مہم جوئی کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کافی دھلائی بھی ہوئی۔ بھارت کی جانب امریکی جھکاؤ نے خطے میں جغرافیائی، سیاسی اور معاشی خلیج پیدا کر دی ہے۔ امریکہ خطے کے دیگر بڑے عوامل سے قطع نظر ہو کرجنوبی ایشیاء میں بھارت کی اجارہ داری کے منصوبے پر گامزن ہے۔ امریکہ کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے روابط اور تعلقات قائم رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال، مالدیپ، سری لنکا اور بھوٹان نے تاریخی، معاشی اور سیاسی اور دفاعی وجوہات کی بناء پر کبھی بھی بھارتی اجارہ داری تسلیم نہیں کی اور دور دور تک اس کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔ بھارت اپنی معاشی، سیاسی، جغرافیائی اور دفاعی مسائل کے پیش نظر ان ممالک کو کسی بھی لحاظ سے اپنی چھتری تلے لانے پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ دونوں اہم عوامل چین کے لیے انتہائی موزوں ہیں جسکی وجہ سے امریکہ کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

امریکہ کی بحیرہ ہند پالیسی بھی ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔امریکہ ایشیاء میں چینی اثرورسوخ کومحض چینی مفادات تک محدود قرار دیتا ہے جو غیر عقلی اور غیر منطقی ہے۔بھارت کے ہمسایہ ممالک امریکہ کے بجائے چین کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں یوں لگتا ہے انہوں نے پاک امریکہ تعلقات سے کافی کچھ سیکھ لیا ہے۔امریکہ بھارت کے زریعے چین کو مصروف کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے اور جلد ہی بھارتی طلسم ٹوٹ جائے گا کیونکہ امریکہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کر رہا ہے اور امریکہ کے جانے کے بعد بھارت اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا۔ امریکہ کو جنوبی ایشیاء سے کوئی فوری خطرہ درپیش نہیں ہے، جنوبی ایشیاء میں امریکی دلچسپی محض اس کے مفادات تک محدود ہے اور یہ مفادات بھی قلیل المدت ہیں۔ مودی کی ہندو ذہنیت نے بھارت کے ہمسایہ ممالک کو کوسوں دور کر دیا ہے۔ چین، ایران اورپاکستان کے لیے دورازہ کھلا ہے وہ آگے بڑھیں اور جنوبی ایشیاء میں ایک نیا بلاک تشکیل دیں جو سب کے مفادات کا ضامن ہو۔ جنوبی ایشیاء کی کمیونسٹ پارٹیاں بھی چین کی وجہ سے کافی تقویت حاصل کر چکی ہیں۔

بھارت موجودہ صورتحال میں اس بلاک کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں ہے۔ جو بوئے گے سو کاٹو گے کے نتیجے میں بھارت جنوبی ایشیاء میں بننے والے کسی بھی بلاک کا حصہ نہیں بن پائے گا۔ بھارت خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے روس کے بعد اب امریکہ سے قربتیں بڑھا رہا ہے مگر کسی بھی ملک کا ہندوذہنیت کے ساتھ طویل المعیاد مدت تک چلنا ناممکن ہے۔ بھارت کا بین الاقوامی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا جنون بھی اس کے کسی کام نہیں آنے والا۔ اگر بھارت نے بین الاقوامی طاقتوں کے زریعے خطے کی اجارہ داری حاصل کرنے کی سعی کی تو یہ بھارت کے سلگتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے لیے جلتی پر تیل کا کام کرے گا اور پھر بھارت نہ گھر کا رہے گا نہ گھاٹ کا۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک کے پاس اس وقت چین سے بہترین کوئی اور پیشکش نہیں ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ خطے میں سٹرکچرل تبدیلیاں لاتے ہوئے ایک نئے بلاک کی ابتداء ڈالی جائے۔

اس بلاک میں علاقائی کے علاوہ بین الاقوامی ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔بھارتی جارہیت اور غاصبیت سے بچنے کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک کا متحد ور مضبوط ہونا ناگزیر ہو چکا ہے۔ چین بڑی آسانی سے NBSM گروپ کو اپنے ساتھ ملا سکتا ہے کیونکہ یہ گروپ مسئلہ کشمیر سے بھی لاتعلق ہے اور ان کے پاس نیوکلیائی ہتھیار بھی موجو نہیں ہیں۔ NBSM چین کے ساتھ یا توآپٹیکل فائبر کے زریعے جڑا ہوا ہے یا چین سیٹلائیٹ نظام کے زریعے اور یہ گروپ جلد ہی چینی 5G ٹیکنالوجی سے بھی مستفید ہونے والا ہے۔ ایسے بلاک کی صورت میں خطے میں بھارتی اجارہ داری کو روکا جا سکتا ہے اور یہ جنوبی ایشیاء کے امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مودی کی ہندو ذہنیت اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی غاصبانہ سوچ نے بھارت کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑ اکیا ہے۔ہندوں نے اقلیتوں کے لیے جینا محال کر دیا ہے اور اقلیتں گھر وں کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایشیاء اور عالمی امن کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جنوبی ایشیاء میں ایک نیا بلاک اشد ضروری ہے ورنہ بھارت خطے کے ساتھ عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ امریکہ کو بھی اپنی بحیرہ ہند کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ خطے کا دیرنہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے بعد خطے کے ممالک کو ملاکر ترقی کی راہ پر گامزن کر کے اپنی مفادات کو بہترین دفاع کر سکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
42176