Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

امام امت : حضرت امام موسی کاظم ………..ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

(7صفر،یوم پیدائش کے حوالے سے خصوصی تحریر)
اہل بیت اطہارکی پاکیزکی و طہارت پر قرآن مجید شاہد ہے۔یہ وہ گھرانہ ہے جسے اﷲ تعالی نے خاص اپنے حکم سے نبی ﷺکی آل سے پیداکیااور ان نفوس مقدسہ کے وجودسعادت کوامت کے لیے باعث رحمت وبرکت بنادیا۔’’امام موسی کاظم‘‘اسی گھرانے کا چشم و چراغ ہیں۔آپ کے والد بزرگوارکانام نامی امام جعفر صادق تھا،انہی کے نام سے فقہ جعفریہ موسوم ہوئی جس پر امت مسلمہ کاایک حصہ صدیوں سے عمل پیراہے۔امام موسی کاظم کی والدہ ماجدہ کااسم مبارک ’’حمیدہ‘‘تھاجو بربر قبیلہ کی خاتون تھیں۔امام موسی کاظم کی ولادت باسعادت 7صفر128ھ کو ہوئی،آپ اپنے والد محترم کے تیسرے بیٹے تھے۔آپ کا نام مشہور نبی اسلام حضرت موسی علیہ السلام کے نام پر ’’ موسی‘‘ رکھاگیا۔آپ کا نسب موسی بن جعفربن محمدبن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب ہے۔آپ کے متعدد القابات تاریخ نے نقل کیے ہیں لیکن آپ ’’کاظم(غصہ پی جانے والا)‘‘ کے لقب سے زیادہ مشہور ہوئے تاہم آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے ’’عبد صالح‘‘بھی کہاجاتاہے جب کہ مدینہ طیبہ کے مقامی لوگوں میں آپ ’’زین المجتہدین‘‘کے لقب سے مشہورتھے اوراہل عراق آپ کو’’باب الحوائج عنداﷲ‘‘کے لقب سے ملقب کرتے تھے۔اسمئیل اور عبداﷲآپ سے بڑے دو بھائی تھے۔امام صاحب نے اپنی عمر کے ابتدائی بیس برس اپنے والد حضرت امام جعفرصادق کی زیرسرپرستی و سایہ عاطفت میں گزارے اوران سے کسب فیض بھی کیا۔بچپن کے دنوں میں آپ اکثر امام ابوحنیفہ کے درس میں بھی شریک ہوتے رہے۔آپ کے اند جوہر تابدارکے باعث دو بڑے بھائیوں کی موجودگی کے باوجود مسند امامت آپ کے حصے میں آئی۔پچھلی امتوں اور امت مسلمہ میں بھی یہ دین اسلام کا خاصہ ہے کی نسل پر تقوی کو فوقیت حاصل ہے۔امام حسن مجتبی کے بعد امامت کا ان کی نسل میں چلنے کی بجائے امام حسین بن علی کاامام بن جانااور امام جعفر صادق کے ہاں بڑے دونوں صاحبزادوں کے حق بزرگی کے باوجود تیسرے بیٹے کا امام بن جانا اس حقیقت پر دال ہے۔
یہ ابوجعفرعبداﷲ بن المنصور عباسی (95ھ تا148ھ)کادورحکومت تھاجب 148ھ میں امام جعفرصادق اس دنیاسے پردہ فرماگئے اور منصب امامت پر امام موسی کاظم براجمان ہو گئے۔بہت جلد نیا عباسی خلیفہ ابوعبداﷲ محمد المہدی(127ھ تا158ھ)تخت نشین ہواتواس نے خاندانی رقابت کی بنیادپر امام محتر م کو قید میں ڈال دیا۔کم و بیش ایک سال کے بعد آزادی ملی تو بغدادسے مدینہ طیبہ کی طرف عازم سفرہوئے۔لیکن یہ آزادی بھی برائے نام تھی کیونکہ اگلا عباسی خلیفہ ابومحمدموسی بن المہدی الھادی (147ھ تا170ھ)نے بھی آپ پر قدغنیں لگائی رکھیں اورسخت نگرانی جاری رہی۔یہ حکمران بہت مختصر وقت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملاتو اس کے بعد عباسی دورحکومت کے سنہری دورکاآغاز ہوااورابوجعفرہارون بن محمدالمہدی(149ھ تا193) المعروف ’’ہارون الرشید‘‘جیسا خلیفہ مسلمانوں کا امیرالمومنین بن گیا۔اس دور میں امام صاحب کومکمل آزادی میسر آئی اور آپ نے اپنا فیض عام جاری فرمایا۔
آپ کو ’’کاظم‘‘کا لقب اس لیے عطا ہواکہ آپ کو غصہ پر کمال کا ضبط حاصل تھااوربردباری آپ پر ختم تھی۔آپ کو کبھی غصہ کی حالت میں نہ دیکھاگیاتھا۔آپ قرآن مجید کی اس آیت کی زندہ تفسیر تھے کہ ’’کاظمین الغیض‘‘کہ نیک لوگ اپنے غصہ پر قابو رکھتے ہیں۔مدینہ طیبہ کاایک عباسی عامل آپ کے ساتھ انتہائی نازیبا سلوک روارکھتاتھااور اکثروبیشتر آپ کے ساتھ گستاخی کی حد تک بدتمیزی سے بھی پیش آتاتھا۔آپ ہمیشہ اس سے درگزر فرماتے لیکن آپ کے معتقدین اس عامل پر ہمیشہ شاکی رہتے تھے اور آپ سے اجازت طلب کرتے رہتے کہ اس کے نارواسلوک کااسے مزاچکھایا جائے۔آپ حسب مزاج اجازت دینے سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ایک بار جب معاملہ پیروان امام کی برداشت سے آگے نکل گیااور انہوں نے شکایات کے انبار لگاکر انتقام کی درخواست کی تو امام محترم نے فرمایا تم ابھی صبر سے کام لو۔اب کی بار امام محترم بذات خود بنفس نفیس اس عامل کے پاس تشریف لے گئے۔وہ شہر سے باہر اپنے کھیت میں کاشتکاری کررہاتھا۔امام محترم اور اس عامل کے درمیان خدامعلوم کیابات ہوئی لیکن چند دنوں کے بعد امام محترم نے اپنے چاہنے والوں سے پوچھا کہ فتنے کاتدارک جس طرح تم کرناچاہتے تھے وہ نتیجہ خیزرہتایاجس طرح میں نے کیا وہ نتیجہ خیز رہاہے؟؟؟کیونکہ اس ایک ہی ملاقات کے بعد اس عامل کی طرف سے مکمل اطمنان اور سکون والے سکوت کارویہ سامنے آگیاتھا۔
’’خاموشی‘‘آپ کی شخصیت کادوسرا روشن پہلو تھا۔بھرے مجمعے میں بھی خاموشی غالب رہتی تھی بالکل اسی طرح جس طرح ختمی مرتبتﷺکی محافل خاموشی کا مرقع ہواکرتی تھیں اورصحابہ کرام فرماتے ہیں کہ کافی کافی دیر اس قدر خاموشی رہتی کہ پرندے بھی ہمارے سروں پر بیٹھ جاتے تو پتہ نہ چلتا،آپﷺخود سے بہت کم گفتگوفرماتے ،صحابہ کو سوال کی اجازت نہ تھی چنانچہ باہر سے کوئی بدومحفل میں داخل ہوکر کچھ پوچھتاتب آپﷺ جواب میں گویاہوتے۔اسی طرح امام موسی کاظم کو بھی خود سے بولتے کبھی نہیں سنا گیا۔شرکاء محفل کی خواہش ہوتی تھی کہ آپ کی زبان مبارک سے کچھ سنیں لیکن آپ نے خاموشی چادر اوڑھے رکھی تھی اور بلاوجہ و بے مقصد اپنی زبان مبارک نہیں ہلاتے تھے۔لیکن جب بھی گفتگوفرماتے تو ہیرے جواہرات سے بھی قیمتی الفاظ آپ کے دہن مبارک سے برآمد ہوتے اور محفل میں موجود اکثر اہل شوق ان الفاظ کو ضبط تحریر میں بھی لاتے تھے جن میں سے اکثر آج تک کتابوں میں زینت بنے امت مسلمہ کے عظیم ترکہ علمیت کا خاصہ ہیں۔جب کبھی آپ طویل درس ارشاد فرماتے تو سامعین کی اکثریت رقت قلبی اور خشیت الہی کے باعث زاروقطاررونے لگتی تھی۔حالانکہ یہ عروج خطابت کازمانہ تھااورایک سے بڑھ کر ایک خطیب اپنے مناظرانہ زوربیان،اشعاروروایات اورفصاحت و بلاغت سے مزین تقاریر سے ساری ساری رات بڑے بڑے مجمعوں کو قابو کر کے بیٹھا رہتاتھااور چہارجانب واہ واہ کی صداؤں اورنعروں کے شورسے عمارتیں اور محلے گونجتے رہتے تھے لیکن یہ سب بیان و تقاریرو خطبے محض الفاظ کی تجارت اورزبانی جمع خرچ تھے جب کہ امام صاحب کی دھیمی گفتگوکے عقب میں عمل کاایک سمندر موجزن ہواکرتاتھااور مجمع سے شوروغوغا کی بجائے پشیمانی کے آنسواوراپنے گناہوں پر نادم توبہ واستغفارکی آہیں اور سسکیاں برآمد ہوتی تھیں۔خاص طورپر جب آپ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے ایک تعدادکثیرآپ کے عقب میں بیٹھی اس کتاب مقدس کی تلاوت سنتی تھی اور جب آپ تلاوت ختم فرماتے تو کم و بیش تمام سامعین کی داڑھیاں آنسؤں سے ترہو چکی ہوتی تھیں۔غیرمسلموں سے بھی آپ کے بعض مناظرہ طرز کی گفتوئیں منقول ہیں جن کے بعد وہ غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
سخاوت و فیاضی صرف امام موسی کاظم کاہی نہیں اس سارے خاندان اہل بیت کا اول و آخر خاصہ ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہونے والی مہمان نوازی بدرجہ اتم اس نسل پاک میں درجہ بدرجہ موجود رہی ہے۔اس گھرانے کی چوکھٹ سے تو کبھی زبان لٹکائے دھتکارے جانے والا جانور بھی خالی پیٹ واپس نہیں گیاتواشرف المخلوقات کانمائندہ خالی ہاتھ کیسے جاسکتاہے؟؟؟اﷲ تعالی نے اس گھرانے کویہ سعادت وخوش بختی بخشی کہ صرف اپنا رزق ہی نہیں بلکہ ہدایت کا وسیلہ بھی اسی خاندان کو بناکردنیامیں اپنی رحمت و برکت وکثرت کا سبب بنایا۔جب امام محترم پیداہوئے تو ان کے والد حضرت امام جعفرصادق نے تین دنوں تک اپنا دسترخوان عام لوگوں کے لیے کھول دیاتھا اوربلاتخصیص ہرکس و ناقص آتااور اپنا پیٹ بھر کے چلاجاتا۔امام موسی کاظم کے ہاں آنے والا اپنی جھولی سے کہیں زیادہ وصول کرکے لوٹتاتھا۔رشتہ داروں پر بہت خرچ کرتے تھے اور بہانے بہانے سے ان کے لیے اپنی جیب خاص کھلی رکھتے تھے۔پیٹ تومسلمان،کافر،فاسق،منافق وغیرہ سب کا بھراہی جاتاہے خوش نصیب تووہ لوگ ہیں جواس درگاہ سے خشیت الہی اور قرب خداوندی لے کر لوٹے اور جنہیں امام محترم کی ایک نگاہ سے عمر بھرکے لیے سنت نبویﷺ بطورر وظیفہ حیات کے مل گئی ،اور پھر انہیں کبھی خلاف سنت امور میں مبتلا نہیں دیکھاگیا۔قیامت تک اس خاندان کا فیض جاری رہے گا کہ یہاں سے سامان ہدایت کل انسانیت کو میسر آتارہے گا اور یہی اصل فیاضی و سخاوت ہے جو دارین میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت خداوندی ہے۔
عبادت گزاری دراصل تعلق باﷲ کی ہی ایک شکل ہے۔امام موسی کاظم اپنی کثرت عبادت کے باعث اہل مدینہ میں ’’عبدصالح ‘‘کے لقب سے جانے جاتے تھے۔صباح و مساہ مصلے ہی آپ کی آماجگاہ ہواکرتاتھا۔فرصت کے لمحات جوار خداوندی میں گزارتے تھے۔آپ کو کبھی فارغ نہیں پایاگیا،مخلوق سے خالق کی طرف اور پھر خالق سے مخلوق کی طرف کاوظیفہ تاحیات آپ کی سیرت پاک کی زینت بنارہا۔بادشاہوں نے آپ پر زندانوں کے دروازے کھولے توفرصت کے باعث کثرت ریاضت کوآپ نے اپنا وطیرہ بنالیا۔ سرکاری جلاد بھی آپ کی عبادت گزاری سے نہایت متاثر ہوجایاکرتے تھے جس کے باعث حکومت وقت کی طرف سے ان کاتبادلہ کردیاجاتا،اس پر بھی جب حکمرانوں کو تسلی نہ ہوتی تو آپ کا زندان بدل دیاجاتاتو آپ رب تعالی کاشکراداکرتے کہ زمین کاایک اور ٹکڑا روز محشر آپ کی عبادت پر گواہی دینے کے لیے میسرکردیاگیاہے۔ذکرواذکار،فکروتدبراورتلاوت و نوافل کا کثرت اہتمام آپ کی شخصیت کا ایک اور روشن تر پہلوہے۔آپ سجدوں میں دعاؤں کی کثرت تکرارکرتے تھے اور گریہ زاری کے سبب ریش مبارک اکثر تر رہتی تھی۔
عام لوگ اگر عمل کے میدان میں شہسوارہوں تو ان کے علم کی سیاہی پھیکی پڑجاتی ہے اور اگرآسمان علم کے سورج چاند ستارے ہوں توان کے عمل کاخانہ خالی نظر آتاہے۔امام موسی کاظم کے ہاں علم وعمل دونوں بدرجہ اتم موجود ہیں۔آپ سے متعدد کتب منسوب ہیں،کچھ کی تصنیف تو آپ نے اپنے دست مبارک سے کی تو اکثر آپ کے ملفوظات پر مبنی ہیں۔’’مسندامام کاظم‘‘میں تیرہ ہزار سے زائد احادیث نبویﷺجمع کی گئیں ہیں جنہیں امام محترم سے روایت کیاگیا۔عقل انسانی کے بارے میں ایک رسالہ بھی ہے جو امام محترم سے منسوب ہے ،’’رسالہ توحید‘‘نامی ایک اور کتاب بھی آپ سے منسوب ہے،ایک اور کتاب مرتب کی گئی ہے جس میں امام محترم سے کیے گئے سوالات اور امام محترم کی طرف سے دیے گئے جوابات جمع کیے گئے ہیں۔ان کے علاوہ آپ کے خطبات،غیر مسلموں سے مناظرے اورگفتگوئیں بھی نقل کر کے مرتب کی گئی ہیں۔آپ کا طرز استدلال بہت عمدہ اور بے مثال تھا،بس ایک آدھ جملے میں ہی مدمقابل کو خاموش کر دیتے تھے۔ایک بارہارون الرشید نے آپ ﷺ کے ساتھ اپنی زیادہ رشتہ داری ثابت کرنے کی کوشش کی،وہ بہت کچھ کہتارہا اور آپ سنتے رہے۔آخرمیں آپ نے ایک ہی سوال کیااورپوچھاکہ اگرآپ ﷺ زندہ ہوکر لوٹ آئیں توکیاتم آپﷺکے نکاح میں اپنی بیٹی دوگے؟؟؟ہارون الرشید نے خوش ہوکرکہاکہ جی ہاں یہ تومیرے لیے اور میرے قبیلے کے لیے باعث فخر ہوگا،اس کے جواب میں امام محترم نے فرمایاکہ میری بیٹی سے آپ ﷺ نکاح نہیں کریں گے کیونکہ وہ انکی نواسی ہو گی۔ہارون الرشید کے ہونٹوں کو تالا لگ گیا۔
ہارون الرشیدنے امام محترم کو دو مرتبہ قید خانے کی نذرکیا،پہلی دفعہ تو جلد ہی رہائی میسر آگئی لیکن دوسری اسیری جان لیوا ثابت ہوئی۔اس خاندانی رقابت کا پس منظر یہ ہے کہ بنوامیہ کے خلاف چلنے والی تحریک میں قربانیاں آل رسول ﷺاورعباسیوں نے مل کردی تھیں لیکن عین موقع پر عباسیوں نے اقتدارپر قبضہ کرلیااور اہل بیت و آل فاطمہ کو پیچھے دھکیل کرمحروم کردیا۔اسی وجہ سے عباسی جنہوں نے اہل عبا کی صلاحیتوں اور تعلق باﷲ وتعلق بالناس کا نہ صرف اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیاتھابلکہ ان کے معترف بھی تھے،اسی لیے وہ ہمیشہ فاطمیوں سے خائف رہتے تھے اور انہیں اپنے اقتدارکے لیے بہت بڑاخطرہ سمجھتے تھے۔امام محترم کے قتل کا حکم اگرچہ ہارون الرشید کی طرف منسوب کیاجاتا ہے لیکن تاریخ کے موقر منابع اس بارے میں متضاد رائے رکھتے ہیں کیونکہ امام محترم کی شہادت ایک یہودی کے ہاتھوں ہوئی جس نے زہر آلود کھجوریں کھانے پر مجبورکیاتھا۔یہ یہودی سندی بن شاہک چونکہ کوتوال زنداں تھااس لیے اس نے بزور طاقت امام صاحب کو زہر دیالیکن بعد میں بادشاہ پر ثابت کرتارہا کہ یہ طبعی موت تھی اور اس نے گواہ بھی پیش کیے۔بہر حال اگر امام محترم کاقتل واقع ہواہے توبحیثیت حکمران وقت ہارون رشید امام کے قتل کا ذمہ دار ضرور ہے۔یہ 25رجب 183ھ کا ن تھا جب امام کاجنازہ زنداں سے برآمد ہوا۔کم و بیش پچپن سال کی عمر اور پینتیس سالہ امامت کے بعد امام محترم خلد بریں کو سدھارگئے۔
آپ میانہ قد تھے،شکل و صورت سے پھوٹتاہوانورہویداتھا،چہرہ مبارک گندمی مائل تھا جب کہ سیاہ اور گھنی داڑھی تھی۔متعدد نکاح کیے،زیادہ تر کنیزوں کو خریدااور پھر انہیں آزادکر کے ان سے نکاح کیا۔پہلا نکاح ’’نجمہ خاتون‘‘سے کیاجن کے بطن سے امام رضا نے جنم لیا۔کثرت عیال تھے،کل سینتیس اولادیں گنی گئی ہیں جن میں سے اٹھارہ بیٹے اور انیس بیٹیاں شامل ہیں۔آپ نے اپنے وصال کی پیشین گوئی پہلے ہی فرمادی تھی۔آپ کا جسد مبارک زنداں سے نکال کربے توقیری کے لیے بغدادایک پل پر رکھ دیاگیاتھا۔مسلمانوں نے آپ کو غسل دیااورپورے دینی احترام سے آپ کو لحدمیں اتاراگیا۔آج بغدادکے قریب ’’کاظمین‘‘نامی مقام پر امام موسی کاظم اور امام جواد کے مقبرے ہیں۔امت مسلمہ کے اندر قیادت کا کبھی بھی فقدان نہیں رہا۔تاریخ اسلام اور تاریخ مسلمانان اگرچہ دو مختلف اصطلاحات ہیں اور جس کوعام الفاظ میں تاریخ اسلام کہاجاتا ہے اصل میں وہ تاریخ مسلمانان عالم ہے۔تاریخ اسلام بڑی ہی دردناک ہے۔کہیں کہیں تو تاریخ اسلام اور تاریخ مسلمانان باہم متصادم بھی نظر آتی ہیں۔خلافت راشدہ کے دوران تواسلام اور مسلمان اکٹھے رہے لیکن اس کے بعد آنکھ مچولی جاری رہی ،کبھی اکٹھے تو کبھی متصادم۔چنانچہ جب بھی اسلام کو خطرہ درپیش ہوا کربلا کے میدان تازہ ہو گئے اور اہل بیت نے اپنی قربانیاں پیش کیں اور دین محمد ﷺکو ایک بار پھر زندہ کیا۔کبھی تو یہ کربلا میدانوں میں رہی توکہیں یہ زندانوں میں عود کر آئی تو کبھی ایوانوں میں اس کربلا کو سجایا گیا۔بہرحال آل رسول ﷺ وہ خاندان ہے جس پر درود پڑھے بغیر مسلمانوں کی نماز جیسی عبادت بھی مکمل نہیں ہوتی۔نبیﷺ کے جگرگوشے اگر مسلمانوں کو اپنی جان سے عزیزتر نہ ہوں تو پھر ایمان کی حلاوت حلق سے نیچے ابھی نہیں اتری۔دین کا تحفظ آل عباپر قرض ہے اور آل عبا کی قیادت وسیادت کی تسلیم و رضا امت مسلمہ پر فرض ہے۔ایمان وعمل کے ساتھ ساتھ یہی نسبتیں پیش ہوئیں تب ہی قبولیت کے امکانات روشن ہوں گے۔
[email protected]


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
14663