Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اقبال, جناح, تحریک پاکستان, غلط فہمیاں اور ان کا مدلل جواب: ۔۔۔حنیف محمد

شیئر کریں:

کچھ عرصے سے مشاہدہ کر رہا ہوں کہ کچھ ناسمجھ اور منفی ذہنیت رکھنے والے قائد اعظم کے حوالے سے من گھڑت الزامات لگانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور یہ لوگ بعض اوقات اتنے نیچ درجے تک گر جاتے ہیں اور بے بنیاد رائے قائم کرتے ہیں گویا قائداعظم نے مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ راست حاصل کرکے گناہ کا ارتکاب کیا ہو. ایسے ہی ایک بے معنی اور بے بنیاد گفتگو یہ حضرات جناح اور علامہ اقبال کے آپس میں تعلقات کے حوالے سے, خاص طور پر علامہ اقبال کے خطبہ آلہ آباد کے متعلق کرتے رہتے ہیں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جناح نے اقبال کے خطبہ آلہ آباد کو ہر پہلو سے نظر انداز کیا اور ذرا برابر بھی اہمیت نہ دی یا دوسرے لفظوں میں غیر ضروری سمجھا. اور اس کے ساتھ وہ مظلوم جناح پر یہ بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ جب اقبال کے آلہ آباد خطبے کے متعلق ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے اقبال کے سکیم کو غیر موزون قرار دے کر کہا کہ اقبال میں سیاست کرنے اور سمجھنے والی صلاحیت نہیں ہے وہ ایک شاعر ہیں, سیاستدان نہیں.

یہاں بنیادی طور پر اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ تحریک پاکستان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی یا تحریک پاکستان کچھ بھی نہیں اور بے معنی ہے اگر اس میں سے دو شخصیات کا نام نکالے جائیں اور وہ دو نامور شخصیات قائداعظم اور علامہ محمد اقبال ہیں. آپ حضرات کی راہنمائی اور اس حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنے اور ان کا جواب دینے کے لئے چند تاریخی حقائق پیش خدمت ہیں۔

.1-سب سے پہلی بات جناح نے اقبال کے 1930 کے دو قومی نظرئے کے تصور کو کبھی رد نہیں کیا بلکہ وہ اس پہ غور کرہا تھا لیکن اس وقت وہ اس پر عمل درآمد کو موزون نہیں سمجھ رہا تھا اور ایک ایسے وقت کی تلاش میں تھا کہ جس میں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

.2-جب 1938 میں جناح سے پوچھا گیا کہ آپ کو مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن حاصل کرنے کا خیال کب آیا تو اس نے 1930 کےخطبہ آلہ آباد کا ذکر کیا جس میں علامہ اقبال نے موجودہ پاکستان کے علاقوں پر مشتمل ایک ریاست کا تصور دیا تھا۔

.3-اقبال نے 1936 اور 37 میں جناح کو کئی خطوط لکھے جو کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں. ان خطوط میں اقبال نے جناح کو ہندوستان کے مسلمانوں کا واحد سہارا کے طور پر مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوں کے غلبے سے آذاد کرانے کیلئے راہنمائی فرمائی اور مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد کر کے ایک الگ ریاست کے مطالبے پر زور دیا. اسی جذبے کی بدولت آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 23 مارچ 1940 کو لاہور میں منعقد کیا گیا جو اقبال کے خواب کی تعبیر بن گئی۔

.4-علامہ اقبال نے اپنے ایک خط مورخہ 28 مئی 1937 میں فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا حل اسلامی شریعت کے نفاذ میں موجود ہےلیکن شریعت اسلام کا نفاذ ایک آذاد مسلم ریاست کے بغیر ممکن نہیں جہاں وہ اپنی مذہبی عقائد, رسم ورواج اور طور طریقے کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

.5-اقبال کے اپنے نام خطوط کے حوالے سے جناح نے 1940 کے قرار داد لاہور کے بعد فرمایا کہ اقبال کے خیالات مکمل طور پر میری سوچ سے ہم آہنگ تھےاور آخرکار ہندوستان کے آئینی مسائل کے حل کے لئے میں انہی نتائج پر پہنچا جو اقبال کا تصور تھا یا جو اقبال نے نشاندہی اور راہنمائی کی تھی۔

.6- اقبال کی وفات پر 1938 میں جناح نے فرمایا” وہ میرے ذاتی دوست, اور راہنما تھے اور اسی کا میری ذہنی اور روحانی راہنمائی میں اہم کردار ہے.۔

 7-قرارداد لاہور, جس کو بعد میں قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا, کی منظوری کے بعد جناح فرمانے لگے کہ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کیونکہ ہم نے وہم کام کیا جو اقبال چاہتے تھے. یعنی جو خواب علامہ اقبال نے 30 دسمبر 1930 کو دیکھا اور بیان کیا جناح نے دس سال بعد اس خواب کو عملی جامہ پہنایا۔

.8-قرارداد پاکستان کے دو دن بعد یعنی 25 مارچ کو لاہور میں یوم اقبال منایا گیا جس میں جناح نے کہا کہ اگر مجھے کسی مسلمان ریاست کی حکمرانی اور کلام اقبال میں انتخاب کی پیش کش کی جائے تو میں کلام اقبال کو حکمرانی پر ترجیح دونگا۔

.9-۔۔اقبال بھی جناح کی شخصیت سے اتنے متاثر ہو چکے تھے کہ 1936 کے اواخر میں اپنے احباب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جناح کو اللہ نے ایسی صلاحیتیں بخشی ہیں جو آج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتیں. اقبال نے جناح کے بارے میں کہا .He is incorruptible and unpurchaseable. 10-…۔۔اقبال نے 21 جون 1937 کے خط بنام جناح میں لکھا ” اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ کی ذات گرامی ہی قوم کی راہنمائی کا حق رکھتی ہے

“11-ایک مرتبہ راجہ حسن اختر نے اقبال سے پوچھا. کیا ہندوستان میں کوئی ایسا شخص ہے جسے ہم آپکی خودی کا مظہر کہہ سکیں؟ اقبال نے جواب دیا. ہاں بلکل ہے اور وہ محمد علی جناح ہے. اپنی قوم کو میں جس خودی کا درس دے رہا ہوں وہ محمد علی جناح کے وجود میں جلوہ فرما ہے

.12- جب جناح نے 1937 میں کانگریسی وزارتوں پر تنقید کرتے ہوئے بندے ماترم کو مسلم دشمن اور کافرانہ ترانہ قرار دیا تو علامہ اقبال بے حد خوش ہوئےاور فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہئے جناح کے ہاتھ پکڑیں..مسلم لیگ صرف جناح کے سہارے ہی کامیاب ہوگی اور اُس کے سوا کوئی مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں. اور یہ جناح ہی ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کے منزل تک پہنچاسکے گا.یقیناً تحریک پاکستان اور حصول پاکستان میں دونوں جناح اور اقبال کا کلیدی کردار رہا ہے. علامہ فکر تھے تو جناح عمل. جب فکرو عمل ایک ہوئے تو قدرت نے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلمان ریاست کے ظہور کی خوشخبری سنادی. دونوں اپنا اپنا کام کرکے اور اپنے مشن کو مکمل کرنے کے بعد دنیا سے رخصت فرما گئے.امید کرتا ہوں کہ یہ کالم اُن تمام لوگوں کو راہ راست پر لے آئے گا جن کے ذہنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں.
حوالہ جاتقائداعظم کی تقاریر جلد 2, خورشید یوسفی.
سچ تو یہ ہے, ڈاکٹر صفدر محمود.


تحریر: (حنیف محمد, ایم فل سکالر اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور)


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
44851