Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

افضل اللہ افضل ؔکا انٹرویو۔۔ آخری قسط…. تحریر: مبشر علی مبشر ؔ

شیئر کریں:

س:   بلا ئیں تو بہت ہیں۔۔یہ حقیقی عشق کونسی بلا ہے؟

ج:  اگر آپ کا عشق سچا ہے تو آپ عشقِ حقیقی پر ہیں‘سچائی سے یہاں مُراد ہے بے لوث اور پاکیزہ‘ اتنا پاکیزہ کہ منزل میں آپ کو آپ کا رب  مل جائے۔

س:  پھر  عشقِ مجاذی اور  عشقِ حقیقی میں کیا فرق ہے؟

ج:  عشقِ مجاذی فنا ہے اور عشقِ حقیقی  بقا ہے۔۔۔عشقِ مجاذی وہ جس کو تم نے بنا یا ہے‘سو وہ تمھارا مجاذی خدا ہے‘ اس کی تکمیل اور اس کی منزل یہی فانی دنیا ہے۔  اور عشقِ حقیقی وہ۔۔ جو سچا ہے اور اس کا صلہ اور تکمیل اس دنیا میں نہیں بلکہ اُس دنیا میں ہے جس کو فانا نہیں ہے۔  باقی دونوں خدا ہیں‘ مجاذی بھی آپ کا  خدا ہے اور حقیقی بھی۔!

 دراصل اللہ تعالیٰ کے ۹۹ صفاتی ناموں میں خدا نام کا کوئی نام شامل نہیں ہے۔  خدا کا لفظ ایران کی ثقافت سے نکلا ہے۔  اس  کا لفظی مغنی ہے  بنانے والا‘  سو  جو تمھیں پسند آجائے وہ بھی تمھارا خدا ہے۔!!!

جس نے ہم سب کو پیدا کیاہے وہ اللہ ہے۔۔ اُس پاک وپروردگار سے عشق کرنے کے لیے کئی ذندگیاں چاہیے‘ اس ساٹھ،ستر بر س کی۔۔آج ہے کل نہیں کی ذندگی میں خود کو  ہم اُس  غفور ورحیم سے عشق کے لیے صرف اہل کرسکتے ہیں اُس تک پہنچ نہیں سکتے۔

س:  عشق حاصل ہے‘لاحاصل ہے یا بے حاصل ہے؟

ؑ ؑ ؑ ؑ ؑج:  عشق اگر آپ کے  وجود میں ہے‘وہ حاصل ہے‘ اگر آپ کو عشق کی تمنا ہے‘ وہ لاحاصل ہے۔ 

بل فرض۔۔خوش قسمتی سے۔۔۔آپ کو آپکا عشق مل بھی جائے۔۔۔تب بھی آپ اُس عشق کو حاصل نہیں کہہ سکتے کیونکہ  اتنی محبت اُنہیں آپ سے نہیں ہوگی جس قدر آپ کو ا ن سے محبت ہے۔  سو اس دنیا میں عشق لاحاصل ہے۔

س:  ذندگی۔۔۔ یہ  ذندگی  کیا ہے؟

ج:   زندگی اللہ  تعالیٰ  کی مہربانی ہے‘ بحرحال زندگی جس چیز کا نام ہے‘یہ وہ زندگی نہیں ہے۔  اصل زندگی اس کے بعد ہے‘ یہ کچھ سالوں کی ذندگی البتہ اس بقا کی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔ 

    زندگی سانسوں کا بھی نام ہے جب تک سانسوں کا یہ رشتہ ہمارے ساتھ جھوڑا ہے سب کچھ قائم ودائم ہیں۔۔ چاہے ہمارے وہموگمان میں ہی سہی۔۔۔ لیکن سانسوں کا یہ رشتہ ہمارے ساتھ اُس زندگی میں بھی رہے گا‘فرق صرف اتنا ہے وہ بقا ہے یہ فنا ہے‘وہاں آسائشات اور سکون‘ یہاں امتحانات اور  جہدوجہد۔

س:  آپ  شاعری کی افادیت کو کیسے دیکھتے  ہیں؟

ج:  سرکارِدو جہان  حضرت محمدﷺ‘  حَسن بن سبیلؓ  کو اپنے ساتھ بیٹھا کر اُن سے ایسے اشعار لکھواتے کہ باطل کے دل میں گھس کر وہ  اُن کے لیے با عث ایمان بن جاتے۔۔ شاعری کی افادیت‘ اس کا مرتبہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی ہے۔ 

    ہاں مزاحیہ شاعری بھی ہوتی ہے‘ لیکن مزاحیہ شاعری کو گہرائی سے ناپے تو آپ کو اُس میں بھی سنجید گی نظر آئے گی اور اس سنجیدگی کے پیچھے نااُمیدی ہوگی‘ درد ہوگا۔  صالح نظام صالح ؔ صاحب مزاحیہ شاعری لکھنے کے استاد ہیں‘  اُن جیسا مزاحیہ شاعر آج تک پورے چترال میں پیدا نہیں ہو ا۔  پھر بھی مزاحیہ شاعری کی ادب میں ایک خاص مقام ہے‘جو مستقبل سے عاری ہے۔

 س:  کیا کھوار شاعری اپنی صحیح سمت میں جار ہی ہے؟

ج:  روانگی کے پہلو سے کھوارشاعری اپنی تاریخ کے ایک سنہرے دور سے گزر  رہی ہے‘ آپ کو  روز نئے شاعر سننے کو میسرآ رہے ہیں۔

       لیکن۔۔ نئی  نئی چیزوں کی ہماری بزم میں شمولیت کی طرح نئے نئے الفظ بھی کھوار الفاظ کی جگہوں پر قابض ہو رہے ہیں۔  جیسے ہارمونیم کا ہماری ثقافت سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی ہمار ی ستار اور ہمارے ڈف کی جگہ لے رہا ہے‘ بلکل اسی ہی طرح موجودہ دور کے شعرا ایسے الفاظ اُٹھا کر کھوار الفاظ کی جگہ استعمال کر دیتے ہیں‘جس کی وجہ سے  نہ صرف کھو ار ادب کے ساتھ ایک ناانصافی ہورہی ہے‘ جو  آگے جاکر کھو ار  ادب کی خاصیت کو ختم کردے گی‘ بلکہ اُس شاعر کے اپنے فن کے ساتھ بھی ذیاداتی ہے‘ جو حال میں اُس کو متناذعہ اور مستقبل میں اُس کوکوئی جگہ نہیں دے سکے گا۔

س:   آپ کبھی کبھار  اپنی غزلیں خود گُنگناتے ہیں؟

ج:  کبھی کبھی  اپنی غزلیں گاتا ہوں‘  کیونکہ  میرے نزدیک میرے اشغار کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ صرف میں ہی جانتا ہوں‘ اُن الفاظ کا حق صرف مجھے آدا کرنا ہے اور میں ہی آدا کرسکتا ہوں۔  وہ  فقط  مجھے ہی معلوم ہے کہ  میں نے اُنہیں کہاں‘ کس کرب میں اور کن حالات سے گز ر کر لکھا ہے۔ 

  س:   افضل ؔ کو    آپ کس دور کے شاعر سمجھتے ہیں؟

ج:   میری شاعری موجودہ وقت کی ہے‘  وقت کے تقاضوں  کو سامنے رکھتے ہوئے آج میں شاعری کرتا ہوں‘ لیکن میرے خیالات وہی پُرانے ہیں۔۔۔ کبھی امیر گل امیرؔ اور زیرک ؔ سے آگے نہیں آئے ہیں۔ 

س:  آپ کا   پسندیدہ  شاعر کون ہے؟

ج:  میر ے  پسندیدہ شغرا بہت ہیں‘لیکن اگر میں اُن میں اپنے

 استادِ محترم  شہزادہ عزیز الر حمن بیغشؔ صاحب کا ذکر نہ کروں تو ادب   مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔  یہی وہ پہلی ہستی تھی جن سے میں اپنی غزلوں کی اصلاح کراتا تھا۔  اسی ہی ضمن میں اپنے دوسرے اساتذہ‘

  محترم محمد عرفان عرفانؔ صاحب اور محترم امین ا لرحمن  چقتائی   ؔ      صاحب کا بھی ذکر  اگرنہ کروں تو ادب کبھی مجھے معاف نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اگرمیں چیئرمین شوکت ؔ  علی  صاحب،  گل نواز خاکی  ؔ  صاحب،  فضل الرحمن شاہد ؔ صاحب،  ذاکر محمد ذخمی  ؔ صاحب،  جمشید حسین عارف ؔ صاحب،  سعادت حسن مخفی  ؔ صاحب اور  صالح ولی  آزاد ؔ صاحب کے  نام بھی اگر نہ لوں تو میں ادب کا ہمیشہ مجرم رہوں گا۔   نوجوان شاعروں میں‘ فیضان علی فیضان ؔ اور غلام رسول بے قرارؔ کی شاعری کی جتنی تعریف کروں اُتنی کم ہے۔

                   ۔۔۔ختم شُد۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
44228