Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسٹیبلشمنٹ کی سینہ زوری اور قومی سیاسی جمہوری قیادت کے غیر جمہوری اسلوبِ سیاست سے آئین اور جمہوریت کے لیے بنیادی خطرات خوفناک شکل اختیار کر گئے ہیں. صوبائی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا

شیئر کریں:

اسٹیبلشمنٹ کی سینہ زوری اور قومی سیاسی جمہوری قیادت کے غیر جمہوری اسلوبِ سیاست سے آئین اور جمہوریت کے لیے بنیادی خطرات خوفناک شکل اختیار کر گئے ہیں .قرارداد برائے سیاسی صورتحال صوبائی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا

پشاور(نمائندہ چترال ٹائمز)جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ملک کے سیاسی، آئینی، اقتصادی، نظریاتی، اخلاقی اور قومی وحدت و یکجہتی کے بحران پر گہرے عدم اطمینان اور تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سینہ زوری اور قومی سیاسی جمہوری قیادت کے غیر جمہوری اسلوبِ سیاست سے آئین اور جمہوریت کے لیے بنیادی خطرات خوفناک شکل اختیار کر گئے ہیں۔ پاکستان کا آئینی، جمہوری، پارلیمانی نظام فوجی مداخلت کی وجہ سے مکمل طور پر مفلوج اور غیر فعال ہو گیا ہے۔ یہ خوفناک امر شدت اختیار کر رہا ہے،فوجی قیادت اور سول بیورو کریسی کے غیر آئینی کردار کی وجہ سے عوام اور ریاست میں بے اعتمادی، بے اطمینانی اور مایوسی کے فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر سیاسی جمہوری قیادت نے پاکستان کے اسلامی نظریاتی کردار کے تحفظ، آئین کی بالا دستی، قانون کے نفاذ اور جمہوریت، غیر جانبدارانہ انتخابات کی بحالی کے لیے کردار ادا نہ کیا تو ملک بڑے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ جبکہ ملک وملت اس وقت کسی بڑے حادثہ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ قومی سیاست سے جذباتیت، سطحی پن، شدت، عدم برداشت، توہین آمیز رویے، نا اہل کر پٹ اسلوب کا خاتمہ اور جماعتوں کے اندر جمہوریت، اصول اور ضابطوں کی پابندی نیزاختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سیاسی و جمہوری کلچر اور پائیدار جمہوریت ناگزیر ہے۔
صوبائی مجلس شوریٰ کا اجلاس قراردیتا ہے کہ ملک میں گھمبیر ہوتے بحرانوں کا بنیادی سبب1973ء کے متفقہ آئین سے مسلسل انحراف،پاکستان کی اسلامی نظریاتی، تہذیبی اور وحدت و یکجہتی کی اساس کی پامالی اور عوام کے انتخابی و جمہوری حقوق کی بے توقیری وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکا ر ہے۔

ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز، سیاست، ریاست، سول سوسائٹی اور عدلیہ کو اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرناہو گا، وگرنہ سب کے ہاتھ سے سب کچھ جاتا رہے گا اور تمام اسٹیک ہولڈرز اجتماعی نقصانات کے ذمہ دار ہوں گے۔

صوبائی مجلس شوریٰ سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف پچھلے گیارہ سال سے صوبے میں حکومت میں ہے لیکن ان کی نااہلی کی وجہ سے صوبہ شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ صوبہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے پرقرض کا حجم 900ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے، صوبائی حکومت اپنی آمدنی کے ذرائع وسیع کرنے میں ناکام رہی ہے اور مالی طورپر 90فیصد انحصار مرکز پر ہے، مالی بدعنوانی اور بدانتظامی کی وجہ سے صوبہ مالی طورپر مفلوج ہوچکا ہے، ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔

صوبے کے اندرتعلیم کا شعبہ بحران کا شکار ہے، 24پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں بغیر وی سیز کے چل رہی ہیں۔ ایم ایم اے دور میں شروع کیا گیا مفت نصابی کتب کا سلسلہ تقریباً بند ہوچکا ہے۔ 1700سے زیادہ سکول شدت پسندی، زلزلہ اور دیگر وجوہات کی بنیادپر تباہ ہوچکے ہیں جس کو ابھی تک تعمیر نہیں کیا جاسکا۔صوبے میں بدامنی، لاقانونیت، مالی بے ضاگیوں کا دور دورہ ہے۔
صوبائی مجلس شوریٰ ملک اور صوبے کے سیاسی، مالی، اخلاقی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتی ہے اور صوبے کے اندر دہشتگردی کی نئی لہر، ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور حکومتی لاپروائی اور بے حسی کی مذمت کرتی ہے۔

صوبائی مجلس شوری کا اجلاس اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی کردار اور لاقانونیت کے بڑھتے رجحانات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ تمام ادارے اپنے آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کریں 1973ء کاآئین جو کہ ایک متفقہ دستاویز ہے اور ملک کی سالمیت اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت ہے لہٰذا آئین پاکستان سے کھلواڑ بند کیا جائے۔
صوبائی مجلس شوریٰ کا اجلاس غزہ فلسطین کی صورت حال پر تشویش اور غم کا اظہار کرتا ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مودی فاشزم عالمی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ وفاقی حکومت اور وزرات خارجہ عوام کے اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان دونوں مسائل پر بین الاقوامی فورمز پر مؤ ثرسفارتکاری کرے۔
صوبائی مجلس شوریٰ سمجھتی ہے کہ سابقہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد صوبے کی آبادی اور رقبے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس حساب سے صوبے کا این ایف سی ایوارڈ میں حصہ 14فیصد کے بجائے 18فیصدحصہ بنتا ہے۔ افقی تقسیم (Horizotnal Distribution) میں خیبرپختونخوا کو آبادی کی بنیاد پر اپنے حق سے محروم کیا جارہاہے، اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کااجراء کیا جائے اور صوبے کو اس کا حصہ دیا جائے۔

قبائلی اضلاع کے انضمام کے وقت 30ہزار ملازمتوں، 3فیصد این ایف سی ایوارڈ میں حصہ اور 100 ارب روپے سالانہ دس سال تک دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جوکہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز کے قیام کا بھی وعدہ کیا گیا تھا، وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے بدامنی میں اضافہ ہورہا ہے اجلاس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ کسی بڑے حادثے سے بچنے کے لیے قبائلی اضلاع سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔
صوبے کے اندر بدامنی اور لاقانونیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ شانگلہ، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت اور وزیر ستان میں حالیہ دھماکو ں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات تشویشناک ہیں۔ صوبائی حکومت کیWritکمزور اور نہ ہونے کے برابر ہے، وزیر ستان میں الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر کی ٹارگٹ کلنگ میں شہادت بھی تشویشناک ہے۔ بدامنی کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔نیز شانگلہ میں چینی باشندوں کے قتل پر حکومت نے بھاری جانی معاوضہ دیا ہے جوکہ خوش آئند ہے لیکن ایک غریب کوہستانی ڈرائیورمحمدریاض کی شہادت پر ان کو معاوضہ نہیں ملا ہے لہٰذا اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ کوہستانی ڈرائیورمحمد ریاض شہید کے ورثاء کو بھی بھاری معاوضہ دیا جائے۔

صوبائی مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی میں مرکز بھی زیادتی کررہا ہے اور صوبہ بھی اپنا حق لینے کے لیے مؤ ثر اقدامات نہیں اٹھا رہا ہے، بجلی کے خالص منافع کی مد میں صوبائی حکومت کے مرکز کے ذمہ 1500ارب روپے واجب الادا ہیں، مجلس شوریٰ مطالبہ کرتی ہے کہ صوبہ اور مرکز اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کرے اور خیبرپختونخوا کے عوام کی محرومیوں کے خاتمے کے لیے خالص منافع کی فوری فراہمی یقینی بنائے۔

صوبائی مجلس شوریٰ سمجھتی ہے کہ ملاکنڈڈویژن اور قبائلی اضلاع کی مخصوص حیثیت ہے۔ ملاکنڈ ڈویثرن اور قبائلی اضلاع دہشتگردی کی نام نہاد جنگ، قدرتی آفات اور غربت کی وجہ سے اس وقت ٹیکس دینے کے قابل نہیں ہیں، اس لیے وفاقی حکومت اگلے بجٹ میں 10سال تک ٹیکس سے استثنیٰ دے۔
صوبائی مجلس شوریٰ سمجھتی ہے کہ ایوان بالا، وفاق کا نمائندہ اور علامت ہے اس وقت ایوان بالا میں خیبرپختونخوا کی 50فیصد نمائندگی سینٹ الیکشن کے التواء کی وجہ سے نہیں ہے، جوکہ 1973ء کے آئین کی روح کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے، اس لیے مجلس شوریٰ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا ایوان بالا کے لیے جلدازجلد آئین کے تقاضوں کے مطابق الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کرتی ہے،

صوبائی مجلس شوریٰ کا مطالبہ ہے کہ چونکہ ہزارہ ڈویثرن کے اکثر آبادی قدیم مرکزی شاہراہ ریشم کے اردگرد آباد ہے اس لیے اس کی توسیع وکشادگی کی جائے اور ہزارہ ڈویثرن کے اندر ہزارہ الیکٹرک پاور کمپنی کے قیام کے لیے اقدامات اٹھائے،
خیبرپختونخوا میں نوجوان ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ سے اوپر ہے خیبرپختونخوا کے نوجوان اپنے اور پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہیں بے روزگاری، بدامنی اور تعلیم سے محرومی نے نوجوانوں کو بے سمت بنادیا ہے صوبائی مجلس شوریٰ اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ نوجوانوں کی قومی ترقی میں با اعتماد رول اور پیش رفت کے لیے دوستانہ ماحول پیدا کریگی نوجوانوں کو باہنربنائیں گے۔صوبے میں لاکھوں نوجوانوں کو بنوقابل پروگرام کے ذریعے تعلیم و ٹیکنا لوجی سے آراستہ کریں گے۔
صوبائی مجلس شوریٰ اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ جماعت اسلامی اقامت دین کی جدوجہد کو تیز کریگی اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ طبقات کے ساتھ دین کی بنیاد پر روابط استوار کریگی،

قرآن وسنت کی بالادستی، آئین و قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے قومی کردار ادا کریگی،
سیاست میں نفرت، شدت، توہین، عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے تعمیری کردار ادا کریگی،
صوبے میں لاقانونیت اور بدامنی کے خلاف مؤثر آواز اٹھائے جائے گی،
صوبے کے اندر کرپشن اوربد انتظامی کے خلاف عوام کی ترجمانی کریگی،
صوبائی مجلس شوریٰ نے جماعت اسلامی کے کارکنان اور بہی خواہوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک وملت کو شدید بحرانوں اور مایوسیوں سے نکالنے کے لیے مسلسل جد و جہد کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ دعوت دین، بلند کردار عوام کے ساتھ گہرے روابط اور ظلم و جبر کے نظام کے خاتمہ کے لیے ہمہ تن سر گرم عمل ہو جائیں اور جماعت اسلامی کا پیغام پہنچانے کے لیے اپنے تمام تر انسانی اور مالی وسائل کو مجتمع کرکے مؤثر طورپر استعمال کریں۔پائیداراور دیرپاتبدیلی کے لیے مایوس نوجوانوں کے ساتھ رابطہ اور مکالمہ کیا جائے اور ایک عظیم تر انقلاب کے لیے ان کو جماعت اسلامی کی
پشت پر کھڑا کیا جائے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
87958