Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اب کی بار۔۔۔آزادی کا جشن…..تحریر:کلثوم رضا

شیئر کریں:

آگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم شاہ چچا سے مختلف قسم کے بیچ،ٹوپیاں اور جھنڈیاں لانے کی فرمائش کرتے۔اور شاہ چچا بڑی خوش دلی سے ہماری فرمائش پوری کرتے۔اور ہم اپنی پسند کے بیچز لے لیتے، مجھے مستطیل شکل کے دھات پر جشن آزادی مبارک کھدا پاکستانی پرچم کا بییچ بہت پسند تھا ۔جسے میں ہر وقت سینے میں دائیں طرف لگایا کرتی تھی۔اگر رکھتی تو بھی بڑی احتیاط کے ساتھ کہ کہیں گر نہ جائے۔
چھت پر جھنڈیاں لہراتے۔پاکستانی جھنڈے کی تصویروں سے بنی ٹوپیاں پہن لیتے۔
نانا ابو سے پاکستان بننے کے قصے سنتے۔نانا ہمیں بتاتے کہ آزادی کے لیے ہمارے بزرگوں نے کیا کیا قربانیاں نیہں دی۔


جان ومال حتی کہ عصمتیں بھی قربان ہوئیں۔تب جا کے ہمیں یہ آزادی ملی۔اس لیے ہم اس دن جشن مناتے ہیں۔
اور ہر ذندہ قومیں اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔اور ساتھ یہ بھی بتاتے کہ ہندؤں اور انگریزوں سے آزادی ملنے پر مسلمان بہت خوش تھے کہ اب انکا اپنا وطن ہے،اپنی حکومت اور اپنی مرضی۔
کوئی روکنے ٹوکنے اور لوٹنے والا نیہں ہوگا۔


اور یہ بہت سارے تحریکی راہنماؤں اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ہم بھی یہ سن کر خوشی سے جھوم کر قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گنگناتے
“یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان”۔

سکول میں بھی یکم اگست سے ہی 14 اگست کے دن کے لیے تیاریاں شروع ہوتی۔
جھنڈیوں سے سکول کو سجایا جاتا۔
تقریریں،ملی نغمے اور قومی ترانے گانے کے مقابلے ہوتے۔
نئے کپڑے ،نئے یونیفارم ہم خاص اس دن کے لیے بنواتے۔
عید پر بھی اتنی خوشیاں نیہں مناتے جتنی 14 اگست کو۔

یہ جذبہ یہ محبت سکول چھوڑنے کے بعد کیا شادی کے بعد بھی قائم رہی۔
14 اگست کو مختلف سکولوں میں جاتی فنکشن دیکھنے کے لیے۔جب بچیاں ملی نغمے گاتے ،
“جیوے جیوے پاکستان،
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے،
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،
یہ دیس ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے،
اپنے دیس پر ہم قربان دیس ہمارا پاکستان اور
یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے
یہ چمن ہمارا ہے ہم ہیں نغمہ خواں اس کے”۔
تو خوب انجوائے کرتی۔
اس پیارے وطن کو جینے اور قدم قدم آباد رہنے کی دعائیں تو اب بھی دیتی ہوں۔مگر ایک سوال”
اس پرچم کے سائے تلے کیا ہم ایک ہیں؟؟
سانجھی اپنی خوشیاں اور کیا غم ایک ہیں؟ ؟خود سے کرتی ہوں تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔
یہ دیس ہمارا تو ہے مگر اسے ہم نے سنوارا نہیں بگاڑا ہے۔
اور یوں پاسبانی چھوڑ کر صرف نغمہ خوانی پر ہی اکتفا کرنے لگے ہیں۔
اپنے دیس پر قربان ہونے کے بجائے دیس کو قربان کر ڈالا اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے۔
اور تو اور دیس کے محافظ بھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے لوٹ مار کی ابتدا اپنے دیس ہی سے کی۔
ملک و قوم کی خادمیت کا حلف اٹھانے والوں کا پہلا وار بھی اسی قوم کے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہوتا ہے۔
ہر نیا بننے والا حاکم اپنی حاکمیت کی ابتدا ملک خداداد کی جڑیں کاٹنے سے کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک پکا پکایا طعام کو تناول فرمانا ہی اس سے محبت کی دلیل ہے۔
حب الوطنی کی یہ مثال اعلیٰ عہدوں سے لے کر مزدور طبقوں تک دیتے ہیں۔ہر شہری اپنی بساط کے مطابق اس ملک کو اذیت دینے میں سرگرداں ہیں۔


یہ ہمارا حال ہے ۔ہم نے کچھ تو سن رکھا ہے آزادی کی خاطر قربانیوں کے قصے۔مگر ہم اپنی نسل کو یہ قصے سنانے سے بھی رہے۔انھیں ہم نے میڈیا کے حوالے کیا ہے۔اور میڈیا انھیں ایسے قصے سناتا ہے کہ بچے حیرانی سے سوال کرتے ہیں کہ جب علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ جیسی ہستی ،قائد اعظم جیسے لیڈر پاکستان بننے کے مخالف تھے تو لوگوں کو کیا ضرورت تھی اپنا گھر بار اور عصمتیں لٹانے کی۔علامہ اقبال کے جو لیٹر پوسٹ ہو رہے ہیں میڈیا پر ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یہ ہر گز نیہں چاہتے تھے کہ دو قومی نظریے کے تحت ہندوستان تقسیم ہو۔اور قائد اعظم تو دہریت کے قائل تھے وہ بھلا کیسے چاہتے کہ پاکستان نام کا ایک اسلامی ملک بنے۔


اور اس وقت کے مشہور و معروف تحریک جماعتِ اسلامی بھی پاکستان بننے کی کھلم کھلا مخالفت کرتی تھی۔
جانے یہ کیسے لوگ ہیں جو اس قسم کی بے ہودہ اور بے بنیاد باتوں سے نوجوانوں کے دلوں کو انکے ہیروز سے بدظن کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اب کی بار ان باتوں کو سنجیدہ لینا ہو گا۔ہمیں خود سے ،اس ملک سے یہ وعدہ کرنا ہو گا کہ بس بہت ہو گیا اب نیہں۔۔۔
اب ہم اس ملک پر اور ان کے ہیروز کے نام پر کوئی آنچ نیہں آنے دیں گے۔۔۔
اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یوں رایگان نیہں جانے دیں گے۔۔
آزادی کی خاطر جو گھر بار لٹے،ماوں ،بہنوں اور بہو بیٹیوں کی جو عزتیں لٹیں انہیں خاطر میں لاتے ہوئے مزید لٹنے سے خود کو بچائیں گے۔۔
اب کی بار آزادی کا جشن ذہنی غلامی سے بھی خود کو آزاد کر کے ذندہ قوموں کی طرح منائیں گے۔۔
اپنی نسل کو حب الوطنی کا درس دینے کے لیے خود ان کے سامنے ذندہ مثال بن جائیں گے۔
یہ وطن جس نظریے کی بنیاد پر بنا ہے اسے قائم کریں گے۔
ان شاءاللہ
پاکستان ذندہ باد


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
38942