![Chitral Times - The voice of Chitral | آنکھوں سے اوجھل اپر چترال کے سیاحتی مقامات، اویرآن اور اوژیرآن - تحریر رحمت عزیز خان chitraltimes rehmat aziz khan ovir chitral](https://chitraltimes.com/wp-content/uploads/2023/08/chitraltimes-rehmat-aziz-khan-ovir-chitral.jpeg?v=1692965913)
آنکھوں سے اوجھل اپر چترال کے سیاحتی مقامات، اویرآن اور اوژیرآن – تحریر رحمت عزیز خان
آنکھوں سے اوجھل اپر چترال کے سیاحتی مقامات، اویرآن اور اوژیرآن – تحریر رحمت عزیز خان ( چترال ٹائمز)
اللہ تعالٰی نے روئے زمین کو انواع و اقسام کے نباتات، حیوانات، جمادات اور قدرتی حسین مناظر و مظاہر سے مذین کیا ہے جو انسانی فطرت کے مطابق ان کوحسین و جمیل دلکش پرمسرت بنایا ہے جن سے انسان لطف اندوز ہو کر زندگی کی بوریت سے چٹکارا پا کر پھر سے تروتازہ خوش اور صحت مند ہو جاتا ہے اور مظاہر قدرت سے عبرت، فرحت، علم اور فائدہ حاصل کرتا ہے جہاں ممکن ہو انسان اللہ کی تخلیق کردہ کرشموں اور عوامل
کو مخلوقِ خدا کے فائدے کے لئے استعمال کرکے نیکی اور خوشی کا ذریعہ بناتا ہے ۔اس لئے اللہ تعالٰی آخری اسمانی مقدس کتاب قرآن مجید میں انسان کو تسخیر کائنات اپنی ایتوں(کرشموں) کے مشاہدے اور ان پر غور و فکر کرکے اپنی مقصد زندگی اور اللہ کی بڑھائی کو سمجھنے کے قابل ہونے پر زور دیتا ہے اسی طرح اللہ نے پاکستان کو ہر قسم کی رنگ رنگینیوں سے بڑی سخاوت کے ساتھ سجایا ہے یوں تو سارا پاکستان ایک حسین ملک ہے لیکن چترال گلگت،کشمیر سوات، گلیات کاغان مری، ایوبیہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ زیارت اور اسلام اباد وغیرہ کو بہت خوبصورت اور دلکش بناکر انسانی توجہ اور دلکشی کا سبب بنایا ہے۔تاکہ پوری دنیا سے ٹورسٹ کو کھینچ لائے اور ان پر اپنی دلکشی کا داد بٹھائے۔
پاکستان کے ان ٹورسٹ سائٹس میں اویر آن اور اوژیر آن بہت ہی اہم ٹورسٹ سائٹ ہیں جو اپر اور لوئر چترال کے درمیان واقع ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں. دو وادی کریم آباد اور اویر ایک دوسرے کے بہت قریب آتے ہیں تریچمیر کے دامن میں پھیلا ہوا اس علاقے میں ٹورسٹ کیلئے بہت ذیادہ ڈائیورسٹی کے ساتھ دلچسپی کے قدرتی سامان موجود ہیں۔جو زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں
اونچائی پر واقع دلکش نباتات و جمادات سے لدے ہوئے جینٹل سلوپز، پہاڑوں کی ساخت، ہموار سبزہ زاروں، انواع و اقسام کے حسین پھولوں، قیمتی اور صحت افزا سبزیوں ادویاتی اور بوٹانیکل پودوں، عجیب قسم کے قدرتی اور کندہ شدہ جانوروں کے تصویروں سے اراستہ پتھروں، میسو ذوئیک اور اینوذوئیک دور کے فاسلز، زمین کی قدیم تاریخ کے علاوہ بہت دور تک پہاڑوں کے نظارے، گلیشرز،تریچمیر کی اونچی چوٹی کا قریب سے نظارہ، پرسکون فضاء، صاف ستھرا قدرتی ماحول، پیدل چلنے کے لئے صحت افزاء ٹریکینگ روٹز، تیتر،چکور ہرن اور کبھی مارخور کے نظاروں کے ساتھ مطالعے اور تفریخ کے تمام سامان ہندوکش پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی تریچمیر کے سامنے واقع اویر آن اور اوژیر آن میں پوری دنیا سے سیاحوں کو اس علاقے میں آنے اور مظاہرِ قدرت کو مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔اس لئے ہم یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہیں کہ اویر آن اور اوژیر آن قدرت کے کرشموں کو فطرت کے آئینے میں دکھاتے ہیں۔
یہاں ہر قسم کے سیاح جیوگرافر، بوٹانسٹ جیالوجسٹ، پیلیئنٹالوجسٹ، ریسرچرز ایگریکالچوریسٹ اٹوبیوگرافر، قدرت بین، بلندی پر کھیل کھیلنے کے شوقین کھلاڑی، جعرافیہ، ارکیالوجی،جیالوجی،باٹنی کے طالبعلم اور اساتذہ کےعلاوہ کوہ پیما، پیرا گلائڈرز، خاص کر یونیورسٹی اور کالجوں کے طلباء کے سٹیڈی ٹورز اور ہر طرح کے سیاحوں کی د لچسپی کے سامان یہاں بکھرے پڑے ہیں۔
انسان جب ایک بار اویر آن اور اوژیر کا سیر کرے گا۔تو اس کا دل پھر بار بار اس کو یہاں انے پر مجبور کرے گا۔اس میں بہت ذیادہ تنوع پایا جاتاہے۔
اس علاقے میں ٹورسٹ 20 جون سے یکم ستمبر کے درمیان اسکتے ہیں۔اگر کوئی ذیادہ بلندی پر جانا چاہتا ہے تو 20 جولائی سے 20 اگست کے درمیان یہاں آ سکتا ہے۔تریچمیر فیسٹیول یا کوئی ایوینٹ منانا ہو تو 20 جولائی سے 10 جولائی بہت موزوں رہے گا۔
اویر آن اور اوژیر آن کے درمیاں ایک وسیع اور کھلا پلیٹو نما سبزہ زار ہے۔ اس کو بیریشون کہا جاتا ہے۔بیریشون نام لوگوںکی زبان سے بگڑ کر بوروشون بن گیا ہے۔باہر ملکوں سے اس علاقے میں آئے ہوئے سیاح اس سبزہ زار کو کانکارڈیا کا نام دیتے ہیں۔اس لئے کہ بیریشون تین علاقوں کریم اباد اویر اور پھستی کے درمیان واقع ہے۔اس سبزہ زار کو بیریشون اس لئے کہتے ہیں کہ یہاں مشہور الپائن خوشبودار پھول بیریش پائے جاتے ہیں۔
بیریشون دنیا کا بلند ترین گراؤنڈ ہے۔ جس کی بلندی سطح سمندر سے 14500 فٹ ہے جہاں سال میں ایک دو دفعہ وادئ کریم آباد اور وادئ اویر کے درمیاں پولو اور فٹبال میچ کھیلے جاتے ہیں۔ان کھیلوں کو دونوں وادیوں کے درمیان خیر سگالی محبت اور یکجہتی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
یہ علاقہ تریچمیر کے سامنے واقع ہونے کی وجہ سے نہ صرف سیاحتی نقطہْ نظر اور کھیلوں کے انعقاد یا تریچمیر فیسٹیول کے لئے اہم ہے بلکہ فوجی اور دفاعی لحاظ سے بھی بہت اہم علاقہ ہے
اویر آن اور اوژیر آن ٹورزم انڈسٹری تک رسائی کیلئے چترال شہر سے دو روٹ پر جایا جا سکتا ہے۔ چترال شہر سے مستوج روڈ پر اپر چترال کے شروع میں پرپیش پل سے دریائے چترال کے دائیں کنارے وادئ اویر میں داخل ہوتا ہے۔اور پرپیش پل سے خیرچوم ریری نیچھاع موژین اور گول غاری تک جیب ایبل روڈ جاتی ہے۔اسی روڈ کا ایک حصہ خیرچوم کے مقام پر ایک پل کے ذریعے بروم کی طرف جاتی ہے۔بروم سے جیپ ایبل روڈ شابرونز آوی شونگوش پختوری سے ہوکر گول غاری پہنچتی ہے۔اسی مستوج روڈ ہی سےگرین لشٹ کے مقام پر ار سی سی پل کے ڈریعے ایک روڈ بروم کو جاتی ہے۔بروم سے جیپ ایبل روڈ گول غاری پہنچ جاتی ہے۔یہاں سے اگے ٹریکینگ روٹ میں سے ایک اویر آن سے ہوکر اوژیر آن پھر کریم اباد کے خوبصورت گاؤن کیار اور سوسوم پہنچتا ہے۔
ایک اور ٹریکینگ روٹ اویر آن سے بیریشون کو جاتا ہے پھر اوژیر آن سے ہوکر کیار گاؤن کریم آباد جاتا ہے۔کیار سے جیپ ایبل روڈ سوسوم اور بریشگرام سے ہو کر شعور پل کے ذریعے گرم چشمہ روڈ کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔بیریشون سے ایک روٹ کریم آباد کا ایک اور گاؤن پرچان بھی آ جاتا ہے جہاں سے جیپ ایبل روڈ بوختولی اور بیلپھوک کے مقام پر ایک پل کے زریعے گرم چشمہ روڈ کے ساتھ شامل ہوتی ہے۔ ریری کے مقام سے ایک ٹریکینگ روٹ ریری آن سے ہوکر پھستی گاؤن کو جاتا ہے جہاں سے سوسوم اور پر چان کی طرف دو روٹ جاتی ہیں۔ ایک مستوج روڈ سےمروئے کے مقام پر پرئیت پل کے ذریعے جیپ ایبل روڈ پھستی تک پہنچتی ہے جہاں سے روٹز بیریشون کیار اور پرچان کو جاتے ہیں۔
دوسری طرف گرم چشمہ روڈ سے جیپ ایبل روڈ کے ذریعے بیلپھوک کے مقام سے پرچان اور شغور کے مقام سے ایک اور روڈ کیار کو جاتی ہیں جہاں سے متذکرہ ٹریکینگ روٹز کے ذریعے اوژیر آن بیریشون سے ہوکر اویر آن پھر گول غاری پہچتے ہیں۔اور وادئ اویر کے مختلف گاؤن سے ہوکر پرپیش اور گرین لشٹ کے مقام پر مستوج روڈ کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔
ایک فارن پروفیسر ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کے بلند ترین چوٹی تریچمیر سیاحت کیلئے آئے اور واپس جاکر اگلے سال 1949ء کو ناروے سے پوری ٹیم لے کر جس میں بوٹانسٹ جیالوجسٹ اور کوہ پیما بھی تھے۔انہوں نے تریچمیر کی چوٹی سر کر گئے اور اس علاقے کی باٹنی اور جیالوجی پر تحقیق بھی کئے۔یہ ٹیم پرپیش پل سے وادئ اویر آئے اور بروم گول کے راستے تریچیر سر کیا۔وہ ایک ماہ سے ذیادہ عرصہ یہاں رہے اور جاتے ہوئے کریم آباد سے ہو کر شغور پل سے نکل گئے۔۔
یہ علاقہ ہر لحاظ سے ٹورزم انڈسٹری کے لئے اہم ہے۔لیکن بدقسمتی سے حکومت پاکستان اور ٹورزم منسٹری آف پاکستان کی نظروں سے اجھل رہا ہے۔
اب وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت پاکستان اس ٹورسٹ پروڈکٹیو انڈسٹری کی طرف خاص توجہ دے۔ اور بیریشون میں تریچمیر فیسٹیول کے نام پر یہاں کوئی ایوینٹ منعقد کرکے اس کی سیاحتی اہمیت دنیا کے سامنے واضح کر دے۔
چونکہ ملک کی ترقی اور خوشحالی میں ٹورزم کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے۔اور پاکستان کی ڈوپتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے نئی راہیں اور نئے مواقع و ذرایع تلاش کرنے کی ظرورت ہے۔اگر حکومت اس علاقے میں ٹورسٹ کیلئے سہولت مہیا کرکے ٹورزم کو ترقی دے۔تو پوری دنیا سے ٹورسٹ یہاں آئیں گے۔ اس سے نہ صرف چترال ترقی کرے گا بلکہ لوگ بھی خوشحال ہوں گے بیروزگاری میں کمی آئیگی اور قومی امدن میں اضافہ ہوگا۔