Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آئی ایم ایف کا قرضہ اور بجٹ سازی – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

آئی ایم ایف کا قرضہ اور بجٹ سازی – محمد شریف شکیب

پاکستان ڈیموکرٹیک الائنس کے نام سے وجود میں آنے والے تیرہ جماعتی اتحاد کی حکومت کو اب ایک ہی آس ہے کہ وہ اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرکے قوم کے سامنے کچھ دانے ڈال سکے تاکہ آنے والے عام انتخابات میں انہیں کچھ ووٹ مل سکیں۔ حکومت کو توقع ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ جون تک پیچ اپ ہوگا جب ایک ارب ڈالر ملیں گے تو کچھ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں عوام کو عارضی ریلیف دیں گے اور کچھ اپنی انتخابی مہم کے لئے بچا لیں گے۔ کیونکہ اس بار مٹھی گرم کئے بغیر ووٹ ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ مگر آئی ایم ایف نے یہ شرط لگا کر حکومت کے ارمانوں کا خون کردیا ہے کہ قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو جون تک پرانے قرضوں کی اصل رقم سمیت سود کے اڑھائی ارب ڈالر واپس کرنے ہوں گے گویا ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔

 

ملک کی معاشی صورتحال روز بروز خراب ہورہی ہے۔ مگر ہمارے حکمران حسب معمول عوام کو سب اچھا کی رپورٹ دےرہے ہیں۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں عوام سے حقیقت کہاں چھپی رہتی ہے۔ حکومت لوگوں کے سامنے یہی تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ اسے سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کچھ عارضی مشکلات درپیش ہیں۔ حالانکہ حکومت میں شامل لوگ یہ فیصلہ ابھی تک نہیں کرپا رہے کہ انہیں اصل چیلنج کس سے درپیش ہے۔ حکومت میں شامل کچھ لوگ اپنی پالیسیوں کو ہی اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان، عدلیہ اور آئی ایم ایف کی نت نئی شرائط نے حکومت کو مشکل میںڈال دیا ہے۔ ان کو یہ بھی خوش فہمی ہے کہ سیاسی مخالفت، اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ سے نمٹنا ان کے لئے چنداں مشکل نہیں ہے مگر آئی ایم ایف روڑے اٹکا رہا ہے۔روز نئی شرائط لےکر سامنے آتا ہے۔ انہوں نے دوست ملکوں سے پاکستان کی ضمانت بھی طلب کی ہے۔ غیر سرکاری اخراجات کی فہرست بھی مانگ لی ہے۔ پرانے زمانے میں امریکہ کا بھی آسرا ہوا کرتا تھا۔ جوعالمی مالیاتی ادارے کو قائل کرتا تھا کہ پاکستان ہمارا اتحادی ہے اور دہشت گردی کےخلاف جنگ لڑ رہا ہے اس لئے اس کےساتھ ہاتھ ہولا رکھا جائے۔ وہ اپنے طور پر بھی دہشت گردی سے نمٹنےکےلئے اچھےخاصےفنڈز بھی دیتا تھا جس سےمعیشت کو بھی سہارا ملتا تھا اور صاحبان اقتدار کی ناگزیر ضروریات بھی پوری ہوتی تھیں۔

 

سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ تمام شرائط یک مشت بتانے کے بجائے ایک ایک کر کے بتارہا ہے۔آئی ایم ایف بھی جانتا ہے کہ پاکستان نے 70 برس میں دو درجن سے زائد قرض پروگرام خریدے مگر سوائے ایک کے کوئی فنڈنگ پروگرام پورا نہیں کیا۔ پیسے ٹریکٹر خریدنے کے نام پر لیے مگر ان پیسوں سے کسی کو جیولری بنوا کے دے دی۔تو کسی کے لئےآف شور کمپنی کھلوائی، کسی کو دبئی اور لندن میں گھر خرید کردیدیا تو کسی دیگر طریقوں سے نوازا۔ گھر بنانے کے لیے قرضہ لیا اور اس کو اپنی انتخابی مہم پر لٹا دیا اب وہ قرضہ سود سمیت پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام کو ادا کرنا پڑرہا ہے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت لاکھ روئے پیٹے کہ پچھلوں کی سزا ہمیں کیوں دے رہے ہو۔ مگر آئی ایم ایف اس لیے بہرا بنا بیٹھا ہے کیونکہ وہ کسی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو جانتا ہے کہ جس کے نام پر قرضے لے کے مجروں پر لٹائے جاتے رہے۔آئی ایم ایف کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی جو دو آخری قسطیں پاکستان کو ملنی تھیں وہ مالیاتی تفتیش میں اٹک کے رہ گئی ہیں اور موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔

 

پاکستان کا نیا سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں بنانا ہوگا بصورتِ دیگر پاکستان کے لیے اگلے فنڈنگ پروگرام کی منظوری میں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈز امریکہ فراہم کرتا ہے جو مجموعی فنڈ کا تقریبا 17 فیصد بنتا ہے۔اور امریکہ کا قرض لینے کا کوٹہ بھی سب سے ذیادہ ہے۔قرض کی فراہمی کےلئے امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ جاپان، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے ہیں۔ان میں سےصرف چین ہمارےحق میں بول سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز میں انڈیا کے ووٹ 2٫63 اور پاکستان کے صرف اعشاریہ 43 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کے جتنے بھی مینیجنگ ڈائریکٹر بنے وہ سارے کے سارے یورپی تھے۔اس لئے یہ توقع رکھنا خود کو فریب دینے کے مترادف ہے کہ پاکستان کو قرضے کی قسط جاری کروانے میں وہ ممالک پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں گے جو ماضی میں خود بھی ہماری دامے ، درمے سخنے مدد کرتے رہےہیں۔آج پوری قوم کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آرہی ہے کہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پل کر عیاشیاں کرنے کاانجام کیا ہوتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
74396