Chitral Times

آکاہ اور گلگت بلتستان حکومت کے مابین پچاس ملین درخت لگانے کے منصوبے پر دستخط

آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ اور گورنمنٹ آف گلگت بلتستان کے مابین مو سمیاتی تبد یلی کے اثرات کو کم کرنے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے حوالے معاہدہ طے پایا

گلگت (چترا ل ٹائمز رپورٹ) آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ (اکاہ) اور گورنمنٹ آف گلگت بلتستان، نے مو سمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے 50ملین درخت لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس بات کا اعلان منگل کے روز گلگت کے مقام پر منعقد کی جانے والی ایک اہم تقریب میں ہوا۔ جس میں دونوں اداروں نے معاہدے پر دستخط کیے۔

پاکستان پچھلے دو دہا ئیوں سے مو سمیاتی تبد یلوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں دسویں نمبر پر آر ہا ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان کا زیادہ تر علا قہ پہاڑوں اور گلیشیزپر محیط ہے اس وجہ سے گلگت بلتستان قدرتی آفات کی زد میں رہتا ہے۔ ان آفات بشمول سیلاب،ڈیبیرز فلو، لینڈ سلائیڈنگ اور گلشیز کے پگھلنے سے بنے والے جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ اور گورنمنٹ آف گلگت بلتستان کا یہ مشتر کہ پراجیکٹ ہے جو کہ شجرکاری کے ذریعے کاربن Emission کو کم کرنے، خطرے سے دوچار ڈھلوانوں کو مضبوط بنانے اور علاقے میں مو سمیاتی تبد یلی سے رو نما ہونے والے اثرات کو کم کرنے کے مقاصد کو حاصل کرے گا۔

محکمہ جنگلات، وائلڈ لائف، آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ کی تکنیکی مہارتوں کو استعمال کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں تقریبا 300 مقامات پر پودے لگائے گی جبکہ آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ ایسے مقامات میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں واٹر سپلائی کے نظام کی تعمیر میں تکنیکی مدد فراہم کرے گی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاہد زمان، سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات نے کہا کہ ہم آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ کے مشکور ہیں جو ہمیں تکنیکی مدد فراہم کریں گی اور اس پرو جیکٹ کے زریعے مو سمیاتی تبدیلوں کے ا ثرا ت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر ے گی۔ حکومت گلگت بلتستان آ غا خان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ کے خدمات کو سراہتی ہے۔ جو اے۔کے۔ڈی۔این نے پچھلے کئی سالوں میں علاقے کی ترقی کے لیے کیا ہے اور مزیدکر رہا ہے۔ آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ کے مضبوط انفراسٹر کچر کی تعمیر اور ماحولیاتی تبدیلوں کے ا ثرا ت کو کم کرنے والے پروگرامز نے پہلے ہی علاقے میں کافی تبدیلی لائی ہے۔ اورہم اس شراکت داری کے زریعے مستقبل میں بڑے اثرات کی تواقع کرتے ہیں۔

نواب علی خان، چیف ایگزیکٹو آفیسر، آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ا ٓغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ ، محکمہ جنگلات کے ساتھ اس اشترک کو اہم سمجھتی ہے کیونکہ یہ پراجیکٹ اے۔ کے۔ ڈی۔ این،کی مو سمیاتی تبد یلی کی حکمت عملی اور حکومت پاکستان کے ویژن کے حصول میں مدد گار ثابت ہوگی۔

یہ پروجیکٹ گلگت بلتستان کی پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں اے ۔کے۔ ڈی۔ این کے وسیع تر کام اور مہارت پر استوار ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آغا خان کو نسل برائے پاکستان کے صدر، جناب حافظ شیر علی نے کہا کہ مجھے آغاخان ایجنسی فار ہا بیٹاٹ کی گلگت بلتستان کی تر قی کے لیے گورنمنٹ کے ساتھ شراکت داری پر بہت خوشی ہے۔ جو علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اور یقینی طور پر یہ مشتر کہ کو شش پاکستان کے عوام کی معیار زندگی کو بڑھانے میں اپنا بہت اہم کردار ادا کرئے گی۔ ِِ

akah gb and goGB mou signed 2
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
40810

گلگت بلتستان کے انتخابات اور سیاسی جماعتوں پر ایک نظر……شاہ عالم علیمی

جیسا کہ میں نے پچھلے سال کہا تھا پاکستان تحریک انصاف کی گلگت بلتستان میں تنظیم سازی منظم نہیں ہے۔ اور یہ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بکھر جائیگی اور امجد حسین نے اپنی پارٹی کو مضبوط کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی یہ اہم خصوصیت ہے کہ وہ ہر حال میں انٹیکٹ رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پارٹی کے اندر پارٹی کارکنوں کی عزت اور ان کا خیال رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پارٹی کے ہزاروں کارکن کسمپرسی کی زندگی گزار کر بھی پارٹی کے ساتھ تاحیات وفادار رہے ہیں اور سینکڑوں نے جان کی قربانی بھی دی ہیں۔ اور اس پارٹی کو ادب کے اندر زندہ رکھنے میں بھی اس کے اہل قلم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ فخر اس پارٹی کی تقریباً ہم پلہ مسلم لیگ کو حاصل نہیں ہے۔ اس کی وجہ لیگ کے اندر پارٹی کارکنوں کا خیال نہ رکھنا اور وقت انے پر ان کو سائیڈ کرنا ہے۔ 


دوسری طرف تحریک انصاف پاپولزم کی ڈگر پر چل نکلی۔ عمران خان نے دو عشرے سے زیادہ محنت کی مگر بدقسمتی سے جب وقت قریب ایا تو صبر سے کام نہ لے سکے۔ دریا کے موجوں میں بہہ گئے۔ دوسری طرف دنیا میں امریکہ سے لیکر برازیل فلپائن سے لیکر بھارت تک پاپولسٹ لوگوں کا راج ہے۔ زرا سوچئیے اگر عمران خان کچھ سال اور انتظار کرتے تو پاکستان میں عوام سے لیکر فوج تک کسی کے پاس کوئی اور اپشن نہیں تھا۔ سب لیگیوں اور پی پی سے تنگ اچکے ہوتے اور پی ٹی ائی خود بخود برسر اقتدار اتی۔ 
اج پاکستان کی بدقسمتی یہ نہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی اور مسائل کے حل کا کوئی حکمت عملی نہیں ہے بلکہ اصل بدقسمتی کسی متبادل دوسری سیاسی جماعت کا نہ ہونا ہے. یوں تو کہنے کو تین سو کے قریب سیاسی جماعتیں ہیں مگر سب کے سب فکری ارتقا سے خالی ہیں۔ اس تناظر میں سوچے تو مستقبل بہت خراب نظر اتا ہے۔ اج تین بڑی جماعتیں سب کے سب جاکر جنرلوں سے سیاسی ریلیف مانگنے لگی ہیں۔ ایسی جماعتوں پر اعتبار ہو تو کیوں کر ہو۔
اتے ہیں گلگت بلتستان میں تازہ صورتحال کی طرف؛  سابق وزیراعلیٰ اور لیگ کی کشتی کے کیپٹن حافظ حفیظ الرحمان نے نواز شریف سے شکایت کی ہے کہ ان کی پارٹی کے بڑے بڑے پرندے اڑ کر دوسری جماعتوں کی طرف گئے ہیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا اس میں کونسی حیرت کی بات ہے۔ صرف ایک مثال یہاں پیش کرتے ہیں۔ پچھلے انتخابات میں لیگ کے اہم اور پرجوش سنئیر کارکن مرحوم سلطان مدد ہار گئے۔ بس یہی ان کا قصور تھا۔ ہر مشکل میں ساتھ نبھانے والے اس کارکن کو پھر ایسے اکیلا چھوڑا گیا کہ مرحوم دل برداشتہ ہو کر اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ کسی نے ان کو پوچھا بھی نہیں جبکہ دوسری طرف ایسے شخص کو گورنر بنایا گیا جو مسلم لیگ کے خلاف تھا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انتخابات سے چند دن قبل سلطان مدد نے نواز شریف سے ملاقات کرکے دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف نے ان کے کہنے پر غذر کو دو ضلعے بنانے کا حکم دیا ہے۔ یہ خبر لیڈ سٹوری کے طور پر اگلے دن اخباروں میں شائع ہوئی۔ پھر لیگی حکومت کے دوران غذر کے اضلاع بنانا تو دور کی بات جس طرح غذر کے ساتھ سلوک کیا گیا وہ بڑا افسوسناک ہے۔ اس قسم کے رویے سے لوگ اس پارٹی کو سپورٹ کیونکر کریں گے! 


دوسری طرف پی ٹی ائی نے حسب توقع پارٹی کارکنوں کو انسوں میں نہلا کر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے دیا ہے جن کا اس پارٹی سے کل تک کوئی تعلق نہ تھا۔ جن کو میں گینگ اف فائیو کہتا ایا ہوں اس گینگ کا ایک ممبر تو کمال ہی کردیا۔ ہہلے ٹیکٹ لے لیا پھر اگلے دن پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ یقیناََ کھلاڑی بڑے کمال کا ہے۔ اسی کارٹل کا ممبر ہی تو تھا جس نے نون لیگ سے تعلق نہ ہونے کے باوجود سب سے اہم عہدے کو عالمی اثرورسوخ سے حاصل کیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف پی ٹی ائی کے سینکڑوں کارکنوں نے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے اور بہت سو نے ازاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی ائی نے ڈاکٹر زمان نعمت شاہ اور عطاءالرحمن کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی ہے باجود اس کے کہ ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا تھا ان کو نظر انداز کردیا گیا۔ 


جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے اس کی تنظیم سازی تو اچھی ہے مگر تین وجوہات سے یہ پارٹی عوام میں اعتبار کھو چکی ہے؛  اول ان کے کھوکھلے نعرے اور گکگت بلتستانیوں پر بار بار بے جا احسان جتانے سے، دوم پچھلی حکومت میں اس کے وزراء نے جس طرح کھلے عام کرپشن کرتے رہے اس کی وجہ سے اور سوم اسٹبلشمنٹ کو  فی الحال اس پارٹی میں دلچسپی نہیں ہے۔ لہذا اس کی انتخابات میں کارکردگی متوسط ہی رہے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل کریگی؟  میرا خیال ہے اگر بیرونی مداخلت نہیں ہوئی تو ان میں کوئی بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں گی۔ زیادہ تر ازاد امیدوار ہی جیت جائیں گے۔  البتہ اگر غائبی ہاتھ اپنا کمال دکھایا تو اپ اچھی طرح جانتے ہیں کون جیت جائیں گے اور کون ہار جائیں گے۔ 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
40798

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں کی ٹیم تریچمیر بیس کیمپ کی طرف روانہ

Posted on

چترال(نمائندہ چترال ٹائمز)گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں کا ایک پندرہ رکنی ٹیم کوہ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی تریچ میر کی طرف روانہ ہوگئی۔گزشتہ روز اپنے اعزاز میں ٹور آپریٹنگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد فاروق اقبال کی جانب سے دی گئی عشائیے کے موقع پر مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معروف کوہ پیما اورٹیم لیڈر سعد نے کہاکہ تریچ میر کے بیس کیمپ تک ان کی مہم جوئی کا مقصد جی۔بی کے مشہور و معروف مہم جو امتیاز کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے جو کہ گزشتہ سال کوہ ہندوکش کی ایک اور چوٹی کو سر کرنے کی مہم کے دوران شہید ہوئے تھے۔ اس ٹیم میں ملک کے مایہ ناز کوہ پیما محمد علی سدپارہ، عبدول، ساجد، سرباز، حسن اور دوسرے شامل تھے۔

gilgit mountaneers in chitral towards terichmir 3
gilgit mountaneers in chitral towards terichmir 1
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
40724

ہم نیشنل پارک کسی صورت بننے نہیں دینگے۔۔عمائدین اپرغذر

گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ)ہم نیشنل پارک کسی صورت بننے نہیں دیں گے۔ صرف چار افراد پر مشتمل شر پسندوں کا ٹولہ محکمہ جنگلات کے ساتھ ملی بھگت کرکے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی مذموم کوششوں میں مگن ہیں۔ کیا سارا ”اپر غذر“ ان چار افراد کی ملکیت ہے۔ اگر جواب ”نا“ میں ہے تو باقی 22 بائیس قبیلوں کو اسٹیک ہولڈر تصور ہی کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔ اور ان بائیس قبائل کے انسانوں کو بھیڑ بکری کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ریٹائرڈ صوبیدار زار خان، (ر) صوبیدار شیر دُلہ جان، (ر) صوبیدار خان زار، (ر) صوبیدار عبدالحمید، (ر) صوبیدار بہار شاہ، سابق نمبردار غلاغمولی جاوید حیات کا کاخیل، نمبردار برسط خوشی زار، سابق وائس چیئرمین محمد عجب خان نے اپنے ایک اخباری بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے ذمہ دار ادارے اور ایجنسیاں چار کے ٹولے کے سربراہ کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں تو تمام حقائق اظہر من الشمس کی طرح روشن ہوجائینگے۔ انہوں نے آج تک لوگوں کو مذہب، مسلک اور علاقائیت کے نام پر تقسیم کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اور تو اور انھوں نے جشن شندور کے دوران غذر کی ٹیم کو لاکھوں ملکی اور غیر ملکی شائقین کے سامنے دست و گریباں کروا کر ہماری شائستگی اور شرافت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کو بروقت لگام نہ دیا گیا تو یہ یہاں کے سادہ لوح عوام کو تباہ و بربادی کی طرف لے جانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
40716

غذر کے نوجوانوں کو کسی نے ورغلایا ہے وہ اپنے بڑوں سے پوچھیں کہ شندورکس کا ہے۔عمائدین لاسپور

چترال (نمائندہ چترا ل ٹائمز ) لاسپور ویلی سے ڈسٹرکٹ کونسل چترال کے سابق ممبر ذولفی ہنر شاہ اور ویلج کونسل لاسپورکے سابق چیئرمین لیفٹنٹ شیراعظم خان (تمغہ بسالت ) نے نوجوانان غذر کی طرف سے شندور کے اوپر گلگت بلتستان کے دعویٰ کا جواب دیتے ہوئے کہاہے کہ نوجوانوں کو کسی نے ورغلایا ہے وہ اپنے بڑوں سے پوچھیں تو معلوم ہوگا کہ لنگر اور گوکوش میں لاسپور کے لوگوں کی چراگاہیں رئیس حکومت کے وقت سے دستور اور رواج میں شامل ہیں ۔مہترسلیمان شاہ اورگوہر آمان کے زمانے میں یہ دستور برقرار رہا ، راجہ مراد خان اور راجہ حسین علی خان کے زمانے میں یہ رواج قائم رہا ، بابائے غذور نبردار اعلیٰ نیت قبول حیات نے کبھی اس دستور کو نہیں توڑا۔سرفراز شاہ ۷جولائی ۲۰۰۳کواسلام آباد میں کمیشن کے سامنے ناکام ہوا ۔۲۲جون ۲۰۱۱کو چیف کورٹ گلگت بلتستان اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ۔لاسپور کے عمائدین نے غذر کے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بڑوں سے دستور اور رواج کا پتہ لگائیں ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
40659

شندور گلگت بلتستان کا حصہ رہا ہے۔جبکہ کے پی حکومت ہماری زمین پرقابض ہوگئی ہے۔عمائدین غذر

غذر(شہزاد علی احمد)  نواجوانان غذر کی ایک میٹنگ زیرصدارت شاہ عالم علیمی سماجی کارکن اور سنئیر ممبر دی الفا برینز منعقد ہوئی میٹنگ میں چترال کے کچھ حلقوں کی جانب سے شندور کے حوالے سے اس بیان کی سختی سے مذمت کی گئی جس میں شندور کو چترال کا حصہ کہا گیا ہے۔ اور اس تاثر کو بھی شدید الفاظ میں رد کی گئی کہ شندور کا کوئی مسلہ ہی نہیں ہے۔ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے صوبیدار (ر)  محمد عظیم نے کہا کہ شندور گلگت بلتستان کا بہت اہم حصہ رہا ہے۔ یہاں سے ہم نے چترالیوں بھائیوں کی مصیبت کے وقت مدد کرتے رہے ہیں جبکہ اج وہ خیبر پختونخواہ حکومت کی سازش کا شکار ہوکر ہماری ہی زمین پر قابض ہوگئے ہیں ۔ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکن مقبول حیات کاکاخیل نے کہا کہ اپنی سرحدوں اور زمین کی ہر صورت حفاظت کی جائیگی۔ جبکہ شاہ عالم علیمی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ حکومت صرف ہماری سرحدوں پر قابض نہیں ہے بلکہ دریا سندھ کی رائلٹی بھی ہڑپ کرتی ائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کے پی کے نے لالوسر بابوسر بھاشہ دیامر شونجی نالہ شندور اور اب چمرکن پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپنی زمین ہر صورت واپس لیکر رہیں گے چاہئے اس کے لیے کوئی بھی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ میٹنگ میں بات کرتے ہوئے الحاج محمد صادر شاہ نے کہا کہ ہم ملک کی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں جبکہ ادھر ہماری اپنی زمین محفوظ نہیں۔ جبکہ محمد ابراہیم کا  کہنا تھا کہ ہم گلگت بلتستان کو فلسطین بننے نہیں دینگے اپنی زمینوں کی حفاظت کو ہر صورت یقینی بنائیں گے۔ میٹنگ میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ اگلے سال کسی چترالی کو شندور میں مال مویشی لانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ میٹنگ میں کور کمانڈرز پشاور اور ایف سی این گلگلت سے کہا گیا ہے کہ وہ شندور سے چترال سکاوٹس کو فوراً ہٹا کر وہاں گلگت بلتستان سکاوٹس کو تعینات کریں۔ جبکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جی بی کی تمام سرحدات خیبر پختونخواہ حکومت سے چھڑا کر گلگت بلتستانیوں کو واپس کریں۔ ورنہ راست اقدام کیا جائے گا۔میٹنگ میں محمد عالم رحیم اللہ خلیفہ شیر حیات محمد ابراہیم سید عمران علی،  افتاب،  ظاہر سمیت سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں کی بڑی تعداد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
40626

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ گلگت بلتستان کے زیر اہتمام عبوری آئنی صوبہ حوالے کل جماعتی کانفرنس

گلگت بلتستان(چترال ٹائمز رپورٹ) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ، گلگت بلتستان کے زیر اہتمام 29ستمبر بروز منگل مقامی ہوٹل گلگت میں ایک کُل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گلگت بلتستان کے باشندوں کا حق ملکیت، حق حاکمیت اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کے دیرینہ مطالبے کے برعکس حکومت پاکستان کا تجویز کردہ”گلگت بلتستان۔۔۔ عبوری آئنی صوبہ“ کے عنوان سے جملہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان /ذمہ داران نے شرکت کی۔ کانفرنس کے دوران شرکاء نے سیر حاصل گفتگو کے بعد مندرجہ ذیل قراردادیں متعلقہ طو رپر منظور کیں:

۔ شرکائے کانفرنس اس بات پر متفق ہیں کہ 84,471مربع میل پر محیط اور سوا دو کروڑ نفوس پرمشتمل ریاست جموں کشمیر (جس کی پانچ اکائیاں وادیئ کشمیر، جموں، لداخ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہیں) ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے۔

۔ شرکاء نے اس بات کو واضح کیا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا جزولاینفک ہی نہیں بلکہ بذاتِ خود مسلہئ کشمیر کا حصہ ہیں۔
۔ شرکائے کانفرنس گلگت بلتستان کے باشندوں کے حق ملکیت، حق حاکمیت اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۔ شرکاء حکومت پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق کی بحالی کی آڑ میں پاکستان کا عبوری آئنی صوبہ بنانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں۔

۔ شرکاء نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری آئنی صوبہ بنانے کی تجویز کو کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے منظور شدہ قرار دادوں کے منافی قراردیا۔

۔ شرکاء نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ریاست کے حصے بکھیرنے اور اس کے قومی تشخیص کو پامال کرنے کے بجائے منقسم ریاست کو جوڑنے کی کوشش کی جائے۔

۔ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو باہم ملا کر ایک قومی انقلابی حکومت تشکیل دی جائے جس کے وزیر اعظم اور صدر ریاست بالترتیب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے ہوں۔ وگرنہ گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر طرز پر سیٹ اپ تشکیل دیا جائے یا گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے جس کا سینٹ یا کونسل مشترک ہو۔

۔ کانفرنس مطالبہ کرتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پروجیکٹ میں حکومت گلگت بلتستان کو حصہ دار بنایا جائے۔

۔ کانفرنس مزید مطالبہ کرتا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو باہم ملانے والے استور سے مظفرآباد، اسکردو سے کارگل سمیت دیگر قدیم اور قدرتی راستے بھال کئے جائیں۔

۔ شرکائے کانفرنس بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے بھارت تہاڑ جیل میں محبوس چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جناب محمد یاسین ملک، حریت راہنما شبیر احمد شاہ اور کشمیر خاتون رہنما سیدہ آسیہ اندرابی سمیت جملہ حریت پسند اسیران کو بھارت سے غیر مشروط طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۔ شرکائے کانفرنس متطقہ طور پر ہندو انتہا پسند جماعت کی سربراہی اور نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں کشمیر میں 5اگست 2019؁ء کی ننگی فوجی جارحیت کے نتیجے میں اسے ضم کرنے اور دولخت کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔

۔ شرکائے کانفرنس نے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی پر اقوام متحدہ سمیت اقوام عالم کی مذمت کرتے ہوئے انہیں پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلہ کشمیر کے فوری، مستقل اور پائیدار حل کے لیے وہ اپنا کردار ادا کریں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
40560

گلگت بلتستان کے الیکشن منسوخ کرکے عبوری آئینی سیٹ اپ فراہم کیا جائے۔۔قاری غلام اکبر

گلگت (چترال ٹائمز رپورٹ) چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لئے ازخود نوٹس لیکر گلگت بلتستان کے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو منسوخ کر کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں اور سابق وفاقی آئینی کمیٹی کے سفارشات کے عین مطابق عبوری آئینی سیٹ اپ فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1999؁ء میں انتخابی اصلاحات کے لئے وفاق کو تین سال کا عرصہ دیا تھا۔جس کے بنیاد پر تین سال بعد حلقہ بندیاں مکمل کر کے اکتوبر 2002؁ء میں وفاق میں انتخابات کا انعقاد کیا گیا جبکہ گلگت بلتستان کے اندر حلقے بڑھانے، حلقہ بندیاں مکمل کرنے کے لئے صرف تین مہینے کا وقت درکار ہے۔گزشتہ 70سالوں میں کبھی بھی گلگت بلتستان کے انتخابات کے انعقاد کے لئے وزیر اعظم پاکستان نے سمری صدر پاکستان کو نہیں بھیجا تھا آج تمام ادارے چیف جسٹس آف پاکستان کے توہین عدالت کی کاروائی سے ڈرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لئے ایڈوائزی کونسل کے قیام کے موقع پر خصوصی پوزیشن کی بنیاد پر 25000کی آبادی پر ایک نشست دیا گیا تھا ضلع غذر کے چار قدیم ریاستوں کے لئے چار نشستیں تجویز ہوئی تھی۔ الیکشن 1970کے قریب حلقے چھیننے کا کھیل کا انعقاد کر کے ضلع غذر کے عوام کو دو نشستوں سے محروم کیا گیا۔ ضلع غذر کے عوام 50فیصد حلقوں اور 50فیصد بنیادی حقوق سے یکسر محروم چلے آرہے ہیں۔ ضلع گلگت پر آبادی کا بے تحاشا بوجھ ہے، سکردو، ہنزہ، دیامر اور دیگر بڑھے ہوئے آبادیوں کے اضلاع کے عوام کے حلقے بڑھانے حلقہ بندیاں مکمل کرکے انتخابات کے انعقاد کا پرزور مطالبہ ہے مفاد پرستوں نے 2009؁ء کے الیکشن کے موقع پر سابق وفاقی وزیر امور کشمیر قمر الزمان کائرہ کو غلط مشورہ دیکر12اضافہ شدہ نشستوں پر حلقہ بندیاں کرنے نہیں دیا۔ 2015میں حلقہ بندیاں نہ ہونا سابق ارکارن اسمبلی اور ارکان کونسل کی واضح نا اہلی تھی۔ان خیالات کا اظہار ممتاز سماجی و سیاسی شخصیت مرکزی رہنما عمائدین گلگت بلتستان قاری غلام اکبر نے ایڈوکیٹ مرتضیٰ کی قیادت میں ملنے والے یاسین کے ایک وفد سے گلگت کے ایک مقامی ہوٹل میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاعمائدین گلگت بلتستان کے مخلصانہ کاوشوں کے بنیاد پر گلگت بلتستان کے اندر امن 25اپریل 2002کو عمائدین گلگت بلتستان کے عہد سے پیدا ہوا۔آج بھی گلگت بلتستان کے عوام عمائدین کو منتخب کر کے مفاد پرستوں کو مسترد کرنے کے پوزیشن میں ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کے مشترکہ طاقت کا اندازہ غلط طور پر لگایا جا رہا ہے۔ حلقے بڑھا کر حلقہ بندیاں مکمل کر کے عبوری آئینی صوبے کے قیام وفاق کے تمام اداروں میں بھرپور نمائندگی، بلدیات کے بھی حلقے بڑھا کر حلقہ بندیاں مکمل کر کے انتخابات کا انعقاد گلگت بلتستان کے عوام اور عمائدین کا پرزور مطالبہ ہے۔اس مطالبے کو نظر انداز کیا گیا تو مفاد پرستوں کو سیاست سے نکال باہر کرنے کے لئے عوام اور عمائدین ملکر سیاسی سطح پر مقابلہ کریں گے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
40496

آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان نے’’علاج آسان’’ نامی ٹیلی میڈیسن ایپلی کیشن کا آغاز کردیا

علاج آسان موبائل اپلی کیشن کووڈ 19 کی وباء کے دوران ڈاکڑ اور مریض کو محفوظ طریقے سے ورچویلی کنکٹ کرتی ہے۔

کراچی (چترال ٹائمز رپورٹ ) آغاخان ہیلتھ سروس ، پاکستان (اے کے ایچ ایس ، پی) نے آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک ڈیجیٹل ہیلتھ ریسورس سینٹر (اے کے ڈی این ڈی ایچ آر سی) کے تعاون سے ، ڈاکٹر اور مریضوں کے رابطوں کو آسان بنانے کے مقصد سے علاج آسان موبائل ایپلی کیشن کا آغاز کیا ہے۔

یہ ایپلی کیشن مریضوں کو آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان کے تین سہولیات  )آغاخان میڈیکل سینٹربرائے گلگت ؛ آغاخان فیملی ہیلتھ سینٹر کریم آباد اور گارڈن، کراچی(میں موجود ڈاکٹرز کے اپائنٹمنٹ لینے میں مدد دیتی ہے۔  یہ ایپلی کیشن آن لائن مشاورت  اور نجی اور محفوظ طریقے سے مریضوں کے میڈیکل ریکارڈز شئر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس ایپلی کیشن کے ذریعے، ڈاکٹرز مریضوں کی پری اسکریننگ کر سکتے ہیں، براہ راست ون آن ون سیشنز کے ذریعے ان کی جانچ کر سکتے ہیں، مریضوں کو ادویات تجویز کر سکتے ہیں اور ان کے ریکارڈز بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ مریض ڈاکٹر کی فیس ڈیجیٹل طور پر فوری ادا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے تجربات کی رائے بھی مہیا کر سکتے ہیں۔

ایپلی کیشن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ، ندیم حسین عباس ، چیف ایگزیکٹو آفیسر ، اے کے ایچ ایس ، پی نے کہا: “جبکہ ٹیلی میڈیسن ایپلی کیشنز عام طور پر بہت سے فوائد فراہم کرتی ہیں ، جہاں پوری دنیا COVID-19 وبائی بیماری کا مقابلہ کر رہی ہے، علاج آسان انتہائی متعلقہ ہے اور مریض کی ضروریات کو محفوظ طور پر ایک جامع حل پیش کرتا ہے۔”

اے کے ڈی این ڈی ایچ آر سی کے ڈائریکٹر سلیم سیانی نے مزید کہا: “علاج آسان  مریضوں اور معالجین کے لئے جدید موبائل ہیلتھ ٹکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہیں ، جو دور سے ہی معیاری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک آسان اور فوری رسائی فراہم کرتے ہیں۔”

علاج آسان ایپلی کیشن گوگول پلے سٹور سے باآسانی ڈائولوڈ کی جا سکتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
40366

گوہرآباد: گلگت بلتستان کا اسلام آباد ….. امیرجان حقانی


یہ میرے لئے اطمینان کی بات ہے کہ گوہرآباد میر ا گاوں ہے۔اور میں گوہرآباد کا ہوں۔گوہرآباد ایک بہت بڑا علاقہ ہے جو تھلیچی سے شروع ہوکر، دو نوں رائیکوٹ سے ہوتے ہوئے کھنر تک اور گونرفارم تک پھیلا ہوا ہے۔دونوں گیس اور سنٹرگوہرآباد میں کھربوں مالیت کے قیمتی جنگل ہیں۔فیری میڈو اور نانگا پربت جیسی عالمی شہرت یافتہ سیاحتی پوائنٹس بھی وادی گوہرآباد میں ہی ہیں۔گوہرآباد وہ واحد علاقہ ہے جس کا ہر ہر پتھر، ہر ہر درخت، ہر ہر پہاڑی ہر ہر جنگل اور ہزاروں ایکٹر بنجر اراضی اہالیان گوہرآباد کی ملکیت ہے۔فیری میڈو کے علاوہ گوہرآباد کے سیاحتی مناظر ابھی تک ایکسپوز نہیں ہوئے ہیں ورنا مارتل سے لے کرملپٹ تک سطح سمندر سے ہزاروں میٹر بلندی پروسیع و عریض اور بڑے بڑے میادین ہیں اور درجنوں جھیلیں اور پاکستان کے سب سے گھنے قدرتی جنگل ہیں جہاں درجنوں قسم کی قیمتی لکڑی اور درخت موجود ہے۔


وادیِ گوہرآبادکی سینکڑوں خصوصیات ہیں تاہم گوہرآباد کے مکینوں کے چند اوصاف ایسے ہیں جو گلگت بلتستان کے کسی بھی علاقہ میں اب تک نظر نہیں آئے۔ میں مبالغہ کا عادی نہیں ہوں۔ جو لوگ گوہرآباد یا اہلیان گوہرآباد کو جانتے ہیں وہ خود اس چیز کی گواہی دیں گے۔ گوہرآباد کا تعلیمی ریشو انتہائی حوصلہ افزا ہے۔لوگ بھوکے رہنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنے بیٹے بیٹوں کو تعلیم دینے میں کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرتے۔امیر تو امیر، غریب لوگ بھی محنت مزدوری کرکے، بھیڑ بکریاں پال کر، جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اور زمین بیچ کر اپنی اولاد کو تعلیم دلاتے ہیں۔اگر سروے کیا جائے تو گوہرآباد کے غریبوں کی اولاد اعلی تعلیم حاصل کررہی ہوتی ہے۔بڑی تعداد میں غریب لوگوں کے بچے ڈاکٹر، انجینئر،جج، پروفیسر،وکیل،عالم، مفتی اور دیگر محکموں میں سرکاری اور غیر سرکاری بڑی اسامیوں پر براجمان ہیں۔گوہرآباد کی بیٹیاں بھی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کیساتھ دینی تعلیم میں گلگت بلتستان کے کسی بھی گاوں میں سب سے زیادہ ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی گلگت بلتستان کی فاضلات میں سب سے زیادہ گوہرآباد کی طالبات نے ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ دیامر ڈویژن اور گلگت ڈویژن کی بنات کی تمام جامعات میں گوہرآباد کی بیٹیاں تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اورمجموعی طور پر سب سے زیادہ ہیں۔گاوں کے اعتبار سے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ پروفیسرز، اساتذہ، علماء کرام، حفاظ، ججز، وکلاء،ڈاکٹرز، انجینئرز اور پولیس آفیسران گوہرآباد کے ہیں۔ ایڈمینسٹریٹیو پوسٹوں پر دیگرعلاقوں کے مقالبے میں گوہرآباد کے آفیسرازن زیادہ ہیں۔البتہ پاکستان آرمی کی بڑی پوسٹوں پر جانے کا سلسلہ ابھی شروع ہوا ہے۔فورس کمانڈر میجرجنرل ڈاکٹر احسان محمود نے درست کہا ہے کہ ”گوہرآباد تعلیم کے اعتبار سے گلگت بلتستان کا اسلام آباد ہے۔“


گوہرآباد میں قتل و غارت اور بدامنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔غیرت کے نام پر سالوں میں کوئی قتل ہوجاتا ہے لیکن جلدی سے صلح کروائی جاتی ہے۔ذاتی دشمنیوں سے لوگ بہت دور رہتے ہیں۔عورت کا جو احترام گوہرآباد میں ہے ابھی تک کسی علاقے میں مجموعی طور پر اتنا احترام دیکھنے میں نہیں آیا۔لاریب گوہرآباد کی عورت بہت ہی محفوظ ہے۔ ایک عورت اکیلی میں کئی کئی میل سفر کرجاتی ہے۔کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔بغیر مردوں کے عورتیں جنگل میں چلغوزے کاٹتی ہیں۔مگر مجال ہے کہ کسی نے اس عورت کا راستہ کاٹا ہو، کسی نے کوئی جملہ کَسا ہو، کسی نے کوئی آواز لگائی ہو،سالوں میں بھی کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی۔یہاں تک کہ خواتین بعض دفعہ راتوں کو کھیتوں میں پانی دیتی ہیں۔آج تک کسی عورت نے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا نہ ہی خوف محسوس کیا۔ اور نہ ہی کوئی سوچ سکتا کہ ان خواتین کو کوئی زِک پہنچائے۔


گوہرآباد کے بنجر اراضیوں اور جنگلات پر آپس کے بہت سارے تنازعات ہیں۔یہ تنازعات شخصی بھی ہیں اور گروپس کے مابین بھی ہیں۔ عدالتوں میں کیس چلتے رہتے ہیں لیکن لوگ ان تنازعات کی بنیاد پر نہ لڑتے ہیں نہ جھگڑتے ہیں۔ان عوامی تنازعات میں چھوٹی موٹی ناراضگیاں ہوبھی جائیں تو جلد ختم کردیتے ہیں اور شیر و شکر ہوتے ہیں۔بلکہ شادیاں بیاں اور دیگر غمی خوشی کے ایام میں ایک دوسروں کے معاملات میں شریک ہوتے ہیں۔درجنوں ایسے معاملات ہیں جو اربوں کے ہیں۔ ان کو بنیاد بنا کر لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کی آج تک نوبت نہیں آئی۔آج تک سوشل بائیکاٹ کا ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔کھرتلوٹ پشلوٹ کے مابین اربوں کی ریالٹی، کھربوں کے جنگلات وغیرہ کا ۵۳ سال سے عدالت میں کیس چل رہا ہے مگر اس کو بنیاد بناکر ایک دوسروں سے ایک بھی شخص ناراض نہیں بلکہ سالوں سے یہ معاملہ ہونے کی باوجود بھی لوگ آپس میں رشتے کرتے ہیں اور خونی رشتوں میں جُڑ جاتے ہیں۔


گوہرآباد میں چوری چکاری اور لوٹ مار کا ریٹ زیرو فیصد ہے۔گوہرآباد کے تمام علاقوں اور نالوں میں سال بھر مال مویشی بغیر مالک کے جنگلوں، بیابانوں اور چراگاہوں میں چرتی ہے۔ کسی کی ایک بکری یا گائے کا بچھڑا تک چوری نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بکری یا گائے گم بھی ہوجائے تو سات اٹھ مہینے بعد بھی مل جاتی ہے۔ مساجد میں اعلان ہوتا ہے کہ میری بکریوں کے ساتھ اس قسم کی ایک بکری ہے جو میری نہیں۔ یہ بات پورے گوہرآباد میں پھیل جاتی اور مالک پہنچ جاتا ہے۔گوہرآباد میں جلانے اور تعمیراتی لکڑیاں ہرجگہ پڑی رہتی ہیں، کوئی نہیں اٹھاتا۔ان قیمتی لکڑیوں کو محفوظ جگہ میں رکھنے کا کلچر ابھی آیا نہیں اس لیے کہ ہر جگہ محفوظ ہی ہے۔منوں کے حساب سے سوکھا چارہ بھی کسی جگہ جمع کیا جاتا ہے۔ مجال ہے کوئی ادھر ادھر کرے۔اگر کوئی چوری کرتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو پورا علاقہ اس کو تضحیک کا نشانہ بناتا ہے۔روڈ پر سامان گاڑی سے اتار کرڈائیور چلا جاتا ہے۔ بعض دفعہ سامان کا مالک اگلے دن پہنچتا ہے مگر اس کی سامان کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔میری پوری فیملی گزشتہ سات سال سے گوہرآباد سے باہر ہے۔ سال میں ایک دفعہ بھی چکر نہیں لگتا۔میرے ہزاروں پھلدار درخت ہیں۔ آج تک ایک درخت کسی نے نہیں کاٹا نہ گھر کا تالہ کسی نے توڑا ہے۔ صحیح سالم اور محفوظ ہیں۔ یہی حال سینکڑوں لوگوں کا ہے۔ وہ بے شک ملک کے دیگر حصوں میں ہے مگر ان کی جائیداد محفوظ ہے۔باقاعدہ کوئی محافظ بھی نہیں ہوتا۔گوہرآباد میں گھروں کی بڑی بڑی اونچی چاردیواریاں بنانے کا رواج ہی نہیں۔آج تک کسی کے ذہن میں یہ بات آئی ہی نہیں کہ چاردیواری اور کانٹے کی باڑ لگا کر گھر یا کھیت کو محفوظ بنایا جائے۔لوگ گھر سے کئی میل دور روڈ پر مہنگی ترین گاڑیاں کھڑی کرکے بے خوف ہوکر گھر چلے جاتے ہیں اور دو دن تک گاڑی کے قریب بھی نہیں جاتے۔آج تک کوئی گاڑی چوری ہوئی نہ ہی خراب کی گئی۔


گوہرآباد کے لوگوں میں کئی خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن میں وثوق سے کہتا ہوں، جن چیزوں کا تذکر ہ میں نے کیا ہے، قطعا مبالغہ نہیں کیا۔جو کہا ہے اس سے زیادہ بہتر ہے صورت حال۔میرے کسی دوست نے کہا تھا کہ”بعض معاملات میں گوہرآباد کے لوگ فرشتہ صفت ہیں بالخصوص خواتین کے متعلق گوہرآبادیوں کا خیال و عمل دونوں قابل تقلید ہیں۔دور دور کے رشتہ دار بھی ایک دوسروں کے پاس آنا جانا کرتے ہیں مگر ان کے دل میں برا خیال تک نہیں گزرتا۔یہ بات دیگر علاقوں میں مفقود ہی ہے۔“
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اہالیان گوہرآباد یوں ہی امن و آشتی اور سکون وراحت کے ساتھ زندگی گزارتے رہیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
40316

حملے کی زد میں آنے والی زبانیں…..تحریر: شمس الحق نوازش غذری


یہ دنیا کی واحد خاتون تھی جس کے گھر میں بیسیوں لوگ یوں سر جھکائے کھڑے رہتے تھے۔ جیسے انتہائی فرمانبردار بیٹے ماں کی محبت میں دست بدستہ کھڑے رہتے تھے۔اس کی بینائی کمزور ہو چکی تھی سماعت بھی متاثر ہوئی تھی، اسے دل کا عارضہ بھی لاحق تھا، وہ دمہ اور کھانسی کی مرض میں بھی مبتلا تھی، ان کے علاوہ بھی دیگر کئی عارضے اسے لاحق تھے۔اس کی خدمت میں مامور لوگوں میں سے کوئی ان کے لئے کھانے کی انتظام میں مصروف ہوتا تو کوئی ان کی بوٹ پالش کرنے اور کپڑے استری کرنے میں لگا رہتا۔کسی کو ان کی ادویات کی فکر ہوتی تو کسی کو ان کی پسندیدہ مشروبات اور پھل فروٹ کے اہتمام کا خیال رہتا۔لیکن انتہائی قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس 109سالہ بڑھیا سے ان افراد کا کوئی روحانی رشتہ تھا نہ ہی خونی۔۔۔۔۔یہ خاتون کسی کی مذہبی پیشوا تھی اور نہ ہی سیاسی۔۔۔اس بڑھیا کو خاتو ن اول کا درجہ حاصل تھا اور نہ ہی یہ خاتون کسی بادشاہ کی ملکہ تھیں۔لیکن ان سب کے باوجود پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تھی کہ دنیا کے اس منفرد خاتون کو تمام انسانوں میں دنیا کا اہم ترین فرد اور وی آئی پی کا درجہ حاصل تھا۔یہ خاتون نیپال کی تھی اور “سومہ دیوی”نام سے اس کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔”سومہ دیوی”کے گھر میں 20بڑے اداروں کے کارکن ہر وقت موجود رہتے تھے۔کوئی ان کے نہیب بدن سے پرانے گیتوں کے سر نکالنے کی تگ ودو میں رہتا تو کسی کو ان کے خیالات سمیٹ کر محاورات اور ضرب الامثال تلاش کرنے کی فکر دامن گیر رہتی۔ کسی کے ذمہ میں قصے کہانیاں سننا تھا تو کسی کو اس کی ضعیف یادداشت میں سے افسانے تلاش کرنے کا جنون سوار رہتا۔یوں دنیا کے شہرت یافتہ اداروں کے اہم کارکن اور عہدیدار اس کی گفتگو سے فیضیاب ہونے کیلئے گفتگو کے عنوانات آپس میں تقسیم کر رکھے تھے۔اس عمر میں پہنچنے والے اکثر انسان اپنے جگر گوشوں کے منہ سے دو بول کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں اس جیسے نانیوں اور دادیوں کے ساتھ چند جملوں کے تبادلے کے لئے کسی کے پاس کوئی وقت نہیں ایسے عالم میں یہ دنیا کی خوش قسمت خاتون تھی جن سے نہ صرف لوگ گفتگو کیا کرتے تھے بلکہ ان کی گفتگو کو تاریخ کا حصہ بنانے کے لئے ریکارڈبھی کیا کرتے تھے۔109سالہ “سومہ دیوی”دادی اماں اپنوں سے لیکر غیروں کی محبت اورتوجہ کا مرکز اس لئے بنی تھی کہ ان کے وجود میں “دیورا”نامی زبان سانس لے رہی تھی اور دنیا میں “دیورا”زبان کی بقاء کا ذریعہ یہی واحد خاتون رہ گئی تھی۔کیونکہ اس کی موت کے ساتھ ہی دنیا میں بولی جانے والی “دیورا”زبان بھی دم توڑنے والی تھی۔


یوں دنیا کے مختلف رفاہی تنظیموں کے ہزاروں کارکن، لسانیت کے سینکڑوں ماہرین کروڑوں ڈالروں کا انبار لگا کر اس بڑھیا کی زندگی کی آخری دم تک دیورا زبان کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔مختلف رفاہی اداروں اور لسانیات کے ماہرین کا خیال تھا کہ سومہ دیوی دنیا سے رحلت کے بعد دنیا میں سومہ دیوی جیسی لاکھوں بڑھیائیں تو موجود ہونگی لیکن دیوار زبان کی سانس نکلنے کے بعد دنیا میں دیورا جیسی کوئی زبان نہیں ہوگی۔اس لئے سینکڑوں رفاہی ادارے، درجنوں اشاعتی فرم اور کئی یونیورسٹیاں اس بڑھیا کی پشت پر کھڑی تھیں۔بالآخر سومہ دیوی کی روح پرواز کر گئی اور دیورا زبان بھی اپنی زندگی کی بازی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہار گئی۔کیونکہ دنیا کی تاریخ میں موت اور زندگی کی جنگ میں شکست ہمیشہ زندگی کو ہی ہوئی ہے۔نیپالی عوام نے سومہ دیوی کو قبر میں اور دیورا کو لیبارٹری میں دفنانے کے بعد غمزدہ دل کی تسکین کے لئے دنیا کی طرف دیکھ لیا تو ساری دنیا نے بھی دیورا زبان کی موت پر عالمی طور پر ماتم کیا۔کیونکہ سومہ دیوی کے بجائے دیورا زبان کی عالمی طور پر آنسو بہانا اس لئے بھی مقصود تھا کہ دنیا میں سومہ دیوی جیسی لاکھوں بڑھیائیں موجود تھیں لیکن دنیا کے 6ہزار زبانوں میں نیپال کے دیورا زبان کی طرح زبان کا کہیں وجود نہیں تھا۔


جی ہاں!اس سال کو بھی ہم نے حسب معمول مادری زبانوں کا عالمی دن منایا۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں پروگرام کئے، لوگوں کے خیالات سنے، ماہرین سے رائے لئے، سیمینار منعقد کئے لیکن گلگت میں بولی جانے والی مقامی زبانوں کے مستقبل سے بدستور خائف رہے۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں 61زبانیں جبکہ صوبہ سرحد اور گلگت بلتستان میں 26زبانیں بولی جاتی ہیں۔اس وقت گلگت بلتستان میں بولی جانے والی بلتی، بروشسکی، وخی، شینا اور کھوار زبان کو انگریزی اصطلاح میں Threatend Languageکہا جاتا ہے جس کا اردو ترجمہ”حملے کی زد میں آنے والی زبان “۔ چترال سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی حملے کی زد میں آنے والے زبان کی جامع تعریف یوں کرتے ہیں۔”اس کے بولنے والوں کی تعداد 10ہزار سے زائد یعنی لاکھوں میں ہو مگر اس زبان میں بچے تعلیم حاصل نہ کرتے ہوں،جو درسی زبان کے طور پڑھائی نہ جاتی ہو۔ جس کے بولنے والے آپس میں گفتگو کسی اور زبان میں کرتے ہوں، مادری زبان کے طور پر بولنے والوں کے گھروں میں بچے اور بچیاں دوسری زبانیں بولتے ہوں، جو میڈیا کی زبان نہ ہو، اس معیار میں سے کسی ایک پر بھی پوری اترنے والی زبان حملے کی زد میں آنیوالی زبان کہلاتی ہے”۔


ہمارے ملک اور ہمارے علاقے میں زبان ادب اور ادیب کا مسئلہ ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔ ادیب، شاعر اور دانشور ملکوں، معاشروں اور زبانوں کے محسن ہوتے ہیں لیکن ہم نے ہر دور میں اپنے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو رسوا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔وہ عمر بھر اس ملک میں کسمپرسی کا شکار رہے۔اگر ہم ایک لمحے کے لئے اس حقیقت پر غور کریں کہ وہ کونسی سہولتیں، کونسی عزت اور کونسی توقیر ہے جس کی تلاش میں ہمارے ادیب، شاعر اور دانشور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ نہ قومی سطح پر مقامی زبانوں کی تحفظ کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجود ہے اور نہ ہی مقامی سطح پر مقامی زبانوں کی تحفظ کا کوئی اہتمام۔ ہمارے غیر ثقافتی رویے، ہماری زبان دشمنی اور ادب کُش پالیسیوں نے اس ملک میں ادب، فکر اور فن کو معیار بننے دیا نہ ہی فنکار، مفکر اور ادیب کو ہیرو۔زبان و ادب اور ثقافت کی ترویج اور فروغ کا سلسلہ اس ملک میں کیسے رواج پائے گا جس ملک کے باسیوں کی ڈکشنری میں زبان و ادب اور ثقافت کی اہمیت کچی سیاہی کی طرح مٹ گئی ہو۔ اس ملک میں زبان و ادب کے نام سے ثقافتی “اسٹیج شو”پر تو لاکھوں روپے خُرد برد ہو جاتے ہیں لیکن زبان و ادب پر تخلیقی کام کرنے کے لئے یا ادیب اور دانشور کے تخلیقی مواد کو منظر عام پر لانے کے لئے کہیں ادارہ موجود ہے اور نہ ہی اس فالتو کام کے لئے کہیں فنڈ مختص ہے۔ یہاں زبان و ادب کی تخلیقات کو بالکل بے معنی اور لا یعنی عمل سمجھا جاتا ہے۔ علمی، ادبی اور تخلیقی کام کرنے والے دانشور قوموں اور ملکوں کے محسن ہوتے ہیں لیکن ہم نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے محسنوں کو رسوا کردیا۔چاہے وہ نصرت فتح علی خان ہوں یا مہدی حسن، قراۃ العین حیدر ہوں یا فیض احمد فیض۔ وہ گلگت کا امین ضیا ہو یا جمشید خان دکھی اور عبد الخالق تاج، وہ ہنزہ کا شیر باز علی برچہ ہو یا سکردو کا حسن حسرت اور یوسف حسین آبادی، وہ غذر کا جاوید حیات کاکا خیل ہو یا چلاس کا شمالی اور فراق۔ان لوگوں کاجرم یہ ہے کہ یہ لوگ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیدا نہیں ہوئے۔اگر ان کے پاس عزت اور اختیار ہوتا تو یہ لوٹا بن کر یا کرپشن کی بد بو دار نہر میں غوطہ زن رہ کر بینک بیلنس بناتے۔ اگر یہ علمی قد آور شخصیات، یہ جینوئن ادیب اور شاعر تخلیق کے بجائے سیاست شروع کر دیتے، یہ علم کے چشمے بننے کے بجائے نوکریاں بیچتے، یہ ادبی اور علمی تخلیق کار کے بجائے ضمیر کے بیو پاری بن جاتے تو آج اس ملک میں یہ لوگ نامور بھی ہوتے اور قد آور بھی۔ان کا جرم یہ ہے کہ یہ جینوئن اور علمی قد آور شخصیات امریکہ، یورپ،برطانیہ اور بھارت کے بجائے پاکستان اور گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے۔ ان نادان دانشوروں اور ادیبوں کو پتہ ہی نہیں کہ یہ اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں جس ملک میں ادیب، شاعر اور دانشور کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے یہ اس ملک کے باسی ہیں جہاں ضمیر، نظریہ، ایمان اور وفاداری بزنس کی ایک فورم کا نام ہے قصہ مختصر یہ اس ملک کے شہری ہیں جہاں شاعروں، دانشوروں اور ادیبوں کو جینے ہی نہیں دیا جاتا۔


گلگت بلتستان کے یہ تمام ادیب و شاعر اور دانشور اپنے معصوم خواہشوں کو تاریخ مستقبل کے حوالے کرنے کے لئے تاریخ کے نئے صفحوں کے منتظر ہیں اور اللہ کے حضور دعا گو ہیں کہ کل کو کوئی مورخ تاریخ کے صفحہ میں یہ جملہ نہ لکھے”آج گلگت بلتستان کے سومہ دیوی نامی بڑھیا انتقال کر گئی اور اہلیان گلگت بلتستان نے سومہ دیوی کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے مقامی زبان دیورا کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔”

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
40198

حکومت نے 15ستمبر سے ہائی سکولز، یونیورسٹی اور کالجوں کو کھولنے کا اصولی فیصلہ کرلیا

اسلام آباد (چترال ٹائمز رپورٹ ) حکومت نے 15ستمبر سے نویں، دسویں جماعت ، یونیورسٹی اور کالجوں کو کھولنے کا اصولی فیصلہ کرلیا جبکہ پہلی سے پانچویں اور چھٹی سے آٹھویں جماعتوں کو ایک ہفتہ بعد کھولا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کی زیرصدارت بین الصوبائی وزرائےتعلیم کا اجلاس ہوا، جس میں صوبائی وزرائے تعلیم سمیت چیئرمین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای شریک ہوئے۔

وفاقی وزارت تعلیم نے مراحلہ وارتعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق تجاوز پیش کیں ، جس کے بعد 15ستمبر سے نویں، دسویں جماعت ، یونیورسٹی اور کالجوں کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑی جماعتوں کی کلاسیں کھولنے کے بعد کورونا کیسز کومانیٹر کیا جائے گا، کوروناصورتحال کے پیش نظر ایک ہفتہ بعد چھٹی سے آٹھویں تک کی سرگرمیوں کا آغازہوگا۔

تمام صوبائی وزرائےتعلیم تعلیمی سرگرمیاں مرحلہ وار شروع کرنے پر متفق ہوئے اور کہا گیا کورونا وائرس کے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد ہوگا جبکہ طلباکو ماسک کےساتھ تعلیمی اداروں میں داخلہ یقینی بنانےکی ہدایت کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں پہلی سے پانچویں اور چھٹی سے آٹھویں جماعتوں کو ایک ہفتہ بعد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ تعلیمی اداروں سے منسلک ہاسٹل کھولنے کی تجویز پر غور کیاگیا۔

اجلاس میں مختصر اکیڈمک سلیبس اور2021میں امتحانات پر اور وفاقی نظامت تعلیمات میں اینٹی ہراسمنٹ باڈیزکےصوبوں میں قیام پر بھی گفتگوہوئی جبکہ بی ای سی ایس،این سی ایچ ڈی ٹرانزیشن پلان اور یکساں نصاب تعلیم کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔

اجلاس کے فیصلےحتمی منظوری کےلیےاین سی اوسی کوبھجوائےجائیں گے ، تعلیمی ادارےکھولنےسےمتعلق حتمی منظوری این سی او سی دے گی۔

یاد رہے وزیر تعلیم شفقت محمود نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعلیمی ادارےکھولنےسےمتعلق حتمی فیصلہ7 ستمبرکوہوگا، کوروناوبا میں کمی آئی ہے، گزشتہ 6ماہ میں بچوں کی تعلیم بہت متاثر ہوئی ہے، تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے سے متعلق تجاویز بھی موجود ہیں۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ اگلے سال تک وباکےاثرات کم رہےتوپراناشیڈول ملک میں بحال ہوجائے گا، ہائر، مڈل اور پرائمری سطح پر کلاسز بتدریج شروع کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا تھا کوروناوباختم نہیں ہوئی، بداحتیاطی سےدوبارہ بڑھ سکتی ہے، وباسے نمٹنے کیلئے تعلیمی اداروں کی بندش کافیصلہ اہم تھا، 5 کروڑ بچے جب دوبارہ تعلیمی اداروں میں جائیں گے تورسک رہےگا، اداروں کو مرحلہ وار کھولنے سے متعلق بھی تجویز زیر غور ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
39932

سسر اور ساس کی خدمت ۔۔۔۔۔۔۔ امیرجان حقانی


وہ نوجوان تھا، والدین نے اچھی تعلیم دلائی تھی. بیٹے پر بڑی محنت کی تھی. اللہ نے نوکری بھی دی. پھر اس کی پسند کی شادی بھی کردی. بڑے ناز نخروں میں بہو کا استقبال کیا. بیٹیوں کی طرح بہو کیساتھ رویہ رکھا.بہو پڑی لکھی تھی. دینی کتب کا بھی وسیع مطالعہ تھا. کچھ عرصہ بعد اس نے ہنستے کھیلتے گھر میں رولا کھڑا کردیا. کھبی بوڑھی ساس کو جڑکیاں تو کھبی سسر کو کھری کھری سنادی. وہ بیچارے برداشت کرتے رہے. اس نے ان کے صبر کو کمزوری جانا اور پھر بیٹے کے سامنے والدین کو بے عزت کرنا شروع کیا. لڑکے نے بہت سمجھایا مگر اس نے کہاں سمجھنا تھا.ساس سسر کی خدمت سے ہاتھ اٹھا لیا. دلیل پیش کی کہ اسلام نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا ہے کہ شوہر کے والدین کی خدمت کی جاوے.پھر شوہر کیساتھ بھی یہی رویہ رکھا.صصاف بتادی کہ اپنی چائے خود بنالو اور اپنی ٹوپی بھی خود دھو لینا. 


جب بچہ پیدا ہوا تو کچھ عرصہ بعد اپنے ہی بچے کو دودھ پلانے سے بھی انکار کردیا اور شوہر سے کہا کہ اپنے بچے کے دودھ کا انتظام کیجے. اسلام نے مجھ پر لازم نہیں کیا کہ آپ کے بچے کو دودھ پلاتی پھروں.دودھ نہ پلانے کی دھمکی دیتے ہوئے الگ گھر کا مطالبہ بھی کردیا.اور اسلام کا حکم پورا نہ کرنے کا طعنہ بھی دے مارا.


والدین کیساتھ شوہر بھی پریشان ہوا. پسند کی شادی تھی اور ویسے بھی لڑکا اور اس کے والدین  گھر برباد کرنا نہیں چاہتے تھے.اس نے جب ساری صورت حال بتائی تو عرض کیا..اسلام نے آپ پر سکنی، کپڑا اور کھانا فرض کیا ہے. اب آپ بھی اسلام کی طرف رجوع کرو.الگ ایک کمرہ دکھاو، اس سے صاف بتاؤ کہ یہ آپ کی الگ رہائش ہے. میری اجازت کے بغیر اس سے باہر نہ نکلنا ورنا آپ کو ہمیشہ کے لیے والدین کے گھر بھی بیجا جاسکتا.


مرینہ کے دو جوڑے سادہ  کپڑے کمرے میں پھینکو اور کہو : یہ لو آپ کا لباس، اسلام کے حکم پر تعمیل ہوگئی.اسلام نے کہی یہ نہیں کہا کہ معیاری شیفون اور ساڑھی پہنائی جاوے اور مہنگے دلہن سوٹ اور کشمیری شالوں کی سوغت کی جائے.اور نہ ہی کڑھائی والے تھری پیس سوٹ پہنایا جائے. 
صبح ایک کپ چائے، دوپہر کو ایک روٹی کیساتھ تھوڑا سا نمک اور شام کو ایک روٹی کیساتھ تھوڑی چٹنی عنایت کیجے اور صاف بتادیجے کہ اسلام نے کھانا کھلانا کا حکم دیا ہے. بریانی، چکن روسٹ اور بنڈی کی سبزی کیساتھ لسی اور کولڈ ڈرنک پلانے کا حکم قطعا نہیں دیا.اور نہ ہی بڑے اچھے ریسٹورانوں میں کھانا پر لے جایا جاوے. 


شوہر نے  اسلام کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے جب یہ فارمولا اپنایا تو تین دن میں محترمہ کا عقل ٹھکانے آگیا.اور پہلے سے دس گنا زیادہ گھرداری میں لگی رہی. یعنی سگھڑ عورت بن گئی.
یاد رہے اسلام نے کھبی ایسا حکم نہیں دیا کہ شوہر اور اس کے گھر والوں کی خدمت اور ان کا خیال نہ رکھا جائے، گھر کی حفاظت اور شوہر کے اہل و عیال کو لتاڑا جاوے، بلکہ اس کی ترغیب دی ہے البتہ اسلام زبردستی خدمت کروانے سے روکتا ہے.. باقی اسلام نے گھرداری کی ساری ذمہ داریاں عورت کو دی ہے تب تو اسکو گھر کا ملکہ بنایا ہے..


دو چار الفاظ کتابوں میں پڑھ کر اسلام کی غلط تشریح کرکے گھروں کو بگاڑنا قطعا مناسب نہیں، جو خواتین بالخصوص مدرسوں کی فاضلات ایسا کرتی ہیں ان کیساتھ عین اسلام والا سلوک کرکے ان کی دلی تمنا پوری کی جاوے تاکہ ان کو اسلام کی اصل روح سمجھ آجائے اور وہ اسلام کی من چاہی تشریح کرکے گھروں کو نہ بگاڑے.. ان کو سیدھا سیدھا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابیات و باکمال خواتین اسلامی  کی سیرت کا مطالعہ کروایا جائے.


اس سب کے بعد بھی نہ مانے تو میرا بتایا ہوا فارمولا نافذ کرکے ان کا دماغ ٹھکانے پر لایا جاوے تاکہ وہ آئندہ اسلام کو غلط بیان کرکے شوہر اور اسکے والدین کو بلیک میل کرنے سے باز آجائے.
ایسی خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ساس اور سسر کو ماں باپ کا درجہ دیتا ہے. شوہر کی مال اور عزت و ناموس کی حفاظت ضروری قرار دیتا ہے. محبت و خدمت سے گھر کو جنت بنانے کی ترغیب دیتا ہے. تب کہیں جاکر کامیاب مرد کے پیچھے خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے. ورنا مرد کی زندگی میں زہر گول کر کھبی بھی عورت سکھی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسکے شوہر اور بیٹوں کی کامیابی میں اسکا کردار ہوسکتا ہے. 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
39921

موبائل،وقت کی بڑی ضرورت …..: امیرجان حقانی


میں نے 2007 میں موبائل خریدا تھا، تب جامعہ فاروقیہ کراچی میں موبائل پر شدید پابندی تھی. اساتذہ کرام اچانک کلاسوں میں چھاپے مارلیتے اور موبائل ضبط کرلیتے. میرے اساتذہ کرام سے اچھے تعلقات تھے اس لیے سب کو معلوم تھا کہ میرے پاس موبائل ہے. اساتذہ کرام فون بھی کرتے اور میں ان کے پاس پہنچ جاتا. درجہ سادسہ معہد کی بات ہے. اچانک اساتذہ کا گروپ ناظم تعلیمات  صاحب کی معیت میں ہماری  کلاس میں آ دھمکا. ہمارے دوست اور استاد مفتی عبدالواحد صاحب چلاسی بھی گروپ میں تھے. وہ جامعہ کے نائب ناظم بھی تھے. ان کو پتہ تھا کہ میرے پاس موبائل ہے. انہوں نے میری خوب تلاشی لی، پھر جاکر میری ڈیکس کو خوب ٹٹولا مگر کچھ ندارد. استاد افشانی صاحب نے ان سے پوچھاکہ: کیا مسئلہ ہے؟.مفتی عبدالواحد صاب نے کہا استاد جی! ان کے پاس موبائل ہے. استاد جی میرے طرف دیکھنے لگے تو عرض کیا.
استاد جی مجھے پتہ تھا چھاپہ لگنے والا ہے اس لیے جامعہ سے باہر چھوڑ کر آیا ہوں.حالانکہ موبائل ایک مخصوص جگہ میں چھپا رکھا تھا یعنی نوگوایریا میں کہیں. اساتذہ وہی سے چلے گئے.دورہ حدیث کے سال(2010) پھر اچانک اساتذہ نے کلاس کو گھیر لیا. مجھے بیس منٹ پہلے کسی استاد نے مسیج کیا تھا. اپنی خیر مناؤ، اب چھاپہ لگنے والا ہے. فوری طور پر موبائل کی سم نکالی. بیٹری الگ کردی اور بخاری میں دبا دی.اور موبائل رومال میں باندھا، ہاتھ میں پکڑا اور لائن میں لگ کر  باہر نکل آیا. اساتذہ دروازے پر کھڑے تھے.طلبہ کی تلاشی لے رہے تھے. مفتی عبدالواحد صاب نے خوب تلاشی لی بلکہ زبردست تلاشی یعنی ہرجگہ دیکھ کر اطمینان کرلیا، مگر موبائل کہیں ہاتھ نہ آیا . نہ ملنے پر پوچھ گچھ شروع کیا. استاد عبدالعظیم صاحب نے پوچھا کہ:
کیا مسئلہ ہے.؟
مفتی صاحب کہنے لگے کہ ان کے پاس موبائل ہر وقت ہوتا ہے. اب نہیں مل رہا.استاد عبدالعظیم نے خفگی کا اظہار کیا اور یوں میری جان بخشی ہوئی. میں اپنا موبائل ہاتھ میں لیے کینٹین میں چائے پینے چلا گیا. چونکہ مفتی عبدالواحد صاحب کو کئی بار فون کرچکا تھا. اور جن اساتذہ سے طالبعلمی کے دوران فون پر اکثر بات ہوتی ان میں استاد محترم ابن الحسن عباسی، استاد ولی خان المظفر، استاد عبداللطیف المعتصم، استاد حبیب زکریا،استاد عزیز الرحمان العظیم، استاد منظور یوسف ، استاد نورالمتین ، اور مفتی عبدالسمیع ، خادم الرحمان وغیرہ  تھے. استاد محترم  نورالبشر صاحب کو تو کلاس میں موبائل نکال کر کسی کا نمبر بھی دیا تھا. ایک دفعہ درجہ سادسہ معہد میں ان کے کلاس فیلوو، اپنے چچا مولانا  موسی ولی خان کا نمبر بھی دیا تھا. استاد جی ہنس کر کہنے لگے:
کلاس میں موبائل لانا منع ہے.
پھر جب خود استاد بنا تو موبائل چھیننے سے گریز کیا. مجھے اپنا وقت اچھی طرح یاد تھا. ہاں استعمال میں احتیاط کی تلقین ضرور کرتا . سات سال جامعہ نصرۃ السلام گلگت میں رہا. کھبی موبائل نہیں چھینا کسی طالب علم سے. اور ڈگری کالج میں بھی نہیں چھینا.
وقت نے بری طرح پلٹا کھایا اور آج حالت یہاں پہنچی کہتعلیم کا سارا نظام موبائل میں فٹ ہونے جارہے ہے..کالج یونیورسٹی کے ایڈمیشن فارم میں باقاعدہ پوچھا جارہا کہموبائل فون ہے؟
واٹس ایپ استعمال کرتےہیں؟
ہمارے پرنسپل پروفیسر محمد عالم صاحب کالج میں طلبہ پر سخت پابندی لگاتے کہ وہ موبائل ساتھ نہ لائے.. خود کلاسوں میں چکر لگاتے،نگرانی کرتے، جو طلبہ موبائل کیساتھ کھیل رہے ہوتے ان کو اٹھا کر دفتر لے آتے اور تنبیہ کرتے. ہمیں بھی تلقین کرتے کہ موبائل پر بچے لگے رہتے ہیں نظر کریں.میں طلبہ سے یہی کہتا کہ کسی بھی وقت پرنسپل صاحب آ سکتے ہیں. اپنے موبائل کا خود خیال رکھو.
مگر اب کالج خود ترغیب دے رہا ہے کہ بچوں کے پاس موبائل ہو تاکہ ویڈیو لیکچر سن سکیں. پچھلے سال محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان نے اساتذہ کو حکم دیا کہ طلبہ کے واٹس ایپ گروپ بناکر باقاعدہ رہنمائی اور تدریس کا سلسلہ جاری رکھو. میرے طلبہ کے دو گروپس ہیں.اور اسی طرح پاکستان کی یونیورسٹیاں باقاعدہ ان لائن سلسلے شروع کر چکی ہیں. وہ تمام سلسلے موبائل کے بغیر ممکن نہیں.
دینی مدارس و جامعات بھی آہستہ آہستہ اس طرف آرہے ہیں. اور تعلیمی سسٹم کو ان لائن کرنا چاہ رہے ہیں. آج دینی مسائل و تعلیمات کے ہزاروں واٹس ایپ گروپ ہیں جہاں بروقت مسائل، کتب اور علماء و اساتذہ کے دروس شیئر کیے جاتے ہیں اور بہترین کتب و مضامین بھی.وفاق المدارس کے تمام اعلانات، فیصلے اور بیانات فورا موبائل میں شیئر ہوکر کروڈوں لوگوں تک پہنچ جاتے. 
بہر صورت کل تک جو چیز شجرممنوع سمجھی جاتی تھی، شیطان کا آلہ سمجھا جاتا، آج شدت کیساتھ اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے.شاید کل یہ موبائل عیش پرستی میں آتا آج شدید ترین ضرورت بن گیا ہے. اب کوئی طالب علم، کوئی استاد، کوئی پروفیسر، کوئی ریسرچر، کوئی صحافی، کوئی لکھاری، غرض تعلیم و تعلم، تحقیق و تدریس، پڑھت لکھت اور دفتری کام کرنے والا کوئی ملازم کوئی تاجر، انڈورائڈ موبائل سے خالی نظر نہیں آتا، اور اس کے سارے کام موبائل پر ہوتے ہیں. آج لاکھوں پروفیشنل گروپ بنے ہوئے ہیں جہاں ہر وقت کام چلتا رہتا ہے. امور نمٹائے جاتے ہیں. بینک سے لے کر ایزی پیسہ کی دکان تک، فیکٹری اور کمپنی سے لے کر جنرل اسٹور تک، ہر کام موبائل پر ہوتا ہے. آج تو گھر کا سودا سلف اور ٹیکسی بھی موبائل کے ذریعے منگوائی جاتی ہے..ہر قسم کی لاکھوں ایپس تیار کی گئی ہیں جو ضرورت کے وقت انسٹال کی جاسکتی ہے..زندگی کی ساری سہولتیں موبائل میں شفٹ ہوچکی ہیں. بہر صورت آلہ شیطان اب آلہ رحمان بنتا جارہا ہے جو لوگوں کی سینکڑوں مشکلات کو آسان کرتا جارہا ہے. 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
39865

چھ ستمبر کی رات….. تحریر: شمس الحق نوازش غذری


مملکت پاکستان کے دلوں میں چھ ستمبر کی یادہمیشہ تازہ رہے گی۔ کیونکہ اس تاریخی اور فیصلہ کن دن کو ہماری شیر دل افواج نے بلا اشتعال اور بغیر اعلان کئے ہوئے حملے کا جس بہادری، شجاعت، جرأت اور جانبازی سے مقابلہ کیا اس کی مثال تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔بھارت کے ساتھ سترہ روزہ جنگ کے دوران ہماری مسلح افواج نے بہادری، جرات، عزم صحیم اور فرض کی ادائیگی میں بے مثال حب الوطنی کا مظاہرہ کیا آج یوم دفاع کا سالگرہ مناتے ہوئے ہمارے سر فخر سے بلند ہیں کہ ہم نے اللہ کے فضل و کرم کے طفیل دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا اور ان کا مذموم خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا یہ بات اہل دنیا نے شایدہی سنی ہوگی کہ ایک کمپنی نے دشمن کے پورے بریگیڈ کو گھنٹوں مسلسل روکے رکھا ہو۔جس طرح میجر شفقت کی کمپنی نے لاہور کے محاذ پر دشمن کے پورے بریگیڈ کو روکے رکھا بالکل اسی طرح میجر راجہ عزیز بھٹی نے بہادری اور جرات کے ساتھ اپنے جوانوں کی رہنمائی کی، انہوں نے دشمن کے حملوں کو پسپا کرنے کے سلسلے میں ایک کمپنی کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے پیادہ فوج، ٹینک اور توپ خانے کے سیلاب کو کئی دن مسلسل ایک چٹان بن کر روکے رکھا۔ان کی ثابت قدمی اور بہادری نے دشمن کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔میجر راجہ عزیز بھٹی ناگہانی جنگ کے ساتویں روز دشمن کی ٹینکوں اور پیادہ فوج پر گولہ باری کر رہے تھے اس وقت ان کی کمپنی کو سخت خطرہ لاحق تھا اسی دن دشمن کی طرف سے آنے والی ایک گولی انہیں شہادت کی نعمت سے سرفراز کر گئی اور انہوں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ وہ جرات، حب الوطنی اور فرض شناسی کی علامت بن گئے جس پر انہیں بعد مرگ ملک کی بہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔


ہماری مسلح افواج کے بہادری کے کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے اس وقت کے بی بی سی کے ماہر اور لندن ٹائمز کے نامہ نگار چارلس ہیوم نے کہا”اس جنگ کے نتیجہ سے جس میں پاکستان نے بھارت کے حملوں کو پسپا کر دیا ہے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوان کے مقابلے میں جوان اور یونٹ کے مقابلے میں یونٹ کے اعتبار سے پاکستان کی فوج بھارت کی فوج کے مقابلے میں اعلیٰ تربیت یافتہ ہے”


اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی اطلاع دیتے ہوئے ٹائمز میگزین نے 17ستمبر کو لکھا “یہ بھارت کی تعداد اور پاکستان کی خوبی کا معاملہ ہے اور یہ کہ پاکستان کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج بھارت کی فوج سے مقابلہ میں بالا تر ہے”


افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بی بی سی کے نامہ نگار رائے میلونی نے 25ستمبر کو لکھا”صحافت کی بیس سالہ زندگی میں میں نے اعلیٰ اعتماد اور انضباط رکھنے والی ایسی فوج نہیں دیکھی جیسی کہ پاکستانیوں کی فوج ہے “
اسی طرح سنڈے ٹائمز کے پیٹر فینز فیلڈ نے غیر مبہم الفاظ میں لکھا”پاکستان نے فضائی جنگ میں مکمل فتح حاصل کی ہے بھارتی طیاروں کو مار گراکر پاکستان بمبار طیاروں نے بھارت پر گولے برسائے اور انبالہ کے عظیم فوجی اڈے کو شعلوں میں بھڑکتا ہوا چھوڑ کر واپس آگئے”


لیکن آج پھر سے وہی لومڑ صفت،مکار، عالم اسلام اور عالم انسانیت کا دشمن مظلوم کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں ان کے گھروں کے اندر محصور کر کے ساری دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ بقول اقبالؒ
پنجہ و ظلم و جہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پرو بے بال کیا
توڑ اس دستِ ستم کش کو یا رب جس نے
روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا


بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گائے کے پجاریوں نے کافی عرصے بعد چھ ستمبر کی درس کو مکمل بھول گئے ہیں یا ان کی موجودہ نسل کو مسلمانوں کی غیرت و حمیت کی حقیقت کا صحیح ادراک نہیں ورنہ تو اس حقیقت سے ساری دنیا واقف ہے کہ مسلمانوں کو للکارنے کے بعد دنیا کے کافروں کے پاس موت کو پکارنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن بچا ہی نہیں۔ انڈیا کے امن کے غنڈوں کو ذرا غور و فکر اور سوچ و بچار کے بعد جنت نظیر کشمیر کے مبارک سر زمین پر اپنے منحوس قدم جمانے کا سوچنا چاہئے تھااور بھارتی دانشوروں کو پہلے سر جوڑ کر یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت تھی کہ وہ اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے دنیا نام کے اس سیارے میں موجود جن لوگوں کی غیرت ایمانی کو للکارا ہے ان کے نزدیک زندگی بارئچہ اطفال یعنی بچوں کے کھیل تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ ان لوگوں کے ہاں موت کو زندگی سمجھنے کا عقیدہ موجود ہے، یہی لوگ شہادت کی موت کے لئے بیتاب رہتے ہیں، ان کے ہاں لاشہ شہادت کا پیراہن اوڑھ کر گھر کی دہلیز پر آجائے تو وہاں افسردگی اور بیچارگی کے بجائے ایک عجیب قسم کا سکون اور تفاخر محسوس کرتے ہیں، ان کے ہاں ماں کا کڑیل جوان بیٹا ریزہ ریزہ ہو جائے تو یہ آہ و زاری یا بین ڈالنے کے بجائے آسودگی اور فخر محسوس ہوتا ہے، ان کے ہاں شہادت میں چھپی حیات جاویداں دنیا میں زندہ رہنے والوں کوبھی ہمت و جرات سے زندہ رہنے کے حوصلہ عطا کرتی ہے، ان کے ہاں شہادت کے سامنے دنیائے فانی کی تمام تر چیزیں خیال خام نظر آتی ہیں، ان کے ہاں شہادت پر ناز کرنے والے بلند مرتبہ ہستیاں موجود ہیں، ان کے ہاں برستے گولوں میں میزائلوں پر سر رکھ کے سونے کے عادی لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو بزدلانہ کاروائیوں سے ڈرایا یا دھمکایا کیسے جا سکتا ہے؟
دھمکیوں سے تو وہی لوگ مرعوب ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش کا بھوت سوار ہے جن کے سامنے سب سے بڑی چیز زندگی کی بقاء ہے ایسے لوگ ان دیکھے ان چھوئے آنجہانی خوفوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور موت سے پہلے موت کا نام سن کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف مومن کی زندگی علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کی عملی تفسیر ہے:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
39841

سیا ست اور ہم عوام….شاہ عظم خان گلگت

لفظ سیاست ہمارے تمام  مقا می زبانوں  مختلف  مفاہیم کے ساتھ زبان زد ِ خاص و عام ہے اکثر و بیشتر   یہ لفظ   مُنفی معاملات  مثلاً   چاپ لوسی  ، جھوٹی  تسلی ،دکھا وا ، پھوٹ   اور کہیں  اسے سادہ لوح  لوگوں کے دلوں میں  وسوسے  ڈال اپنے    مذموم  مقاصد کے حصول  کے لئے  استعمال کیا  جاتا ہے ۔   اس لفظ کو   خال خال  اس کے لغوی  معنوں میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے  لیکن   عموماً   یہ   پاک لفظ    بھونڈے  اصطلاحا ت کے شکنجے میں  پھنسا ہوا ہمیں نظر آتا ہے۔   آپ کے علم میں ہے کہ  جب بھی مُعاشرے میں   ہم کسی کے جھوٹے   دعوٰی    یا جھوٹی ہمدردی اور   تصنع کو دیکھتے ہیں تو  فو را  ً یہ  کہتے  ہیں  کہ  یہ اس کی سیاست ہے دوسرے لفظوں میں ہم   یہ کہتے ہیں کہ  یہ    دکھا وا   اور دھوکہ دہی  ہے ۔   حتیٰ کہ خاندانوں میں اکژ  ساس اور بہو  بھی ایک دُوسرے  پر الزام لگاتی  ہیں   اور کہتی ہیں کہ اس کا میرے ساتھ صرف  سیاست ہے  یہ حقیقت میں  میری عزت نہیں کرتی  وغیرہ ۔  پرسُوں کی بات ہے  میں  اور چچا   جان گولی خان  دونوں  ماموں بُلبُل امان   کےگھر میں بیٹھ کر آپس میں  محو گفتگو تھے کہ اسی گھر سے پھوپھی  اشرفُ نسا ء  اپنی تیں سالہ  روتے ہوے پوتے  ندیم کا ہاتھ پکڑ کر ہمارے پاس  لے آئی ۔  بچے کو اُس کی امی گھر چھوڑ  کر  اپنی چھوٹی  بیٹی کو لے کر قریبی ہیلتھ  سنٹر  گئی  تھی اور  یہ بچہ امی کے  اُسے چھوڑ کے جانے پر  رو رہا تھا ۔  دادی ان کو خاموش کر نے کی  سعی لاحاصل کر رہی تھی ۔ لیکن   بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا ۔  ہم سب نے  بچے کو مطمعین کرنے کی  بہت    کوشش کی  ، پر  بچہ خاموش ہو نے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ اتنے میں اُن کی  دادی  چچا    جان گولی خا ن کی طرف اشارہ کر کے بو لی   کہ کل  آپ کے پوتے کا سالگرہ  ہے نا۔  آہا   خوب ! ایسا ہے تو کل میں اپنے پوتے کو  لے کر   آپ   کے  گھر آوں گی     ۔ چچا  جان گو لی  خان نے بظاہر  سنجیدگی سے دادی سے مخاطب ہو کر کہا ، ہاں  بھابی کل  آپ ندیم  اور بھائی بُلبل آمان  ہمارے گھر آئیں ۔ ہم نے     کھانے  کے   ساتھ  موسیقی کا بھی   اہتمام کیا ہے۔ اصل میں یہ باتیں ندیم کو خاموش کرنے کے لیے  ہو  رہی تھیں ۔ ندیم بھی  یہ سُن کر آہستہ آہستہ خاموشی اختیار کر تا گیا اور  پھر رونے کے انداز میں اپنی طو طلی زبان  سے  کہنے لگا۔ آپ لوگ میرے ساتھ   شیاشت ،تو نہیں کر رہے ہیں؟ یعنی اپنے توطلے زبان میں   ان باتوں پر  شک کا اظہار کرتے ہوے  اس حرکت کو اپنی دادی اور چچا جا ن گولی  خان کی سیاست قرار دی۔  یعنی  ان کا کہنا تھا کہ کہیں ان کے ساتھ جھوٹ تو نہیں بولا جا رہا ہے، دھوکا  تو نہیں دیا جا رہا ہے۔ ۔ اور اس جھوٹ بولنے اور دوھوکہ دہی کے لئیے  اس بچے  نے لفظ  “سیاست” استعمال کیا۔ جس پر ہم سب ہنس پڑے اور اس کو  یقیں دلایا کہ  یہ  سچ ہے کہ   کہ کل ہم   ندیم  کی سالگرہ کی پارٹی میں جائیں گے ۔  یوں  اس لفظ کو ہمارے  معاشرے میں بچے سے لیکر بڑے تک  ہر فرد نے     نا پسندیدہ  کاموں کے  ساتھ  جوڑ کے رکھا ہے ۔   اس  سماجی  برائی  کی بیخ کنی کےلئے کسی  نے نہیں سوچا ہے  کیونکہ یہ   لفظ  اپنے بھونڈے  مفہوم کے ساتھ ان کے دل و دماغ میں  مسلسل تجربات کی روشنی میں رِچ بس چکا ہے۔  اور یوںیہ لفظ  معاشرے کے ہر   منفی   اور غلط  کار کردگی  کی نمائیندگی کرتا  ہے

 خیر بچے کی یہ بات سُن کر ہنسی کے ساتھ ساتھ  ایک سنجیدہ خیال میرے ذہں میں چُھبنے لگا  کہ آخر لفظ سیاست  کیوں کر  اپنا وقار ، بھروسہ اور  اہمیت  اس حد تک  کھو چکا ہے  کہ  ایک تیں سالہ بچہ بھی جھوٹ، فراڈ اور  دوکھا دہی کو سیاست سمجھتا ہے ، جب کہ حقیقی معنوں میں سیاست ایک مقدس اور  مُنفعت بخش پیشے اور خدمت کا نام ہے۔  سیاست  اصلا ح کی زبا ن میں فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کا نام ہے ۔  قرآن میں سیاست  سے  مراد حاکم کا لوگوں کے درمیان میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات  دلانا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر  کی  تلقین کرنا اور رشوت و  بدعنوانی سے پاک  اور  پر امن و ترقی پسند معاشرے کی تخلیق   ہے۔ جبکہ فلسفہ  میں سیاست سے مُراد  فن حکومت،اور اجتماعی زندگی کا سلیقہ  و اجتماعی ترقی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کو  عمُوما  اس کی اصلی  معنوں میں نہیں  لیا  جا رہا ہے۔  وہ کونسے عناصر ہیں جو  سیاست  کے تاریک رخ کو  انسانوں کو ذہنوں  میں  ٹھونس   دیئے  ہیں ؟۔   میں انہی سوچوں میں ایسا  ڈوب گیا  تھا کہ  شاید  ماموں  بلبل  امان  کے باتوں کو نہیں سُن سکا تھا  یکایک آواز آئی  ” برخردار خیر  تو ہے کس سوچ میں  ڈوب گے ہو؟”             

میں  نے سنجیدگی سے کہا کہ ماموں جان     میں چھو ٹے ندیم کے باتوں پر  سوچ  رہا تھا  جو ہماری باتوں  کو دھوکہ دہی کی کسوٹی پر پرکھ رہا تھا ۔ آخر اس بچے کو  یہ سوچ کیوں آئی ؟ سیاست کے بارے میں  چھوٹے  بچوں تک  منفی سوچ کے شکار کیوں ہیں؟  مامون بلبل آمان  اپنی  مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوے میری   طرف بڑھےاور کہنے لگے” دیکھو   بیٹا،  سادگی کی بھی حد ہوتی ہے  اس معاشرتی برائی کہ    وجہ  وہی افراد  ہیں جن کے ذہنوں میں    لیڈر بننے کا  بھوت سوار ہے  جو کہ جائز  و ناجائز     میں فرق  کئے بغیر  اپنی دوڑ میں   محو ہیں  تو بھلا الفاظ کے تقدس  کا اُن  سے گلا  کرنا  آپ  کی سادگی نہیں تو اور کیا ؟ ” س پر چچا جان گولی خان نے قدرے  غصے سے  گویا ہوئے “بات یہ  ہے  کہ ہم عوام   نے اپنے  یونین کو نسل کے ممبر سے لیکر ایم۔ا ین ۔ اے تک جنتوں کو بھی لیڈر بنا یا  اُن سے جھوٹ اور دوھوکہ دہی کے سوا   اور کیا  سیکھا ہے” میں نے کہا، ہر کوئی ایسا  نہیں ہے تو ماموں  بلبل  آمان کہنے لگے سبھی کسی نہ کسی طرح عوام کے ساتھ کھیلتے آئے ہیں۔  دیکھو یہ   لوگ بظاہر منصوبے تو   لاتے ہیں لیکن  اپنے من پسند  کے لوگوں   کو ٹھیکے دیتے ہیں اور اپنی پشت پناہی میں ناقص کام کروا کے سارے پیسے ہڑپ کر جاتے ہیں۔   سادہ عوام  وقتی طور پر خوش  لیکن ایک دو سال کے بعد وہ  کام برباد ہو جاتا ہے۔ تب عوام کو ہوش آتا ہے ۔ اتنے میں  دادا الطاف  بھی تشریف لاے جو دور   سے شاید   ان باتوں کو سن رہا تھا۔ وہ آتے ہی کہنے لگے کوئی اچھی   گفتار   ہو دوستو یہ   بے ایمان لوگوں کی باتیں  سننے سے ذہن پر غلاظت حاوی ہو جاتی ہے ۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا  پر دادا جان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا۔  میں نے اپنی 75 سالہ زندگی میں  یہ دیکھا کہ جن لوگوں کے گھروں میں کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑے نہیں تھے  وہ ممبر  بننے کے بعد   متموّل خاندانوں میں شامل ہوئے ۔  ماموں  بلبل آمان اس  بات کو آگے بڑہاتے ہوے کہنے لگے چچا آپ  منتخب  ممبران کی باتیں کرتے ہو۔ بات ان کی کرو جو  ان کے دوست بن  کر   ہر قسم کے تعلقات بنا کر جائز و نا جائز طریقے سے پیسے بنا رہے ہیں۔ جن کی کوئی ذاتی جائدا د نہیں اور  نہ ہی کوئی معقول  ذرائع معاش ہے۔  بس ان نمائندوں  کی صحبت  میں  یہ بھی عوامی امانت میں خیانت کر کے حرام کے پیسے بٹور رہے  ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ سوالیہ انداز  سے چچا جان گولی خان کی طرف  دیکھنے لگا۔   چچا جان گولی خان حیرانگی کے انداز میں کہنے لگے  کہ  یہ  ایم این ایز تو مرا عات یا فتہ  ضرور  ہوتے ہیں       لیکن اتنی مراعات تو نہیں ہے نا جو   چند سالوں  قوم کو لوٹ کر   اپنے لئے  بڑی جائداد یں بنائیں  میری نظر میں یہ  لوگ خدمت کے لیئے نہیں صرف  پیسے بٹورنے کےلئے   ممبر بن جاتے ہیں ۔

میں ان کی باتوں کو غور سے سنتے   ہو ئے اس سوچ میں مگن رہا    کہ سیاست جیسے ایک مُقدس پیشے کے بارے  یہ بے اعتمادی  اور نفرت آمیز  تاثر کیوں  عوام ا لناس کے ذہنوں میں گہری جڑیں پکڑ چکا ہے ۔    کافی ناقدانہ  تفکرُ و تد بُر نے  میرے ذہن  کے پردے پر   کئی ایک نقشے     کھینچے  کہ داریں اثنا   دادا الطاف مجھے مخاطب کر کے  بولے،  دیکھو بیٹا !   میں نے  بڑی   عُمر پائی ہے مجھے پتہ ہے لوگ سیاست کو جھوت اور فریب کیوں سمجھتے ہیں۔  سنو بیٹا:  میں پاکستان کی بات نہیں کر رہا ہوں، البتہ گلگت بلتستان کی با ت  کر رہا ہوں جس کا میں   کئی دہا ئیوں سے  چشمِ دید  گواہ ہوں۔ ۔

سنو۔۔۔  اس کی پہلی وجہ  سیاست میں  پیشہ ور ، اعلی تعلیم یافتہ اور  کہنہ مشق سیاست دانوں کا فقدان ہے۔   جنہیں  اپنے   سیا سی قوتِ بصیرت،  علم و اگاہی  اور  دانش  سے عوم ا لناس کے  فوری نوعیت      کے اہداف (short term targets ) درمیا نی نوعیت   کے  اہداف ((medium term targets اور طویل ا لمدت    اہداف (long term targets)   اور مفاد کے اعتبار سے  نہ صرف  باریک بینی سے  تعین کرنا ہوتا ہے بلکہ    ایک مکمل  حکمت عملی  اور منصوبہ بندی کے تحت شبانہ روز محنت سے ان اہداف کو   پورے معیار کے ساتھ  حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت  نہیں کرنا ہوتا ۔ یوں گلگت بلتستان کا  سیاست جیسا  اہم پیشہ متعلقہ اہلیت کے حامل  لوگوں  سے اکثر محروم رہا ہے۔

 مقامی ، ملکی اور بین ا لاقوامی تنا ظر میں  سیاست سے نا  اشنا  افراد کا اس میدان میں دخل اندازی،  جو اس   اہم پیشے کی باریکیوں  اور اس کی حساسیت   سے مکمل لا علم  ہیں، سیا ست کو بد عنوانی کی آ مجگاہ  بنایا ہوا ہے۔ اور اس قسم کے لوگوں کی تعداد اس میداں میں   بہت زیادہ ہے جو  سیاست کے لفظ کے علاوہ اس پیشے کے  تقدس  سے نا آشنا ہیں۔ ۔

·  دوسری اہم وجہ ا کثر  سیاسی نمائندوں میں  قوت  بصیرت کی کمی ہے جس  کی  وجہ  سے  ان کے سامنے قومی ترقی کا کوئی واضح  معیار، حد اور منزل  موجود نہیں ہے۔  یہی وجہ ہے آج تک  عربوں روپے کا   بجٹ خرچ کرنے کے باوجود   ہمارے  معاشرتی، معاشی، سماجی ، تعلیمی اور صحت  کے میدان میں   ترقی سب کے سامنے ہے۔    

· تیسری اہم وجہ   سیا ست میں دیانت داری  اور سچائی  کی نا پیدگی ہے  جو اُم ا لخبائث ہے۔  جس نے  بد  عنوانی، اقرا پروری  ،  جھوٹ، دوکھا دہی، سکیموں /پرو جیکٹس کی خرید و فروخت  اور عوامی  فنڈز کی نہایت بے دردی  سے بندر بانٹ کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ  جنم   دیا ہے ۔ ۔  سیاسی نمائندے عوامی پروجیکٹس کے ٹھیکے  اپنے چیلے چانٹوں کو  دے دیتے ہیں جو ناقص کام  کر کے  عوامی مفادات کی قیمت پر  ان پرو جیکٹس  کے لاکھوں روپے  بچا لیتے ہیں اور پھر  اپنے آقا وں کے ساتھ بانٹ  لیتے  ہیں۔ 

· چوتھی   وجہ  سیاسی نمایندوں کی  اقراپروری ہے  جو ملازمتوں میں  اپنوں اور اپنے پوجنے والوں کے علاوہ کسی اور کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔

· پانچویں وجہان نمائندوں کا بیرو کریسی کے سامنے جھکنا،   اور اپنے سے  با  اثر  سیا سی      شخصیات کی ہر قیمت پر   خو شنودی   حاصل کرکے  اپنے اور اپنے   constituency  کے  وقار کا پروا  نہ کرنا  ہے۔ جس سے electorate  کی خودی کو ٹھیس پہنچتی  رہی ۔ اور وہ بد ظن  اور مایوس ہوتے گئے۔  

·          چھٹی  وجہ سیاست کے نام پر خود ساختہ  نمائندوں کا معاشرے میں بد عنوانی پر بد عنوانی کرنا، جھوٹ بولنا اور دھوکہ د ہی  کرنا ہے۔   جو چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سب کو  بد ظن کر دیا ہے۔

·  ساتوں   وجہ  اس ملک میں حکومتی سطح پر  احتساب کی  کمی ہے۔  ا گر صحیح احتساب ہو تو بہت سارے بد عنوان سیاسی نمائندے  اور ان کے وفادار چیلے چانٹے سب جیل جایں گے اور  ان  سے  چوری کے پیسے واپس لئیے جا ئیں گے۔  یہ آیندہ کے لئیے نا اہل ہو ں گے۔

·  آٹھواں  وجہ عوام میں سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہے۔ عوم کی ذمہ داری ہے کہ ان نمائندوں کو   ناقص کار کردگی کا  ذمہ دار ٹھرائیں۔  اور    غیر معیاری  نا قص پروجیکٹس    اور اقربا پروری کے خلاف سرا پا احتجاج کریں اور دباو ڈال کر اپنا حق حاصل کریں

موصوف  کے مزید کچھ کہنے سے پہلے میں نے  مُداخلت کی اور کہا۔۔۔ پھر  تو  ان نمائندوں کا انتخاب بھی ہم ہی کر لیتے ہیں، پھر یہ سارے طعنے عوام خود کو ہی تو دے رہا ہے  نا۔۔۔۔  وہ  تذب ذب کے انداز میں ایک لمحہ میری طرف دیکھنے لگے اور  اثبات  میں سر ہلاتے ہوے بولے بڑی بات کی تو نے، تو نے بڑی بات کی۔ ہماری اپنے  غلط چناو  ہمیں نقصان دیتا ہے۔  پھر بولے،  عوام کو ماضی سے سبق حاصل کر کے اپنے ووٹ نمائندوں کی کار کردگی کی بنیاد پر د ینا چاہیئے، پھر چچا جان گولئ خان نے مزیداضافے کے ساتھ کہا” دیکھیں آج تک ہمارے حلقے میں جو جو نمائندے  چنے گئے ہیں ان  سب کا کام ہمارے سامنے ہے،

ایک دو کو اُٹھا کر سب نے ہمیں بہت دوکھا دیا ہے جس سے پوری سیاست کا پیشہ بری طرح بدنام ہو  چکی  ہے ۔  میں سو چتا رہا کہ جن لوگوں کو ہم ان  پڑہ سمجھتے ہیں وہ کتنے دانش مند  ہیں۔ کس طرح   ایک   عام ان پڑہ شخص باریکی سے سیاسی نمائندوں کی کوتا ہیوں کو مدلل انداز میں  وضاحت کی  کہ لوگ سیاست کو کیوں فراڈ سمجھتے ہیں ، اور  ہر دوھوکہ دہی کو سیاست کے ساتھ کیوں نتھی کرتے ہیں۔   انھوں نے یہ واضح کی کہ اس  کے  ذمہ دار سیاست کے دعویدار لوگ ہی ہیں۔    

ہم عوام اور سیاست ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں اپنی تلخ یا خوشگوار تجربات کی بنیاد پر  بات کرتے ہیں، اور رائے   قا  ئم کرتے ہیں۔  اکثر فراڈئیوں کی وجہ سے سیاست جیسا اہم پیشہ اپنا وقار  اور اعتماد  عوام  میں  کھو چکا ہے۔  ایک معیاری سیاسی کلچر ہی  سیاست کے حوالے سے   عوامی تاثر  کو  مثبت سمت میں   ڈال سکتا ہے اور اس کے لیے حقیقی سیاسی نمائندوں کو    سیاسی گِدوں سے اپنے اپ کو الگ رکھ کر  اپنے معیاری  اور عوام دوست  کارکردگی  سے  عوام ا لناس میں سیاست  کے اصلی تاثر    کو پروان چڑھا نے کی ضرورت ہے  ۔ 

  بہر حال عوام ا لناس کا یہ بہت بڑا اخلاقی اور قانونی    فرض   ہے کہ اپنے ووٹ کا  استعمال قومی امانت سمجھ کر کریں  اور ہر قسم کے تعصبات  سے  بالا تر ہو کر معیار اور بہتریں کردار اور کار کردگی کے مالک لوگوں کو  منتخب  کر  کے اپنے علاقے کو  ترقی دلانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
39494

بیت السلام کا قابل تقلید تعلیمی ماڈل…..تحریر: امیرجان حقانی

 یہ برطانوی استعمار  کا دور تھا۔ پورا ہندوستان محکوم تھا۔ مسلمانوں کی حالت ابتر تھی۔ ایسے میں مسلمانوں کے دو تعلیمی طبقات وجود میں آئے۔ ایک تحریک دیوبند کہلایا اور دوسرا علیگڑھ۔تعلیمی تحریک دیوبند نےدینی علوم کی ترویج اور تحفظ کابیڑہ اٹھایا اور علیگڑھ نے مسلمانوں میں جدید علوم و فنون کے ساتھ ریاستی امور نمٹانے کے لیے رجال سازی کا کام شروع کیا۔ دونوں میں دوریاں بڑھتی گئی تو جامعہ ملیہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم اور فنون و امور کی رعایت کی گئی تھی۔ کسی منچلے نے ایک غیر سنجیدہ تبصرہ کیا کہ ”جسے دین اور دینی علوم چاہیے وہ دیوبند جاتا ہے، جسے دنیا چاہیے وہ علی گ گڑھ  جاتا ہے اور جسے دونوں علوم سے واسطہ نہ ہو اور نہ ہی درکار ہوں وہ جامعہ ملیہ کا رخ کرجاتا ہے” بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد اب تک ریاستی،دینی اور نجی تعلیمی صورت حال یہی رہی ہے۔ ایک طرف دینی علوم کے مدارس  ہیں جن میں دینی کتب تو پڑھائی جاتی ہیں لیکن دنیاوی اور ریاستی معاملات اور جدید دور کے تقاضوں کو مکمل نظرانداز کیا ہوا ہے۔اصلاحانہ گزارشات تک سننے کے روادار نہیں۔ اور دوسری طر ف سرکاری تعلیمی ادارے اورجدید عصری  انسٹیٹوٹس  ہیں جہاں سب کچھ پڑھایا جاتا ہے سوائے دینی علوم و فنون کے۔ ایسے میں دونوں کے درمیان فکر و نظر اور قول و فعل میں لاکھوں میل دوری  اور تضاد پایا جاتا ہے۔ میں فخر سے یہی کہوں گا کہ ” آج اگر کسی نے  دین و دنیا کی تعلیم احسن طریقے سے حاصل کرنی ہے تو وہ جامعہ بیت السلام کراچی اور تلہ گنگ کا رخ کریں،یہ ایک ایسی جامعہ ہے کہ جس میں پرھنے والا بیک وقت درس نظامی کا طالب علم بھی ہوتا ہے اور  اے لیول کا بھی۔حفظ قرآن اور ابتدائی دینی تعلیم کے سے  او لیول کا ایگزام بھی اچھے نمبروں میں پاس  کررہا ہوتا ہے۔یقینا آپ کو مجھ پر یقین نہیں آتا ہوگا لیکن آپ خود جامعہ بیت السلام کراچی اور چکوال کیمپس کا وزٹ کیجیے۔آپ کو سفید قمیص شلوار میں ملبوس پندرہ سالہ لڑکا  انگریزی اور عربی میں شاندار گفتگو کرتے ہوئے ملے گا اور ساتھ ہی دینی علوم کے ساتھ جدید عصری علوم وفنون کی تحصیل میں ایک ہی کلاس میں منہمک نظرآرہا ہوگا۔ایک ہی کلاس میں پڑھنے والے لڑکے صرف و نحو اور فقہ و تفسیر کیساتھ کمسٹری، فزکس اور ریاضی کے فارمولے تکرار کررہے ہونگے اور اپنے اساتذہ کوسنارہے ہونگے۔اور عربی اور انگلش زبانیں بطور انجوائی سیکھ رہے ہونگے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ او لیول ، اے لیول اور حفظ و درس نظامی کی تعلیم بالکل مفت اور عزت و احترام کیساتھ دی جاتی ہے۔جملہ اساتذہ  باصلاحیت ہونے کے ساتھ نوجوان اور شفیق بھی ہیں۔صفائی ستھرائی کا اتنا اعلی معیار پاکستان کے جملہ مکاتب فکر کے چالیس ہزار مدارس و جامعات میں کہیں پر بھی نہیں دیکھا۔

مجھے ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو کامیابی صرف دینی علوم یا  صرف دنیاوی علوم وفنون میں قرار دیتے ہیں۔اللہ اور رسول نے علم اور علم نافع کی دعا سکھلائی ہیں۔اسلام میں کہیں پر بھی نافع دنیاوی علوم و فنون کی ممانعت نہیں آئی بلکہ ترغیب و تحریص پر اکسایا گیا ہے۔سیرت کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے۔قدیم قبائلی ریاستی نظام سے لے کر آج کی جدید قومی ریاست تک، ہر ملک و ملت کی کامیابی و ترقی کا دارومدار صرف اور صرف تعلیم  وتحقیق پر ہے۔

پاکستانی مسلمانوں کے لیے دنیاوی تعلیم ضروری ہے تاکہ جدید ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کیا جاسکے اور دینی اور مذہبی تعلیم  بھی ضروری ہے۔اس لیے کہ ہماری سوچ،فکر و نظر، تہذیب و تمدن اور ہمارا ماضی کا محور و مرکز یہی دینی تراث ہے۔سچ یہی ہے کہ دینی اور دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج اور فکر و عمل میں یک جائی ہی پاکستانی مسلمانوں کی ترقی و تعمیر اور حال و مستقبل  کی ضمانت ہے ۔اس سے فرار وقت، زندگی،صلاحیت اور مال و متاع کا ضیاع ہے۔ تعلیم میں دوئی نہیں اور نہ ہی طبقاتی نظام تعلیم کی گنجائش ہے۔پاکستانی نظام تعلیم کو دوئی(دینی و دنیاوی) اور طبقاتی نظام (غریب و امیر کے لیے الگ نصاب و نظام اور ادارے)  سے آزادی دلانا  ہی سب سے بڑی قومی خدمت ہوگی۔

بیت السلام  ویلفیئر ٹرسٹ کی داغ بیل 2009 میں ڈالی گئی۔دس سال کے قلیل عرصے میں  استاد عبدالستار مدظلہ کی نگرانی میں   بیت السلام ویلفیئرٹرسٹ نے اسلامی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرلیا ہے۔اس قابل اعتماد عالمی ادارے کا  سلوگن یہ ہے۔”خدمت کا دھنی ، دکھ درد کا ساتھ”۔اس سلوگن کی تصدیق بیت السلام کی جملہ خدمات سے ہوجاتا ہے جو پاکستان سے ترکی تک  اور شام اور برما تک پھیلا ہوا خدمتی نیٹ ورک ہے۔یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ  انسانیت کی فلاح و بہبود کا ایک ایسا منفرد  بین الاقوامی ادارہ ہے  جس سے منسلک دنیا بھر کے  لاکھوں مسلمان معروف اور مستند علماء کرام کی سرپرستی  میں فلاح و بہبود اور تعلیم و تدریس کا کام  رضائے الہی کے لیے انجام دے رہے ہیں۔

بنیادی طور پر بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ کے تین بڑے  اور مرکزی شعبے ہیں۔ بیت السلام ایجوکیشنل  سروسز، بیت السلام ہومینٹیرین اینڈ سوشل ویلفیئر سروسز اور بیت السلام پبلیکشن اینڈ میڈیا۔ان تینوں کے ذیل میں کئی اور ادارے ہیں جو مختلف قسم کے سروسز میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔چند ایک کے نام یہ ہیں۔بیت السلام پبلیکشن، بیت السلام ایجوکیشنل فاونڈیشن،روضۃ السلام،  دہ انٹلیکٹ اسکول، جامعہ بیت السلام تلہ گنگ،جامعہ بیت السلام کراچی، بیت السلام بیسک ہیلتھ یونٹ،بیت السلام فوڈ بینک، مساجد کنسٹرکشن اور  ای بیت السلام قابل ذکر ہیں۔ان تمام اداروں کا نیٹ ورک پاکستان، ترکی، شام، برما، فلسطین ، بنگلہ دیش اور دیگر ایریاز میں پھیلا ہوا ہے۔ مجھے  بیت السلام ایجوکیشنل سروسز کا مختصر ذکر کرنا ہے جوبیت السلام ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کے ماتحت کام کررہاہے۔ بیت السلام ایجوکیشنل فاونڈیشن کی نگرانی میں پچاس ہزار اسٹوڈنٹس کو فری اسکالرشپ آفر کیے جاتے ہیں۔12 ہزار ایسے طالب علم ہیں جو کل وقتی رہائشی ہیں جن کی تعلیم و تربیت  اور قیام و طعام کا بندوبست  ادارہ کرتا ہے۔بیت السلام ایجوکیشنل فاونڈیشن کے 380  بنیادی ایجوکیشنل سینٹرز ہیں جن میں 35 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات مفت میں بنیادی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بیت السلام ایجوکیشنل کمپلکس تلہ گنگ اور کراچی میں ہزاروں طلبہ حفظ و درس نظامی کیساتھ اے لیول اور او لیول کی تعلیم مفت میں حاصل کررہے ہیں۔ان تمام طلبہ کے جملہ اخراجات بیت السلام برداشت کررہا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا منفرد تعلیمی نظام ہے جہاں درس نظامی اور او لیول و اے لیول کا بہترین امتزاج  خوبصورتی کیساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔بیت السلام پبلیکشن اور میڈیا بھی  منفرد انداز میں کام کررہا ہے۔ اردو، انگریزی اور عربی رسائل و اخبارات اور کتب کا اشاعتی سلسلہ دھیمی انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔تمام تفصیلات کا اس مختصر کالم میں گنجائش نہیں تاہم ان کے  تعلیمی مقاصد اور اہداف کا ذکر کرتے ہوئے کالم کو سمیٹ لونگا۔

a) To discover the purpose of life.

b) To understand their roles as a responsible citizen.

c) To become global champions of Muslim unity, brotherhood, peace, justice, development, charity, selfless volunteerism & humanity.

یعنی” زندگی کا مقصد جانیں، تعلیم یا  فتہ  شہری کی حیثیت معاشرےمیں ا پنی  مہ د د ا ر یوں کو سمجھیں، ا پنےا علیٰ کرد ا ر  سےمعاشرےمیں ا تحاد ،بھائی چار گی،امن و استحکام،بھلائی ،خیر ا و ر  ترقی کے کاموں کے عالمی طح پر ، و ا ستحکام علمبرد ا ر  ا و ر  نمونہ بنیں۔” انتہائی مختصر مگر پراثر مقاصد ہیں۔ انسانیت کی تخلیق ہی ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ہوئی ہے۔

بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ کے چند  نئے پراجیکٹس  پلاننگ کے مراحل میں ہیں۔

1۔ بیت السلام سُپراسٹور برائے غراباء و مساکین

2۔ بیت السلام کیڈٹ کالج پنجاب

3۔بیت السلام کیڈٹ کالج بلوچستان

4۔بیت السلام کیڈٹ کالج سندھ

5۔ بیت السلام ایجوکیشن کمپلکس اسلام  آباد

6۔  بیت السلام انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ اسٹم ایجوکیشن

7۔ بیت السلام ویلیج ماڈل اسکول

8۔بیت السلام ایمبولینس سروس

9۔بیت السلام ہاؤسنگ اسکیم برائے غرباء و مساکین

استاد محترم اور بیت السلام کے کارپردازوں سے گزارش ہوگی کہ ان نئے پراجیکٹس میں ایک کا اضافہ کیجیے اور بیت السلام  ایجوکیشنل سسٹم کو گلگت بلتستان تک ایکسٹین کیجیے  تاکہ تلک عشرۃ کاملۃ  ہوجائے۔اور پھر دھیرے دھیرے بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ کے جملہ ادارے اور پروجیکٹس یہاں فعال ہوں۔

یہ میرے لیے باعث اطمینان اور خوشی ہے کہ مولانا عبدالستار صاحب جیسے وژنری اور مشنری عالم دین  میرے استاد ہیں۔ میں نے ان سے علم الصیغہ اور جدید معیشت پڑھی ہیں۔ان کی یہ خوبی ہزاروں خوبیوں پر باری ہے کہ ان کی ذات میں ”فکر و عمل”  کی یک جائی ہے۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جدید دور میں معاشرہ اور ریاست کی دینی و دنیاوی ضروریات کیا ہیں۔ان ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے  اہداف زندگی  متعین کیے ہیں۔اہداف اور مقاصد کے طے ہونے کے بعدان کے حصول کے لیے قربانی اور فدارکاری استاد جی اور ان کی ٹیم کا معمول بن گیا ہے۔یہ کوئی ان سے سیکھیں۔ان کی ٹیم میں معروف دینی جامعات، عصری یونیورسٹیوں  کے تعلیم یافتہ احباب شامل ہیں اور فوج  اور بیوروکریسی کے ریٹائرڈ آفیسران اور ماہرین تعلیم وفن بھی رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔عام دنیا دار لوگوں سے رضاکارانہ سروسز  لینا کوئی استادجی سے سیکھیں۔لاریب وقت اور علم کی کنٹری بیوشن سب سے قیمتی چیز ہے۔ اس پر مستزاد بڑے اکابر علماء و شیوخ کی سرپرستی اور تائید بھی استاد جی کو حاصل ہے۔

یہ طے شدہ ہے کہ جو لوگ کاروبار زندگی کے کسی بھی شعبے سے منسلک ہیں وہ اگر وقت اور صلاحیت کو مختلف النوع مشاغل و امور میں تقسیم کرتے ہوئے ضروری اور غیرضروری میں تمیز نہیں کرتے ، اہم اور غیر اہم کا خیال نہیں کرتے وہ لوگ یقینا اللہ کی طرف سے دی ہوئی زندگی، وقت اور صلاحیت تینوں کو ضائع کردیتے ہیں۔استاد عبدالستار  حفظہ اللہ نے اپنی زندگی، وقت اور صلاحیت تینوں کو اہم اور ضروری امور وافعال کے لیے صرف کیا ہےاور اللہ کی توفیقات ان کے ساتھ شامل حال ہیں۔ میری دعا اور کوشش دونوں ہیں کہ جامعہ بیت السلام، بیت السلام ٹرسٹ اور استادجی اور ان کی ٹیم کا فیض ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان کو بھی فیض یاب کرے۔اس حوالے سے استاد محترم سے بہت تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ ان کے سامنے گلگت بلتستان کی تمام تر صورت حال بلاکم و کاست رکھ دی ہےاور استادجی نے ایک طالب علم کی معروضات کو انتہائی سنجیدگی کیساتھ نہ صرف سماعت فرمائی ہیں بلکہ بہت جلد بیت السلام کی سروسز کا سلسلہ گلگت بلتستان میں شروع کرنے کا عزم اور ارادہ کا اظہار بھی کیا ہے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
39492

قاضی آف ورشی گھوم”مولانا محمد قربانؒ” ….تحریر: شمس الحق نوازش غذری


ان کا گھر بیک وقت سکول بھی تھا اور ہاسپٹل بھی، کیونکہ وہ خاتونِ خانہ عالمہ بھی تھی اور طبیبہ بھی۔۔۔ مجھے بھی”الف با”سیکھنے کی آغاز کا اعزاز اسی گھر سے ہوا یعنی میری زندگی کا پہلا سکول بھی وہی گھر تھا۔یہی نہیں بلکہ بچپن میں پہلی بار میری ایک بیماری کا علاج بھی اسی گھر میں ہوا تھا۔میری والدہ کو مجھے تعلیم دینے کی فکر ہو یا میری صحت کی، میرے مستقبل کے حوالے سے کوئی پلاننگ ہو یا میری تربیت کی میری دیہاتی ماں فوراً اٹھ کے میری انگلی پکڑتی اور اس گھر کی راہ لے لیتی، میری ماں کی طرح میرے گاؤں اور میرے گاؤں سے متصل دیگر دیہاتوں کے خواتین بھی اپنے بچوں کو علاج معالجے کے علاوہ تعلیم و تربیت کے لئے اسی گھر میں لے آتیں اور وہ طبیبہ ہمیشہ ایسی ادویات تجویز کرتیں جو ہر قسم کی سائیڈ ایفیکٹ سے پاک ہونے کے علاوہ گاؤں والوں کے گھروں میں ہی دستیاب ہوتیں۔وہ اکثر اوقات ایک جنگلی پودے کی ٹہنی کو تراش کر اس کا برادہ نکالتی پھر اس برادے کو چھان کر سفوف بناتی اور ایک چٹکی کے برابر مقدار میں مریض کے بدن کے کسی حصے میں رکھ دیتی اور اور چھوٹی سی چنگاری سے اس کو جلا دیتی مریض کو جونہی جلن محسوس ہوتی وہ اس پر اپنی گیلی انگلی کا پور رکھ کر دبا دیتی اس سے مریض کو انجکشن کے برابر تکلیف ہوتی او ر مریض فوراً افاقہ محسوس کرتا ان تمام خدمات کے عوض اس مدرسے کی کوئی فیس تھی اور نہ ہی اس مطب کی۔۔۔ دنیا کے کسی بھی مدرسہ یا سکول کے چھوٹے بچوں کی معصوم خواہشات میں سے ایک چھوٹی سی بچگانہ خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن سر درد، دانت درد یا بخار کا بہانہ بنا کر سکول سے خودساختہ چھٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس مدرسے میں کوئی ناٹک، کوئی حیلہ اور کوئی بہانہ کبھی کارگر اور کامیاب نہیں ہوتا تھا کیونکہ بیماری کی صورت میں بھی وہی جانا تھا جہاں وہی معلمہ طبیبہ کی روپ میں تشریف فرما ہوتیں۔وہ مدرسہ علامہ اقبال کے ان اشعار کی عملی تفسیر تھا۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا


ایک روزحسب معمول چھٹی کے بعد ہم وہاں سے نکل رہے تھے یکایک شاہانہ لباس میں ملبوس ایک انتہائی وجیہہ اور با رعب شخص وہاں نظر آیا، چہرے پر کالی اور گھنی داڑھی خوب سج رہی تھی اور اوپر سے جناح کیپ نے ان کی شخصیت کو دوبالا کر دیا تھامیں اور میرے گاؤں کے سارے فیلوز نورانی قاعدہ ہاتھوں میں تھامے ان کو اپنے نرغے میں لئے، ہماری تجسس کر دیکھ کر انہوں نے بھی ہمارے درمیاں کھڑا ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جبکہ ہم چاروں طرف سے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے کی آس میں خودکو فراموش کر بیٹھے۔یہ منظر بالکل ایسا تھا جیسے گاؤں میں کوئی پھیری والا پٹھان پھیری لگاتا تو ہم ایسا ہی دائرہ اور حلقہ بنا کر ان کو ان کے کھلونوں کو اتنی توجہ سے دیکھتے تھے جتنی توجہ اور رغبت سے آج کے بچے کارٹون دیکھتے ہیں۔ مجھے اپنی طالب علمی کے ایک برس کے دورانیے تک اپنی گاؤں کے اس واحد میڈیکل اور ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں کبھی ایسا شخص دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔یہاں تو اکثر سیدھے سادھے، ڈھیلے ڈھالے اور سلوٹوں سے مزین کپڑے
پہنے ہوئے دیہاتی ہی نظر آتے تھے۔لیکن آج کے روز انہیں دیکھتے ہوئے ہم میں سے ہر کوئی بزبان حال کہہ رہا تھا:


کہاں ہم کہاں یہ نگہت گل
نسیمِ صبح، تیری مہربانی


ان کو گاؤں کے تمام بچوں کی معصومی اور سادہ لوحی کا بھرپور احساس اور ادراک تھا، وہ مسلسل مسکراتے ہوئے تمام بچوں کے سروں پر انتہائی محبت اور شفقت سے ہاتھ پھیرتا رہا اور باری باری ہم سے ہم سب کا نام پوچھتا رہا جب ہم اپنے اپنے نام اور ولدیت بتانے لگے تو ہر نام سننے کے ساتھ ان کے چہرے میں شگفتگی اور شادابی پھیلتی رہی اور ان کے چہرے کی حسن و دلکشی دوبالا ہوتی رہی۔ ان کی ساحرانہ شخصیت اور وجاہت نے مرکز مائل قوت کی طرح ہمارے وہاں سے ہٹنے کی فکر و سوچ کو زائل ہی کر دیا تھا۔جب ہماری زیارت کا عمل طوالت اختیار کر گیا اور ہم معصومیت کی حدود پھلانگ کر نادانی کی سرحد میں داخل ہوئے تو انہیں بھی ہماری دیہاتی مورکھ پن کا اندازہ ہوا۔یوں وہ مسکراہٹ کے ساتھ انتہائی ٹکسائی کھوار اور دل آویز لہجے میں “تھے جام مہ بلبلان”کہتے ہوئے حیرت زدہ بچوں کا حصار توڑ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ان کے وہاں سے چلے جانے کے بعد ہم سب سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اس وقت میرے اور میرے تمام کلاس میٹ کے ذہنوں میں ایک ہی قسم کے سوالات منڈلا رہے تھے لیکن حیرت و تعجب کی ملی جلی کیفیت نے ہمارے اوپر سکوت طاری کر دیا تھا البتہ دل ہی دل میں تمام طلبہ خود سے یہی سوال پوچھ رہے تھے یہ حیرت افزا اجنبی کون ہے اور کہاں سے آیا ہوا ہے؟انہی سوچوں میں گم صم ہو کر دوسرے بچوں کی طرح میں بھی اپنے گھر پہنچا گھر کے اندرونی دروازے کی چوکھٹ میں قدم رکھتے ہی آج کی سرگزشت کا آغاز اس خوش اسلوب شخص کی شخصیت سے کیا۔گھر والے ہماری تجسس اور بے چینی کو بھانپتے ہی ہمارے تمام سوالوں کے جواب ایک ہی سانس میں دیئے لیکن ہماری تجسس کو چین اس وقت ملا اور ہم خوشی سے اس وقت پھولے نہ سمانے لگے جب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ شخص ہماری اس معلمہ کی فرزند ارجمند ہیں جو ایک ہی وقت میں معالج بھی ہیں اور مدرس بھی جو بلا معاوضہ جاہلوں کو علم سے بھی نوازتی ہے اور بیماروں کے لے لئے دوا بھی تجویز کرتی ہیں۔غالباً اس لئے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی سنت اور انسان کی آئین میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ انسان ہمیشہ ان لوگوں کی قربت اختیار کرتا ہے جو دولت، مرتبہ اور رتبے میں اعلیٰ ہوتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ بے بسوں کی بے بسی اور بے کسو ں کی بے کسی میں ہوتے ہیں۔لہٰذا جو لوگ اللہ کے بے بس مخلوق کی بے بسی اور بے کس مخلوق کی بے کسی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ بھی ایسے لوگوں کی طرف رحم و کرم کی نظر فرماتے ہیں۔


ان کی پیدائش اور آفرینش کا واقعہ بھی تحیّر و تعجب سے خالی نہیں ہے، جس دن بلکہ جس لمحے ان کی ولادت ہوئی عین اسی دن بلکہ اسی پل ان کے والد محترم جان جانِ آفرین کے حوالے کر دی۔یہ 1942ء کے موسم بہار کی ایک ٹھنڈی صبح کا واقعہ ہے اس روز وادی یاسین کے ایک گھر میں نومولود بچے کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے بھی رو رہے تھے۔ اس دن اس گھر میں قاضی محمد قربان نے آنکھ کھولی تھی جبکہ قاضی محمد قوی کی آنکھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوئی تھی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یتیمی اور بے پدری کے باوجود ایک نہ ایک دن یہ بچہ شائق حدیث اور علامتہ الدھر بن کر اسی سر زمین میں قدم رنجہ فرمائے گا۔ پھر وقت اور زمانے نے ثابت کر دیا نیک نامی اور ناموری کی شہرت سائے کی طرح ان کے ساتھ چمٹی رہی۔مولانا سکندر چترالی نے ایک مرتبہ فرمایا تھاکہ غذر میں جتنی شہرت ورشی گھوم کے قاضی محمد قربان کی ہے اتنی شہرت ورشی گھوم کی نہیں۔آغوش مادر کو پہلے ہی مکتب و مطب کا درجہ حاصل تھا یوں ابتدائی تعلیم کا آغاز غیر محسوس طور پر شیر خوارگی کے زمانے۔۔۔۔۔ سے ہی والدہ ماجدہ کی گود سے ہوا، ثانوی تعلیم کے لئے گلاپور اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیئے وطن عزیز کا انتہائی شہرۂ آفاق ادارہ دارالعلوم کراچی کا رخ کیا۔دارالعلوم کراچی سے سندِ فراغت کے بعد مزید دینی علوم کی تکمیل کے لئے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
39390

کوہ قراقرم کی فلک بوس چوٹیوں کا غرور خاک میں ملانے ولا لیٹل کریم۔۔۔۔شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے      ———————– ( کوہ قراقرم کی فلک بوس چوٹیو کا غرور  خاک  میں  ملانے ولا لیٹل کریم۔ ایک بلتی سپر من سے ملاقات  )

تحریر : شمس الحق قمرؔ       چترال 

میرے جیسے ایک عام  آدمی کےلیے ایک ایسی قدد آور شخصیت سے بالمشافہ ملاقات اور دوبدو گفتگو کہ جن کے ایک جھلک دیدارکے لیے دنیا کے بڑے  بڑے کوہ پیماؤں کی آنکھیں عشروں سے ترستی ہوں ، ایک دلچسپ اور یاد گار تجربہ تھا ۔ کہانی یوں چل پڑی کہ سردار حسین صاحب  نے ہمیں خپلو بلایا ( یاد رہے خپلو ، بلتستان ،محترم  سردار حسین کا سسرال ہے )  موصوف نے ہمیں ضلع گانچھے کےمختلف تاریخی مقامات جیسے کرگل ، پھران، گیاری اور سیاچن کی وادیوں اور بستیوں کے علاوہ مختلف صوفیا کے مزار اور اعتکاف کی جگہوں کی سیر کرائی ،    اس علاقے سے وابستہ صدیوں پر محیط   لوک کہانیاں سنانے  کےلیے  گاؤں کے قوی  الحافظہ  شخصیات کو  بلایا  اور  علاقائی کہانوں سے محظوظ کرایا ۔ ایک دن ہم  نے اُن سے از راہ تفنن پوچھا  کہ صاحب آپ نے تمام تاریخی علاقوں کی سیر کرائی  پیروں ، مرشدوں اور صوفیوں کے مزار دکھائے ، جن ، بھوت اور پریوں    کے قصے سنائے کیا یہاں کوئی مشہور شخصیت ایسی بھی ہے کہ جس سے ناچیز کو  آسانی سے شرف ملاقات اور بات چیت ہو سکے ۔ چونکہ سردار صاحب بلا کے سخن فہم و  سخن نواز   اوربشر شناس آدمی ہیں انہوں نے لیٹل کریم کا  ذکر کیا  اور پھر باتوں باتوں میں ملاقات کی تاریخ بھی طے ہوئی  ۔ 

یہ 10 اگست 2020 کا دن تھا جب ہم نے لیٹل کریم سے ملنے کا فیصلہ کیا اور صبح یعنی 11 اگست 2020 کو  اُن کے گاؤں کی جانب رخت سفر باندھ لیا  ۔  لیٹل کریم کے گاؤں کا نام ہوشے ہے۔   ہوشے مقامی زبان میں ” گیلا” کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ( ہوشے گاؤں کےایک طالب علم  مرتضٰی کا مشکور ہوں کہ  جنہوں نے گاؤں میں  لیٹل کریم کی خدمات اوراُن کی روزمرہ زندگی کے حوالے سے  بہم معلومات پہنچائیں اور اپنے گاؤں ہوشے کا وجہ تسمیہ بھی بتایا ) ہوشے ضلع گانچھے کے صدر مقام خپلو کے شمال میں مشابروم  ( 7821 میٹر بلند) کےدامن پر اس وادی کا آخری اور چھوٹا سا گاؤں ہے۔  یہاں کے لوگوں کا رہن سہن آج بھی صدیوں پرانا ہے ۔  سطح سمندر سے 3000میٹر بلند ی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں پھلدار درخت نہیں ہوتے البتہ آلو اور دیسی مٹر  کے لیے آب و ہوا  بے حد موافق ہے اس کے علاوہ مال مویشی پالنا اس بستی کے لوگوں کے آمدن کا واحد ذریعہ  ہے ۔

یہاں کا سب سے بڑا مسلہ جو مجھے نظر آیا وہ بے تحاشہ انسانی آبادی کا ہے ( آبادی پر کنٹرول ضروری ہے )۔ اس گاؤں میں بچوں کی ایک فوج نظر آتی ہے ان بچوں کی  بہتر تعلیم و تربیت کے بارے میں ابھی تک شاید بہت کم لوگوں نے سوچا ہوگا ۔  خپلو سے ہوشے دو سے ڈھائی گھنٹے کا راستہ ہے ۔  میں نے ڈی ایج کیو ہسپتال خپلو سے  GPS  کھولا اور ہوشے پہنچ کر 60 کلو میٹر  مکمل ہوئے ۔ سڑک کہیں پکی اور  اکثر مقامات پر  کچی ہے ۔     ڈھائی گھنٹہ مسلسل چلنےکے بعد ہماری گاڑی  جدید طرزتعمیر کی غمّاز ایک خوربصورت عمارت کے صحن میں  جاکے رکی جس کے داخلی دروازے  پر چسپان بورڈ پر لکھا ہوا تھا۔ ( WELL COME TO REFUGIO HUSHE)  ۔ اس عمارت کے تمام  کمرے جدید سہولیات سے آراستہ و پیراستہ تھے جیسے چشمے کا صاف و شفاف اور سرد وگرم پانی کی سہولت ، آرام دہ کرسیاں ، نرم و ملائم بستر جدید طرز کے صاف و شفاف واش رومز  اور آلات موسیقی کے علاوہ عمارت کی پشت اور عقب میں  علاقائی و پہاڑی پھولوں سے مزئّین سرسبز و شاداب گھاس جو اس عمارت کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر پر کتنا خرچہ آیا یہ معلوم نہیں ہو سکا البتہ کئی ایک کروڑوں کی لاگت آئی ہوگی  یہ وہ  عظیم عمارت ہے جسے اسپین کے کوہ پیماؤں کی ایک تنظٰیم نے  اسپین  کے ایک کوہ پیما کی جان بچانے پر  لیٹل کریم کی بہادری کےاعتراف میں اُن  ہی کے نام  بنایا تھا ۔اس عمارت کے اندر لیٹل کریم کی وہ تصویریں اویزان تھیں جنہیں فرانس کے ایک نجی ٹیلی وژن نے موصوف کی  کارکردگیوں پر   مبنی  ایک   دستاویزی فلم بناتے وقت کھینچی تھی۔ یہ شاندار عمارت اور کریم کی معاشی بدحالی کا قصہ بھی عجیب ہے جوکہ ہم آگے جاکر آپ کو بتائیں گے

عبد  الکریم ، مسٹر کریم اور بعد میں لیٹل کریم  بن کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والا  شخص ہوشے کا وہ مشہور زمانہ  کوہ پیما ہے جس نے 1985 میں  فرانسیسی کوہ پیماؤں کے ساتھ بغیر اکسیجن کے 8035 میٹر بلند گشیر بروم ( 2) کی چوٹی کے سر پر قدم  رکھ کے دنیائے کوہ پیمائی کو انگشت بہ دندان کیا تھا  اور آج تک   دنیا  میں یہ ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکا ہے ،  مختلف موقعوں پر کئی ایک کوہ پیماؤں کی جانیں بچائی تھیں ۔حکومت جرمنی نے آپ کی خدمات کے صلے میں  سونے کا طمغہ دیا تھا ،فرانس میں ان کی دلیری اور انسان دوستی پر تین دستاویزی فلمیں بنائی گئیں تھیں اور موصوف نے ان فلموں کی قانونی کمیٹیوں کے صدارت بھی کی تھی ، دنیائے کوہ پیمائی اُنہیں سپر من یعنی ما فوق الفطرت اور غیر مرئی طاقت کے حامل انسان کے طور پر جانتی ہے  ، اسپین میں ہسپانوی قوم کا ایک مہر بان ہیرو مانا جاتاہے اس پر مستزاد یہ کہ دنیا کے مشہور فٹ بالر رونالڈو نے آپ کے ساتھ ایک عشایئے میں شرکت  کو اپنے لئے اعزاز سمجھ کر اپنی سپورٹس شرٹ پر دستخط کر کے تحفے کے طور پر پیش کیا  تھا ،  پورے یورپ میں جہاں کہیں  بھی کوہ پیمائی میں شجاعت و دلیری کا ذکر چھڑتا ہے تو لیٹل کریم   کا نام احترام سے  لیا جاتا ہے لیکن آج جب میں موت کے منہ سے زندگی   چھین کر کوہ پیماؤں کی مسیحائی  کرنے والے اور قراقرم و ہمالیہ کی چوٹیوں  کے مغرور سر اپنے پاؤں  تلے خم   کرنے والےکریم سے ملنے گیا تووہ پھیپڑوں کی بیماری کی وجہ سے اتنے مضمحل   اور بے حال تھے کہ میرا ہاتھ پکڑ کے  بمشکل چل کے اپنے گھر سے باہر آئے ۔ کہاں بغیر اکسیجن  کے قراقرم کی چوٹیوں کو پاؤں تلے روندھتے  ہوئے 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں میں ملک کا ہلالی پرچم گاڑ کر  دینا کو  محوحیرت میں ڈالنے والے  محسن قوم  لیٹل کریم اور کہاں سر چھپانے کےلیے چھت ، ستر ڈاھانپنے کےلیے کپڑے اور دو وقت کی روٹی کی تلاش میں سرگردان کریم ۔ آپ یقین جانیے بڑی ہستیوں کا لمس روح پروور ہوتا ہے موصوف سے دوبدو ملاقات کے بعد الوداعی معانقے سے مجھ پر روحانی آسودگی کی  جو  شاندار کیفیت طاری ہوئی  وہ میرے بیان سے باہر ہے    میرے  اندرونی  انسان کو محسوس ہوا  جیسے جن  فلک بوس اور اپنی قد آوری پر گھمنڈ  کرنے والی  چوٹیوں کے سروں پر موصوف نے راج کیا تھا   وہ تمام  چوٹیاں سمٹ کر   آج  میری مٹھی میں تھیں ۔ عظمت کے اس پیکر کے نام  اور زندگی کے چند سر بستہ رازوں کا ہم نے پردہ چاک کیا ۔

 لیٹل کریم صرف پانچ فٹ کا آدمی ہے  سانولا  رنگ ،  بے حد  جاذب نظر چہرہ ، اُن کے رخساروں کا کھردرا پن اس بات کی غمّاز تھا کہ موصوف نے   عفوان شباب میں فلک بوس چوٹیوں کواپنے قدموں تلے خوب روندھ ڈالا تھا اور  سورج کی  بنفشی شعاعوں   کو شکست فاش دی تھی ۔  لیٹل کریم اپنی عمر 65 سال بتاتے ہیں لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ کریم صاحب 70 سال یا اس کے آس پاس ہیں ۔ وقت کی قلت کی وجہ سے ہم نے نپے تلے اور مختصر سوالات پر اکتفا کیا ورنہ  ہم اُنہیں بہت کریدتے۔  بہر حال  کہانی لڑکپن سے شروع ہوئی ۔ سن 1960 کی دہائی میں کریم  بھیکی مسوں والا ایک بالغ نوجوان تھے ۔ جوانی کے دنوں  اپنے والد اوروالدہ محترمہ کے ساتھ  گاؤں کے “گوندو گورو”  پاس ( 5585 میٹر بلند) پاس سے متصل چراگاہ  میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے کہ مشابروم چوٹی( 7821 میٹر بلند) سے نیچے آنے والی کوہ پیماؤں کی ایک جماعت سے ان کی ملاقات کا اتفاق ہوا  ۔ یہ وہ دن تھا جب لیٹل کریم کے دل و دماغ پر پہاڑوں کی چوٹیوں  کو قریب سے ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے  کا بھوت سوار ہوا۔   کریم بچپن سے ہی کوہ پیماؤں کی نقل اتار کر  آس پاس کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں طفلانہ  مہمات کی کئی ایک  مرتبہ نا کام کوشش کی  لیکن   ۔ دوں چیزیں  ،  کسی  طاقت کے سامنے  ہار  مان کر سر جھکانا اور  کسی طاقت سے ڈرنا  لہذا    ا ُنہوں نے اپنی محنت جاری رکھی  کیوں کہ اُن  کے اندر کا ایک عظیم  کوہ پیما  دنیا  میں نام کمانا چاہتا تھا ۔جولائی 1976 کے ایک دن ( تاریخ اُنہیں یاد نہیں)  جب کریم نے سنا کہ  سکردو میں  کوہ پیماؤں کی ٹیمیں   آئی ہیں جنہیں K2  سر کرنےکےلئے سامان لے جانے والے قلیوں کی ضرورت ہے ۔ کریم بھاگم بھاگ سکردو پہنچے لیکن  بدقسمتی سے مختصر قد کاٹھ کی وجہ سے ٹیم  کا حصہ بننے سے قاصر رہے کیوں کہ کوہ پیماؤں کا خیال تھا کہ کریم 25 کلو گرام سامان پیٹھ پر اُٹھا کے بلندیوں پر جانے کے متحمل  ہر گز نہیں ہوں گے ۔ لیکن  اتفاق  سےسوٹزر لینڈ کی ایک  ٹیم میں  سامان کی نسبت  پورٹر کم پڑ گئے تو کریم کو مجوراً ٹیم کا حصہ بنایا گیا ۔ سوئس کوہ پیماؤں کا قافلہ  قراقرم کی چوٹیوں کی طرف براستہ  شگر اسکردو روانہ ہوا ۔  اس وادی کے ایک دور افتادہ گاؤں چھونگو ک کی ندی کا بہاؤ  اس وقت جوبن پر تھا  اسے عبور کرنے کےلیے گاؤں کے لوگوں نے لکڑی کے کچے پل بنائے  ہوئے تھے بدقسمتی سے  اس پل کو عبور کرتے ہوئے ایک دوشیزہ کوہ پیما  ٔ   کا پاؤں پھسل گیا اور وہ  ندی میں جاگر ی ،  ندی کے سر پٹختے بے رحم  تھپیڑوں میں مدد کےلیے چیخیں مارنے والی  آواز نے چھوٹے قد اور نحیف و نزار کریم  کے جذبات کو للکارا   اور کریم نے   ایک مردانہ جست لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے کوہ پیما کو دوسری طرف نکالنے میں کامیاب ہوئے ۔ یہاں سے کریم کی دلیری کا آغاز ہوا ۔ سوئس میڈیا میں یہ خبر جنگل  کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سوئٹزر لینڈ میں گھر گھر کریم کی بہادری کا ڈنکا بجنے لگا ۔ہوشے جیسے دور افتادہ علاقے میں پیدا ہونے والے  کریم کو اللہ تعالی نے ایک بڑے مشن کےلئے پیدا کیا  ہوا تھا تھا لہذا کریم خود کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد خود زندہ رہنا نہیں ہے بلکہ دوسروں  کو اسائشیں پہہنچانا اور اور دوسروں کو زندہ رکھنا ہے ۔  انہوں نے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے اپنے لیٹل کریم بننے کا قصہ بھی  سنایا  اور کہنے لگے کہ  1970 کی دہائی میں  K2  کےلیے فرانس  سے کوہ پیماؤکی ایک ٹیم آئی  تو میں پورٹروں کے گروپ میں شامل  تھا ۔ مجھے فرانس کی ٹیم نے  عبدل کریم سے لیٹل کریم بنا دیا ۔ اس نام کے پیچھے کہانی یہ ہے  کہ گروپ میں میرے علاوہ  دو لوگ اور تھے اتفاق سے اُن دونوں کا نام  بھی کریم  ہی تھا جب ہم میں سے کسی ایک کو پکارا جاتا تھا تو ہم سب چونک جاتے تھے لہذا انہوں نے ایک کریم کو Tall Karim   دوسرے کو Medium karim   اور مجھے Little Karim    کریم سے پکارنے لگے  ان میں سے لیٹل کریم کو اللہ کے   شہرت کی معراج تک پہنچانا تھا  لہذا  لیٹل کریم نے قراقرم کے پہاڑوں کو اپنی راجداھانی بنا کے رکھا  ۔  موصوف نے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے  Broad Peak  8047 m کے دو بڑے واقعات بتائے جو کہ ہسپانوی کوہ پیماؤں کے ساتھ پیش آئے تھے  (  یہ  واقعات غالباً  1986 اور 1985 کے درمیان وقوع پذیر ہوئے   تھے لیٹل کریم صاحب کو ماہ سال درست طور پر یاد نہیں )  پہلا واقعہ یہ تھا ایک ہسپانوی خاتون Broad Peak   سر کرتے کرتے شدید بیمار ہوئیں  تو بیس کمپ سے لیٹل کریم کو طبی امداد سے لیس کر کے بھیجا گیا تو لیٹل کریم تین گھنٹے میں تیسرے کیمپ  ( 7000 فٹ ) تک  صرف ڈھائی گھنٹے میں پہنچ کر بے یارو مدد گار کوہ پیما کی مسیحائی کی  ۔ یاد رہے کہ  یہ  کوہ پیما ؤں  کے لیے  دو  پڑاؤ  کی مسافت تھی  ۔ دوسرا اہم واقعہ ایک اور ہسپانوی ٹیم کے ساتھ یہ ہوا کہ Broad Peak  “ سے واپسی پر ایک کوہ پیما کے قویٰ جواب دے گیے وہ چل نہیں سکتا ہے اور جگہ ایسی تھی کہ ایک دوسرے کی مدد کرنا گویا اپنی جانوں کو جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ جس کوہ پیما کے جسم نے جواب دیا تھا وہ خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ اُس کی وجہ سے کئی اور زندگیوں کے چراغ گل ہوں لہذا اس کوہ پیما نے اپنے تمام ساتھیوں کو الوداع کہا اور  یوں باقی تمام  کوہ پیماؤں نے اپنے کپمپ کی طرف  اترائی کے سفر کا آغاز کیا ۔ موسم  کے اعتبار سے وقت اتنا نازک تھا کہ ایک ایک پل کی اپنی قیمت تھی ۔  لیٹل کریم نے بھی ہسپانوی کوہ پیما کوآخری سانسوں کے ساتھ چھوڑ کر  خدا حافظ کہا اور نیچے کی جانب چل  پڑے  ۔ کہانی جب یہاں پہنچی تو میں نے سوال کیا ” تو کیا وہ کوہ پیما وہیں جان کی بازی ہار گیا ؟”  کریم نے میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور چند لمحے کی خاموشی اختیار کی  اور میں نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ” او ہو پھر بہت افسوس ناک واقعہ  ہے  “  کریم کو میرے اظہار افسوس کا ادراک نہیں ہوا کیوں کہ وہ  تھو ڑا اُونچا سنتا ہے  لہذا انہوں نے اپنی کہانی جاری رکھی ”  کوئی سو قدم نیچے آنے کے بعد میں نے سوچا کہ مرنے کے بعد جب  اللہ اس معاملے کے بارے میں جب مجھ سے پوچھے گا تو میں کیا جواب دوں ؟ میں  نے کسی سے  مشورہ کئے  بغیر  یکدم   واپس ہوا  دیکھا تو یہ جوان بے ہوش حالت میں موت اور زندگی کی کشمکش میں تھے ۔ میں نے اپنے اور اُن کے گرم لباس کو ملا کر ایک سلیپنگ بیگ بنایا اور اس نیم مردہ جسم کو اُس میں لپیٹ کر  اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر بیس کیمپ پہنچا دیا ” پھر  کریم نے بہت ساری کہانیاں بتائی ہوں گی لیکن مجھ پر اُ ن کی اس کہانی کی وجہ سے  تھوڑی دیر کےلیے رقت طارہ ہوئی تھی ، میں اپنے ملک و ملت کی بے حسی اور کریم جیسے مجاہد کی  حالیہ بے بسی کا رونا رو رہا تھا ۔ ایک عجیب کردار سے ملاقات تھی اُ ن کا ماضی شجاعت و جوانمردی  کا مرقع اور اُن کا حال بے بسی کی تصویر  تھی  ۔ یکایک سوال ذہن میں آیا اور ہم نے پوچھنے کی جسارت کی  اور پوچھا جس بڑے ہوٹل مونٹین لاج”  کا آپ   ذکر فرما رہے تھے کہ جسے 2010 میں حکومت  اسپین نے آپ کی شجاعت کے اعزاز میںآپ ہی کے لئے  بنوا یا تھا ،  کیا اُس ہوٹل  سے ملنے  والے آمدن سے آپ اور آپ کے خاندان کی کفالت نہیں ہوتی ؟”  اب کی بار میں نے اہم سوال پوچھا تھا  مجھے خود  اپنے سوال پر رشک آیا کیوں کہ اگر  میں یہ سوال نہ پوچھتا تو لیٹل کریم کی زندگی کے اُس پہلو کا پردہ چاک نہ ہوتا جو اُسے ہم جیسے انسانوں سے  ممتاز کرتا ہے ۔ انہوں نے میرے سوال کا جواب جاری رکھتے ہوئے کہا  ” اس ہوٹل کو ہسپانوی گورنمنٹ نے میرے نام پر میرے لئے ہی بنایا تھا ۔اس ہوٹل پر کام کے دوان  ہسپانوی حکومت کے زمہ دار افراد نے مجھ سے ایک ملاقات میں کہا کہ ہم یہ ہوٹل آپ کے لیے اس لیے بنا رہے ہیں کہ چونکہ  کوہ پیمائی موت کا دوسرا نام ہے کل کو، خدا نخواستہ ، آپ کو کچھ ہو گیا تو آپ کے خاندان کی کفالت اسی ہوٹل سے ہوگی “  کریم نے ہسپانوی گورنمنٹ کی اس عظیم پیش کش کو ٹھکراتے ہوئے کہا ”  صرف ایک چھوٹے کریم کی امارت سے اس گاؤں میں رہنے والے  کئی ایک چھوٹے کریم  جو کہ تعلیم و صحت کی بنیادی سہولہات سے محروم ہیں اُنہیں کیا فائدہ مل سکے گا ؟  ہاں آپ کی پیش کش کو میں اُس وقت قبول کروں گا جب  اس عمارت کو گاؤں  ہوشے کے اُن  تمام چھوٹے کریموں کے نام  بنایا جائے  جو کہ بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں ۔ “ میں نے لیٹل کریم سے پوچھا کہ آپ نے اتنے بڑے معرکے سر کیے ہیں ، آپ کو آپ کے شاندار کام کے اعتراف میں  یورپ کے کئی ایک ممالک  کے علاوہ امریکہ اور کینیڈا  نے شاہی مہمان کے طور پر مدعو کیا تو آپ کو کیسا لگا ؟ کہنے لگے جب پہلی بار میں حکومت  اسپین کی دعوت پر اسپین جا رہا تھا  تو یہ وہ زمانہ تھا جب میں  نے اسکردو سے باہر کی دنیا نہیں دیکھی تھی ۔  پنڈی  پہنچ کر مجھے ایسا لگا کہ دنیا کے اوپر یہی ایک جنت ہے  ۔ گاڑیاں چل رہی تھیں ، گلی کوچوں میں بلب روشن تھے ایک عجیب سا سما تھا جوکہ میرے بیان سے باہر ہے ۔ دوسری شام ہماری فلائٹ  اسپین کے لیے تھی ۔ جب اسپین کے ائیرپورٹ پر اترا تو مجھے سو فیصد یقین ہوا کہ میں خواب میں تھاے میرے لئے سب کچھ  ایک  عجوبہ  تھا  اور  میں جاننے سے قاضر تھا کہ  جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں یہ کہاں تک حقیقت ہے    ۔  اس کے بعد ہالینڈ ،  جرمنی ، فرانس ، انگلستان،  امریکہ اور کنیڈا دیکھنے کا موقعہ ملا ۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جن جن ہوٹلوں میں موصوف ٹھہرے اُن سب کے دروازوں پر دھاگا باندھتے رہے  جس کی وجہ یہ تھی کہ کمرہ نمبروں کی پہچان سے قاصر تھے لہذا دھاگے کی مدد سے اپنے کمرے  تک پہنچا  کرتے تھے ۔ موصوف کا کہنا ہے کہ وہ دس مرتبہ اسپین گیے ہیں اور ہسپانوی زبان بھی بول سکتے ہیں ۔ 2018  کے اوائل میں اسپین میں آپ کے اعزاز میں ایک عشایئے کے دوران    دنیائے فٹ بال کی مشہور شخصیت رونالڈو نے اپنے ملک کے محسن مسٹر لیٹل کریم کے سامنے سر تسلیم خم  کیا اور پھر تعظیم و ادب سے کھڑے رہے ، پھر اپنی شرٹ پر دستخط کرکے تحفے کے طورپر پیش کیا  اور پھر لیٹل کریم اور اُن کے صاحب زداہ  مسٹر حنیف کے ساتھ  تصویر کھنچوائی۔ لیٹل کریم اور رونالڈو کی یہ نشست  40 منٹ پر مشتمل تھی   ۔ اس ملاقات  کی  خاص بات  یہ تھی کہ اُدھر رونالڈو اس ملاقات کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہے تھے تو اِدھر لیٹل کریم خوش تھے کہ جس مشہور زمانہ نوجواں فٹ بالر کا انہوں نے  صرف  نام سنا تھا آج وہ اُن سے محو گفتگو تھے ۔ دنیا   کی تاریخ میں  ایسے واقعات خال خال ہوتے ہیں کہ  جب مشہور شخصیات ذاتی استعمال کی چیزیں تحفے کے طور پر کسی عزیز مہمان کو پیش کریں ۔ ایسے تحائف جب دستخط کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں تو اُس میں صرف دوستی کا پیغام  ہی  پوشیدہ  نہیں ہوتا  بلکہ اُس تحفے  کی قیمت اربوں تک  جاتی ہے ۔ موصوف  فرانس  میں جب سابق صدر  یاک شیراک کے شاہی مہمان ٹھہرے تو  صدر  نے ان سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا تھا  Short Man with an intellectual mind    ۔زندگی بھر موت سے کھیلتے رہے  کئی مرتبہ  گلیشروں کے ہیبت ناک  دراڑوں میں گرے اور معجزاتی طور پر  بچ نکلے ۔      لیٹل کریم  با ہمت ،  جوان  عزم اور  نڈر  آدمی ہیں  ۔ ایک واقعہ ایسا بھی پیش آیا جب وہ  100 فٹ گہرے دراڑ میں جا گرے ۔ کریم صاحب بتاتے ہیں کہ   گہرے دراڑ میں گرنے کے بعد بھی  ہوش میں رہے اور سوچتے رہے  اور تہیہ کیا کہ    مرنے تلک میں قدرت کے کمالات   کا تماشا دیکھتا   اور لطف  اُٹھاتا رہوں گا    ۔  کریم صاحب کہتے ہیں کہ وہ ڈھیڑ گھنٹے تک  ایک سو فٹ  گہرے  دراڑ میں  زندہ   رہے  ۔  اُن کے مطابق  دنیا میں انسان سے زیادہ طاقتور  اور کوئی مخلوق  کا وجود  قطعی  طور پر ناممکن ہے   لیکن جب انسان اپنے آپ کو  ڈرا  کر حواس باختہ ہوتا ہے تو  اُس کی ہمت جواب دے جاتی ہےی    ۔ انہوں نے کہا ”  میں نہیں جانتا کہ ڈر کس شے کا نام ہے ”   

          لیٹل کریم سے اجازت لیتے لیتے ہم نے پو چھا  کہ  اس  حقیقت  سے  سرمو انحراف  ممکن نہیں   کہ آپ  اپنے پیشے  میں اتنے یکتا رہے ہیں  کہ دنیا میں آپ کا ریکارڈ کوئی آج تک  نہیں توڑ سکا  کیا اب بھی کچھ کر گزرنے کی خواہش ہے ؟ بولے ، ” میری صحت تھوڑی  درست ہو تو میں  کوہ پیمائی دوبارہ  شروع کروں گا “    ان تمام باتوں سے قطع نظر ایک بات  جو میں محترم لیٹل  کریم صاحب کے ساتھ نشست   کا خلاصہ سمجھتا ہوں وہ یہ کہ  عالمی شہرت  یافتہ شخصیت ہونے  کے ناطے آپ  ہمیشہ  اپنی بے بسی کی پردہ داری کرتے ہیں  ،  حکومت وقت اور  اہل ثروت سے  اپنی بد حالی کے تذکرے کواپنی شہرت کے ساتھ توہین سمجھتے ہیں لیکن  حقیقیت حال  یہ ہے کہ  پاکستان کا نام  پوری دنیا میں روشن کرنے والا یہ    ہیرو   لباس ،  مکان اور  متوازن غذا  کے علاوہ   روزمرہ  کی  ضروریات کا محتاج ہے ۔ ذاتی طور پر مجھےیہ بات  بے حد عجیب لگی کہ پاکستان کی سر بلندی  کی خاطر  اپنی جان ہتھیلی پر رکھ رکھ  کر   پہاڑوں ، دریاوں اور  گلیشروں کے  خونخوار دراڑوں  کے منہ سے  زندگی چھیننے والا  اپنے وقت کا یہ  عظیم   ہیرا  دنیا کے کسی اور ملک میں پیدا ہوتے تو  اپنی شرٹ پر دستخط کرکے  رونالڈو کو  تحفے کے طور پر دے چکے ہوتے   صد افسوس  کہ  اپنے  ملک میں یہ ہیرا زمانے کی دھول اور گردو غبار کے لپیٹ میں آکر اتنا مدہم  پڑ چکا ہے کہ   ہماری حکومت  کو نظر نہیں آتا ۔   مجھے یقین ہے  کہ پہاڑوں کے شہزادے کو حکومت سے  کہیں زیادہ   پہاڑوں کے محافظ ہی سنبھالا دے سکتے ہیں ۔   

little karim 2
little karim 1
Hushe life
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
39251

ہرچین میں احتجاجی جلسہ، ہرچین رامن پل کی مرمت کیلئے 20 اگست تک کا ڈیڈ لائین

Posted on

ہرچین۔(نمائندہ چترال ٹائمز) وادی لاسپور کے عوام رامان ہرچین پل کی مرمت کے حوالے سے ہرچین میں ایک ریلی اور جلسہ منعقد کیاجس میں سیاسی رہنماوں سمیت لاسپور کے مختلف علاقوں کی نمانیدے شریک ہوۓ۔ مقرریں نے کہا کہ علاقے کے لوگوں نے حکام بالا کو بار بار اس پل کی مرمت کے حوالے سے درخواست دی ہیں مگر مزکورہ ادارہ اس عوامی مسئلہ کو سنجیدہ نہیں لے رہا ہے۔جسکی وجہ سے بوسیدہ پل سے گزرتے ہوئے کسی بھی وقت بڑا حآدثہ رونما ہونے کا خدشہ ہے۔

جلسے میں باقاعدہ طور پرانتظامیہ کو متنبہ کیا گیا کہ 20 اگست تک اگر رامان ہرچین پل کی مرمت کے سلسلےمیں ضلعی انتظامیہ نے کوئی لالحہ عمل اختیارنہیں کیاتو شندور روڈمکمل طور بلاک کیا جاۓ گا۔اور عوام اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

IMG 20200810 WA0053
IMG 20200810 WA0054
IMG 20200810 WA0055
IMG 20200810 WA0058
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
38803

عبدلجہان خان قراباش: فرزند غذر۔معروف ماہر تعلیم۔امن کا سفیر…..تحریر: نورالھدیٰ یفتالیٰ

کہتے ہیں کہ انسان اپنی قسمت خود بنا لیتا ہے،اگر نیت صاف  اورعمل میں کوئی  کھوٹ نہ ہوتو  ہر ایک نیک عمل اور ہر ایک نیک کام میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا ساتھ دیتاہے۔اللہ  تعالیٰ نے محنت اور جدوجہد کا  ذمہ خود انسان کے ذمے  چھوڑ دیا ہے۔ اللہ بھی  اپنی  محنتی  بندوں کا ساتھ  دیتا ہے مصیبتوں پر صبر کرنا اور نعمتوں پر شکر کرنا اور  تسلسل کیساتھ محنت  کر کے اس  سماج  میں اپنا  الگ  مقام بنا  لیتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے خوبصورت گاوں  پھنڈر کےمعروف سماجی کارکن  اور اس وقت کےڈی جی سکول کے استاد  شیر جوان خان کے گھر قراباش  خاندان  میں پیدا ہونے والا بچہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنی قسمت اور خوش نصیبی اپنے ساتھ اس دنیا میں لایا ہے۔بیٹے کی پیدایش پر  والد بزرگ  اتنا  خوش تھا کہ گود میں اٹھا کر  ماتھا چوم  کر (بیٹا  تو میری  دنیا میر  ی جہان  کہہ  دیا  ) ۔اور بیٹے  کا  نام عبدالجہان خان  قراباش رکھا،باپ خوداعتمادی کا  ایک جوہر تھا  اس کو  بیٹے پر اس قدر یقین تھا کہ ایک دن اس کا بیٹا  اپنے نام جیسا عزت  و شہرت کمائے گا،والد بزرگ خود شعبہ تعلیم سے منسلک تھا، تو یہ ایک کائیناتی حقیقت تھا کہ بیٹا بھی   باپ کی قدم کے نشان پر پاوں رکھے گا  اور ہوا  بھی کچھ  اس طرح   ابتدائی   تعلیم  اپنے گاوں ہی سے حاصل کی  بچپن ہی سے محنتی اور قابل  عبدالجہان خان   نے تعلیم کے میدان میں   کامیابیان   سمیٹنا شروع کیا۔میٹرک گلگت  ایف جی  کالج کیا۔پنجاب  یونیورسٹی سے  گیریجوشن  کی ڈگری حاصل کی۔ ڈگری کالج  گلگت  میں غذر اسٹوڈنٹ  فیڈرشن کا صدرہا  اس دوران  اپنے علاقے  کے  اسٹوڈنٹ  کے تعلیمی مسائل   کے حل  کے لئے اپنی آواز بلند  کرتار ہا۔

رگوں میں جو خون  تھا وہ ایک  استاد کا تھا، اس  خون  نے باپ  کی نقش قدم  پر چلنے  کو اکسایا اعلیٰ تعلیم  کے بعد ۱۹۹۰ کی دہائی میں آغا خان ایجوکیش  سروس پاکستان  کے ساتھ  شعبہ درس تدریس  سےمنسلک ہوئے انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز مئی 1991 میں آغا خان ایجوکیشنل سروسز آف پاکستان (اے کے ای ایس پی) سے بطور استاد ایک مقدس پیشے سے کیا۔عبدلجہان خان نے آغا خان ایجوکیش  سروس  کے  علاوہ بھی پاکستان کے  دوسرے  معروف اداروں میں  کام کرنے کا وسیع  تجربہ رکھتے ہیں۔وہ (پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹر گلگت بلتستان، کیساتھ مختلف عہدوں میں چودہ سال تک کام کیا جس میں ہیڈ ٹیچر ، ایجوکیشن آفیسر ، اس ادارے کی  تربیتی  فیکلٹی  کا  اہم ممبر بھی تھا۔ (پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹر ، شمالی ،) اور ایف بی ٹی ڈی پی اور ایل ای اے پی پروگراموں کے لئے ماسٹر ٹرینر رہ چکے ہیں۔نیشنل رورل سپورٹ پروگرام  کے  ساتھ   بھی وہ پروگرام  آفیسر  کے طور پر بھی  اپنی بہترین خدمات انجام دی

وہ  آغا خان رورل سپورٹ پروگرام   اور گلگت رورل سپورٹ  پروگرام کے   بورڈ آٖف  گورنر کے ڈاریکٹر بھی ہیں۔

قوموں کی قسمت بدلنے میں تعلیم کا اہم کردار ہے، محض ڈگری نہیں بلکہ حقیقی شعور دینے والی تعلیم ہی  ہے جو اقوام کی زندگی میں انقلاب برپا کرے اور انہیں ترقی کی راہوں پر ڈال دے اس سوچ کی  بنیاد   رکھنے  کے لئے وہ مزید اعلیٰ  تعلیم  کے  لئے آغا خان  یونیورسٹی کراچی   کا  رخ کیا  وہا ں سے ایم الے  ایجوکیشن  کرنے  کے بعد اس کی سوچ میں اس قدر وسعت  اور گہرائی  پیدا  ہوئی    کہ اس ملک میں نظام تعلیم کو مزید  بہتر  بنانے کے لئے   دوستوں کے ساتھ مل کر   سن ۲۰۰۳میں ایک  ادارہ ماؤنٹین انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشن اینڈ ڈویلپمنٹ کےنام سے قائم کیا ۔جس کا مقصد  شمالی  علاقات جات  سمیت چترال اور ملک  کے دوسرے پسماندہ  علاقوں میں میعار تعلیم  کو حکومت پاکستان کیساتھ مل مزید بہتر بنایا جائے یہ  ادارہ  ماونٹین  انسٹیٹویٹ  فار ایجوکیشن  ڈویلپمنٹ سے قائم ہے۔عبدلجہان خان اس غیر سرکاری  تعلیمی ادارےماؤنٹین انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی ہے۔اور یہ ادارہ پاکستان کے سب سے زیادہ  پسماندہ علاقوں میں  بہتر میعار تعلیم  کے لئے  کام کررہا ہے۔چترال  اور گلگت کے ہزاروں  تعلیم یافتہ  نوجوانوں کے لئے روز معاش کا زریعہ بنا۔اس پروفشنل ادارے سے اپنے کیئریئر کا شروعات کرنے والے  تعلیم یافتہ نوجوان آج کل   دنیا  کے بہتریں اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔

عبدلجہان خان قراباش ایک  معروف ماہر تعلیم ہونے  کیساتھ   ایک مثبت فلاحی  سوچ   کےمالک  شخصیت  ہے ۔ان کی  قابلیت اور  پسماندہ  علاقوں میں  بہتر میعار تعلیم  کے لیے  کئے گئے  خدمات   اور ان کی قابلیت  کو مد نظر رکھ  کر حکومت پاکستان نے سن  ۲۰۱۴  کےنگران  حکومت میں گللگت بلتستان کے لئے صوبائی وزیر خوراک کی قلمدان اسے سونپ دی جو کو  گلگت بلتستان  کے اس وزارت کے لئے سب سے زیادہ  قابل اور حقدار  امید وار تھا اس دوران  وہ  اپنے فرایض منصبی احسن طریقے سے سر انجام دی۔عبدلجہان خان قراباش کی ان سماجی و تعلیمی  خدمات  کی بنا  پر  پاکستان آرمی نے بھی انہیں  بہتریں  ایورڈ سے نواز ہے۔

انسان کا کردار اور اسکی فکر اسکی شخصیت کے ترجمان ہوا کرتے ہیں ،وہ  اگر  انسانیت کی بے لوث خدمت کا عادی ہو   تو اللہ تعالیٰ   اسے ہر نیک کام  کے واسطے  چن لیتا ہے۔ایک بار   پھر   قراباش خاندان  کے عبدلجہان خان کو نگران سیٹ اپ کے لیے صوبائی  وزیر تعلیم و  تعمیرات    کی  قلمدان  سونپ دی گئی۔

میری اس سے ملاقات ایک  عزیز  دوست  کےواسطے سن  ۲۰۱۲  میں  اسلام آباد  میں واقع  ان کی آفس میں ہوئی اس وقت میں فریش ماینڈ کے ساتھ    یونیورسٹی سے  فارع  ہوا تھا، یوں لگ رہاتھا  کہ  میں سیدھا   اس  ادارے کا  سی آی  آو  بن جاونگا۔جہان صاحب سے پہلی  ملاقات   ہی  مجھے  متاثر کیا ان کی گفتگو کا انداز عالمانہ تھا‘ ان کی تحریروں میں دانشوری جھلکتی ہے۔ میں تو انہیں ماہر لسانیت بھی کہتا ہوں اس لیے کہ وہ زبان و بیان کے معاملے میں بہت محتاط دکھائی دیتے تھے‘ وہ محفل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا فن جانتے تھے۔میرے  کیئریر  کے  شروعات میں  جہان  صاحب  میرے مینٹور رہ  چکے ہیں۔

میرے محسن آپ جہاں رہے شاد رہے آبادرہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
38766

دیر چترال سی پیک متبادل روٹ حوالے تمرگرہ میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ جاری

دیر پائیں (نمائندہ چترال ٹائمز)جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چکدرہ دیر چترال سی پیک روٹ کی بحالی کے لیے تیمرگرہ میں آل پارٹیز کانفرنس سابق سینئر وزیر عنایت اللہ خان کے صدارت میں ہوا۔ کانفرنس میں پانچ اضلاع سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین، قومی مشران، فلاحی، وکلاء، تاجرتنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ سابق گورنر شوکت اللہ، سابق ممبران قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ، صاحبزادہ یعقوب خان، ملک عظمت خان، اخونزادہ چٹان،شہزادہ افتخارالدین، سابق ضلعی ناظمین حاجی محمد رسول، صاحبزادہ فصیح اللہ،حاجی مغفرت شاہ، سابق تحصیل ناظمین، ممبرقومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی، ممبران صوبائی اسمبلی ثناء اللہ، باچا صالح، بہادر خان، سیراج الدین خان، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر اعزاز الملک افکاری پی پی پی کے نوابزادہ محمود زیب خان، اے این پی کے بہادر خان، مسلم لیگ (ن) ملک جہانزیب خان، قومی وطن پارٹی باچاحسین، آل پاکستان مسلم لیگ کے سلطان یوسف، جماعت اسلامی کے سابق ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید، سابق صوبائی وزیر مظفرسید، امیر جے یو آئی (ف) مولانا سراج الدین اور کثیر تعداد میں قومی مشران کے علاوہ چترال سے سابق صوبائی وزیر سلیم خان، صدرتجاریونین شبیراحمد، صدر پریس کلب ظہیرالدین، صدر بار ایسوسی ایشن اورصدرڈرائیوریونین چترال اور مختلف پارٹیوں اور سول سوسائٹی کے صدور ودیگر نے بھی کثیرتعداد میں شرکت کی۔

اعلامیہ آل پارٹیز کانفرنس بمورخہ 8اگست 2020ء؁


انتہائی اہمیت کے حامل اضلاع:
دیر پائین، دیر بالا، چترال پائین، چترال بالا اور باجوڑ کا سیاسی، قومی اور سماجی قیادت پورے خلوص کے ساتھ سمجھتی ہیں کہ


پوراملاکنڈ ڈویژن اپنی پس منظر، وسائل اورحدود اربعہ کی وجہ سے الگ اہم حیثیت کا حامل ہے۔ یہاں کی تعمیر و ترقی ہم سب کی خواہش بھی ہے اور اس ضمن میں ہونے والی کوئی بھی پیش رفت ہماری خوشی کا باعث بھی۔


یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ اضلاع چترال بالاو پائین، دیر بالا، پائین اور باجوڑ اپنی جغرافیہ، انسانی و قدرتی وسائل، سیر و سیاحت کی و سیع تر مواقع، اقدار و روایات اور تاریخ کیوجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت اپنی آزادی، خودمختاری اور شناخت کے ساتھ یہ علیحدہ ریاستیں تھیں۔لیکن یہاں کی عوام نے غیر مشروط پر پاکستان کے ساتھ بخوشی الحاق کو تسلیم کیا اور پاکستان کے ساتھ وفاداری کو عملًاثابت کر کے دکھایا بھی۔ بہت سارے نامساعد حالات اور نشیب وفراز کے باوجود اس مملکت خداداد کے ساتھ محبت میں نہ کوئی کمی آئی اور نہ عزم و ہمت اور استقامت میں کوئی تزلزل ایا۔
یہ سنجیدہ قیادت سمجھتی ہے کہ ریاست کی جانب سے مخصوص پس منظر کی حامل اس اہم علاقے کی تعمیر وترقی اور فلاح و بہود کیلئے جو خصوصی منصوبہ بندی اور ترجیحی بنیادوں پر جو اقدامات اٹھانی چاہیے تھی اس کا نہ ہونا ایک تلخ حقیقت ہے۔


پاکستانی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ جب بھی کسی علاقے سے وزیراعظم یا وزیر اعلی آتا ہے تو وہ وہ خوش قسمت ٹھرتا ہے اور پورا خزانہ وہاں پہ لٹایا جاتا ہے اور وہاں ہمہ پہلوں ترقی ہوتی ہے اسی باب میں بھی ہمارا یہ علاقہ محروم چلا آرہا ہے اور خصوصی رحم و کرم اور انعامات و اکرامات کا مستحق نہیں ٹھرا۔
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ یہ اضلاع سیاسی شعور، تہذیب، روداری اور باہمی احترام کے حوالے سے قابل فخر اور قابل تقلید ہے۔
یہاں کی سیاسی قیادت نے اپنی کیپسیٹی میں دستیاب مواقع اور وسائل کا درست استعمال کرکے یہاں کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔


خاص کر ضلع دیر پائین اور بالا باوجود ہارڈ ایریا کے اور اس حقیقت کے کہ یہ ریاست بعد میں پاکستان کا حصہ رہا اور عملا سیاسی سفر 1971 سے شروع ہوا۔ یہاں کی بیدار مغز، بالغ نظر، سنجیدہ اور تجربہ کار قیادت نے اچھی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ذریعے نمایاں ترقی دلائی۔
تعلیم، صحت، مواصلات میں واضح ترقی اور دور دراز علاقوں تک بجلی کی ترسیل اسی قیادت کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس تناظر اور حقائق کی روشنی میں یہ آل پارٹیز کانفرنس متوجہ کرتی ہے اور تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ موجودہ حکومت کو ان اضلاع سے جو مینڈیٹ ملا ہے نہ وہ اس کی قدر کرسکی اور نہ یہاں کے ممبران اسمبلی اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکی۔


وزیر اعظم پاکستان کی عدم توجہی اور وفاقی وزیر مواصلات اور وزیراعلی خیبر پختونخواہ کا متعصبابہ اور ہتک آمیز رویہ انتہائی قابل افسوس اور یہاں سے ممبران اسمبلی کی بے بسی قابل رحم ہے۔
یہ آل پارٹیز کانفرنس سابقہ ممبران قومی اسمبلی کی کاوشوں کو خرج تحسین پیش کرتی ہے اور اس وقت کے وزیراعظم جناب نواز شریف اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی خصوصی دلچسپی اور وزیراعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کی معاونت کا اعتراف بھی کرتی ہے اور شکریہ بھی ادا کرتی ہے کہ اگرچہ سی پیک میں مغربی روٹ کی صورت ہمارے صوبے کو وہ حصہ نہیں ملا جس کا وہ حقدار تھا لیکن چکدرہ ٹو چترال شاہرہ کی تعمیر بتعاون ایگزیم بینک اور بعد ازاں چکدرہ، چترال، گلگت موٹروے سی پیک متبادل روٹ کی منظوری دلانا تعمیر وترقی کے نئے دور کی نوید تھی۔


یہ آل پارٹیز کانفرنس اس علاقے کیلئے اس اہم ترین اہمیت کے حامل پروجیکٹ کو موجودہ حکومت کی PSDP سے نکالنے پر غم وغصے کا اظہار کرتی ہے۔
باوجود اس کے کہ
ان دی ریکارڈ یہ پروجیکٹ 6JCC کا منظور شدہ اور مینٹس کا حصہ ہے اور2017-18 PSDP میں شامل اور اس وقت کے وزیر اعلی پرویز خٹک کا اعلان کردہ ہی کیا موجودہ وزیراعلی محمود خان کی بجٹ 2019-20سپیچ کا حصہ رہا ہے، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور وزیراعلی محمود خان کا یہ انکار کہ اس پروجیکٹ کا وجود ہے ہی نہیں اور مسلسل تواتر اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولنا قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔


یہ آل پارٹیز کانفرنس مکمل سنجیدگی کے ساتھ سمجھتی ہے کہ یہ پروجیکٹ کئی حوالوں سے پورے ملک اور ملاکنڈ ڈویژن و مزکورہ اضلاع کیلئے انتائی اہمیت کا حامل ہے۔
1۔یہ پوہ علاقہ معدنیات سے مالا مال ہے۔
2۔یہاں سیاحت کے وسیع ترین مواقع اور امکانات موجود ہیں۔
اور
3۔ یہ سٹریٹیجک اور معاشی اہمیت کا حامل محفوظ ترین اور مختصر روٹ ہے کہ یہ نہ صرف چائنہ اور افغانستان سے لنک کرتا ہے بلکہ وسطی ایشیا تک رسائی کا بھی بہترین اور شارٹ روٹ ہے۔
اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کہ یہاں کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور ورغلانے کی بجائے ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر وعدوں کے مطابق اس پروجیکٹ کو اپنی اصل حثیت اور شناخت کے مطابق PSDP کا حصہ بنادیا جائے اور فوری رقم مختص کرکے کام کا باقاعدہ آغاز کیا جائے۔
یہ آل پارٹیز کانفرنس یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ
اول: پچیسویں ترمیم یعنی قبائل کا صوبہ خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام کے وقت جو فیصلہ ہوا ہے کہ سالانہ سو ارب روپے یہاں کی تعمیر وترقی پر لگائے جائیں گے کو عملی جامہ پہنایا جائے اور پشاور سے براستہ ضلع مہمند، ضلع باجوڑ اور ضلع دیر پائین ایکسپریس وے بنا کے سی پیک روٹ سے لنک کیا جائے۔
دوم: چکیاتن تا کمراٹ ایکسپریس وے بنایا جائے اور کالام سوات کے ساتھ لنک کیا جائے اور یعنی اسے دیر چترال سی پیک روٹ کے ساتھ منسلک کیا جائے۔

یہ آل پارٹیز کانفرنس پوری زمہ داری اور اخلاص کے ساتھ حکومت اور یہاں کے ممبران اسمبلی کو پیش کش کرتی ہے کہ اس علاقے کی تعمیر وترقی کیلئے ہم ہرقسم کی تعاون کیلئے تیار ہیں۔

مروجہ سیاسی نفسیات کے مطابق تو ہمیں خاموش رہنا چاہئیے تھا تاکہ الیکشن کے وقت حکومت اور ممبران اسمبلی کی ناکامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو لیکر الیکشن مہم چلاتے لیکن اپنے علاقے کی ترقی اور آئندہ نسلوں کی بقا اور خوشحالی کی خاطر سیاسی اور پارٹی وابستگی اور کسی سیاسی سکورنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو متوجہ کرتے ہیں اور ممبران اسمبلی کو احساس دلا کر تعاون کا بھر پور یقین بھی دلاتے ہیں کہ وہ باہمی کوارڈنیش، تیاری اور سیاسی اپروچ اور حکمت عملی کے ساتھ اس علاقے کا حق لانے کی ہمت اور جدوجہد کرلے۔


یہ آل پارٹیز کانفرنس مکمل اتفاق رائے کے ساتھ یہ واضح کرتی ہے کہ کسی عام شاہراہ کی تعمیر ہرگز ہرگز سی پیک روٹ کا متبادل نہیں سکتا اس لئے ہمارا اول و اخر مطالبہ چکدرہ، چترال، گلگت موٹروے، سی پیک متبادل روٹ کی تعمیر ہی ہوگا۔(چترال ٹائمزڈاٹ کام رپورٹ )۔۔

dir chitral cpec motabadal road apc11
dir chitral cpec motabadal road apc9
dir chitral cpec motabadal road apc8
dir chitral cpec motabadal road apc6 1
dir chitral cpec motabadal road apc7
dir chitral cpec motabadal road apc5 1
dir chitral cpec motabadal road apc1 1
dir chitral cpec motabadal road apc4 1
dir chitral cpec motabadal road apc
dir chitral cpec motabadal road apc3
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
38684

تمرگرہ : جماعت اسلامی کے زیر اہتمام دیر چترال سی پیک روٹ کی بحالی کیلئے آل پارٹیز کانفرنس

سیاسی جماعتوں اور قومی مشران کی بھرپور شرکت۔ تحریک انصاف کو دعوت دینے کے باوجود اے پی سی میں عدم شرکت۔ سی پیک روٹ کی عدم فراہمی پر خاموش نہیں رہیں گے۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ 15 اگست کو تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔مشترکہ اعلامیہ جاری۔

دیر پائیں (نمائندہ چترال ٹائمز)جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چکدرہ دیر چترال سی پیک روٹ کی بحالی کے لیے تیمرگرہ میں آل پارٹیز کانفرنس سابق سینئر وزیر عنایت اللہ خان کے صدارت میں ہوا۔ کانفرنس میں پانچ اضلاع سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین، قومی مشران، فلاحی، وکلاء، تاجرتنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ سابق گورنر شوکت اللہ، سابق ممبران قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ، صاحبزادہ یعقوب خان، ملک عظمت خان، اخونزادہ چٹان،شہزادہ افتخارالدین، سابق ضلعی ناظمین حاجی محمد رسول، صاحبزادہ فصیح اللہ،حاجی مغفرت شاہ، سابق تحصیل ناظمین، ممبرقومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی، ممبران صوبائی اسمبلی ثناء اللہ، باچا صالح، بہادر خان، سیراج الدین خان، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر اعزاز الملک افکاری پی پی پی کے نوابزادہ محمود زیب خان، اے این پی کے بہادر خان، مسلم لیگ (ن) ملک جہانزیب خان، قومی وطن پارٹی باچاحسین، آل پاکستان مسلم لیگ کے سلطان یوسف، جماعت اسلامی کے سابق ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید، سابق صوبائی وزیر مظفرسید، امیر جے یو آئی (ف) مولانا سراج الدین اور کثیر تعداد میں قومی مشران کے علاوہ چترال سے سابق صوبائی وزیر سلیم خان، صدرتجاریونین شبیراحمد، صدر پریس کلب ظہیرالدین، صدر بار ایسوسی ایشن اورصدرڈرائیوریونین چترال ودیگر نے بھی شرکت کی۔ صدر مجلس عنایت اللہ خان اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ چکدرہ دیر چترال موٹرووے اور سی پیک روٹ کی بحالی کے لیے پوری قوم یک آواز ہے۔ انہوں نے کہاکہ دیر چترال موٹر ووے کے لیے اے پی سی سے ایک تحریک کا آغاز کردیا ہے اس پر قوم کو بید ار کریں گے اور اس تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس منصوبے کو موجودہ حکومت نے ختم کرکے 50 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کو ترقی اور خوشحالی سے محروم کردیا ہے۔حکومت پسماندہ اضلاع کو ترجیح دیں۔ انہوں نے کہا کہ سوات موٹرووے سوات کے عوام کا حق ہے اور اس کے تکمیل سے ہم خوش ہوں گے لیکن اس کے ساتھ چکدرہ دیر چترال روٹ پر بھی کام کا اغاز کردیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ تمام اضلاع میں ایکشن کونسل قائم کریں گے اور 15 اگست کو ضلعی ہیدکوارٹرز میں تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ احتجاجی مظاہر ے ہوں گے۔

dir chitral cpec motabadal road apc 1
dir chitral cpec motabadal road apc4 1
dir chitral cpec motabadal road apc1 1
dir chitral cpec motabadal road apc5 1
dir chitral cpec motabadal road apc7 1
dir chitral cpec motabadal road apc6 1
dir chitral cpec motabadal road apc8
dir chitral cpec motabadal road apc9 1
dir chitral cpec motabadal road apc11 1
dir chitral cpec motabadal road apc3
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
38663

دیرچترال گلگت موٹروے حوالے اے پی سی ہفتہ کے دن تمرگرہ میں ہوگی۔۔عنایت اللہ

جماعت اسلامی کی اے پی سی آج بروز ہفتہ تیمرہ گرہ دیر پائیں میں ہوگی۔ تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی۔ پانچ اضلاع کے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین شریک ہوں گے۔دیر چترال موٹرووے کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ عنایت اللہ خان


پشاور ( نمائندہ چترال ٹائمز) جماعت اسلامی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس آج بروز ہفتہ تیمرہ گرہ میں صبح 10 بجے ہوگی جس میں دیر، چترال گلگت موٹر ووے کو دوبارہ شامل کرنے اور سی پیک روٹ جو پی ایس ڈی پی میں باقاعدہ منظور ہوئی ہے اور موجودہ حکومت نے اس کو ختم کردیا ہے سے متعلق مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں چترال بالا، چترال پائیں، دیر بالا، دیر پائیں اور باجوڑ کے سیاسی و مذہبی جماعتوں، وکلاء، تاجر تنظمیوں، طلباء تنظیموں اور سماجی کارکنان کے نمائندگان شریک ہوں گے۔ اس موقع پر عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ چکدرہ سے چترال تک موٹروے ہمار ا حق ہے۔ ہر فورم پر اس کے لیے آواز بلند کریں گے اور اسمبلی کے اندر، چوک و چوراہوں اور عدالتوں میں اس کے لیے جنگ لڑیں گے۔انہوں نے کہاکہ اس منصوبے سے دیر چترال کی ترقی وابستہ ہے اور اس سے خطہ کے عوام کو روزگار کے مواقعے ملیں گے۔ انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر دیر چترال کے لیے ان کا حق حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں سے مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

یادرہے کہ اے پی سی میں شرکت کیلئے چترال سے سابق ضلعی ناظم حاجی مغفرت شاہ کی قیادت میں مختلف سیاسی پارٹیوں اورسول سوسائٹیز کی صدوراوررہنما بھی تمرگرہ پہنچ چکے ہیں۔ جن میں صدربارچترال، صدرپریس کلب چترال، صدرتجاریونین چترال ودیگربھی شامل ہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان
38650

پیر سید کرم علی شاہ (مرحوم) کے خاندان کے ساتھ اظہارتعزیت۔۔۔امیراللہ یفتالی

 اپرچترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) لاسپورویلی کی معروف شخصیت امیراللہ خان  یفتالٰیٰ  نے لاسپور   ہرچین اور اس کی خاندان کی جانب سے سابق گورنر گلگت بلتستان  پیر سید کرم علی شاہ  کی اچانک رحلت پر گہرے  افسوس کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے اپنے خاندان و  قبیلے سمیت ایک مشترکہ تعزیتی پیغام میں پیر سید کرم علی شاہ (مرحوم) کی گلگت بلتستان سمیت چترال کے لئے کیے گئے خدمات کو سراہا ان کی جدائی   تاحیات ہمارے ساتھ  لحد تک رہے گا۔مگر ان کی بہتریں  انسانی خدمات تاحیات  زندہ رہیں گے۔وہ  انسانیت  سے محبت کرنے والا ہستی تھا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جواہر رحمت میں اعلیٰ مقام عطا کرے

پیر سید کرم علی شاہ  مرحوم کے صاحبزادوں کے  نام اپنے تعزیتی پیغام میں یفتالیٰ  خاندان نے اس بات کی امید ظاہر کی کہ اپنے مرحوم بابا کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے ان کے صاحبزادے اپنے خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے گلگت بلتستان اور چترال کی عوام کی خدمت کرتے رہینگے۔

Amirullah Yaftali
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
38648

ایک اورچراغ بجھ گیا۔۔۔سیدنذیرحسین شاہ نذیر

آنکھ سے دورسہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے توبس یاد بہت آئے گا


شہیدوں کے سرزمین وادی غذرسے تعلق رکھنے والے پاکستا ن پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سابق گورنر گلگت بلتستان سید کرم علی شاہ المعروف براندیسو شاہ صاحب مختصر علالت کے بعد گذشتہ روز اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی عمر 87سال کے لگ بھگ تھی۔گلگت بلتستان اور اپر چترال میں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کے ساتھ عقیدت کا رشتہ رکھتے تھے۔ وہ بونی کے قریب جنالی کوچ گاؤں میں جاگیر کے بھی مالک تھے۔ ان کی وفات کی خبر سن کر گلگت بلتستان اور اپر چترال میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔اور سوشل میڈیاپر ان کی موت کی خبرجنگل میں آگ کی طرح گلگت بلتستان اور چترال سمیت ملک بھر میں پھیل گئی۔گلگت بلتستان اور چترال میں آج بھی لاکھوں مرید غمزدہ ہے۔اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور تمام لواحقین کو صبرو جمیل عطا فرمائیں،آمین ثم آمین۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی


پیر سید کرم علی شاہ کا تعلق ضلع غذر سے تھا، آپ کا شمار گلگت بلتستان کے قدآور سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ غذر حلقہ ون سے ناردرن ایریا مشاورتی کونسل کے انتخابات 1970 سے لیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے الیکشن 2009 تک ناقابلِ شکست مسلسل دس مرتبہ ممبر منتخب ہوئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ آپ 1994 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو جبکہ 2011 میں پی پی پی ہی کی حکومت میں ہی گورنر گلگت بلتستان کے عہدے پر فائز رہے۔اورکئی سالوں تک سپریم کونسل سنٹرایشیاء کے وائس پریذیڈنٹ رہے۔پیرصاحب ایک شخصیت ہی نہیں سیاسی و مذہبی تربیت گاہ رہے وادی غذرکے مکینوں کے لئے مشکل وقت میں ایک شفا خانہ اور شفیق باپ جیسے رہے۔جماعتی سطح پر بھی بڑے بڑے عہدے پرفائزرہے اور ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان دو دفعہ ا ُن کے دولت خانہ میں تشریف لائے تھے۔


پیر صاحب کے پسماندگان میں 3 بیٹے،4 بیٹیاں اور 2 بیویاں شامل ہیں،پیر صاحب تقریباً 43 سال قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے ممبر رہے۔آپ کے بڑے بیٹے سید جلال علی شاہ الیکشن 2020 میں غذرون سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔آپ کو امن کا داعی سمجھا جاتا تھا اور ہر مسلک کے لوگوں کو قدر نظر سے دیکھتے تھے اور اعتماد کرتے تھے۔سال 2020 کی وحشتوں میں آج ایک اور اضافہ پاکستان پیپلزپارٹی عظیم سیاسی رہنماسے محروم ہوگئے۔


پیر سید کرم علی شاہ کو اس جہان فانی سے گزرے ہوئے دو دن بیت گئے مگر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور کسی بھی دم ہنستے، مسکراتے نظر آئیں گے۔ مگر ازل سے قدرت کا یہ نظام رہا ہے جو اس دنیا سے ایک بار گذر جاتے ہیں وہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ بس ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں جو رہ رہ کر پلکوں پر اشکوں کے چراغ جلاتی ہیں۔خوشی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوشیاں انسان کے لیے سکون و راحت کا باعث ہوتی ہیں تو افسردگی اورافسوس ناک واقعات اسے دکھی کردیتے ہیں۔ خوشی کے ساتھ غم اور غم کے ساتھ خوشی باہم جڑے ہوئے ہیں۔


پیرصاحب سچے اور درویش صفات کے مالک تھے۔اُن کی طبیعت میں انتہائی درجہ کی عاجزی، انکساری اور درویشی تھی۔اللہ تعالیٰ نے ان کوبے شمار نعمتوں سے نوازا ہوا تھا۔ ان عظیم ہستیوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور رہتی دنیا تک اپنا نام چھوڑ گئے۔درویشی اور عظیم کارنامے بھولے سے نہیں بھلائے جاتے۔انہوں نے اپنے سیاسی زندگی میں مظلوم اور محکوم طبقے کا ترجمانی کرکے اور معاشرے میں ہونے والے ظلم ووجبر کیخلاف ہمیشہ آواز بلندکرتے تھے اور عوامی مسائل کو ہمیشہ اجاگر کرکے معاشرے میں ہمیشہ محبت پیار بانٹا ان کی ذات اعلیٰ اخلاق کی پیکر تھی گلگت بلتستان کے عوام کبھی فراموش نہ کر پائیں گے۔پیرصاحب ایک ہمدرد شفیق اور پیار کرنے والے عظیم الشان شخصیت تھے۔


پیرصاحب جب بھی ملاہے ہمیشہ شگفتہ، ہنس مکھ ا بہت زیادہ مقبولیت کے باوجود بھی وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے تھے ان کے مزاج میں کبھی کبھی ان کے سیاسی نظریات بھی شامل ہو جاتے تھے جن سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو جاتا تھا مگر وہ کبھی پسند و ناپسند کی پروا کیے بغیر اپنے نظریات کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاتے تھے ہمیشہ خوش اخلاقی سے لوگوں کومناتے تھے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رْت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا


پیرصاحب نے ایک مثالی زندگی گزاری ہے۔ ایک ایسی زندگی جو لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کاحق اداکیاہے۔ پیر سید کرم علی شاہ کا نام اور ان کی شخصیت سب سے منفرد ہے اور یہ انفرادیت محض ان کی علمی لیاقت یا صلاحیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ان کے اخلاق حسنہ اور ایک نیک انسان ہونے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے جہاں زندگی میں مقبولیت اور کامیابی کی نئی تاریخ لکھی وہیں اپنی نیکی، سادگی اور شرافت سے لوگوں کے دل جیتے۔ پیر سید کرم علی شاہ نے اپنی پوری زندگی قوم کے نام وقف کردی تھی اور دوسروں کی خوشیوں اور غم کو اپنا لیا تھا۔ انہوں نے بنی نوع انسان کی خدمت کو سب سے اہم مذہبی فریضہ کے سمجھا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
پیرسیدکرم علی شاہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں سے آزادی پاکر، دنیائے آب وگل کی مصیبتوں وپریشانی سے چھٹکارا حاصل کرکے بالآخر مسلسل سفر کرتے کرتے اپنے منزلِ مقصود کو جا پہنچے۔

pir karam ali shah chitral visit
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
38565

اظہارتعزیت۔۔۔۔۔شمسیارخان اینڈ عمائدین ٹیک لشٹ بونی

اپرچترال (چترال ٹائمز رپورٹ ) بونی اپر چترال کے سابق زراعت افسر شمسیار خان، مشہور پولو پلیر غلام قارد خان اور صوبیدار سید نور الدین  نے اپنی اور ٹک لشٹ بونی کے عمائدین کی جانب سے سابق گورنر پیر( مرحوم ) کی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے ایک مشترکہ تعزیتی پیغام میں پیر کی خدمات کو سراہتے ہوئے چترال کے ساتھ اُن کی دلی ہمدردی کو سنہرے الفاظ میں خراج پیش کیا ہے ۔۔انہوں نے کہا ہے کہ پیر ( مرحوم ) سیاسی ، سماجی اور دینی اعتبار سے ایک نابغہ روزگار شخص تھے ۔ اُن کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اُس خلا کا پر ہونا ناممکن ہے ۔ ایسی شخصیات صدیوں میں ایک پیدا ہوتی ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پیر ( مرحوم ) کو جنت فردوس میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندہ گان کو صبر کی توفیق دے ۔ آمین

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
38560

اظہار تعزیت……امیر افضل خان سابق پریزیڈنٹ اسماعیلی ریجنل بونی چترال

چترال ( چترال ٹائمز رپورٹ ) بونی بالائی چترال کے معروف سخصیت سابق صدر اسماعیلی ریجنل کونسل اپر چترال امیر افصل خان نے سابق گورنر پیر کرم علی شاہ کی وفات پرگہرے  غم کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے پیر ( مرحوم ) کی رحلت کو گلگت بلتستان اور  چترال کے لیے ایک بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے پسماندگان کے ساتھ اپنی دلی ہمدری کا اظہار کیا ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ پیر صاحب ( مرحوم ) گو کہ  گلگت بلتسان میں آبا د تھے لیکن اُن کے آباو اجداد نے اپر چترال کو اپنا مسکن بنایا تھا ۔ لہذا  ( مرحوم ) چترال کے فرزند تھے ۔ پیر ( مرحوم ) کی چترال کےلیے خدمات قابل تحسین ہیں ۔ پیر ( مرحوم )  اپنے دور اقتدار سے پہلے  بھی چترال کو اپنا گھر سمجھتے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی ہر لیٹ فارم میں چترال کا نام لیتے رہے  ۔  آج پیر ( مرحوم) کی وفات کی خبر سن کر پوری قوم سوگوار ہے ۔  ہماری دعا ہے کہ رب کائینات  پیر ( مرحوم ) کو جنت فردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔د

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
38551

جی بی کی معروف سیاسی وسماجی شخصیت پیرسید کرم علی شاہ انتقال کرگئے

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ شرافت کی سیاست کا سور ج غروب ہوگیا،لگ بھگ پینتالیس سال تک سیاسی میدان میں ناقابل شکست رہنے والے امن کے داعی،مذہبی راہنما پیر سید کرم علی شاہ آج بروز منگل اسلام آباد کے نجی ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے،مرحوم کا شمار گلگت بلتستان کے بے داغ سیاستدانوں میں ہوتا تھا،اسماعیلی مذہب کے لئے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔پیر کرم علی شاہ کے اجدادایران سے دعوت کے سلسلے میں افغانستان اور بعد ازاں چترال اور وہاں سے چٹورکھنڈ اشکومن میں قیام پذیر ہوئے۔ان کے خاندان کا شمار اسماعیلی مذہب کے داعیوں میں سے تھا جن کے سبب گلگت بلتستان خصوصاََ پونیال کی بیشتر آبادی اسلام کے تعلیمات سے روشناس ہوئی، اپنے والد محترم پیر سید جلال شاہ کے وفات کے بعد پیر کرم علی شاہ مرحوم نے دعوت کا کام جاری رکھا اور آج ان کے مریدوں کی تعداد ہزاروں میں ہیں،مذہبی خدمات کے عوض ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان کی جانب سے ان کو عالیجاہ اور حضور مکھی کا ٹائٹل ملا۔وہ ہر مکتبہ فکر کے لئے قابل قبول شخصیت تھے۔سیاسی میدان کا ذکر کریں تو1974سے 2014تک غذر کے موجودہ حلقہ جی بی ایل اے 19غذر1کے بلاشرکت غیرے حاکم رہے،کبھی مشاورتی کونسل کی ممبر کی حیثیت سے تو کبھی ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل اور گلگت بلتستان کے پہلے ڈپٹی چیف ایگزیکیٹو اور بعد ازاں گورنر گلگت بلتستان کی حیثیت سے اپنا بہترین کردار ادا کیا۔2016کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے اور اپنے مریدوں کے خدمت میں مصروف عمل رہے۔پیر کرم علی شاہ گزشتہ کافی عرصے سے جوڑوں کی تکلیف میں مبتلا تھے،گزشتہ دنوں تکلیف بڑھ جانے کے باعث گلگت منتقل کیا گیا تھا جہاں سے اسلام آباد کے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا،آج (منگل) کی صبح خالق حقیقی سے جاملے،پیر کرم علی شاہ نے لواحقین میں چار بیٹیاں،تین بیٹے اور دو بیوگان شامل ہیں۔

pir karam ali shah passes away 1
pir karam ali shah namaz janaza 1
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
38518

مستوج روڈ کی تعمیر اپنی مددآپ کے تحت کرنے کیلئے عید کے بعد مہم شروع کرنے کافیصلہ

مستوج (نمائندہ چترال ٹائمز) مستوج خاص میں عمائدین علاقہ کا ایک اہم اجلاس زیرصدارت پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل ولی منعقد ہوا۔جس میں علاقے کے عمائدین اورنوجوان طبقہ کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اجلاس میں گزشتہ کئی سالوں سے التواکا شکار مستوج روڈ کی مرمت اور پختگی کیلئے ایک مہم چلانے اور اپنی مدد آپ کے تحت مذکورہ روڈ پر کام شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں مستوج روڈ کی تعمیر کیلئے باربار خالی خولی وعدوں سے تنگ آکرعلاقے کے عوام نے عید کے بعد اس مہم کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عید کے بعد یوسی مستوج کی سطح پر اس سلسلے میں اجلاس ہوگا جس کے بعد باقی یوسیز کو بھی شامل کیا جائیگا۔ اور آئندہ کی لائحہ عمل طے کیا جائیگا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مستوج روڈ کی خستہ حالی کی وجہ سے عام پبلک کے ساتھ سیاح بھی بری طرح متاثر ہے۔جبکہ کئی بار احتجاجی دھروں کے باوجود بھی حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے اور جھوٹے وعدے وعید سے لوگوں کو ہر بار ٹرخایا گیا۔ جس کی وجہ سے علاقے کے عوام حکمرانوں سے مایوس ہیں۔ اوراب اسی نعرے سے کہ ”اپنی مددآپ، مستوج روڈ بلیک ٹاپ” مہم کا آغاز عید کے بعد کیا جائیگا۔

یادرہے کہ مستوج او رمضافات کے عوام اس سے پہلے بھی انہی جھوٹے سیاستدانوں سے تنگ اکر پرواک مستوج تک“کروئے دیری ”روڈ کو اپنی مددآپ کے تحت تعمیر کرچکے ہیں۔ جس میں علاقے کے عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورآج بھی وہی اپنی مددآپ کے تحت بنی سڑک پر آمدورفت جاری ہے۔ اسی طرح علاقے کے عوام نے دریا ئے لاسپور سے تقریبا آٹھ میل لمبی نہر بھی اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کرکے علاقے کو سیراب کرچکے ہیں۔ اب حکمرانوں اور جھوٹے سیاستدانوں سے تنگ علاقے کے عوام نے اسی جذبے کے ساتھ باہمی اتفاق سے فیصلہ کیاہے کہ مستوج روڈ کو بھی اپنی مددآپ تحت تعمیر کیاجائیگا۔جس کیلئے مستوج سطح پر یہ تیسرااجلاس تھا۔ جبکہ عید کے بعد اس میں تیزی لائی جائیگی۔ اور ہر گاوں میں علاقے کے عوام کے ساتھ میٹنگ کا انعقاد ہوگا اور حتمی فیصلہ باہمی اتفاق سے کیا جائیگا۔

mastuj tehrik
mastuj road kroydary 1
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
38426

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی امتحانی بورڈکی میٹرک نتائج کا اعلان،اے۔کے۔ای۔ایس۔پی کی طالبات نے میدان مارلی

گلگت( چترال ٹائمز رپورٹ) قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی امتحانی بورڈ گلگت بلتستان نےآج میٹرک کے سالانہ امتحانات  کے نتائج کا اعلان کیا ۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان ، گلگت بلتستان کے ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی طالبات نے میٹرک کے سالانہ امتحانات میں پہلی اور دوسری پوزیشن اپنے نام کر کے آغا خان ایجوکیشن سروس کی شاندارروایت کو بر قرار رکھا ۔

  تفصیلات کے مطابق آج مورخۂ 30 جولائی، 2020 کو قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان نے میٹرک کے سالانہ امتحانات کے نتائج  کا اعلان کیا ۔ حالیہ  نتائج کے مطابق آغاخان ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول محمد آباد  ، گلگت کی طالبہ نازیہ جہاں  ولد  محمد عظیم ضلع غذر گاؤں گلوغ موڑی نے  1100  میں سے 975 نمبر لیکر  بورڈ میں  پہلی جبکہ انیلہ عیسیٰ  ولد محمد عظیم  ضلع غذر یاسین  ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول سونی کوٹ گلگت نے 1100 میں سے 970 نمبر حاصل کرکے پورے بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔

 یاد رہے کہ  ( کوؤڈ – 19 ) کی وجہ سے  پورے  ملک میں 2020 کے امتحانا ت کے نتائج   کو جماعت نہم کے سالانہ نتائج کی بنیاد پر تین فیصد کے فارمولے  پر ترتیب دینے کی  حکومتی پالیسی اپنائی  گئی تھی۔اس موقعے پر قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی نے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرنے والے طلبہ کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا تھا جس کی صدارت گلگت بلتستان کی نگران حکومت کے وزیر اعلیٰ میر افضل نے کی جبکہ خاص مہمانوں میں نگران وزیر تعلیم  عبد الجہاں ، آغا خان ایجوکیشن سروس  گلگت بلتستان و چترال کے جنرل منیجر بریگئیڈیر ( ریٹائرڈ ) خوش محمد خان ، ایڈیشنل سکریٹری ایجو کیشن  نجیب اللہ، ڈائریکٹر جنرل سکولز مجید خان  کے علاوہ  یونیورسٹی ہذا کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عطا ؤ اللہ شاہ ، رجسٹرار عبد الحمید لون ، یونیورسٹی  کے پروفیسرز،  سرکاری اور نجی سکولوں کے  ہیڈزاور اساتذہ کےعلاوہ  طلبا ٔو طالبات اور  والدین کی کثیر تعداد  نے  تقریب میں شرکت کی ۔

پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ یونیورسٹی ہذا کے وائس چانسلر  پروفیسر ڈاکٹر عطاؤ اللہ شاہ نے مہانوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ  امتیازی نمبروں سے  میٹرک کے امتحانات پاس کرنے والے طلبأ و طالبات کو اُن کی آنتھک محنت پر خراج تحسین پیش کیا اوربورڈ  کے امتحان میں شامل  کل 9329 طلبہ میں پہلی اور دوسری پوزشن حاصل کرنے پر آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان کی لیڈر شپ ، ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کے اساتذہ کی تعلیم و تربیت اور  اُن سکولوں کے طلبہ کی سخت محنت کی تعریف کی ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوے مشہور ماہر تعلیم اور نگران وزیر تعلیم  گلگت بلتستان عبد الجہاں خان نے کہا کہ آغا خان ایجوکیشن سروس  کے سکولوں کی طالبات کے امتیازی نمبروں کے حصول کے پیچھے اس ادارے کے دانشمند اور اعلیٰ پائے کے علم دوست و علم شناس پیشہ وروں کی راہنمائی اور اُن کی علمی دور اندیشی جیسے عوامل کار فرما ہیں ۔ انہوں نے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرنے والے تمام طلبہ کو خراج تحسین پیش کی اور اساتذہ کی کاوشوں کی دل سے  تعریف کی ۔ نگران وزیر اعلیٰ نے اپنے صدارتی خطبے میں میٹرک کےسالانہ امتحانات میں شاندار کامبیابی پر آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان ، گلگت بلتستان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے آغا خان ایجوکیشن سروس کو  گلگت بلتستان جیسےعلاقے کے لیے  علم کی روشنی کا مینار قرار دیا ۔ 

akesp gb students distinction 2 1
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
38412

آغا خان ہیلتھ سروسز کے ایمرجنسی ریسپانس سینٹر بونی میں 103 سالہ بزرگ نے کورونا کو شکست دیدی

اپرچترال کے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے عزیز عبد العلیم کو بونی کے ایمرجنسی سینٹر میں داخل کیا گیا تھا

اپر چترل (چترال ٹائمز رپورٹ) اپر چترال کے دوردراز پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 103سالہ بزرگ، عزیز عبدالعلیم نے کووِڈ 19- (COVID-19)کو شکست دے دی۔

عبدالعلیم ساکن بونی کو حال ہی میں، اپر چترال کے علاقے بونی میں،قائم کیے گئے آغا خان ہیلتھ سروس ایمرجنسی ریسپانس سینٹر میں یکم جولائی کو داخل کیا گیا تھا۔ ان کا کووِڈ 19-کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اْن کا علاج فوراً شروع کر دیا گیا تھا اور ایمرجنسی سینٹر میں تقریباً دو ہفتے داخل رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہوگئے اور اِس دوران انہیں اضافی آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑی۔ صحت بہتر ہونے، اور کسی قسم کی علامات ظاہر نہ کرنے پر انہیں گزشتہ دن ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔

اس بارے میں آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان(AKHS,P) کے ریجنل ہیڈ فار چترال معراج الدّین نے کہا:”ہم نے عزیز کی عمر زیادہ ہونے کے باعث ایک انتہائی نازک حالت والے مریض کے طور پر علاج کیا اور مناسب طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کے ساتھ نفسیاتی اور اخلاقی مدد بھی فراہم کی۔ فکرمندی کے ایسے موقع پر نفسیاتی اور اخلاقی مدد کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اِس سہولت پر ہم نے بہت کم وقت میں کووِڈ 19- کے 59 مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا ہے جن میں بعض زیادہ عمر کے افراد بھی تھے۔“

اپر چترال کے علاقے بونی میں کووِڈ 19-کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے انتظاما ت کے پیش نظر آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان نے مئی کے آغاز میں ایک ایمرجنسی ریسپانس سینٹر قائم کیا تھا جس کے لیے فنڈز گلوبل افیئرز کینیڈا، یورپین یونین، یونائٹڈنیشنز پاپولیشن فنڈ (UNFPA) اور آغا خان ڈیویلپمنٹ فنڈ (AKDN)کے اندرونی ذرائع سے حاصل کیے گئے تھے۔بونی میں ایمرجنسی ریسپانس سینٹر کا قیام، آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کی اْن اضافی کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد پاکستان کے درودراز اور پہاڑوں میں گھری الگ تھلگ کمیونٹیرز کو،کووِڈ 19- کی وبا کے دوران معیاری ہیلتھ کیئر کی فراہمی یقینی بنانا تھا۔

”ہم اپنے والد کی انتہائی خراب صحت کے پیش نظر بہت تشویش میں تھے۔ ہمیں اْن کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی تاہم، جب میرے والد صاحب کوہسپتال کے فارغ کیا گیا تو ہم سب بہت خوش تھے۔ اُنہوں نے ریسپانس سینٹر میں موجود عملے کے تمام افراد اور ہر اْس شخص کا شکریہ ادا کیا جس نے اْن کی دیکھ بھال میں حصہ لیا تھا۔“ عزیز عبدالعلیم کے بیٹے سہیل احمد نے کہا۔

کووِڈ 19-کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے 28بستروں پر مشتمل دیکھ بھال کی اِس سہولت میں مرد اور خواتین مریضوں کو الگ الگ رکھا جاتا ہے اور کووِڈ 19-کی درمیانی، شدید اور نازک علامتیں رکھنے والے مریضوں کے علاج کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اِس سہولت کو 32 افراد پر مشتمل عملہ چلاتا ہے جن میں 8 ڈاکٹرز اور 20 نرسیں شامل ہیں۔ اُنہیں فراہم کی گئی تمام لازمی اشیاء میں ادویات اور مریضوں کے لیے پرسنل پروٹیکٹو ایکوپمنٹ (PPE) شامل ہیں۔

Aziz and his son Sohail with AKHSP staff at the time of discharge from Aga Khan Health Service Emergency Response Centre in Booni Upper Chitral Pakistan
Profile of Aziz Abdul Alim 1
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
37955

پی ٹی آئی حکومت جی بی کی ووٹروں کو خوش کرنے کیلئے ہماری زمین کی سودا نہیں کرسکتی۔۔شہزادہ افتخار

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال سے سابق ممبر قومی اسمبلی شہزادہ افتخارالدین نے انتہائی افسوس اور غم وغصے کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے الیکشن ہر پانچ سال منعقد ہوتے رہتے ہیں کیا پی ٹی آئی حکومت ہر بار چترال کی سرزمین کو سودا کرتی رہیگی جوانتہائی افسوس ناک ہونے کے ساتھ تاریخ سے نااشنا حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔چترال ٹائمز ڈاٹ کام سے شندور کے حوالے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کو کسی بھی فیصلہ سے پہلے تاریخ کا مطالبہ کرناچاہیے مگرنااہل حکمرانوں نے انکھیں بند کرکے چترال کی سرزمین کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی الیکشن میں علاقے کے عوام کو خوش کرنے کیلئے تاریخ کو مسخ کرکے چترال کی زمین کو سودا کرنا چاہتی ہے جس کو چترال کے عوام ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ سابق ایم این اے نے کہا کہ شندور چترال خیبرپختونخوا کا حصہ ہے اوررہیگا، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی گلگت کی طرف سے انگریزپولٹیکل ایجنٹ شندور آتے تھے تووہ گورنرمستوج سے شندور ماحورانپاڑ کے بنگلے میں قیام کیلئے اجازت مانگتے تھے اور ساتھ اُس وقت کے ڈاک، پولیس،انتظامیہ سب کے حدود تعین تھے جوآج بھی قائم ہیں۔ جبکہ انصاف کے حکمران آنکھیں بند کرکے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں جس کو ہرگز ہونے نہیں دیں گے۔ شہزادہ افتخار الدین نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اگر اپنی زمین کا دفاع نہیں کرسکتا تو استعفیٰ دیدیں۔ انھوں نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہ شندور کے حوالے وزیراعلیٰ کی خاموشی افسوسناک ہے جبکہ سابق حکومت میں جب تنازعہ اُٹھا تو وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا تھا کہ ہم اپنی ایک ایک انچ زمین کی دفاع کرنا جانتے ہیں اور کسی کو بھی ناجائز قابض ہونے نہیں دیں گے۔ مگرپی ٹی آئی کی مرکزی وصوبائی قیادت جی بی کی الیکشن میں لوگوں کو خوش کرنے کیلئے ہماری زمین بیجنا چاہتے ہیں جس کی ہم پرزورمذمت کرتے ہیں۔اورہم ہرگز اپنی زمین نیلام ہونے نہیں دیں گے، سابق ایم این اے نے وزیراعلیٰ محمود خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اگر ہماری حقو ق کی پاسداری نہیں کرسکتا تو آئندہ کیلئے چترال آنے کی زحمت نہ کریں۔
سابق ایم این اے نے پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انکی حکومت میں ایک پائی کی ترقیاتی کام تو درکنار وہ سابق حکومت کے منصوبوں کو افتتاح کررہے ہیں انھوں نے کہا کہ گرم چشمہ ودیگرعلاقوں کے ٹیلی کام کا افتتاح نواز شریف کے دورمیں ہوچکے تھے مگراب دوبارہ افتتاح کرکے لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انھوں نے مذید بتایا کہ سابق حکومت کے سالانہ بجٹ میں شامل لوٹ اویر تریچ روڈکو ختم کردیا گیا، جبکہ چترال مستوج روڈ کیلئے پہلے سال کے بجٹ میں ایک آرب پچاس کروڑ روپے ایلوکیشن کو ختم کرکے صرف 36کروڑ روپے رکھے گئے ہیں اگر اسی حساب سے ایلوکیشن ہوتی رہی تو سوسال میں بھی یہ روڈ نہیں بنے گی۔ اسی طرح چترال یونیورسٹی کیلئے دو آرب ۰۹کروڑ روپے کو بھی کم کرکے ایک ارب سترکروڑ روپے کردی گئی ہے۔ جوتعلیمی انقلاب لانے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اسی طرح چترال کیلئے منظور شدہ گیس پلانٹس جوبالکل اخری مراحل میں تھے نااہل حکمرانوں نے سرد خانے میں ڈال دئیے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
37775

شندور کوہندراب نیشنل پارک کے ساتھ ملانے پرتحریک حقوق اپرچترال کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار


اپر چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) تحریک حقوق عوام اپر چترال کی کال پر صدر تحریک حقوق عوام کا ایک اہم اجلاس بونی میں منعقد ہوا جس میں تحریک حقوق کے نمائندوں کے علاوہ مختلف جماعتوں کے صدور، تجار یونئین ، بونی بار ایسوسی ایشن اور بڑی تعداد میں علاقے کے عمائدین نے شرکت کی۔

اجلاس شندور کو ہندراب نیشنل پارک کے ساتھ ملا کر گلگت کا حصہ بنانے کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں تھا۔ اجلاس کی صدارت امیر جماعت اسلامی اپر چترال مولانا جاوید حسین نے کی اور مہمان خصوصی بونی بار ایسوسی ایشن کے صدر مصطفیٰ ایڈوکیٹ تھے۔

اجلاس کے شرکاء نے شندور کو ہندراب نیشنل پارک کے ساتھ ملا کر متنازعہ بنانے پر شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ شندور زمانہ قدیم سے لاسپور کے عوام کا چراگاہ چترال خیبر پختونخواہ کا حصہ رہا ہے جس کے تمام سرکاری شواہد موجود ہیں۔ اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ان کو نیشنل پارک پارک پر اعتراض نہیں ہے لیکن چترال کی ملکیتی علاقے کو دوسرے صوبے سے ملانا کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ یا تو یہ فیصلہ غلط فہمی میں کیا گیا ہے یا یہ فیصلہ کرتے وقت تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اس اجلاس کی وساطت سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کیا گیا کہ مزکورہ فیصلہ فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔ تاکہ چترال اور گلگت کے عوام کے درمیان ممکنہ تنازعے سے بچا جاسکے جو کہ آپس میں بھائی چارے کا رشتہ رکھتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی چپقلش نہیں ہے۔

اجلاس میں ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تحریک حقوق عوام، بار ایسوسی ایشن کے نمائندے شامل ہیں۔ یہ کمیٹی ایم۔این۔اے چترال کی سربراہی میں چند دنوں میں وزیراعظم اور دوسرے متعلقین سے ملاقات کرے گی اور مسئلہ جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اجلاس کے آخر میں مطالبہ دہراتے ہوئے شرکاء نے سخت موقف اختیار کیا اور فیصلہ کیا کہ فوری طور پر مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں اپر چترال کے عوام لاسپور کے عوام کے ساتھ مل کر اپنا حدود بند کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے کیونکہ شندور لاسپور کے عوام کی گرمائی چراگاہ ہے اور وہاں ان کے گھر بھی موجود ہیں۔

tahreek huquq upper chitral meeting on shandur 4
tahreek huquq upper chitral meeting on shandur 5
tahreek huquq upper chitral meeting on shandur
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
37678

پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت میں گولڈن تقریبات کا آغاز

پچاس سالہ تعلیمی سلسلے کے متعلق منعقدہ تقریبات میں ریٹائرڈ پروفیسرز معاونت کریں گے۔ میراحمدخان


گورنمنٹ ڈگری کالج گلگت کا آغاز موجودہ ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کی بلڈنگ سے ہوا۔ سید عبدالجلال


قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی کا نظام ڈگری کالج کے اساتذہ کے تعاون اور اشتراک عمل سے چلنا تھا جو بدقسمتی سے نہ ہوسکا۔ محبوب علی خان


ڈگری کالج گلگت کے اساتذہ اور پروفیسر ایسوسی ایشن کی کوششوں سے کالج کو ۱۳۰۰ کنال زمین ایڈمنیسٹریٹر عنایت اللہ خان نے کالج کے نام انتقال کردیا۔پروفیسر ملک اشرف


پروفیسروں کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیمی امور اور اپنے ویلفیئر کو بہتر بنانا ہوگا۔اسلم عبداللہ


پروفیسر وں کے متعلق پائے جانے والے سطحی خیالات کا ازالہ کیا لیے مضبوط اسٹریٹجی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ارشاداحمد شاہ


استاد کی ایک نظر سے طلبہ کی زندگی بدل جاتی ہے۔ فضل کریم
ڈگری کالج گلگت کا سفر تابناک ہے۔محمد عالم


گلگت(خصوصی رپورٹ: امیرجان حقانی) گورنمنٹ پوسٹ گریجوٹ کالج مناورگلگت میں گورنمنٹ ڈگری کالج گلگت کے پچاس سال مکمل ہونے پر ”گولڈن جوبلی تقریبات ” کا آغاز کردیا گیا۔ابتدائی تقریب ۹جولائی ۲۰۲۰ کو منعقد ہوئی۔ ڈگری کالج کا آغاز ۸ جولائی ۱۹۷۰ میں ہوا۔ ”گولڈن جوبلی تقریبات” کے حوالے سے منعقدہ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر میراحمد خان نے کہا پچاس سالہ تقریبات کا آغاز خوش آئند ہیں۔پچاس سالہ تعلیمی سلسلے کے متعلق تقریبات میں ریٹائرڈ پروفیسرز معاونت کریں گے۔یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے بلکہ اس سلسلے کا آخری پروگرام بہت شاندار ہوگا۔ پروفیسر محبوب علی خان نے کہا کہ قراقرام یونیورسٹی کو ڈگری کالج کے اساتذہ کے ساتھ مشاورت اور اشتراک عمل سے چلایا جانا تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ سے ڈگری کالج متاثر ہوا۔ پروفیسر اشرف ملک نے کہا ڈگری کالج گلگت کے اساتذہ اور پروفیسر ایسوسی ایشن کی کوششوں سے کالج کو ۱۳۰۰ کنال زمین ایڈمنیسٹریٹر عنایت اللہ خان نے کالج کے نام انتقال کردیا۔کالج کے اساتذہ نے سخت ترین مذہبی تعصبات کے باوجود اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا کیا اور بالخصوص تینوں مکاتب فکر کے اساتذہ نے اس مشکل وقت میں آپس میں بیٹھ کر حلف اٹھا یا کہ حالات جیسے بھی ہوں مگر ڈگری کالج کا تعلیمی ماحول پر اثرانداز نہیں ہونے دیا جائے گا اور آپس میں اتحاد و یکجہتی اور رواداری قائم کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈگری کالج کے تعلیمی ماحول اور یکجہتی کو خراب کرنے کے لیے سیاسی و مذہبی مداخلت بہت زیادہ رہی ہے اس لیے ماحول متاثر بھی ہوتا رہا۔پروفیسر اسلم عبداللہ نے کہا کہ۸۸ کے گھمبیر حالات کے بعد بھی ڈگری کالج کے اساتذہ نے کمال یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور تدریسی عمل کو مذہبی فرقہ واریت اور علاقائی تعصب سے پاک رکھا۔اساتذہ نے اپنے حقوق اور ویلفیئر کے لیے بھی شاندار کوششیں کی جس کی بدولت مختلف حقوق مل گئے۔آج کی نئی پود کو بھی مل جل کر تدریسی و تعلیمی عمل کے ساتھ اپنے ویلفیئر کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔پروفیسر سید عبدالجلال نے سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا گورنمنٹ ڈگری کالج کا آغاز موجودہ ڈائریکٹریٹ کی بلڈنگ سے ہوا، جہاں بورڈنگ قائم کیا گیا تھا اور وہاں اساتذہ پڑھایا کرتے تھے۔جب بھی ڈگری کالج میں ہنگامے ہوتے تھے تو میں باہر نکلتا اور تمام مسالک کے طلبہ کو پتھراو سے روکتا اور انہیں سمجھتا۔ بطور استاد مجھے طلبہ کی طرف سے انتہائی زیادہ احترام ملا۔ میں ان سب کے لیے دعا گوہ ہوں۔پروفیسر ایسوسی ایشن کے سابق صدر ارشاد احمد شاہ نے انتہائی تاسف کے ساتھ کہا کہ ہمیں ہر سطح پر اپنا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایڈمنسٹریشن، سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ سمیت عوامی سطح پر کالجز کے پروفیسروں کو جس سطحی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس سے نکلنے کے لیے ایک ایسا سسٹم وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہم تدریسی امور کے ساتھ اساتذہ کی ویلفیئر اور حقوق کے لیے بھی مناسب اقدام اٹھا سکیں۔کالجز کی ترقی اور اساتذہ کی ویلفیئر اور حقوق میں رکاوٹ تمام اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر ایک واضح اسٹریٹجی وضع نہ کی گئی تو مستقبل میں مزید حالات بدتری کی طرف جاسکتے ہیں اس کے لیے ایک دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ایک میکنزم سیٹ کرکے، فیکلٹی اسٹاف، کالجز اور ڈائریکٹریٹ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تیس سال تجربہ رکھنے والے ایک گریڈ بیس کے پروفیسر کو ایک نوجوان لڑکا بطور سیکریٹری،ڈپٹی سیکریٹری اور سیکشن آفیسر ڈکٹیشن دیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کالجز اور ڈائریکٹریٹ کے تجربہ کار پروفیسر تعلیمی اور اساتذہ کے ویلفیئر پر سیکریٹریٹ کے منشیوں کو رہنمائی دیں۔یہ سب ہماری کمزوری اور سستی کی وجہ سے ہورہا ہے۔اور انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے ایک اعلی سپریم کونسل بنانے کی تجویز بھی دی جس میں ریٹائرڈ پروفیسروں کو بھی شامل کیا جائے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر فضل کریم نے کہا استاد کی ایک نظر سے زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ ہم کیمرے کی ایک آنکھ کے سامنے محتاط ہوتے ہیں لیکن کلاس میں موجود100 کے قریب طلبہ کے دل و دماغ کے کیمرے کے سامنے سنجیدہ ہوکر پڑھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ طلبہ کا دماغ اور دل وہ کیمرہ ہوتا ہے جو ہماری ہر ہر بات ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھتا ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریٹائرڈ اسٹنٹ لائبریرین ادریس نے کہا زندگی کے جس شعبہ سے بھی منسلک ہوجائے اس میں ایمانداری اور اخلاص سے کام کیا جائے تو اللہ برکتیں دیتا ہے اور رزق بھی حلال ہوجاتا ہے جس کے اثرات اولاد اور زندگی کے ہر مرحلے میں کامیابی اور برکت کی شکل میں واضح ہوجاتے۔پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد عالم نے کہا کہ ڈگری کالج گلگت کا سفرتابناک ہیں۔ڈگری کالج کے طلبہ بہترین جگہوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ڈگری کالج گلگت کی کامیابی میں اولین کردار نان لوکل پروفیسروں کا رہا۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے کونے کونے میں جاکر علم کی شمع بلند کی۔ ڈگری کالج گلگت کے پہلے دو عشروں میں اکثر اساتذہ نان لوکل تھے جنہوں نے پنجاب اور کے پی کے سے آکر ہمیں تعلیم دی۔پوسٹ گریجویٹ کالج کے لیکچرار امیرجان حقانی نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دامے درمے، قدمے سخنے ڈگری کالج گلگت کی تعمیر وترقی میں حصہ لیا اور تمام مرحومین پروفیسروں اور انتظامی اسٹاف کے حق میں دعائے مغفرت بھی کرائی اور حیات ریٹائرڈ عملہ اور پروفیسروں کے لیے دعائے خیر کروائی۔اس تقریب میں اسٹنٹ قیصر،غلام عباس،نائب خان اور ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ لیاقت اور ڈپٹی ڈائریکٹر جمشید علی نے خصوصی شرکت کی۔کالج کے لیکچراراحمد سلیم سلیمی نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور تقریب میں شمولیت کرنے والے تمام پروفیسروں اور دیگر عملے کا شکریہ ادا کیا۔تمام مقررین اور فیکلٹی ممبران نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پچاس سالہ تعلیمی سفر کے تکمیل میں منعقدہ تقریبات کا سلسلہ بہترین انداز میں منایا جائے گا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان
37444

گلگت سے مستوج تک نیٹکوبس سروس دوبارہ بحال کی جائے۔۔سیڈکو

مستوج(نمائندہ چترال ٹائمز) شندورایریا کنزرویشن اینڈ ویلفیئر ارگنائزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت سے مستوج تک نیٹکو(NATCO) بس سروس دوبارہ شروع کی جائے۔گذشتہ سال دسمبر میں برف باری کی وجہ سے بس سروس بند ہوگئی تھی مئی2020ء میں راستہ کھلنے کے باوجود بس سروس کو جولائی کے مہینے میں بھی دوبارہ شروع نہیں کیا گیا اس سروس سے گلگت،گاہکوچ،گوپس،پھنڈر،لاسپور اور مستوج کے سینکڑوں مسافر ہر روز سفر کرتے ہیں اور نیٹکو کی یہ سروس کامیاب روٹوں میں شمار ہوتی تھی۔مسافروں نے نگران وزیراعلیٰ گلگت بلتستان میرافضل خان سے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ گلگت سے مستوج تک چلنے والی نیٹکو (NATCO) بسوں کی سروس کو عوامی مفاد میں دوبارہ بحال کیا جائے مسافروں نے کمانڈر ایف سی این اے اور آئی جی فرنٹیئر کور سے اپیل کی ہے کہ بس سروس کے لئے روٹ پرمٹ دی جائے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
37277

کرونا وائرس….. تحریر:رحمت حاضرگلگت بلتسان

کرونا کپڑے میں چھ گھنٹے، سٹیل میں نو گھنٹے اور انسانی جسم میں 15دن بطور مہمان رہنے کے بعد موسم اگر خوشگوار لگے تو مستقل میزبانی کا شرف حاصل کرتا ہے۔


چین کے شہر ووہان میں پیدا ہونے والے کرونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، کرونا نے نہ صرف چین، ایران، اٹلی بلکہ پوری دنیا میں اس کی مریضوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے اور شروع شروع میں سست روی سے پھیلنے والے وائرس نے اب ایک بڑی آبادی کو متاثر کیا ہے۔


ماضی میں کسی بھی موذی و بائی مرض کا اس طرح پھیلنا کوئی نئی بات نہیں البتہ اس دفعہ صرف یہ ہے کہ ایک مخصوص علاقے یا جغرافیے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا ایک محلہ ہے اور اوپر سے کوئی لاوا یا سیلاب بہہ رہا ہو۔ تو لیجئے دنیا کو گلوبل ویلیج بنانے کا مز!!سائنس بالخصوص میڈیکل سائنس کی ترقیافتہ دنیا سے کرونا چلا چلا کر کہہ رہا ہے اب کرو نا!
محبت و نفرت، خوشی و غم، موت و حیات، تندرستی و بیماری جو سب انسانوں میں قدرے مشترک ہے فطرت و قدرت ہے جبکہ رسم و رواج، قانون و دستور اخلاقیات، عبادات و ریاضات جو الگ الگ ہیں کلچر اور مذہب ہے کرونا بھی بلا تفریق رنگ و نسل علاقہ کسی بھی انسان کو لگ سکتا ہے اور ہم اس میں بھی تفریق کا شکار ہیں اور بعض اوقات سیاسی، سماجی و مذہبی اجتماعات اور انہی سرگرمیوں پر پابندیوں پر چونکتے ہیں اور حیران و پریشان ہیں پھر بھی مذہب و قدرت میں فرق معلوم نہیں تو دیکھ لینا امیر خان کی فلم پی کے کے ایک دفعہ اور۔


دنیا میں بقا و فنا کا ایک حتمی اور اٹل قانون ے جو ازل سے جاری و ساری ہے یہ الگ بات ہے کہ موت انفرادی آتی ہے یا اجتماعی ہمیں عجیب لگ سکتی ہے فطرت کو نہیں اس دنیا میں اگر ایک انسان بھی نہ موجود نہ ہو تو بھی اربوں کھربوں بھری کہکشاؤں والی کائنات کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔


ان ڈاکٹروں، نرسوں، میڈیکل اسٹاف اور سیکورٹی ادارے اور ایسے تمام لوگ جو اس بیماری کی روک تھام میں اپنی جان جوکھوں پر رکھ کر خدمت انجام دے رہے ہیں ان کا کام لائق تحسین ہے لیکن ایک خبر یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ رسک سے کام لے رہے ہیں جو ان ڈاکٹروں کی ہلاکت کا باعث بن رہا ہے،اورسڑک پر چلتے ہوئے رسک لینا شاید صحیح ہو البتہ کسی کرونا کے مریض کا علاج کرتے ہوئے بے احتیاطی سے کام کرنے والے ڈاکٹروں کے بائیو ٹیچر کو انعام جبکہ سوشل سٹڈی والے کو پہلے انعام دے کر پھر ملازمت سے فارغ کرنا چاہئے۔


کرونا نے انسانیت کی ایک بڑی آبادی کو متاثر جبکہ باقی پوری انسانیت کو بیماریوں میں مبتلا کیا۔
میری بیوی گھر کے دروازے کھڑکیاں اسی واسطے بند کر رہی ہے کہ کہیں کوئی کرونا اندر داخل نہ ہونے پائے، کرونا موت کا پروانہ ضرور ہے لیکن یہ پتنگ کی طرح اڑ کر نہیں بلکہ ایک متاثرہ شخص یا چیز سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اگر یوں ہوا کے ذریعے گھر گھر پہنچ جائے تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔


ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا کہ عامل اور پیر کرونا سے ڈر کر بھاگ گئے اور فوج ڈٹ گئی، عامل اور پیروں نے پہلے والی بیماریوں کا کونسا علاج دریافت کیا تھا جو اب بھاگ گئے؟
ایک نوجوان قرنطینہ کو کترینہ سمجھ کر خواہش کر رہا تھا کہ اسے بھی وہاں بٹھایا جائے سمجھانے پر ہوش ٹھکانے آگئے۔


کرونا کپڑے میں چھ گھنٹے، سٹیل میں نو گھنٹے اور انسانی جسم میں 15دن بطور مہمان رہنے کے بعد موسم اگر خوشگوار لگے تو مستقل میزبانی کا شرف حاصل کرتا ہے۔


یہ مضمون چونکہ کرونا کے پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں لکھا گیا اور اب دنیا میں نئے تجزیے، اندازے اور چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں اور مین میڈ ایک سازش بتایا جا رہا ہے جو بڑے بڑے ممالک اپنے سیاسی و کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ریڈی کے سائنسی قانون کے مطابق ایک زندہ چیز سے پیدا ہوتی ہے کرونا کا پیدا کرنا ناممکن ہے جبکہ جانوروں یا چیز سے دوسرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔سائبر جنگ، کلوننگ اور جنیٹک انجینئرنگ کے پیش رفت سے قدرت میں مداخلت کا باعث بنا ہے نظر انداز نہیں کیا جا سکتاخیر جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔ یہ دنیا ایک شکارگاہ کی طرح ہے یا شکار کرو یا سو جاؤاب تک کرونا گھات لگا کر شکار پر بیٹھا ہے جب تک اس کو مارنے کی کوئی کارتوس ایجاد نہیں ہوتی ہمیں بچاؤ اور احتیاط پر اکتفا کرنا پڑے گا میرے خیال میں اس کی کارتوس بھی وہی ایجاد کریں گے جس نے نزلہ، زکام سے ملیریا ٹائیفائیڈ اور کینسر تک کی کارتوس ایجاد کی تب تک کرونا کیا گل کھلاتا ہے نہیں معلوم!!!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
36878

یو این ڈی پی گلگت بلتستان اورچترال کے چوبیس دیہات میں ارلی وارننگ سسٹم “نصب کرے گی

غذر(کریم رانجھا) ؔ UNDPگلگت بلتستان اور چترال کے چوبیس دیہات میں ” ارلی وارننگ سسٹم “نصب کرے گی،گلیشئیر سے متاثر ہونے والے آبادیوں کو محفوظ بنانے کے لئے دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں،غذر کے دومقامات پر نظام کی تنصیب کے لئے کام جاری ہے۔پراونشل کوآرڈینیٹر یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام عبدالباسط نے بالائی اشکومن کے گاؤں برصوات میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ UNDPگزشتہ چند سالوں سے گلگت بلتستان اور چترال میں گلئشیرز سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے چوبیس دیہات میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے نظام کی تنصیب پر کام کررہی ہے۔اس سلسلے میں GLOF 2پراجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے۔پہلے فیز میں سات دیہات منتخب کئے گئے ہیں جن میں ضلع غذر کے گاؤں برصوات اور درکوت شامل ہیں۔اس نظام کی تنصیب کے لئے محکمہ موسمیات کے ماہرین پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم ان دنوں مذکورہ گلیشئیرز کا سروے کررہی ہے،رواں سال کے اختتام تک ان سات مقامات پر ارلی وارننگ سسٹم نصب کردیا جائے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مقصد کے لئے محکمہ موسمیات،جی بی ڈی ایم اے،محکمہ جنگلات سمیت دیگر سرکاری محکموں کا تعاون بھی حاصل ہے۔اس سسٹم کے ساتھ ساتھ ویدر سٹیشنز کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے،پانی کی مقدار کو ماپنے کے لئے واٹر گیجز بھی نصب کئے جائیں گے۔سیلابی کٹاؤ روکنے کے لئے محکمہ جنگلات کے تعاون سے شجرکاری کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔اس نظام کو کامیاب بنانے کے لئے مقامی تنظیمات کو فعال بنایا جارہا ہے جس پر کام جاری ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مقامی رضاکاروں کو ایمرجنسی ایکویپمنٹس فراہم کئے جائیں گے۔اس نظام کی تنصیب کا مقصدمقامی آبادی کو سیلاب سے پیشگی خبردار کرنا ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کی حفاظت کو ممکن بنا یا جاسکے۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
36876

ڈاکٹر عبدالقیوم دیداری کا سانحہ ارتحال۔۔۔۔۔تحریر: امیرجان حقانی

وہ بڑے انسان تھے۔گلگت بلتستان کے مشاہیر اہل علم پر لکھنے کے لیے مجھے سینکڑوں لوگوں سے اہل علم کے متعلق انٹرویو زکرنے کا موقع ملا، خود جید اہل علم سے طویل طویل انٹرویوز کیے مگر میرا دل کمال سچائی کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ  ڈاکٹر عبدالقیوم اہل علم کی دنیا کے بہت بڑے انسان تھے۔گلگت بلتستان کے جن اہل علم نے تحقیق اور علم کی جتنی آبیاری کی، سب میرے سامنے ہیں۔ ان سب کو ملایا جائے تو بھی  ان کی جملہ تحقیقات اور علمی کاوشیں ڈاکٹر عبدالقیوم کی سعی مسلسل اور عالمانہ و محققانہ کاوشوں تک بلکہ اس کے عشرعشیر تک نہیں پہنچ سکتی، البتہ بابا چلاسی کی بات سوِا ہے۔


ڈاکٹر عبدالقیوم صرف اور صرف کتاب و قلم کے آدمی تھے۔وہ بہت کم سخن تھے۔ اگر یہ کہوں کہ خطابت کی مروجہ ملمع سازیوں سے مکمل ناآشنا تو غلط نہ ہوگا،کم سخنی کیساتھ ساتھ وسیع النظری ان کی خاص پہچان تھی۔وہ سمندر کی طرح تھے  جس میں مکمل سکوت ہوتا ہے  لیکن اسکا دامن اور اندرونی سطح بیش بہاذخائر اور موتیوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔اگر ایک جملہ میں ڈاکٹر عبدالقیوم کی شخصیت بیان کرنا چاہوں تو  وہ  سادہ لوحی میں  اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے،علوم حدیث اورتحقیق کی دنیا کے شناور اور زہد و تقویٰ میں کامل ہونے کے ساتھ جدید و قدیم عربی کے مایہ ناز محقق لکھاری تھے۔ وہ عوامی انسان نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں مکمل علمی اور تحقیقی دنیا سے وابستہ انسان تھے۔

haqqani with Dr Abdul qayoom in mak 1


جولائی 2016ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب گلگت تشریف لائے تھے۔جامعہ نصرۃ الاسلام کی جامع مسجد کا افتتاح کیا۔چونکہ مجھے اپنی کتاب کے لیے ڈاکٹر صاحب سے انٹرویو کرنا تھا۔ حضرت کی خدمت میں گزارش کی تو کہنے لگے کوئی ترتیب بناتے ہیں۔ اگلے شام قاضی نثاراحمد نے انہیں رات کے کھانے پر اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔اس سے بہتر موقع کوئی نہیں تھا ، میں بھی قاضی صاحب کو اطلاع کرکے وہی پہنچ گیا اور اپنا کھاتہ کھول بیٹھا۔ڈاکٹر صاحب نے جس سادگی کیساتھ انٹرویو دیا، وہ انہی کا خاصہ تھا، کہیں پر بھی بڑائی یا پھر بناوٹ کا شبہ بھی نہیں ہوا۔ورنا تو آج کل لوگ سلام کے جواب میں بھی خشوع و خضوع کے ساتھ تصنع فرمارہے ہوتے ہیں۔


دکتور عبدالقیوم کے ساتھ  مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کی انگلیاں تھر تھر کانپنے لگی ، اس لیے پہلا پیراگراف بغیر مرحوم کے لکھ دیا۔ وہ  28 دسمبر 1946ء کو ضلع غذر گلاپور گلگت بلتستان عبدرب البنی کے گھر میں پیدا ہوئے،ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب نیک دل اور سادہ لوح انسان تھے۔ اپنی مسجد کی خدمت اور آذان اپنے اوپر لازم کیا ہوا تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم گلاپور میں ہی حاصل کی ، گلگت شہر میں بھی کبار اہل علم سے استفادہ کیا۔مزید تعلیم کے لیے کراچی کا رخ کیا اور جامعہ دارالعلوم کراچی سے  اپنی پوری تعلیم کی تکمیل کی جہاں انہیں مفتی اعظم مفتی شفیع عثمانی، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ، مولانا سحبان محمود، مولانا شمس الحق نوراللہ مرقدہم اور مفتی رفیع عثمانی و مفتی تقی عثمانی جیسے اساطین اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا۔1388ھ میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے سندفراغت کے بعد مزید تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا رخ کیا جہاں انہیں  کبار علماء کرام میں علامہ محمد امین شقیطی،شیخ حماد انصاری اور ڈاکٹر ناصر فقیہی جیسے اساتذہ  سے استفادہ کا موقع ملا۔1392ھ میں مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ ام القریٰ   مکہ مکرہ میں  داخلہ لیا اور 1398ء میں ام القریٰ  یونیورسٹی سے   تعلیم مکمل کی ۔ ام القراء یونیورسٹی میں دکتور سید احمد صقر کی نگرانی میں ابن کیال کی ”الکواکب النیرات فی معرفۃ  من اختلط من الروات و الثقات” پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کی ،یہ تحقیقی کتاب دو دفعہ شائع ہوچکی ہے۔
اتنا کچھ پڑھ لینے کے بعد بھی ڈاکٹر عبدالقیوم کی علمی تشنگی پوری نہیں ہوئی، تو آپ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جامعہ ازہر مصر پہنچے۔جامعہ ازہر مصر سے ڈاکٹر سید محمد شوقی  خضر کی نگرانی میں  سنن امام دارمی پر تحقیقی پروجیکٹ کی تکمیل کی اور شرف اول (پہلی پوزیشن ) حاصل کی، 1405ھ میں جامعہ الازھر مصر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔میری محدود معلومات کے مطابق ڈاکٹر صاحب گلگت بلتستان کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں جنہوں نے جامعہ ازہر سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم نے جامعہ ام القریٰ  میں تعلیم کیساتھ تحقیق و تدریس کا آغاز بھی کیا تھا اس لیے مسلسل 22سال  (1398 تا 1419)جامعہ ام القریٰ میں علم و تحقیق کی آبیاری کرتے رہے۔اس عرصے میں آپ کے اشہب قلم سے  کئی محقق کتب منظر عام پر آئی۔جامعہ ام القریٰ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی کی طرف سے انہیں  آفر ہوئی لیکن مرحوم نے حرمین میں رہنے کو ترجیح دی۔ان کی تحقیق و تالیف کردہ کتب درج ذیل ہیں:


1۔ الکواکب النیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ
2۔ذیل میزان الاعتدال
3۔ کسوۃ الکعبہ
4۔المشارکۃ فی تحقیق غرائب الحدیث
5۔تکملۃ الاکمال لابن نقطہ (چھ جلدیں)
6۔نہایۃ السوال فی رواۃ الستۃ  الاصول (3 جلدیں)
7۔آئمہ و خطباء الحرمین و الشریفین
8۔بحث لطیف  فی  مشروعیۃ غسل الکعبۃ وتاریخہ
9۔حرمین شریفین خادم الحرمین کے عہد میں (اردو ترجمہ)
10۔ ذیل تکملۃ الاکمال  لاسکندری(2 جلدیں)
ان کے علاوہ بھی کئی کتابوں کی تخریج کی،مخطوطات حرم  کی فہارس مرتب کی، لمحات بیت اللہ الحرم کی تقویم و تحکیم کی۔اور بہت سارے علمی و تحقیقی مضامین لکھے۔اور علمی لیکچر دیے۔


ڈاکٹر عبدالقیوم سے میری شناسائی کئی سال سے تھی۔ سال 2019ء میں مجھے اللہ تعالیٰ نے حج کی توفیق عنایت کی، والدہ مکرمہ کی حج بدل کرنے حرمین پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کے صاحبزادوں ڈاکٹر احمد اور ڈاکٹر محمد کے ساتھ بھی رابطہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے دونوں صاحب زادے ہمیں ملنے عزیزیہ آتے رہے،ڈاکٹر احمد عبدالقیوم اور گلگت بلتستان کے ڈاکٹر عبدالسلام غیاث کی معیت ایک علمی محفل بھی جمی جو بہت دیر تک چلتی رہی،اس محفل کے رنگ میں ایک اہل حدیث صاحب نے بھنگ ڈالنے کی کوشش بھی کی تاہم ڈاکٹر عبدالسلام غیاث کے کرخت لہجے نے ان کو دور بھگایا۔ ایک دن میں حرم شریف گیا ہوا تھا ، ڈاکٹر عبدالقیوم بھی ہمیں ملنے آئے لیکن میں حرم میں تھا تو ملاقات نہ ہوسکی، پھر ڈاکٹر صاحب کے گھر ہم کچھ حجا ج کی مدعو کیا گیا۔ رات گھر لے جانے کے لیے ڈاکٹر محمد اپنی گاڑی لے کر پہنچ گئے۔ یوں ان کی جامع مسجد  ”القادر نصیر”میں ڈاکٹر صاحب کیساتھ ملاقات ہوئی۔نماز عشاء کے بعد مسجد سے گھر آئے تو دیگر مہمان دارالضیوف میں بیٹھے۔ ڈاکٹر صاحب میرے ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے” آؤ حقانی صاحب! تھوڑا وقت الگ بیٹھتے ہیں، علمی گفتگو کرتے ہیں، یہ مہمانوں کی مجلسیں تو چلتی رہیں گی، یوں مجھے لے کر اپنے کتب خانے اور کام کرنے کی جگہ پہنچے۔ اپنی تحقیقی کتابیں جو ایک شیلف میں تھی دکھایا اور پھر بہت دیر تک ہم وہی بیٹھے فن تحقیق اور اہل علم کی باتیں کرتے رہے۔یہاں تک کہ کھانا لگ گیا اور ہم عربی کھانوں سے محظوظ ہوتے رہے۔

IMG 20190802 WA0005 1


حج سے فراغت کے دوسرے دن اہل علم وفن کے اس  عظیم سرمایہ  نے احقر کو فون کیا اور کہا کہ آپ کو عرفات، مزدلفہ  اور منیٰ دکھانا ہے۔ میری حیرت کی انتہاء  ہوئی۔ وہ حضرت خود گاڑی ڈائیورو کرتے ہوئے پہنچے اور  مجھے اور حاجی سید کریم گلاپور والے کو لے کر عرفات پہنچے۔سید کریم ڈاکٹر صاحب کے عزیز ہیں۔ہمیں عرفات، مزدلفہ اور منی کا ایک ایک چبہ دکھایا۔ حدود دکھائے۔خیموں کی تفصیلات بتائی، جبل رحمت کا وزٹ کرایا، مسجد خیف، مسجدنمرہ، مسجد مشعرالحرام اور مسجد عقبہ و مسجد دارالنحر کی زیارت کروائی۔مسجد مشعرالحرام کے متعلق کافی معلومات بہم پہنچائی،عرفات میں درخت کب لگائے گئے یہ بھی بتایا۔ یہ درخت ڈاکٹر مرحوم کی زندگی میں ہی لگائے گئے ہیں۔بہت کچھ بتایا جو شاید کتابوں میں نہیں ہے۔پانچ عشروں پر محیط  اپنی زندگی کے بہت سارے گوشے ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بیان کردیے۔ عرفات کا یہ سفر ظہر سے مغرب تک چلتا رہا پھر ہمیں عزیزیہ میں چھوڑ گئے اور مجھے کتابوں کا ایک تھیلا پکڑا دیا جس میں کچھ کتابیں ڈاکٹر صاحب کی اپنی تصنیف کردہ تھی کچھ دیگر، حضرت نے اپنی دیگر کتب بھی پہنچا نے مژدہ سنایا اور ہم سے رخصت ہوئے۔ چھ سال پہلے بھی حضر ت ڈاکٹر صاحب نے چند کتب میرے تایا حاجی عذرخان کیساتھ مجھے مکہ سے ہدیہ کیے تھے۔اب کی بار بھی شاید ڈاکٹر صاحب کی کتب پہنچ جاتی لیکن وہ خود اللہ رب العزت کے حضور پہنچ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون


ڈاکٹر صاحب صحیح معنوں میں خادم الحجاج تھے۔حاجیوں کی خدمت میں  کچھ  تعصب  سے کام نہ لیا۔ گلگت کے اہل سنت اور اہل تشیع دونوں ڈاکٹر صاحب کے مہمان بنتے رہے۔ممبر اسمبلی دیدار نے  بتایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے بہت عزت افزائی کی۔


ڈاکٹر عبدالقیوم گلگت بلتستان اور پاکستان کے بہت سارے مدارس و مساجد  کیساتھ خصوصی شفقت فرماتے۔ ان کی تعمیر و تزئین میں معاونت کرتے۔ اپنی ان طویل خدمات کا کبھی نہ صلہ لینے کی خواہش کی اور نہ ہی  کسی کو بتلاتے۔ ان کی سرپرستی اور معاونت کے متعلق میرے پاس کافی معلومات تھی،میرے استفسار پر بھی مسکرا کر بتانے سے گریز کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی رحلت سے جو خلا واقع ہوا ہے اس کا بھرنا ناممکن ہے۔ ان کی خاندان ، اہل علم سمیت مدارس و جامعات اور  متولیان ِ مساجد بھی حضرت کی شفقتوں سے محروم ہوئے۔ان مدارس کو حضرت کے سانحہ ارتحال پر کچھ تعزیتی نشستیں تو کرنی چاہیے جن کی عمر بھر ڈاکٹر صاحب نے مختلف شکلوں میں خدمت کی ہے۔ اپنے محسنوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیا وہ لوگ جن پر حضرت ؒ کی شفقتیں مسلسل رہی وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر ایک سیمینا ر کا انعقاد کرسکیں گے؟ شاید مشکل ہے، ہم مجموعی طور پر کورچشم لوگ ہیں۔اپنے محسنوں کو یاد رکھنا کب ہمارا وطیرہ رہا ہے۔


مرحوم ڈاکٹر صاحب بلند پایہ محقق،خوش اخلاق اور متواضع انسان تھے۔حضرت ڈاکٹر صاحب کی ذات ایک جامع ہستی تھی۔ ایسے یکتا روزگار لوگ اب پیدا نہیں ہونگے۔اب زمانہ بدل گیا ہے۔ کتاب کی جگہ سوشل میڈیا نے لیا ہے۔اب درجنوں تحقیقی کتب قلمبند کرنے والا عالم فاضل نہیں کہلاتا بلکہ فیس بک اور ٹویٹر پر بھڑکے مارنے والے صاحب علم و فن کہلانے لگے ہیں۔اب تو فیس بکی مفتیوں اور محققوں کی بھرمار ہے۔تواضع و انکساری کی جگہ بدتمیزی اور پگڑی اچھالنا اب  خود ساختہ اہل علم اور ان کے پیرو کا شیوہ بن چکا ہےاب تو اصلاح کی بات کرنے والوں کو بھی مطعون کیا جارہا ہے۔ایسے میں دکتور عبدالقیوم جیسے لوگ ٹوٹ کر یاد آنے لگتے ہیں جو اپنوں کے ساتھ بیگانوں کو بھی سینے سے لگاتے۔سچ کہوں تو ڈاکٹر صاحب قدیم و جدید کے درمیان حلقہ اتصال تھے۔اب جو قدیم سے منسلک ہیں وہ جدید کو  کفر عین ثابت کرنے کے درپے ہیں اور اہل جدید  قدیم علمی تراث سے مکمل بیگانہ۔وہ کتاب و قلم کی دنیا کے مخصوص انسان تھے۔ہر حال میں اپنے علمی  اور تحقیقی مشاغل میں مصروف رہتے۔آپ کے اخلاف میں ڈاکٹر احمد عبدالقیوم اور ڈاکٹر محمد عبدالقیوم ہیں۔ مجھے امید ہے یہ دونوں صاحبان اور ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادیاں  اپنے جلیل القدر باپ کے سچے جانشین ثابت ہونگے اور علم وفن کی آبیاری کرتے رہیں گے۔


حکومت پاکستان کو بہت پہلے ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات پر ستارہ امتیاز عنایت کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا تو اب بھی انہیں یہ اعزاز سے نواز جاسکتا ہے۔ حکومت گلگت بلتستان وفاقی حکومت کو سفارش کرسکتی ہے کہ  ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات پر بعد ازموت ہی ستارہ امتیاز سے نوازا جائے۔یقینا ڈاکٹر صاحب اور اس کے پسماندگان اس طرح کے اعزازات کے متقاضی نہیں مگر اصحاب علم و تحقیق کی خدمات کا اعتراف کی ایک صورت  یہ بھی ہے۔ لہذا ان کو ستارہ امتیاز کے لیے نامونیٹ کیا جائے۔ان کی اولاد اور پسماندگان صاحب حیثیت اور ثروت ہیں۔ ان سے یہی گزارش ہوگی کہ گلاپور یا گلگت میں ڈاکٹرصاحب کے نام سے کوئی ریسرچ اکیڈمی کا آغاز کریں ۔ کچھ نہ ہوسکے تو ایک علمی لائیبریری ہی قائم ہو جہاں ڈاکٹر صاحب کی تحقیقی کاوشوں تک اہل علم کی رسائی ہو،مجھ جیسے لوگ خواب دیکھنے کے عادی ہیں۔خواب پر تو اقوام متحدہ بھی پابندی نہیں لگاتی۔ کیا میں یہ امید کرسکتا ہوں کہ ڈاکٹرعبدالقیوم کے نام پر گلگت بلتستان میں ایک ریسرچ اکیڈمی یا پھر ایک علمی لائیبریری کا قیام عمل میں آئے گا؟ اگر ہاں تو یہی سچی جانشینی ہے ۔علماء انبیاء کے وارث ہوتے اور انبیاء کے ان وارثوں کی وراثت کی  قدر ان کے علوم و افکار کی ترویج سے ہی ہوسکتی ہے۔
8 جون کی رات ڈاکٹرصاحب اللہ کے حضور حاضر ہوئے جہاں ہم سب نے جلد یا بدیر حاضر ہونا ہے۔9 جون کے وقت سحر قاضی نثاراحمد نے اطلاع دی کی ڈاکٹر مرحوم انتقال کرگئے۔دل نہیں مان رہا تھا لیکن پھر یاد آیا کہ ہر جی جان نے موت کا پیالہ پینا ہے۔ان کی اولاد سے تعزیت کی،اور حضرت کی مغفرت کے لیے ہزاروں میل دور بیٹھ  کردعا ہی کرتے رہے۔مرحوم کی وفات سے مملکت سعودیہ، پاکستان اور بالخصوص گلگت بلتستان محروم ہوا۔ علم و عرفان اور تواضع و انکساری کا یہ حسین و جمیل اور نفیس انسان  ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دارفنا سے دار بقا کو چل دیے۔اور حدود حرم کے مقبرہ ”شہدائے حرمین ” میں مدفون ہوئے۔عالِم کی موت عالَم  کی موت کا درست مصداق ڈاکٹر صاحب ہی تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی مرقد کو روشن کرے۔اور پسماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ نعم البدل دے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
36717

گلگت بلتستان کے نگران وزیراعلیٰ کیلئے وفاق سے کسی بیوروکریٹ کو منتخب کیا جائے۔شرافت خان

گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ)تحفظ آئینی حقوق گلگت کے چیئرمین شرافت خان نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ کا چناؤ قانون و ضابطے کے مطابق ایک معمول کا عمل تھا لیکن گلگت میں مختلف جماعتوں اور مکتبہ و فکر کے مابین کھینچاتانی سے یہ مسلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے جو کہ علاقہ کے پرامن صورتحال میں مناسب نہیں ہے اور حالات ٹکراؤ کی طرف جاسکتے ہیں۔جب کہ بھارت کا مودی ان علاقوں میں بے چینی کی فضا پیدا کرنا چاہت اہے جس کے لیے ہم سب کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور ہر معاملہ میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے قانونی راستہ اختیار کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں سے مختلف جماعتوں اور فریق نے پریس اور سوشل میڈیا ایک دوسرے کے خلاف جو بیان بازی شروع کی ہے وہ حالات کو خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔اس لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ حکومت گلگت بلتستان میں الیکشن کے نگراں وزیر اعلیٰ کے طور پر براہ راست وفاق سے کسی سول یا ملٹری، بیروکریٹ کو بھیجے جو ان علاقوں میں منصفانہ الیکشن کراسکے۔جیسا کہ ماضی میں پاکستان میں الیکشن کرانے کے لیے معین قریشی اور شوکت عزیز کو بیرون ملک سے لایا گیا تھا۔امید کی جاتی ہے کہ وفاق سے آنے والے بندے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
36617