یہ اختصاص کا دور ہے – خاطرات :امیرجان حقانی
یہ اختصاص کا دور ہے – خاطرات :امیرجان حقانی
یہ اختصاص یعنی کسی ایک فن یا موضوع پر مکمل دسترس اور مہارت حاصل کرنے کا دور ہے. ایک مخصوص ہنر، فن یا موضوع پر مہارت حاصل کرنا بھی ایک مکمل آرٹ ہے جس میں انسان اپنے علم، تجربہ، اور مہارت کو بہتر بناتا ہے۔ اس دور میں، ایک فرد اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں پر مستقل طور پر کام کرتا ہے، جس سے اس کی قابلیت، صلاحیت اور اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اختصاص انسان کو اپنے شعبہ یا فنی میدان میں عالمی درجہ پر پہنچنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں. کسی انسان کا کسی خاص فن میں اختصاص ہی اس کی پہچان بن جاتی ہے.
ایسے افراد جو مخصوص فن یا علم میں اختصاصی صلاحیت پیدا کرتے ہیں، اپنے میدان میں علم و تجربہ کے ساتھ مصروف رہتے ہیں اور اپنے علم و فن کو مکمل کرنے کے لئے محنت کرتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں و مہارتوں کی بنیاد پر وہ اپنے شعبہ اور میدان میں معتبر شخصیت بن جاتے ہیں، اور دنیا کے لیے علم، فہم، اور عظمت کی علامت بن جاتے ہیں ۔ ان متخصص لوگوں کے ذریعہ، نئے فنون کی دریافت ہوتی ہے، نئے تجربات وجود میں آتے ہیں ، اور معاشرتی اور تکنیکی ترقی کے لئے نئے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ان کی مہارتوں کا اثر، عام لوگوں کی زندگیوں پر بھی ہوتا ہے، جو ان کے کاموں سے مستفید ہوتے ہیں۔
اختصاص پورا وقت چاہتا ہے. پورا سرمایہ چاہتا ہے. پوری قوت چاہتا ہے. مکمل یکسوئی چاہتا ہے. انسان سب کچھ نچھاور کرے تو پھر وہ کسی ایک فن، علم، ہنر یا شعبہ میں متخصص و ماہر بن سکتا ہے اور اپنا نام کما سکتا ہے. چند مثالوں کے ذریعے اس کی افہام و تفہیم کی کوشش کرتا ہوں.
عورت کو پورا مرد چاہیے:
یہ ایک معروف کہاوت ہے. عورت آدھا مرد پر رضا نہیں ہوتی. اس کو پورا مرد چاہیے. وہ مرد میں تقسیم بھی نہیں چاہتی. اگر مرد خود کو مکمل اس کے حوالہ کر دے تو شاید وہ راضی ہو، ورنا عورت کڑھتی رہتی ہے. ویسے اس کا کچھ تجربہ مجھے ایک سال سے ہو بھی رہا ہے.
عورت کے اسی فلسفہ اور “پورے مرد” کو دیگر امور میں قیاس کرلیتے ہیں. ہر فیلڈ اور ہر فن کے لیے پورا پورا مرد چاہیے ہوتا ہے. آدھا مرد یا آدھا تیتر آدھا بٹیر بننے سے کام نہیں چلے گا.
سیاست کو پورا سیاست دان چاہیے:
سیاست ایک اہم شعبہ ہے جو معاشرتی ترقی اور سیاسی شعور و ترتیب کے لئے ضروری ہے۔ ایک مثالی سیاست دان، اپنے اصولوں پر قائم رہتا ہے، اور عوام کے مفادات کے لئے محنت کرتا ہے۔ وہ قوم کو ملکی ترقی اور فلاح کی راہ میں رہبری دیتا ہے، اور ایک بہترین معاشرتی نظام کی بنیاد رکھتا ہے. اب اگر کوئی پارٹ ٹائم سیاست کرے تو قطعاً وہ سیاسی نہیں کہلائے گا. بلکہ سچ یہ ہے کہ سیاست پر دھبہ ہوگا.اور پاکستان دھبوں سے بھرا پڑا ہے.
عسکریت کو پورا فوجی چاہیے:
عسکریت ایک پورا شعبہ ہے. اس کی ایک مکل تاریخ ہے.فوج ایک ملک کی حفاظت اور امن کے لئے اہم ہوتی ہے۔ ایک مثالی فوجی، اپنے پیشہ پر فخر کرتا ہے، اور اپنے ادارے کے اصولوں اور قوانین کا پاسبانی کرتا ہے اور اپنے حلف کی پاسداری کرتا ہے۔ وہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جان کی قربانی دینے کو تیار رہتا ہے ،اور عوام کی حفاظت کے لئے ہمہ دم مستعد رہتا ہے۔ اگر وہ اس کام کی بجائے سیاست، معیشت، کنسٹرکشن، طب اور تعلیم میں لگے تو شاید وہ اپنی اہمیت و مہارت کھو بیٹھتا ہے. دنیا اس کے فن عسکریت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی.
علم کو پورا طالب علم اور مدرس چاہیے:
تعلیم اور علم کی اہمیت کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ ایک مثالی طالب علم، حصول علم کے لیے محنت کرتا ہے اور اپنے علمی میدان میں ترقی کرتا ہے ۔ ایک مثالی مدرس، اپنے طلباء کو روشنی اور ہدایت فراہم کرتا ہے ، اور ان میں مختلف معاشرتی مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور مہارت سکھاتا ہے۔ اگر استاد اور طالب علم اپنا کام یکسوئی سے کرکے مہارت حاصل کرنے کی بجائے سیاستدان دانوں کے لئے ایندھن بنیں اور نعرے لگائیں تو وہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں مگر طالبان علم نہیں ہوسکتے.
شاعری کو پورا شاعر چاہیے:
شاعری اور ادب سماجی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک مثالی شاعر اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جذبات پیدا کرتا ہے ، اور ان کی زندگیوں کو رنگین بناتا ہے۔ اس کی شاعری میں عظمت، عشق، اور فن کی روشنی ہوتی ہے، جو سماج کے فہم و فرہنگ کو بڑھاتی ہے۔ اگر شاعر اور ادیب اپنے فن میں متخصص نہ ہو تو شاید اپنی وقعت کھو بیٹھے گا اور اس کی ادبی عمر بہت کم ہوگی.
تحقیق اور دانش بھی ریاضت چاہتے ہیں:
تحقیق اور دانش کا کاروبار انسانی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ ایک مثالی محقق، اپنی تحقیقات میں عمق اور صداقت کے ساتھ محنت کرتا ہے۔ اس کا فہم اور تجربہ، اسے نیو معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے. وہ ہر وقت کھوج لگاتا رہتا ہے۔ وہ اپنی تحقیقات کو باریکی سے پیش کرتا ہے اور اپنی تحقیق کو تحقیقی مہارتوں سے مزین کرتا ہے۔ ایسا محقق، انسانی معرفت کو بڑھانے اور معاشرتی مسائل کے حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دانش ور بھی یہی کرتے ہیں.
ایک مثالی مبلغ، اپنے علم اور فن کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پیغام کو عوام تک پہنچاتا ہے۔ اس کی فنی خوبصورتی اور قوتِ تقریر و تبلیغ ، اسے ایک نمایاں مبلغ بناتی ہے۔
ایک سادہ مثال آپ کی تفہیم کے لیے عرض کرتا ہوں. معروف ادارہ ایم آئی ٹی سے پیور سائنس میں ڈگری حاصل کرنے والے پروفیسر ہود بائی، جب سائنس کو چھوڑ کر مذہب و سیاست اور سماجی علوم پر مکالمے و مباحثے کریں یا انجینئر طاہر مرزا جہلمی علم انجینئرنگ کی بجائے فن حدیث پر گفتگو کریں یا مولانا الیاس گھمن صاحب دینی علوم کو چھوڑ کر سرچ اور ریسرچ کا فلسفہ بیان کریں، تو شاید مضحکہ بن جائیں گے. ایسے لوگ کبھی اس فن میں سند نہیں بنیں گے.
یہ چند مثالیں اپنی بات کو سمجھانے کے لیے لکھ دی.اور یہ باتیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر شعبہ میں مثالی شخصیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے کردار میں مکمل ہوں۔ ایسے افراد معاشرتی ترقی اور امن کے لئے اہم ہوتے ہیں، اور ان کی صلاحیتوں کی قدر کی جانی چاہیے۔
ہر کام میں، مکمل وقت، سرمایہ، فرد اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انجام دینے والے کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے اور ان کو اپنی ماہریت پر فخر ہونا چاہئے۔ آج کے دور میں، ہر فن مولا بننے کی غیر ضروری کوشش کرنا اور دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی بجائے ، اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف افراد بلکہ پورے سماج اور انسانیت کو فائدہ پہنچتا ہے.
ہمارا سماجی المیہ یہ ہے کہ اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے اور اس میں یکسوئی سے لگے رہنے کی بجائے دوسروں کے کاموں اور شعبوں میں گھس جاتے ہیں. جس کا لازمی نتیجہ نقصان کا ہوتا ہے.
بہت سے احباب لکھنا چاہتے ہیں. کالم نگار بننے کی خواہش ہوتی ہے. جب ان سے کہا جائے کہ مطالعہ کریں، کتابیں خریدیں اور بے تحاشا پڑھیں تو موت آنے لگتی ہے.
آدمی شوقیہ لکھاری تو نہیں بن سکتا. عشروں کی ریاضت و مشقت چاہیے ہوتی ہے. فل ٹائم دینا پڑتا ہے. گرمی سردی کا خیال نہیں کرنا پڑتا. بہر حال، انسان کو اپنے کام کی اچھی طرح تشخیص کرکے اس پر خوب اختصاص حاصل کرنا چاہیے. اگر زندہ رہنے اور کارآمد انسان بننے کی خواہش ہے تو کسی ایک چیز میں اختصاصی پوزیشن حاصل کریں.