Chitral Times

دھڑکنوں کی زبان ۔” ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک”۔ محمد جاوید حیات

دھڑکنوں کی زبان ۔” ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک”۔ محمد جاوید حیات

 

کوٸی ستتر سال پہلے کی بات ہے کہ نعرے لگاۓ جارہے تھے ۔۔وعدے جتاۓ جارہے تھے اور محبتوں اور احترام کےخواب دیکھاۓ جارہے تھے ۔ہربندے کے پاس ایک عزم تھا ۔۔جب نعرہ بلند ہوتا ۔۔” لے کے رہیں گے پاکستان ” اس کے جواب میں ایک جذبہ پاکیزہ سا جذبہ سینوں میں انکھڑاٸیاں لیتا ۔۔ایک عزم مسکراہٹ بن کر لبوں پہ پھر جاتا ۔۔یہ وعدوں ،وفاٶں ،محبتوں اور عقیدوں کی سرزمین کے حصول کی جدد و جہد کا زمانہ تھا ۔اس سمے شاید ہم بھاٸ بھاٸی تھے اس لیے ہم نے عہد کیا تھا کہ ہماری آپس میں محبت رہے گی یہ رشتہ عقیدت کا رشتہ ہوگا ۔نہ ہم ایک دوسرے کی سبکی کریں گے ۔نہ ایک دوسرے کو سست کہیں گے ۔نہ ایک دوسرے سے نفرت کریں گے ۔

 

ہمارے بڑے بڑوں نے خوابوں اور محبتوں کی اس سرزمین میں اس منظر کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سےچلے گئے اب ہم انتظار کر رہے ہیں ہمارے دن بلکہ ہمارے لمحے لمحے اس انتظار میں کٹ رہے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو اچھا کہیں ۔۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر جدو جہد کے ان دنوں میں کسی کو پتہ ہوتا کہ ہم ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے ایک دوسرے سے نفرت کریں گے ۔ایک دوسرے پہ اعتماد اٹھ جاۓ گا۔علاقایت ہماری محبتوں کے راستے میں رکاوٹ ہوگی۔فرقہ واریت جنم لے گی۔سیاست گالی بن جاۓ گی ۔۔قومی مفاد کہیں عرق ہوجاۓ گی ۔بھاٸی بھاٸی کا تصور ختم ہوجاۓ گا ہمارا کوٸی قومی Narrative نہیں ہوگا۔مذہب آنا بن جاۓ گا مذہب پارٹیوں میں بٹ جاۓ گا۔۔عدل کاجنازہ نکالا جاۓ گا ۔امیر کےہاتھوں غریب کچلا جاۓ گا ۔محبت ایک افسانے کے سوا کچھ نہ ہوگی ۔عقیدت شخصیت پرستی کی نذر ہو جاۓ گی ۔تب کون یہ سارا جد و جہد کرتا یہ ساری قربانیاں دیتا۔

 

غلامی ویسے کی ویسے رہتی ۔بے چینی ،بے اطمنانی اور نفرت اسی طرح رہتی ۔بھاٸی بھاٸی کا تصور نہ تھا نہ رہتا ۔ہم نے تو خواب دیکھا تھاکہ حکمران عوام کا غم کھاۓ گا ۔جج انصاف کا بول بالا کرے گا ۔محافظ مٹی پہ قربان ہوگا تو قوم کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاۓ گا ۔دفتروں میں صداقت کی حکم رانی ہوگی ۔بدعنوان قوم کا دشمن ہوگا اس کا سر کچلا جاۓ گا ۔فرغونیت کہیں سے جنم نہیں لےگی ۔ہر فرد دوسرے فرد کے نزدیک قابل احترام ہوگا۔محبت کے تاج محل تعمیرکیے جاٸیں گے ہر کہیں اللہ اکبر کی صدا ہوگی اسلام کا معاشی نظام ،معاشرتی نظام ،عدالتی نظام قاٸم کیا جاۓ گا ۔یہ ملک اسلام کا قلعہ کہلاۓ گا ۔اس کی مثالیں دی جاٸیں گی ۔کیا یہ ایک فرد کا خواب تھا ۔کیا اس خواب کی تعبیر کاانتظار صرف ایک غریب باشندے کو ہے۔کیا کسی ذمہ دار کرسی پر بیٹھے ہوۓ کو اس خواب کاادراک نہیں ۔کیا کسی حکمران پر لازم نہیں کہ اس خواب کی تعبیر کی کوشش کرے ۔کیا کسی بد عنوان کو احساس ہی نہیں کہ وہ ایک خوابوں کی سرزمین میں رہتا یے اس کی وجہ سے یہ پاکیزہ خواب ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔

 

ہم انتظار کر رہے ہیں ۔۔ہمیں اس پاکیزہ جدو جہد کے حقیقی نتیجے کا انتظار ہے ۔ہمیں انتظار ہے کہ گاٶں کا کوٸی بوڑھا کسی جنرل کو سینے سے لگا کے اس کی پیشانی چومے اور وہ اس کے ہاتھ کو عقیدت سے اپنے دل پہ رکھے خاموش رہے لیکن کہیں دور سے آواز آۓ کہ ” میں آپ کا محافظ ہوں “اللہ ہمارا محافظ ہے ۔۔ہم انتظار کر رہے ہیں اس دن کا کہ کوٸی تخت نشین حکمران کہدے کہ میرے معزز ہم وطنو! ہم سے پہلے حکمرانوں نے یہ اچھے اچھے کام کیے اب ہم ان کی پیروی میں یوں یوں کریں گے ۔۔ہم انتظار کر رہے ہیں کہ کوٸی مظلوم اس امید پہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاۓ کہ اس کو انصاف ملے گا ۔۔ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارا ملک بدعنوانی اور بد اطواری سے پاک ہو اور ہر دفتر میں ایک انسان بیٹھا ہوا ہو اس کی ذات میں فرغونیت کا شاٸبہ تک نہ ہو ۔ہم انتظار کر رہے ہیں کہ انصاف ،قانون ، اعتماد اور محبت کی خوشبو سے یہ سر زمین معطر ہوجاۓ ۔ہم انتظار کر رہے ہیں ۔

 

 

ہمارا انتظار بے سود نہیں ہوگا ۔۔اللہ ہماری مدد فرماۓ گا ۔۔اگر ہمارے اسلاف کی جد و جہد میں خلوص تھا تو ہم مایوس نہیں ہوں گے ایک نہ ایک دن یہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوں گی ۔۔محبت کا سورج طلوع ہوگا اور ہم فخر سے کہہ دیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں۔۔ہم اپنے ابا و اجداد کے خوابوں کی تعبیر ہیں ۔۔ہم محفوظ ہیں ہمارے جان و مال محفوظ ہیں ۔۔ہماری خوشیاں،،محبتیں اورعقیدتیں محفوظ ہیں ۔ہمارا رین بسیرا محفوظ ہے ۔۔۔ان شااللہ

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93282