تلخ و شیریں ۔ نثار احمد ۔ ہدایت اللہ ایک علم دوست شخصیت
تلخ و شیریں ۔ نثار احمد ۔ ہدایت اللہ ایک علم دوست شخصیت
روز (Rose ) انگریزی کا لفظ کا ہے اس کا معنی گلاب ہے میرے دائیں طرف جو صاحب بیٹھے ہیں یہ بھی ایک عدد غیر سرکاری ادارہ چلاتے ہیں اس کا نام بھی “روز” ہی ہے۔ اول الذکر روز اور ثانی الذکر “روز” میں مماثلت و مشابہت یہی ہے کہ دونوں اپنے رنگ و بو کے زریعے ماحول کو محظوظ و معطر کرتے ہیں۔ جس طرح فطرت کا تخلیق کردہ روز اپنے ناظرین و شامئین کو فایدہ کے علاوہ کچھ نہیں پہنچاتا اسی طرح جناب ہدایت اللہ کا قائم کردہ “روز” بھی خلقِ خدا کو فایدہ ہی پہنچا رہا ہے۔ میرے پاس روز کے مستفیدگان کی آفیشل فہرست ہے اور نہ ہی ایسی فہرست کا اجرا “روز” کی پالیسی ہے ورنہ میں ضرور ریکارڈ آپ کے سامنے رکھ کر بتاتا کہ “روز” سے استفادہ کرنے والے طلبا و طالبات لواری تا بروغل کس بڑی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہدایت صاحب “روز” کی سرگرمیوں سے علم دوست احباب کو آگاہ کرنے پھر ڈونرز کو “روز” کی طرف متوجہ کرنے کا ایجنڈا لے کر ایون تشریف لائے تھے۔ حاجی خیر الاعظم صاحب کے ہوٹل (ریور اِن) پر جب ان سے ملاقات ہوئی تو ہدایت صاحب ہم اہل ِ ایون کے بارے میں شکوہ کناں نظر آئے ۔ دراصل ہدایت اللہ سر نے اس سیشن کے لیے چنیدہ دو درجن کے قریب احباب کو مدعو کیا تھا جن میں سے چند (تین چار ہی سمجھیے بس) ہی حاضر ہوئے۔ خود میں بھی “رسمی سیشن” میں شرکت سے قاصر رہنے والوں میں سے رہا بہرحال تاخیر پر معذرت اور قابلِ معافی عذر پیش کرنے کے بعد غیر رسمی مجلس کا حصہ بن گیا۔
حاجی خیر الاعظم نے ہدایت صاحب کی بے لوث خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ان کا موبائل نمبر بھی ان کے اصل نام کی بجائے “ایدھی” نام پر محفوظ ہے۔ میں انہیں چترال کا ایدھی سمجھتا ہوں۔ کراچی کے ایدھی کو شاید”وسائل” کی کمیابی کی شکایت نہیں ہوگی لیکن ہمارا ایدھی، باوجود یہ کہ وسائل کی قلت سے دوچار ہیں، خدمت سے ہاتھ نہیں کھینچ رہا۔
حاجی صاحب کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے میں نے عرض کیا آپ انہیں ایدھی سمجھیں یا جو بھی نام دیں آپ کی مرضی، بہرحال میرے سامنے جب بھی ان کی سیدھی سادی صورت آتی ہے تو چشم تصور میں سر سید احمد خان کا خوبصورت چہرہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سرسیداحمد خان کی جدوجہد کا ایک بڑا حصہ جدید تعلیم کی آبیاری پر صرف ہوا ہدایت صاحب بھی اپنی محنت کا میدان تعلیم کو بنایا ہوا ہے۔ سر سید احمد خان بھی تعلیم کے زریعے حالات میں بہتری لانے اور مسلم معاشرے کو اٹھانے کے خواہاں تھے اور ہدایت صاحب کی کوشش بھی تعلیم کے زریعے چترال کے طول و عرض میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔
سرسید احمد خان کی نظر بھی، امیر و غریب اپنے ہر دو قسم کے دوستوں کی جیبوں پر ہوتی تھی ہدایت صاحب بھی ہمہ وقت ہرممکن طریقے سے احباب سے کچھ نہ کچھ “وصولنے” اور “نکالنے” کے چکر میں ہوتے ہیں۔ سر سید بھی اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگتے تھے۔ ہدایت صاحب بھی فقط روز کے ڈونیشن کی بات کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سر سید احمد خان کو دیالو دوست ملے تھے جب کہ ہدایت صاحب کے ساتھ مجھ جیسے لوگ بھی متعلق ہیں جو فقط حوصلہ افزائی پر کام چلاتے ہیں۔
اس میں دوسری رائے نہیں کہ تعلیم کے میدان میں ہدایت اللہ صاحب اعلی کام کر رہے ہیں۔ موصوف کے کام کا منہج یہ ہے کہ پہلے تلاش و تتبع کرکے ان طلبا و طالبات کو دریافت کرتے ہیں جن کے پاس پڑھائی کا عزم تو ہے لیکن وسائل نہیں ہیں۔ جو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے زرائع نہیں پاتے۔ جو معیاری تعلیمی ادارے سے منسلک ہو کر علمی سفر جاری رکھنا تو چاہتے ہیں لیکن تعلیمی ادارے میں داخلے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔
ہدایت صاحب ایسے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، انہیں اسکالر شپ دیتے ہیں اور انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ہمیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے جو ضرورت مند متلاشیانِ علم و فن کو حصولِ علم و فن کی راہ میں ڈالتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی یہی ہے کہ ہم ان کے ساتھ مالی تعاون کریں ۔ ان کا خیال اسی طرح رکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے اہلِ خیر اپنے مال و دولت میں سے ان کے لیے حصہ مختص کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں کا دست بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے۔