Chitral Times

تربیت اولاد – گل عدن چترال

تربیت اولاد – گل عدن چترال

اس میں شک نہیں کہ تربیت اولاد ہر وقت کی اہم ضروت ہے ۔میں اس پر تو بات نہیں کر سکتی کہ اولاد کی تربیت کس طرح کی جائے۔کہ یہ چھوٹی منہ بڑی بات ہوگی۔مگر میں اتنا ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ تربیت ہی ہر ایک اولاد کی بنیادی حق ہے ۔اور دینی تعلیم اولاد کی اولین ضرورت بھی ہے اور حق بھی ۔جو والدین اپنی نادانی کے سبب اپنی اولین ذمہ داری یعنی اولاد کی تربیت کو چھوڑ کر اولاد کو آسائشات دینے کو اہمیت دیتے ہیں ۔وقت ثابت کرتا ہے کہ ایسے والدین نے نہ صرف اپنی جانوں پر ظلم کیا بلکہ اپنے اولاد پر بھی ظلم کیا ۔کیونکہ یہ وہ عظیم نقصان ہے (اولاد اور والدین دونوں کا مشترکہ نقصان ) کہ جسکا ازالہ پھر وقت گزرنے کے بعد نہیں کیا جاسکتا۔

اولاد جو اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کے لئے تحفہ اور نعمت ہے وہیں اولاد کو اللہ نے آزمائش بھی قرار دیا ہے ۔ کہا گیا ہے کے تین چیزیں انسان کے لئے دنیا اور آخرت میں عذاب کا سبب بنتی ہیں ۔وہ زمین جس پر کوئی شخص نا حق قابض ہو جائے۔ ایسا مال جسے اللہ کہ راہ میں خرچ نہ کیا جائے۔اور ایسی اولاد جسے دین نہ سکھایا گیا ہو ۔اور یہی حقیقت ہے کہ جب اولاد کی تربیت نیہں کی جاتی تو ایسی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں بلکہ دل کا بوجھ بن جاتی ہے ۔تربیت کے سلسلے میں جو دو بڑی غلطیاں والدین سے سرزد ہوتی ہیں وہ ایک تو اولاد میں تفریق کرنا ہے ۔

دوسرا دینی تعلیم کو معمولی سمجھنا ہے ۔جب بات تفریق کی ہو تو زمانہ شاہد ہے کے جب معاشرے سے انصاف ختم ہوجا تا ہے تو بگاڑ شروع ہوجاتا ہے ۔نا انصافی کی وجہ سے معاشرہ ظلم و زیادتی کا گہوارہ بنتا ہے اور ایسا معاشرہ امن اور سکون کو ترستا ہے ۔یہی حال گھر کا ہے ۔والدین کو اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جسطرح باپ کی موت کہ بعد جب میراث کی تقسیم ہوتی ہے تو جائیداد میں اس اولاد کو بھی حصہ ملتا ہے جسے والدین نے اپنی زندگی میں (بےشک) عاق کیا ہو۔

یہ اللہ کا انصاف ہے جسکا صاف اور واضح مقصد یہ ہے کہ اولاد چاہے جیسی بھی ہو ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد میں تفریق سے گریز کریں ان کے درمیان مساوات عدل اور انصاف قائم رکھیں ۔اولاد میں اپنی محبت ‘توجہ ‘ شفقت برابر تقسیم کریں بلکل ایسے جیسے ایک دن عدالت نے میراث تقسیم کرنی ہے ۔ورنہ جو بچہ ماں باپ کی بے توجہی اور نا انصافی کا شکار ہو۔پھر میراث میں ملنے والی زمین اس بچہ کی نقصان کا مداوا نہیں کرسکتی۔کیونکہ جن بچوں کی تربیت نیہں ہوتی ان بے چاروں کو زندگی برتنے کا سلیقہ نیہں ہوتا۔انکی زندگی جنگلی پودوں کی مانند ہوتی ہے الجھتی بگڑتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ۔ جسے سلجھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔


دوسری غلطی جو والدین سے سرزد ہوتی ہے وہ دینی تعلیم میں لاپرواہی ہے۔جتنا نقصان کسی بھی فرد کا (کسی بھی مذہب کا) دین سے دوری پر ہوتا ہے اتنا نقصان دوسری کسی چیز نے انسان کو نہیں پہنچایا۔اپنی اور اپنی اولاد کی کامیابی کے لئے اسلامی ماحول ہر گھر کی اولین ضرورت ہے ۔اسلامی لباس اور اسلامی زبان گھر کے تہذیب کی بنیاد ہے ۔جس گھر کے مرد گالم گلوچ کرتے ہوں اس گھر کی بیٹیوں کو حیا ء اور عزت داری کے سبق نہیں پڑھائے جاسکتے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی تربیت کی بات کرتا ہے تو ہم میں اکثر لوگ تربیت کے معنی صرف بیٹی کی تربیت سمجھتا ہے کیونکہ اسے دوسرے گھر جانا ہوتا ہے ۔

اس خیال کے تحت لوگ بیٹیوں کی تربیت پر زور دیتے ہیں ۔ہم بیٹی کی لباس پر کڑی تنقید سے باز نیہں آتے۔لیکن کیا آپکا بیٹا اسلامی لباس پہنتاہے؟ ۔بیٹیوں کو کہتے ہیں ہماری عزت خراب مت کرنا مگر اپنے بیٹوں کو کالج بیجھتے وقت ہاسٹل میں ڈالتے وقت گھر سے نکلتے وقت کھبی نہیں کہتے کہ ہماری عزت خراب مت کرنا۔کسی کی بیٹی پر گندی نگاہ مت ڈالنا۔کسی کی بیٹی کے دل سے اسکے جذبات سے محبت کے نام پر مت کھیلنا ۔شادی کا جھانسا دے کر کسی بیٹی کے مجبور بے بس ماں باپ کی آہیں مت لینا۔کسی کی گمراہی کا زریعہ مت بننا۔کسی ماں کی بد دعائیں نہ لینا ۔کسی باپ کا سر مت جھکانا ۔کھبی آپ میں سے کسی نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی ہیں؟؟۔


مختصرا یہ کے تربیت پر بیٹی ہو بیٹا دونوں کا یکساں حق ہے ۔دنیاوی تعلیم تو ہماری ضرورت ہے سو ہے لیکن ضروت اس بات کی ہے کہ جو سختی سکول بیجھنے کے لئے آپ بچوں پر کرتے ہیں وہی سخت رویہ نماز اور قرآن پاک پڑھنے کے لئے بھی رکھی جائے۔سکول سے اچھی پوزیشن نہ لانے پر جو سزا آپ اپنے بچے کے لئے مقرر کرتے ہیں نماز قضاء کرنے پر بھی بچے کو سزا دی جائے۔دینی اور دنیاوی تعلیم ملکر ہی انسان کو زندگی کا سلیقہ سکھا سکتے ہیں۔ ورنہ بے تعلیم اولاد عمر کے آخری حصے میں بھی اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار اپنے ان والدین کو ٹھراتی جاتی ہے جن کے قبروں کے نشان تک دنیا سے مٹ چکے ہوں۔آپکو شاید حیرت ہو مگر دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو عمر کے چالیس پچاس بہاریں دیکھ چکیں ہیں لیکن جب بھی کوئی غلطی کرتے ہیں تو اسکا ذمہ دار اپنی بوڑھی والدین کو ٹھرا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

یہ تحریر ان لوگوں کو تقویت دینے کے لئے بلکل نہیں لکھی گئی ۔اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے۔کہ جن لوگوں کو اولاد کی نعمت حاصل ہے اور وہ تربیت کے قابل ہیں کمسن ہیں تو ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی تمام تر توجہ انکی تربیت پر لگادیں۔اور انہیں اپنی دنیا میں راحت اور آخرت میں نجات کا زریعہ بنادیں۔باقی پچاس سالہ جاہل بچوں کو میں اتنا کہوںگی کہ حقوق کی جنگ کا اتنا فائدہ نہ اٹھائیں کہ بوڑھے والدین کو تمام عمر کٹہرے پر ہی کھڑا کردیں۔اللہ نے اولاد کو اتنے حقوق نہیں دئیے جتنا حق والدین کو دیا ہے ۔ اگر آپکے والدین آپکا حق ادا نہیں کرسکے تو اللہ نے آپکو علم عقل اور دماغ سے محروم تو نہیں رکھا ؟اللہ تمام والدین کے لئے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے۔آمین

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , ,
51329

خوش قسمتی اور بد قسمتی کا فیصلہ ۔ گل عدن

خوش قسمتی اور بد قسمتی کا فیصلہ

  بعض اوقات سالوں سے سمجھ نہ آنیوالے سوالوں کے جواب اچانک کسی ایک لمحے میں آپکو سمجھ آجاتے ہیں ۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔دراصل بچپن  سے میں ہمیشہ سے سوچتی آئی ہوں کہ آخر یہ خوشقسمت یا بد قسمت لوگ کون ہیں ۔ کھبی کوئی کہتا ہے دولت کا ہونا خوش قسمتی ہے تو کوئی غربت کو بد قسمتی قرار دیتا ہے مگر میں کھبی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔جتنا سوچتی اتنا الجھتی۔مجھے قسمت کو ماپنے کے لئے دولت حسن نام پیسہ جیسے معیار بہت سطحی لگتے رہے ۔

آخر ان میں کونسی ایسی چیز ہے جو ہمیشہ کے لئے آپکے پاس رہ جاتی ہے۔صحت دولت حسن اور حتی کہ غربت بھی کوئی بھی شے ہمیشہ رہ جانے والی نہیں ہے ۔وقت کسی کے لئے بھی ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتاپھر آپ کیسے کسی کو خوش قسمت اور بد قسمت کا خطاب دے سکتے۔؟شاید معاشرے میں پھیلی بے ہنگم انتشار کو دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ وہ ہیں جنہیں “قناعت” کی “دولت ” حاصل ہے ۔ جی ہاں قناعت ہی وہ دولت ہے جو انسان کی ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے ۔اور ذہنی سکون سے بڑھ کر انسان کو اور کیا چاہئے ؟۔

یہ قناعت ہی ہے جو آپکی نظر کو آپکے اپنے ہی نوالے پر رکھتا ہے ۔آپکی نظر کی حفاظت کرتا ہے ۔  تبھی آپکو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کی قدر ہوتی ہے ۔اور آپ شکر گزار بندوں کے لسٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف قناعت سے محروم وہ بدبخت لوگ ہیں جنکی نظر ہمیشہ دوسروں کے نوالے پر رہتی ہے ۔جسکی وجہ سے اسکا اپنا نوالہ کھبی اسے مزہ نہیں دیتا بلکہ اسکے گلے کا پھانس بن جاتا ہے ۔ایسے شخص کا سکون برباد ہوجاتا ہے ۔جلنا کڑھنا اسکا مقدر بن جاتا ھے۔نہ کسی کی خوشی اس سے برداشت ہوتی ہے نہ کسی کا سکون۔ہم میں ایسے بہت لوگ ہیں جو خاندان یا پڑوس میں کسی کی سفید پوشی کو خوب جانتے ہیں ۔انکی مصائب اور ضرورتوں سے باخبر ہوتے ہوئے بھی نظریں چرائے انجان بنے رہتے ہیں مگر جونہی انکے گھر تھوڑی خوشحالی آنے لگتی ہے ہماری توجہ فورا انکے جانب ہوجاتی ہیں پھر وہ ہر وقت ہماری حریص نظروں کے حصار میں رہتی ہیں کہ جب تک ہم انہیں اپنی بد نظری کا شکار نہ کرلیں۔نجانے کیوں ہمیں دوسروں کی سالوں کی محتاجی مشقت تنگدستی نظر نہیں آتی اور آسائشیں چار دن میں نظر آجاتی ہیں۔

ہم دراصل بڑے حریص لوگ ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہاتھ ہمیشہ دینے والا ہو اور دوسروں کا ہمیشہ بس لینے والا ہاتھ رہے۔ہم اتنے تنگ دل کیوں ہیں کہ کسی کہ چار پیسے کسی کا بڑانڈد سوٹ کسی کا آرام و آسأش ہمیں بے چین کردیتا ہے ؟ہم اتنے گرے ہوئے اتنے کم ظرف کیوں ہوگئے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ ہم کسی کو خود سے ایک قدم آگے کھبی برداشت نیہں کرسکتے؟۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ قناعت امیر کے لئے بھی اور غریب کے لئے بھی دو جہاں میں عزت کا باعث بنتا ہے ۔جتنی جلدی ہوسکے اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ  ہر انسان اس دنیا میں اپنا رزق لیکر آتا ہے ۔

اپنے حصہ کی خوشیاں سمیٹتا ہے  اور اپنے حصہ کے غم اٹھاتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔کوئی بھی ہم سے ہمارے حصہ کی خوشیاں نہیں چھین سکتا۔نہ ہم چاہ کر بھی کسی سے اسکا نصیب چھین سکتے ہیں۔اگر آپکو لگتا ہے کوئی مفت میں بیٹھ کر کھا رہا ہے تو اگر وہ مفت میں بھی کھا رہا ہے تو یقین کرے وہ اپنا ہی رزق کھا رہا ہے اسے اللہ تعالی کھلا رہا ہے آپ اللہ کے انتظام پر کس جرأت سے انگلی اٹھا رہے ہیں؟؟۔ ۔اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اور ہم سب اللہ کی تقسیم کو تسلیم کرلیں۔اسکی رضا میں راضی ہوجائیں۔ جتنا آپکو ملا ہے اس پر صبر اور شکر کرلیں۔

ممکن ہے کہ اللہ کو آپکا قناعت پسند آجائے اور اللہ آپکو اس سے زیادہ عطاء فرمائے۔شاید ایسے ہی حالات کے پیش نظر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے تم اس شخص کی طرف دیکھو جو (دنیاوی اعتبار سے ) تم سے کم تر ہو ۔اور اس شخص کیطرف مت دیکھو جو (دنیاوی اعتبار سے ) تم سے بڑا ہو ۔کیونکہ اسطرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے ۔” بات بہت سادہ ہے کاش ہمیں سمجھ آجائے۔چاہے آپ امیر ہیں یا غریب جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھا ئیں تو اپنے لئے عزت دولت شہرت صحت اور خوشیوں کے ساتھ ساتھ “قناعت” کی دولت مانگنا مت بھولیے گا کیونکہ قناعت سے محرومی امیروں کو حریص بنا دیتا ہے اور غریب کو رسوا کر دیتا ہے ۔اسی لئے قناعت کا حاصل ہونا ہر ایک کے لئے دونوں جہاں میں عزت کا باعث ہے ۔

نوٹ :یہ تحریر خاص طور پہ خواتین کے لئے ہے بغیر معذرت کے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
50629

ہر خودکشی کرنیوالے کا ایک قاتل ہوتا ہے! – گل عدن

ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کا کوئی قاتل بھی ہوتا ہے ۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے اور میں نے اپنی محدود سمجھ کے مطابق اس قتل کے ذمہ داروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ یہ میری رائے ہے ایک فرد واحد کی حثیت سے۔قارئین کا مجھ سے اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ۔


اب ہم اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں ۔اس جرم کے حصہ داروں میں پہلا نام والدین کا آتا ہے ۔میں والدین کو قاتل تو نہیں کہتی مگر جو والدین اپنی اولاد میں تفرقہ کرکے انہیں ذہنی امراض میں دھکیل دیتے ہیں’جو اپنی اولاد کو حلال اور حرام میں ‘سہی اور غلط میں تمیز نہیں سکھا پاتے’ جو اولاد کے معصوم ذہنوں میں رشتے داروں کے خلاف زہر بھرتے ہیں ‘جو اولاد کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں’جو اپنے بچوں کی صحبت پر نظر نہیں رکتھے اور اونچ نیچ ہونے کی صورت میں اپنی اولاد کی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرا کر اپنی اولاد کو ہمیشہ ہر جرم سے بری الزمہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ایسے والدین کو میں خودکشیوں کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ یاد رہے اولاد کی حق میں والدین کا بہترین عطیہ انکی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔

یہاں آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خودکشی کرنے والے کہ ذہن میں بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد کسی مخصوص فرد یا کچھ مخصوص رشتوں کو دنیا کے سامنے اپنی موت کا ذمہ دار دکھانا ہوتا ہے یا کسی کو اسکے برے سلوک کا احساس دلانا یا اپنی ہر بایعنی ضد کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔اب آپ مجھے بتایئں کیا ایسی سوچ ایکدم سے دماغ میں آتی ہے ؟؟نہیں !!یہ سوچ ہمارے اندر بچپن سے پروان چرھتی آرہی ہے ۔جب گھر میں بیٹے کی سگریٹ پینے کی شکایت موصول ہوتی ہے یا سکول سے بچوں کی نالائقی کی شکایت آتی ہے تو کیسے ہماری مائیں ہر چیز کا ذمہ ہمارے دوستوں پر ڈال دیتی ہیں۔ہمارے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ہم جب جب کچھ غلط کریں گے تو اسکا قصوروار ہم سے زیادہ ہمارے دوست ہونگے۔ ۔

بس ایسا دیکھتے دیکتھے ہم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کے جاتے جاتے اپنی موت کی ذمہ داری بھی کسی کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اپنا کیا دھرا دوسروں کے سر پر ڈالنے کی ہماری گندی عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ 2:خودکشی کرنے والے کا دوسرا قاتل “گھر کا ماحول ” ہے ۔ایک کہاوت ہے کہ ایک گندی مچلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔گھر میں اگر ایک شخص بخیل ہے تو علاقے میں کنجوس گھرانہ آپکا تعارف بن جاتا ہے ۔ گھر میں ایک فرد اگر پیشانی پر بل ڈال کر مہمانوں سے ملتا ہے تو باقی تمام اہل خانہ کی مہمان نوازی خاک میں مل جاتی ہے ۔

گھر کا ماحول بنانے میں تو سبھی گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر بنے بنائے ماحول کو بگاڑنے کے لئے ایک فرد کافی ہوتا ہے ۔اس اک فرد کو جسے آپ کسی بھی طرح خوش یا مطمئن نہیں کر پارہے ہیں ۔ جو آپکی نہ خوشی دیکھتا ہے نا غم۔جو چاہتا ہے کہ پورا گھر بس اسکے مسائل میں الجھا رہے ۔اور جسکی پریشانیاں مسائل بیماریاں کسی صورت ختم نہیں ہورہیں اس شخص کو ذہنی امراض کے ماہرین سے ملوانے کی ضروت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو ذہنی مریض کھبی تسلیم نہیں کرتے۔اور کسی صورت اپنی علاج پر راضی نہیں ہوتے۔لیکن ایک ذہنی مریض کو جانتے بوجھتے اسکے حال پر چھوڑ دینا اسے قتل کرنے کے برابر ہے۔بلکہ ایک فرد کا دماغی علاج نہ کرنا پورے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پاگل خانہ بنا دینے کے مترادف ہے ۔

یاد رہے ذہنی اذیت جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور قابل رحم ہوتے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کے ہر کوئی ماہر نفسیات تک رسائی نہیں رکھتا ہے لیکن اگر آپکے گھر کا کوئی فرد ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ اسکے ساتھ ہمدردی کا رویہ رکھیں۔اپنے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کا ثبوت دیں اور اسے ” پاگل” کے خطاب سے نہ نوازیں۔ 3خودکشی کرنے والے کا تیسرا اور سب سے بنیادی ذمہ دار (قاتل ) خودکشی کرنے والا خود ہوتا ہے۔ ۔باوجود اسکے کہ ہمیں اچھے والدین نہیں ملے۔ ۔باوجود اسکے کے ہمیں بدترین خاندان ملا ۔بہت برے رشتہ دار ملے۔باوجوداسکے کے کسی کو ہم سے ہمدردی نہیں ‘محبت نہیں ۔ ہمیں کچھ بھی حسب منشا نہیں ملا ۔ ۔

باوجود اسکے کے ہمیں ہر قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کوئی ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔باوجود اسکے کے کہ ہم بہت بدصورت ہیں ۔غریب ہیں ۔مصائب کا سامنا ہے ۔ہار گئے ہیں ۔ازیت میں ہیں ۔کوئی چھوڑ کر جا چکا ہے کسی کو چھوڑنا پڑ رہا ہے ۔اس سب کے باوجود کوئی وجہ اس قابل نہیں ہے جو “خودکشی” کے لئے “کافی”ہو جائے۔ بڑی سے بڑی وجہ اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی “زندگی “جیسے قیمتی تحفے کو جو اللہ رب العزت کی ذات نے ہمیں عطاء کی ہے’ کو ٹھکرانے کے آگے چھوٹی پر جاتی ہے ۔ جب خالق کی ذات اتنی مہربان ہوسکتی ہے کہ ہماری گناہوں سے تر زندگی کو ایک اشک ندامت پر معاف فرمادے تو ہم کون ہوتے ہیں خود کو یا دوسروں کو سزا دینے والے۔اور یہ کہاں لکھا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے ہر میدان میں کامیاب ہونا شرط ہے ؟

کس نے کہا کے دنیا صرف خوبصورت لوگوں کے لئے ہے ؟یا اہم ہونا زندگی کی شرط ہے ؟ کس نے آپ سے کہا ہے کہ اچھی زندگی کہ لئے خاص ہونا’امیر ہونا’پسند کی زندگی گزارنا شرط ہے ؟ یہاں تو پھول بھی کانٹوں کے بغیر نہیں اگتے پھر آپکو کیوں نہیں دکھتا کہ ہر شخص باوجود خوبصورت ہونے کے’ کامیاب ہونے کے ‘ بے تحاشہ دولت مند ہونے کے پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے ۔آپکو محبوب نہ ملنے کا غم ہے اور کچھ لوگ محبوب کو پاکر غمگین ہیں ۔کوئی ہار کر غمزدہ ہے کسی کو جیت مزہ نہیں دے رہی ہے۔امیر غریب پہ رشک کھا رہا ہے ۔غریب امیر کو دیکھ کے آہیں بھرتا ہے۔ آپ کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہ سکتے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فیصد خوش یا مطمئن ہے زرا سوچیں آپکی آنکھوں پ بندھی پٹی محبت کی ہے یا کم عقلی کی۔خودترسی سے جتنی جلدی ہوسکے باہر آجائیں۔ضرورت یہ جاننے کی ہے کہ اگر دنیا کے سارے لوگ مصائب کا تو شکار ہیں مگر سارے لوگ تو خودکشی نہیں کر رہے ہیں ۔

کیوں؟ کیونکہ سارے لوگ بزدل اور بے وقوف نہیں ہیں۔ کیونکہ پسند کی شادی نہ ہونا’افسر نہ بننا ہر دلعزیز نہ ہونا اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ آپ اپنی موت کو ہی گلے لگالیں۔مجھے ان لوگوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وقت انہیں کچھ سال پیچھے لے جائے تاکے ان سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں وہ ان سے بچ نکلیں۔آپ دس سال پیچھے جا کر غلطی سدھار آئیں لیکن اس بات کی کیا گاڑنٹی ہے آپ دس سال بعد یا موجودہ وقت میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں ؟؟ جبکہ انسان تو خطاء کا پتلا ہے ۔غلطیوں کو سدھارنا یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرلیں۔اس سے سبق حاصل کریں۔اور انہیں بار بار دہرا کر اپنی عادت نہ بنائیں۔


اور پسند کی شادی نہ ہونا محبوب کا آپکو چھوڑ دینا یا اپنی والدین کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی سے دستبردار ہونا کوئی اتنی بڑی قیامت نہیں ہے کہ جسکے بعد آپکی زندہ رہنے کی وجہ ختم ہوجائے۔مثال کے طور پر جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکے اپنے کس دل سے اسے منوں مٹی تلے دفنا کر اپنے گھر اور دنیا کیطرف لوٹ آتے ہیں۔اس میں یہی ایک سبق ہے ہماری زندگی کی تمام معاملات کو لیکر ۔جسطرح مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔اگر آپ اپنے ہی جان چھرکنے والے ماں باپ کو بہن بیٹی بھائی یا کسی بھی عزیز کو مٹی کے حوالے کرکے واپس دنیا کی طرف لوٹ سکتے ہیں کھا پی سکتے ہیں ہنس بول سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایسے ہی آپ کسی بھی خواہش خوشی اور فرد کے بغیر زندہ اور خوش باش رہ سکتے ہیں۔

دنیا کی کوئی بھی چیز رشتے اور تعلق آپکی زندگی کی ضمانت نہیں ہیں بلکہ صرف آپکی آزمائش ہیں۔اور ہاں ایک بات اور آپکو کیوں لگتا ہے کہ خوش رہنا ہی زندگی ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنے غموں محرومیوں اور ناکامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نام ہی زندگی ہے اور یہ سب ایسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کہ ہر معاملے کو رب کی رضا جان کر اس میں راضی رہ کرصرف صبر اورشکر سے ہماری زندگیاں آسان ہوسکتی ہیں ۔ اللہ ہمارا مدد گار ہو۔آمین
پرھنے اور سمجھنے والوں کا بے حد شکریہ

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , ,
50204

مسجد اقصی…..گل عدن

خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے لئے تیسرا مقدس ترین مقام بیت المقدس یعنی مسجد اقصی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد جس مسجد کی طرف سفر کی اجازت دی گئ ہے وہ مسجد اقصی ہے۔یہ وہ پاکیزہ مقام ہے جسکا ذکر قرآن میں آیا۔قرآن میں اک جگہ اسکا یوں ذکر ہے کہ ” پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کی سیر کرائی۔جسکے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔” معراج کی رات آپؐ (ص) کے سامنے براق لایا گیا جس پر آپ ص سوار ہوئے اور مسجد حرام پھر طور سینا سے ہوتے ہوئے جہاں حضرت موسی علیہ سلام سے ہم کلام ہوۓ بیت المقدس پہنچے ۔جہاں حضرت آدم علیہ سلام سے لیکر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیأکرام آپ ص کے منتظر تھے ۔

اس رات بیت المقدس کو اللہ کی طرف سے عزت و تکریم اور اللہ کی خاص برکت نےمسجد کا احاطہ کیا ہوا تھا ۔اس سے پہلے بھی یہ مسجد زمانہ قدیم سے ہی خاص اہمیت کا حامل رہا ہے یہ دنیا کی قدیم ترین اور یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں بیک وقت نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔اور یہ یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے یکساں طور پے باعث عزت اور قابل احترام ہے ۔یہاں حضرت سلیمان کامزار تخت داؤد بھی ہے ۔اور حضرت عیسی علیہ السلام کی دینی کاوشوں کے ان گنت نشانات ہیں ۔انکے علاوہ بھی حضرت انبیأکرام اور دیگر مصلحین کے یادگار اس پاک مقام میں موجود ہیں۔

اس حساب سے مسجد اقصی مسلمانوں کا عظیم ورثہ اور زمین پر اللہ کی مقدس ترین امانت ہے جسکی حفاظت ہر مسلمان پر واجب ہے ۔اسکی بے حرمتی ہر مسلمان کی ایمان کا امتحان ہے ۔اسکا نقصان پورے عالم اسلام کا نقصان ہے ۔مگر اللہ کی شان ہے کہ اللہ کی زمین میں اللہ کا گھر جل رہا ہے مگر اللہ کے بندے اسرائیل جیسے غلیظ ملک سے ملکی دنیاوی مفادات کی خاطر دوستی کا ہاتھ بڑھاکر ان شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں ۔چند واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے والے اقوام عالم آج اسرائیل کی اس کھلم کھلا دہشت گردی پر خاموش مسلمانوں کی بے بسی کا لطف اٹھا رہا ہے اور یہ سلسلہ تو سالوں سے جاری ہے ۔فلسطین کی بے بس قوم کشمیر کے اور برما کے مسلمان اور بلکل پڑوس میں افغانستان کے مسلمان تو نجانے کب سے اپنوں کی بے حسی اور کافروں کی بے رحمی کی عظیم آزمائش سے نبرد آزما ہیں

ہم صرف انکے حوصلے کی بلندی کی دعا کر سکتے ہیں۔کیوںکہ ہم بحثیت مسلمان اتنا کمزور ایمان رکتھے ہیں کہ ٹماٹر یا پٹرول مہنگا ہونے پر تو ہم احتجاج کے نام پر قانون اور انسانیت کی دھجیاں اڑادیں گے لیکن جب جہاد اور جنگ کا خطرہ نظر آۓ کوئی بڑی سے بڑی تباہی ہو جائے تب ہم دو بلین مسلمان بجائے کفن سر پے باندھنے کے ہم 57 ممالک کی چند ہزار آقاؤں کی طرف دیکتھے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں ہماری آقائیں وقتی طور پر مصالحت کی کوئی راہ نکال لیں گے ۔وہ بھی آقائیں گذرے جن کے پاس وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی بصورت جنگ جو کہتے تھے کہ جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے۔اور آج ہمارا ملک اور ہم جیسے 56 دوسرے اسلامی ریاستیں وسائل کے ہوتے دنیا کی بہترین فوج رکھتے ہوئے بھی ایٹمی طاقت رکتھے ہوئے بھی جنگ سے گریزاں ہیں تو کیوں ہیں؟ کیونکہ ہمارا ایمان کمزور ہے ۔ہمیں اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف پر تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔

ابھی نندن کو چائے پلانے کا واقعہ ابھی اتنا پرانا نہیں ہوا جب ہمارے حکمران اپنی اس بزدلانہ فعل کو رسول پاک ص کے صلہ رحمی اور معاف کرنے کے اس عظیم واقعہ سے ملا تے رہے کہ جب ایک کافر آپ ص کو نیند میں پاکر آپ ص کی جان لینے کی کوشش کرتا ہے ۔اتنے میں آپ ص کی آنکھ مبارک کھل جاتی ہے اور وہ کافر اپنی جان کو خطرے میں پا کر خوف سے تھر تھر کانپنے لگتا ہے۔مگر حضورپاک ص اسے معاف فرمادیتے ہیں جس سے متاثر ہو کر وہ اور دوسرے کہیں کافر اسلام میں داخل ہوجاتے ہی۔ اور یہاں کیا ہوا ابھی نندن بھارت کے حوالے کردئا جاتا ہے مگر مودی سرکار مسلمان تو کیا ہوتے الٹا پورا سال بھارتی فوج باردڈ پر مسلمانوں کی زندگی مشکل تر کر نے کی کوشش میں اضافہ کرتے ہے ۔وجہ صرف اتنی تھی کے وہ کافر جانتا تھا کے رسول پاک چاہتے تو اسکا سر تن سے جدا کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا ۔اور یہ کافر ابھی نندن جانتا تھا کے ہم اپنی مفادات بزدلی اور بے غیرتی کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کے چاہ کر بھی اسکا سر نہیں اڑا سکتے تھے۔اسی لیے تو جسکا جی چاہتا ہے وہ نبی کی شان میں گستاخی کرتا ہے ۔جسکی مرضی مدرسووں میں خودکش دھماکے کرواتا ہے۔آئے روز گستاخئ رسول کے واقعات تمام اسلامی ممالک سمیت ان کفار ممالک کے منہ پر بھی طمانچہ ہیں جو دنیا کو امن اور اخلاقیات کا درس دیتے نہیں تھکتے۔

کشمیریوں فلسطینی مسلمانوں پر اس ظلم میں سبھی مسلمان شامل ہیں ۔مسجد اقصی سالوں سے عالم اسلام کے سامنے اک سوالیہ نشان ہے ۔فلسطین جو امن کا شہر کہلاتا ہے مگر یہاں کے باشندوں کو امن اور سکون کھبی بھی نصیب نہیں ہوسکا۔یہ مقدس شہر تو کہیں بار اجڑ گیااور کہیں بار دوبارہ بسایا گیا۔جسکا شمار ناممکن ہے ۔یہ سنہرا رنگ والا مسجد ہزار بار اپنی بے حرمتی جھیل چکا ہے ۔اسکی معتبر دیواریں معصوم جانوں کی بے قدری کی گواہ ہیں اور یہ مقدس زمین ہزاروں بے گناہوں کا خون اور آنسو اپنے دامن میں جذب کر چکا ہے ۔

یہ زردی مائل رنگت لاکھوں آزردگیاں سہ چکا ہے ۔لیلۃ القدر کی یہ رات گواہی دے گی کہ جس اللہ نے ہمیں 57 اسلامی ممالک اور دو بلین سے زائد مسلمانوں کو عزت آرام اور عیش و عشرت کی زندگی عطاء کی وقت آنے پر ہم اس اللہ رب العزت کے گھر کی حفاظت نہیں کرسکے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
48265