گلگت بلتستان میں حفاظتی ٹیکوں، غذائیت، ماں اوربچے کی صحت سے متعلق مشاورتی اجلاس کا انعقاد
گلگت بلتستان میں حفاظتی ٹیکوں، غذائیت، ماں اوربچے کی صحت سے متعلق مشاورتی اجلاس کا انعقاد
گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ ) آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان نے غذائیت میں بہتری، حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام اور ماں اور بچے کی صحت کے لیے استور، گلگت بلتستان میں سرکاری اور نجی شراکت داروں کے لیے ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا۔
ڈاکٹر سلیم الدین ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ گلگت بلتستان تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ اجلاس میں ڈاکٹر شکیل احمد ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز دیامر استور، ضلع گلگت، استور اور دیامر کے ڈی ایچ اوز اور پرائیویٹ اداروں بشمول ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ورلڈ فوڈ پروگرام، آغا خان فاؤنڈیشن اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام پاکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔
آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان ماؤں اور بچوں کی صحت، حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت کو بہتر بنانے کے لئے گلگت بلتستان اور سندھ کے اہم علاقوں سمیت قومی سطح پر اس مربوط حفاظتی ٹیکوں اور غذائیت میں بہتری کے پروگرام پر عمل درآمد کر رہی ہے۔
منتخب اضلاع میں دیامر، استور اور گلگت گلگت بلتستان میں اور سندھ میں ٹھٹھہ اور سجاول شامل ہیں۔ اس پروگرام پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں، آغا خان فاؤنڈیشن اور آغاخان یونیورسٹی کے درمیان قریبی شراکت داری میں عملدرامد کروایا جا رہا ہے۔اس پروگرام کو گاوی – دی ویکسین الائنس، دی پاور آف نیوٹریشن، اور آغا خان فاؤنڈیشن پاکستان کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جا رہی ہے۔
ڈی جی ہیلتھ گلگت بلتستان نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا، گلگت بلتستان کے دشوار گزار علاقوں میں غذائی محرومی سے متاثر بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، ان دور دراز علاقوں میں حفاظتی ٹیکوں، زچگی سے پہلے، پیدائش کے بعد اور غذائیت سے متعلق ت خدمات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی بھی کم ہے۔ ایک مربوط لائحہ عمل اپنانے سے ہمیں گلگت بلتستان کے پسماندہ اضلاع میں صحت کے ان چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے، آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر، ندیم عباس، نے کہا”ا س پروجیکٹ کا مقصد باہمی تعاون کے ذریعے، پاکستان میں صحت کے نظام کومضبوط بنانا اور کمیونٹیز کو تیار کرنا ہے، تا کہ بچوں کی اموات کو کم کیا جا سکے اور ماوں اور بچوں کی صحت کو بہتر بنایا جاسکے۔“
پاکستان کو بچوں کی صحت، غذائیت اور حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان بچوں کی سب سیزیادہ اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک اور دنیا بھر میں سب سے کم حفاظتی ٹیکوں والے بچوں (تقریبا 1.2 ملین) کے لحاظ سے بھی تیسرے نمبر پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں تولیدی عمر کی ایک لاکھ سے زائد خواتین اور پانچ سال سے کم عمر کے 80 ہزار بچے اس پروگرام سے مستفید ہوں گے۔