Chitral Times

کلیات ڈاکٹرانعام الحق جاوید – مسکراہٹوں کے پھولوں کا گلدستہ – میری بات/روہیل اکبر

Posted on

کلیات ڈاکٹرانعام الحق جاوید – مسکراہٹوں کے پھولوں کا گلدستہ – میری بات/روہیل اکبر

 

شاعری وہ بھی کمال کی اور پھر سونے پہ سہاگہ مزاحیہ شاعری ہر کوئی نہیں کرسکتا یہ اللہ تعالی کا اپنے ان خاص بندوں پر اپنا خاص کرم ہوتا ہے جو اللہ کی مخلوق کو اپنے لفظوں سے صرف مسکرانے پر ہی نہیں بلکہ کھل کھلا کر ہنسنے پر مجبور کردیتے ہیں ایسے ہی قہقہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسانی جسم کے اندر 257 رگوں میں دوڑنے والا خون کئی گنا بڑھ جاتا ہے افسردہ چہروں پر خوشیوں کی لالی بکھیرنے والے ہر دور میں ہی نایاب رہے ہیں اورایسے لوگ کروڑوں میں ایک ہوتے ہیں آج کے دور میں بھی اگر مزاحیہ شاعری کرنے والوں کو ڈھونڈیں تو 25کروڑ کی آبادی میں ہمیں 25شاعر نہیں ملیں گے جن کی شاعری کو پڑھ اور سن کر لوٹ پوٹ ہوا جاسکے ہمارے پاس آج اگر مزاحیہ شاعری والے خوبصورت لوگ موجود ہیں تو ہمیں انکی عزت،قدر اور اخترام کرنا چاہیے انہیں وی وی آئی پی کا درجہ دیا جائے اور زندگی کی ہر نعمت انہیں مفت فراہم کی جائے انہیں فکر معاش سے الگ کرکے صرف عوام کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے رکھ لیا جائے ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں ان گنے چنے افراد سے مشاعرے کروائیں جائیں اور اس کام کی سرپرستی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے سپرد کردی جائے ویسے تو ہمارے ہاں مسکراہٹیں بکھیرنے والے جناب انور مسعود،سلمان گیلانی،خالد مسعود،احمد سعید،عطاء الحق قاسمی،شفقت اللہ مشتاق اورسید ضمیر جعفری بھی موجود ہیں لیکن ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایسے خوبصورت اور پیارے انسان ہیں کہ جوملک بھر کے مزاحیہ شاعروں کاایک ایسا گلدستہ بنا سکتے ہیں جسکی ہر پتی سے قہقہوں کا طوفان انگڑائی لیتا ہوا نمودار ہوگا

 

 

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی خاص خصوصیت ضرور ہوتی ہے جو اسے دنیا بھر کے انسانوں سے جدا کردیتی ہے لیکن وہی بات انسان کی سمجھ میں نہیں آتی لیکن جن کو سمجھ آجاتی ہے پھر وہ اپنی نوعیت کے ایسے واحد انسان بن جاتے ہیں جو ہر جگہ نمایاں نظر آتے ہیں ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی انہی نمایاں انسانوں میں نمایاں ہیں جن پر اللہ تعالی کی خاص کرم نوازی ہوتی ہے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی شاعری بھی کمال کی شاعری ہے اور انہوں نے اپنے 8 مزاحیہ شعری مجموعوں کی ایک ہی کتاب کلیات ڈاکٹر انعام الحق جاوید بنا ڈالی میں سمجھتا ہوں کہ آج وہ دور چل رہا ہے جہاں صرف سلیبس کی کتابیں ہی پڑھی جاتی ہیں

 

باقی کتابیں صرف الماریوں میں شوشا کے لیے رکھی ہوئی ہیں کہ لوگ جب انہیں دیکھیں تو واہ واہ کریں کہ کیا خوبصورت لائبریری بنا رکھی ہے آج کے والدین بچوں کو کہانیوں والی کتابیں،رسالے،میگزین اور اخبار لاکر دیتے ہیں تو بچے پڑھتے نہیں جب ہمارا بچپن تھا تو ہم گھر والوں سے چوری اور چھپ کر کہانایاں پڑھا کرتے تھے لائبریریوں سے کرایہ پر جاسوسی ناول،تاریخی کہانیاں،ڈائجسٹ،عمران سیریز،ٹارزن،عمروعیار اور مسٹری میگزین لاکر جلدی جلدی ختم کرنے کا بھوت سوار ہوتا تھاساتھ میں لائبریری کے کرائے اور پکڑے جانے کا ڈر بھی لیکن اب کتب بینی ختم ہوچکی ہے سوشل میڈیا کا دور شروع ہوچکا ہے اور دنیا بھی سمٹ کر ایک 6انچ کے موبائل میں آگئی ہیں ہمارے لکھاریوں،شاعروں اور ادیبوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا فن اب سوشل میڈیا کی زینت بنائیں تاکہ کروڑوں اربوں لوگوں تک انکا پیغام پہنچ سکے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم ان نایاب ہیرے جیسے لوگوں کو روزگار کی تلاش سے آزاد کرینگے یہ کام حکومت کرسکتی ہے لیکن اسے اس وقت عوام کی ہنسی سے کوئی سروکار نہیں وہ تو اپنی عیاشیوں کے لیے عوام کی گردن دبوچے اسے نچوڑ کر آخری قطرہ خون تک نکالنے میں مصروف ہے

 

ان سے کوئی امید بھی نہیں ہے ہاں اگر ہمارے ملک کے 25امیر ترین لوگ ان 25مزاحیہ شاعروں کا خرچہ اٹھا لیں تو پھر روتے ہوئے چہروں پر ہنسی کے پھول بھی کھل سکتے ہیں اور اس کام کے لیے ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے بہتر کوئی نہیں ہاں اگر اس دور کے ولی،خوبصورت اور پیارے انسان محی الدین وانی بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شامل ہوجائیں تو اس گلدستے کی تازگی تادیر قائم رہے گی محی الدین وانی عوام کے دکھ اور درد کو سمجھتے ہیں وہ حکومتی فضول خرچیوں کے بھی خلاف ہیں اسی لیے تو انہوں نے گلگت بلتستان کی سرکاری گاڑیوں پر واضح الفاظ میں لکھوا دیا تھا کہ یہ عوام کے پیسوں سے چلتی ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے میرے کالم جسکا عنوان تھا اٹھو رندو پیو جام قلندر پر برجستہ لکھ بھیجا۔
ساقیاتو نے مے خانے کا کیا حال کیا
رند اب محتسب شہر کے گن گاتے ہیں
جسکے جواب میں میں نے بھی انہیں لکھ بھیجاکہ
محتسب شہر تو کمال کا رند تھامگر
مے خانہ ہی اجڑ گیا تیرے بعد

 

محی الدین وانی اگر ڈاکٹر صاحب کی معاونت کا فیصلہ کرلیں تو مزاحیہ شاعری کا سلسلہ پروان بھی چڑھے گا اور عوام بھی اپنے دکھوں پر مسکرا اٹھے گی ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی اس دور کا ولی ہے جن سے ملنے کے بعد انسان کی آدھی پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں باقی آدھی انکی شاعری سن کر بھاگ جاتی ہیں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا ہر شعر پڑھ کر ایسے لگتا ہے جیسے ابھی کی بات ہو ڈاکٹر فرماتے ہیں
جو بولتی ہے اسے چپ کرکے ڈنڈے سے
جو بول ہی نہ سکے وہ عوام پیدا کر
ہے صدر بننے کی خواہش تو جوڑ توڑ کے ساتھ
نگاہ نگاہ بش میں بھی اپنا مقام پیدا کر
ایک اور کمال کا شعر ملاحظہ فرمائیں
دو نشستوں پر کھڑا تھا تین سے جیتا ہے وہ
ووٹ بھی اس نے لیے ہیں لاکھ میں سے ڈیڑھ لاکھ

 

ڈاکٹر صاحب نے اپنی لازوال مزاحیہ شعری کتابوں خوش بیانیاں،لایعنی،بل آخر،بدحواسیاں،کوئے ظرافت،خوش کلامیاں،تبسم طرازیاں اور رانگ نمبرکو ایک ہی کتاب کلیات ڈاکٹر انعام الحق جاوید بنا کر آنے والی نسلوں کے چہروں پر بھی خوشیاں بسانے کا انتظام کردیا ڈاکٹر صاحب کی شاعری ہر عمر کے لوگوں کے لیے یکساں مفیداور تیز اثر ہے ڈاکٹر صاحب بزرگوں،نوجوانوں اور خواتین کے پسندیدہ شاعر تو ہیں ہی ساتھ میں بچے بھی انکی شاعری مزے لے لے کر پڑھتے ہیں میرا بیٹا محمد ریان جو 5ویں کلاس میں پڑھتا ہے اسے بھی ڈاکٹر صاحب کے بہت سے شعر سخت پسند ہیں جو مجھے سنا کر لطف اندوز ہوتا ہے ان میں خاص طور پر یہ شعر
کیا بتاؤں کہ اس سے ہے میرا
آجکل صرف اس قدر ناتا
جب میں جاتا ہوں وہ نہیں ہوتا
جب میں ہوتا ہوں وہ نہیں ہوتا

 

اس شعر کے بعد تو مجھے یوں لگتا کہ اس شعر کو ڈاکٹر صاحب نے میرے لیے ہی لکھا ہے وہ اس لیے کہ جب میں رات کو گھر جاتا ہوں تو بچے سو سکے ہوتے ہیں جب وہ سکول جاتے ہیں تو میں سویا ہوتا ہوں اور پھر جب وہ سکول سے آتے ہیں تو میں اس وقت گھر سے دفتر جانے کے لیے تیاری پکڑ رہا ہوتا ہوں بچوں کی خوشی کے لیے مجھے بھی اس شعر کو زبردستی پسند کرنا پڑتا ہے خیر یہ تو میرا ذاتی اختلاف ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے شعروں میں نہ صرف مزاح پیدا کیا بلکہ بچوں میں شعور بھی پیدا کردیا ہے ایسے ہی انسان معاشرے میں مسکراہٹوں کے پھول کھلا کر خوشیوں بھرا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں اور اس کے لیے حکومت پہلا قدم اٹھائے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
94052