جسٹس منیب کا پریکٹس پروسیجر کمیٹی میں رویہ نامناسب تھا، چیف جسٹس کا جسٹس منصور کے خط کا جواب
جسٹس منیب کا پریکٹس پروسیجر کمیٹی میں رویہ نامناسب تھا، چیف جسٹس کا جسٹس منصور کے خط کا جواب
اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ)پریکٹس پروسیجر کمیٹی؛ چیف جسٹس نے جسٹس منصور کے خط کا جواب دیدیا۔سپریم کورٹ کی پریکٹس پروسیجر کمیٹی کے حوالے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منصور علی شاہ خط کا جواب دیدیا۔ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے خط میں کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو ججز کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا تھا لیکن انہوں نے ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے وضاحت کی کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو ججز کمیٹی میں شامل کیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خط میں کہا کہ جسٹس منیب اختر نے پریکٹس پروسیجر قانون کی مخالفت کی، جسٹس منیب اختر سے تعطیلات کے دوران کمیٹی اجلاس میں شرکت پر اصرار کیا لیکن وہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران دستیاب نہیں تھے، پریکٹس پروسیجر قانون کہتا ہے ارجنٹ نوعیت کے مقدمات پر 14 دن میں سماعت ہوگی، جسٹس منیب کا کمیٹی میں رویہ مناسب نہیں تھا اور وہ اجلاس سے واک آؤٹ بھی کر گئے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں شرکتکیے بغیر چلے گئے تھے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے ججز کمیٹی کو خط لکھ کر کمیٹی میں شمولیت سے انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد بازی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس لایا گیا، جس کے نفاذ کے چند گھنٹوں کے اندر ہی یہ آرڈیننس نوٹیفائی کیا گیا،کمیٹی کو دوبارہ تشکیل دیا گیا اور اس بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی،نہیں بتایا گیا کہ کیوں دوسرے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو کمیٹی کی تشکیل سے ہٹا دیا گیا۔
پی ٹی آئی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس چیلنج کر دیا
اسلام آباد(سی ایم لنکس)پاکستان تحریک انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی جس میں وفاق، وزارت قانون اور سیکریٹری صدر مملکت کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیا جائے جبکہ صدارتی آرڈیننس کے بعد پریکٹس پروسیجر کمیٹی کے تمام فیصلوں کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے تک نئی تشکیل پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو کام سے روک دیا جائے اور صدارتی آرڈیننس کے خلاف درخواست کے دوران پرانی پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔