چترال سے گلگت ،ہنزہ ویلیزاورسکردو کا ایکسپوژر وزٹ – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
چترال سے گلگت ،ہنزہ ویلیزاورسکردو کا ایکسپوژر وزٹ – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے دامن میں واقع گلگت بلتستان اورچترال کے فلک بوس پہاڑ،سرسبزوشاداب صحت افزامقامات،خوبصورت آبشاریں چشمے ،گھنے جنگلات،نیلے رنگ کے دلفریب جھیلیں،قدیم ثقافت اوریہاں کے مہمان نوازی پاکستان بلکہ دنیابھرسے سیاحوں کی توجہ کامرکزہے اسی لئے ہر سال ملکی و غیر ملکی سیاح قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کےلئے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں ۔
20ستمبر2024کوآغاخان ایجنسی فارہبیٹاٹ نے سرچ اینڈریسکیوٹیم (SART)،ریجنل اورلوکل ڈیزاسٹراسسمنٹ ٹیم (DART) کے میل اورفیملزرضاء کاروں کوسات روزہ معلوماتی دورے پربھیجنے کافیصلہ کیا۔جس میں مجھ ناچیز کانام بھی شامل تھا ۔اس 17رکنی ٹیم کی سربراہی آکاہ کی طرف سے ٹیم لیڈر عیسیٰ خان اس کے ساتھ سینئرجیالوجسٹ ضیاء الدین اورناصرالدین کررہے تھے۔
20ستمبرکے 8بجے آکاہ کے ہیڈآفس بلچ لوئرچترال سے کوسٹرگاڑی میں اپناسفربراستہ شندورآغازکیا راستے میں ہمارے گروپ کے کچھ دوست قافلے میں شامل ہوئے۔چترال سے گلگت تک خراب سڑکوں کی وجہ سے چلتی ہوئی گاڑی ہمیں رینگتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ٹوٹے پھوٹے راستوں میں گاڑی زور زور سے ہچکولے کھاتی تھی ہم اندر سیٹوں پہ بیٹھے اوپر اچھلتے تھے۔جگہ جگہ روڈکھولنے کاانتظارکرتے ہو ئے مس جنالی شندورسے آگے اندھیرا چھاگیا۔آس پاس کے خوب صورت مناظر کو بھی جی بھر کے دیکھنے کا موقع نہ ملا ۔ وہ کچی ٹوٹی پھوٹی سڑک کبھی کھیتوں کے بیچ سے ،کبھی ندی نالوں کے ساتھ ساتھ،کبھی خشک پہاڑوں کے دامن سےگزر کربہرحال رات کے ایک بجے ہم گوپس پہنچ گئے۔
21ستمبرکوگوپس کے نواحی گاؤں ہوپرمیں آغاخان ایجنسی فارہبیٹاٹ نےگلگت بلتستان اورچترال کے رضاکاروں کامشترکہ سیمولیشن کاانعقاد کیاتھا ۔جس میں چترال اورگلگت بلتستان کے کمیونٹی ایمرجنسی رسپانس ٹیمزکے میل وفیمل رضاکاروں نے سیلاب،زلزلہ اوردیگرقدرتی آفات میں جدیدتقاضوں کے مطابق حکمت عملیاں اپناکرزیازہ سے زیادہ جان ومال کومحفوط کر نےکے حوالے سے تجرباتی مشق کئے جس میں آرسی سی ،کچےمکانوں ، پہاڑوں اورندی نالوں میں پھسے ہوئے متاثرین کوباحفاطت نکالنے کی پریکٹیکل پریکٹس کرکے حاضرین سے مزیدحوصلہ افزائی کے داد حاصل کئے۔حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ریجنل پروگرام منیجرآکاہ گلگت بلتستان ڈاکٹرنذیراحمد اوردوسروں نے بتایاکہ اکاہ نے چترال اورگلگت بلتستان میں ایک لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کوتربیت دی ہے جو دورافتادہ علاقوں میں قداتی آفات کے موقع پرحکومت کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں۔سیمولیشن سے فارع ہوکرہم اپناسفرجاری رکھتے ہوئے جگہ جگہ پر کام ہورہاتھا روڈ کھولنے کاانتظارکرتے ہوئے آخرکار رات 12 بجے گلگت شہرپہنچ گئے ۔
22ستمبرکوگلگت سے وادی ہنزہ کی طرف اپناسفرکاآغاکرتے ہوئے راستے میں رکاپوشی سمیت دوسرے خوبصور ت مناظراپنے کیمرے کے آنکھ میں بندکرتے ہوئے شام کے قریب ہنزہ پہنچ کروہاں رات گزارنے کااہتمام کیا ۔گروپ لیڈرعیسیٰ خان گروپ کے تمام ممبروں کاخیال رکھتے ہوئے اُن کے مرضی کے مطابق روزانہ کی بنیاد پرشیڈول بنایاکرتے تھے ۔گروپ کے اکثرممبروں کاان خوبصورت علاقوں کاپہلاسفرتھا ۔وہ ہرخوبصورت مقامات پرٹائم گزارناچاہتے تھے مگروقت کی پابندی کاخیال رکھتے ہوئے اپنے دوسرے منزل کی طر ف روانہ ہوتے تھے ۔
23ستمبرکو بلتت فورٹ کودیکھنے کے بعدعطاء آباد ،گلمت ،حسینی پل ، سست اوردوسرے سیاحتی مقامات کی طرف اپنے قافلے کے ساتھ روانہ ہوا۔گاڑی میں بیٹھ کرگلمت میں ایک عزیزدوست بھائی کی یادآئی جیب سے موبائل نکال کرفون کیا۔میرے محترم دوست میربازخان پیشے کے لحاظ سے ایس ایس ٹی ٹیچرہے اورایک معروف کالم نگار اورخدمت خلق سے سرشارشخصیت ہیں ۔انہوں نے ہمیں گلمت میں چائے کی دعوت دی ۔جہاں انہوں نے وادی گلمت کی روایتی خوراک مولیدہ ہمیں پیش کئے جووادی گوجال کی خاص پکوان ہے ۔اس موقع پرآکاہ کے سابق سی ای اوسلمان الدین شاہ سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔سلمان الدین شاہ ،میربازخان اورعلی احمدنے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔وادی گوجال کے روایتی کھانوں میں مولیدہ، چھپ شورو،غلمندی ،گرل چموس اوردوسرے خوش ذائقہ کھانے شامل ہیں ۔
گلمت سے پھسو کونزکودیکھنے کے لئے چلے گئے۔پھسوکونز ایک ایسا پہاڑ ہے جہاں کوئی بھی سیاح ہنزہ آتا ہے تو وہ اس پہاڑ کے سامنے رک کر تصویر ضرور بناتا ہے۔ہمارے گروپ ممبرتصویرکھینچنے کے بڑے دلدادہ تھے خوب انجوائی کرنے کے بعدواپس دریائے ہنزہ کے اوپرتعمیرکردہ خطرناک حسینی پل کودیکھنے کے لئے وہاں پہنچ گئے۔
حسینی پل دنیاکے خطرناک ترین پلوں میں دوسرے نمبرپر ہے۔ دریائے ہنزہ پر قائم حسینی پل کو پاکستان کا خطرناک ترین پل تصور کیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں صرف ایک فرد دریا کو عبور کرنے کیلئے اس کو استعمال کر سکتا ہے کیونکہ وزن زیادہ ہونے کے باعث اس کے گرنے کا خطرہ ہے۔660فٹ طویل یہ پیدل چلنے والوں کا پل حسینی نامی گاؤں کونوآباد گاؤں زراآباد سے ملاتاہے ۔ اس پل پر ایک سے دو فٹ کے فاصلے پر لکڑی کے تختوں کے علاوہ کچھ نہیں۔اس پل پرچلنے والوں کو بس احتیاط سے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے ان تختوں پر پیرجماکرچلناچاہیے ۔ ذرا سی غفلت سے نیچے دریائے ہنزہ میں گرنے کاخطرہ ہے ۔میں چنددوستوں کے ہمراہ اس پل کوعبورکرنے میں کامیاب ہوگیااورکچھ دوست پل کراس کرنے کی ہمت نہیں کی ۔یہاں سے واپسی میں عطاء آباد جھیل میں کشتی کی سواری کا مزہ اُٹھایا۔کشتی والوں نے حفاظتی جیکٹ کے بغیربیٹھنے نہیں دیتے ہیں ۔حفاظتی جیکٹس کی فراہمی سے انسانی جانوں اور جھیل کے سفر کو محفوظ بنایا جاتاہے۔
عطاء آبادجھیل یو محسوس ہوتا ہے جیسے سر بفلک پہاڑوں کے دامن میں کسی نے صاف شفاف پانی کا تالاب بنا دیا ہو۔یہاں کے حسین خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے بعدرات کے دس بجے گلگت شہرپہنچ کرقیام کیا
24ستمبرکوگلگت سے سکرود کی طرف اپناسفرجاری رکھتے ہوئے شنگریلا جھیل کا صاف شفاف پانی، خوبصورت نظارے اور فرحت بخش موسم سے لطف اندوز ہوئے۔ قدرتی حسن سے مالا مال شنگریلا جھیل دنیا بھر میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، شنگریلا جھیل کے اطراف ان دنوں قدرت کے شاہکار ایسے بکھرے پڑے ہیں کہ پورا علاقہ جنت کا نظارہ پیش کررہا ہے۔سکردواوراورہنزہ میں بے پناہ قدرتی خوبصورتی اوردلچسپ مقامات بے شمارہیں یہی وجہ ہے کہ ان دونوں وادیوں میں سیاحوں کارش بہت زیادہ رہتاہے یہاں سے فارع ہوکرسکردوبازارمیں خوب گھوم پھرنے کے بعدقیام کیا
25ستمبرکوقلعہ شگرکودیکھنے کے لئے روانہ ہوگئے جہاں چارسوسال پرانے چھوٹاساقلعہ ہے پھونگ کھرکے نام سے پھونگ کھربلتی زبان میں گھرکوکہتے ہیں۔ اس قلعے کو آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے 2004 کوبحال کیا۔ بحالی کے بعد قلعہ کو ایک میوزیم اور ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں سے ہمارے ٹیم کی واپسی کاسفرشروع ہوا دوپہرکاکھانا سکردوکے مقامی ہوٹل میں کھانے کے بعدہم اپناسفرجاری رکھتے ان مشکل ترین سڑکوں سے ہوتے ہوئے رات ایک بجے گوپس کے ایک مقامی ہوٹل میں پہنچ گئے جہاں پہلےسے ٹیلی فونگ کمرہ بک کروایاتھا۔
26ستمبرکوگوپس سے براستہ شندور اپناسفرجاری رکھتے ہوئے ضلع غذرکے خوبصورت وادی سنگل،یانگل، پھنگل، پھنڈر، ٹیرواوردوسرے مقامات کے دلفریب مناظر سے لطف اندوز ہوئے ۔اس موقع پرخلتی پل میں تصویرکشی کے بعدخلتی گاؤں کی سیرکی یہاں کے باسیوں نے ہمیں چائےاور کھانے کی دعوت دی مگروقت کی کمی کی وجہ سے ٹھہرنہ سکے۔گوپس سے 22گھنٹے مسلسل سفرکے بعدواپس اللہ تعالیٰ کی وفضل کرم سے بخیرعافیت چترال پہنچ گئے ۔
اس گروپ میں ٹیم لیڈرعیسیٰ خان ،ڈپٹی ڈی ای اوفیمل لوئرچترال زبیدہ خانم ،شائستہ جہاں،شاکراللہ،شہزادہ احمدشہزادہ،امجدرحیم ،قربان خان،رب نواز،حسب اللہ،شاکرعلی تاج،رحمت نادر،سردارحسین ،حنیف احمد،ضیاء الدین ، مہناس اسماعیل ،ناصرالدین ،سیدنذیرحسین شاہ ،ڈرائیورتوصیف الرحمن اورشاگرداعجازاحمدشامل تھے
ان کھنڈرنمامشکل ترین سڑکوں سے ہوکرسیاحتی علاقوں میں پہنچ کر سفر کی تھکان کی وجہ سے سیر وتفریح کا وہ مزہ باقی نہیں رہتا جسے سوچ کرہم یہاں تک پہنچے تھے۔ ہرگاوں کے مقامی لوگوں کا حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ سیاحت کے شعبے کی ترقی کے لئے حکومت کو انفراسٹرکچر خصوصا سڑکوں کی تعمیر پر انتہائی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر آنے والے شخص کی زبان پر سہولیات کی فقدان اور متعلقہ علاقوں تک رسائی کا شکوہ رہتا ہے۔