داد بیداد ۔ پشاور کی پبلک لائبریری میں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ پشاور کی پبلک لائبریری میں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
آج پشاور کا درجہ حرارت 41سنٹی گریڈ ہے ایک دو بجے تک 44-43ہونے کا امکان ہے دو دن پہلے کی بارش کا معتدل اثر زائل ہو چکا ہے صبح 9بجے کا وقت ہے صدر روڈ پر ارکایوز اینڈ پبلک لائبریری میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے پھر بھی گراونڈ فلو ر اور فرسٹ فلور پر واقع مطالعہ گاہوں میں سینکڑوں نوجوان اور ادھیڑ عمر لو گ میزوں کے گرد کر سیوں پر خا موش بیٹھے ہیں اُن پر ایک سر سری نظر دوڑا نے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان پر کسی نے جا دو کیا ہے یا مصریوں کی طرح ان کو حنوظ کر کے رکھا گیا ہے ہم نے پسینے پونچھتے ہوئے بر آمدے میں کھڑے لو گوں میں سے ایک صاحب سے پو چھ لیا بات کیا ہے اتنی گر می میں یہ لو گ تاریک کمروں میں کیوں بیٹھے ہیں؟
اُن صاحب نے کہا آپ شا ید پہلی بار یہاں آئے ہیں یہ روز کا معمول ہے ہم نے کہا ان کا آنا معمول ہے یا بجلی کا جانا معمول ہے؟ اُس نے کہا یوں سمجھ لیجئے، دونوں معمولات میں شامل ہیں، ہم نے اگلا سوال داغ دیا یہ لو گ با ہر کھلی ہوا میں کیوں نہیں آتے؟ انہوں نے کہا یہاں کر سیاں نہیں ملتیں، سویرے 8بجے آکر پہلے کر سی پکڑ تے ہیں پھر اپنی ضرورت کی کتاب لیکر بیٹھتے ہیں، مطالعہ کر تے ہیں، حوالہ جا ت ڈھونڈ تے ہیں، نوٹ لکھتے ہیں اور آج کا کام مکمل کر کے کرسی دوسرے ضرورت مند کے لئے خا لی کر تے ہیں، ہمیں یورپ، امریکہ یا ایشیا کے کسی ترقی یا فتہ ملک میں کتاب سے محبت کا یہ منظر خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں دیکھ کر بہت اچھا لگا بلکہ فخر محسوس ہوا،
اندر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی تھی اس لئے کھلے بر آمد ے کی یہ کھلی ڈھلی گپ شپ طول پکڑ گئی دو چار بندے اور بھی اس میں شامل ہو ئے، بات چیت سے معلوم ہوا کہ یونیور سٹیوں سے لیکر کا لجوں تک ہر لائبریری اور ہر ریڈنگ روم (مطا لعہ گاہ)کا کم و بیش یہی حال ہے بی ایس، ایم ایس، پی ایچ ڈی اور دیگر درجوں میں زیر تعلیم نو جوان تحقیقی کا موں کے لئے لائبریری آتے ہیں، مقا بلے کے امتحا نا ت اور دیگر ٹیسٹوں کی تیاری کر نے والے لائبریریوں کا رخ کرتے ہیں صدر اور شہر میں ایک ہی پبلک لائبریری ہے اس لئے اس پر کا فی رش ہوتا ہے ازدھام ہوتا ہے 1971ء میں جب میں چترال سے پہلی بار پشاور آیا تو شہرمیں جی ٹی روڈ پر میونسپل لائبریری تھی ارکائیوز اینڈ پبلک لائبریری کی موجودہ عمارت بننے سے پہلے یہ لائبریری صدر ریلوے سٹیشن سے آگے جا کر بیو ولٹ فنڈ بلڈنگ میں ہوا کر تی تھی، صدر روڈ پر جی پی او کے قریب پا کستان نیشنل سنڑ کی لائبریری تھی فوارہ چوک میں کنٹو نمنٹ بورڈ کی مطا لعہ گاہ تھی، ارباب روڈ پر لندن بک ڈپو کے سامنے امریکن سنٹر کی لا ئبریری تھی،
مال روڈ پر سٹینڈرڈ چارٹر ڈ بینک کے پہلو میں برٹش کونسل کی لائبریری تھی، تھوڑا سا آگے سر سید روڈ پر خا نہ فر ہنگ ایران کی لائبریری عوام کے لئے کھلی ہو تی تھی جہاں فارسی بول چال کی کلا سیں بھی لگتی تھیں، اب ایسا کچھ بھی نہین ہے، پشاور کی ارکائیوز اینڈ پبلک لائبریری مطا لعہ کر نے والوں، تحقیقی کام کرنے والوں اور ریسرچ کے لئے حوالہ جا ت یا ریفرنسز ڈھونڈنے والوں کے لئے صو بائی دارالحکومت کی واحد سہو لت ہے، یہاں پبلک لائبریری اور مطالعہ گاہ کے علا وہ اخباری فائلوں کا شعبہ بھی محققین کے لئے حوالہ جا ت کا اچھا ذخیرہ ہے، اس کا آڈیٹوریم یعنی عوامی ہال شہر میں ادبی، ثقا فتی اور سما جی تقریبات کے لئے بہترین سہو لت کی جگہ ہے
اس کے ساتھ کھلے چمن اور الگ الگ میٹنگ رومز بھی ہر وقت دستیاب ہیں پبلک ایڈ ریس سسٹم اور ملٹی میڈیا کی سہو لت بھی مو جود ہے لائبریری کا اہم حصہ قدیم دستاویزات (آرکائیوز) کا شعبہ ہے، جہاں صوبے کے طول و عرض سے گندھا را تہذیب،مغل ادوار، سکھوں کے دور، بر طانوی راج اور قیام پا کستان کے بعد پیش آنے والے واقعات کی سرکاری فائلیں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں محفوظ کی گئی ہیں، ان کی مائیکروفلمیں بنا ئی جا رہی ہیں جو صوبے کے دور دراز اضلا ع میں قائم لائبریریوں میں لوگوں کو مہیا کی جائینگی، پھر ہم تیمر گر ہ، مینگورہ اور چترال کی پبلک لائبریریوں میں کتابوں کے ساتھ ساتھ نادر دستا ویزات تک بھی رسائی کر سکینگے۔